علامت کا معاملہ عجیب و غریب ہے۔یہ چاہے تو مخمل میں مورچہ اور بادام میں آدمی دکھا دے۔ دریا کی کلائی توڑ دے اور زلف کو بام میں الجھا دے۔ پروانے کے خون کا رشتہ مگس کا باغ میں جانے سے جوڑ دے ۔ نرگس کی بے نوری اور دیدہ ور کے بیچ کوئی منطق بٹھا دے ۔ یہ اس لیے عجیب و غریب ہے کہ کارِ اثبات بھی کرتی ہے اور کارِ نفی بھی انجام دیتی ہے۔ علامت بتاتی بھی ہے اور چھپاتی بھی۔ راہ دکھاتی بھی ہے اور راہ سے بھٹکاتی بھی۔علامت آب بھی ہے اور سراب بھی۔ آبِ زلال بھی ہے اور زہراب بھی ۔ آبِ شیریں بھی ہے اورشوراب بھی۔ یہ اشیا کو بند بھی کرتی ہے اور چیزوں کو کھولتی بھی ہے۔ مطلعے کو ابر آلود بھی کرتی ہے اور صاف و شفاف بھی۔ منظر کو لطیف بھی کرتی ہے اور کثیف بھی۔ پیکر کو روشن بھی کرتی ہے اور دھندلا بھی ۔ سمندر میں سکوت بھی لاتی ہے اور اضطراب بھی۔ عکس کو عکس بھی رہنے دیتی ہے اور اسے عکسِ برعکس بھی بنا دیتی ہے۔
علامتوں کا عمل پُل صراط پر چلنے جیسا ہے ۔ توازن بگڑا کہ گرے ۔ اور گرے تو گئے پانی میں ۔ کیچڑ میں چلنے جیسا ہے۔ ڈگمگاۓ تو پھسلے۔ اور پھسلے تو منہ دکھانے کے لائق نہ رہے ۔
علامت وہ آئینہ ہے جو ایک عکس میں کئی تصویریں دکھا دیتی ہے۔ایک چہرے کے کئی روپ بنا دیتی ہے۔ ایک نقطے سے کئی نکتے نکال دیتی ہے۔ایک ساز سے کئی راگ سنا دیتی ہے۔ ایک کمان سے ایک ساتھ کئی تیر چھوڑتی ہے اور سب کو نشانے پر بٹھا دیتی ہے ۔ یہ وہ جادو کی وہ چھڑی ہے جو رسّی کو کبھی سانپ،کبھی زلف،کبھی زنجیر ،کبھی پل بنا دیتی ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں ابو الکلام قاسمی: بیسویں صدی سے آگے کا آدمی – پروفیسر غضنفر )
سیاہی کو رات بھی بناتی ہے اور روشنی بھی۔ آگ کو راکھ اور خاک کرنے والی شے بھی بناتی ہے اور حرکت و حرارت پیدا کرنے والی چیز بھی۔علامت آب کو آتش کا متضاد تو بناتی ہی ہے کبھی اسے اس کا مترادف بھی بنا کر رکھ دیتی ہے۔
اب اسی کہانی میں موجود ایف ۔ایل بیچنے والی ڈرگ شاپ میں شامل لفظِ "پارسی” کو لے لیجیے۔ کوئی اس لفظ کا معنی یہ نکال سکتا ہے کہ پارسی قوم کو اپنے ملک کا کتنا خیال ہے، اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کو لے کر یہ کس قدر فکر مند ہے کہ حکومت کی پالیسی پر مستعدی سے عمل کر رہی ہے ۔آبادی کو روکنے میں ایک اہم کردار نبھا رہی ہے۔یہ قوم اپنے اس کام کے لیے قابلِ ستائش ہے اور انعام واکرام کی مستحق بھی۔
اور کوئی اس سے یہ معنی اخذ کر سکتا ہے کہ یہ قوم کتنی بری اور بد عنوان ہے کہ معاشرے میں ایک برائی اور بدعنوانی کو پنپنے میں معاونت کر رہی ہے۔جنسی بے راہ روی کو سرِ عام ہوا دے رہی ہے۔یہ قابلِ لعنت و ملامت ہے بلکہ سزاوار بھی ہے۔ اسی طرح کوئی شخص ایف۔ایل کو کوئی آلۂ انسدادِ آبادیِ نسل بتا کر مثبت علامت ثابت کر سکتا ہے اور کوئی اسے جنسی بے راہ روی کے وسیلۂ فروغ کی علامت بتا سکتا ہے۔
اس لیے علامت سازی کے عمل میں احتیاط بہت ضروری ہے،اور اس کے لیے دل اور دماغ دونوں پر پورا کنٹرول درکار ہے ورنہ بننے کے بجاۓ بگڑنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اور ایسے میں مچھلی پکڑنے والے کے ہاتھ میں سانپ آ جاتا ہے۔ یا سانپ پکڑنے والا بل سے کیچوا نکال لاتا ہے۔ اور ایسا ہماری کہانیوں میں اکثر ہوا ہے۔
زیادہ تر علامتیں ہم نے بنا سوچے سمجھے استعمال کی ہیں۔ اپنے دل و دماغ کا استعمال نہیں کیا ہے یا اتنا کم کیا ہے کہ ہاتھ میں سانپ آجانے کے بعد بھی ہم اسے مچھلی ہی سمجھتے رہے ہیں اور کبھی کبھی تو سانپ کے منہ اور دم کے دِکھ جانے کے باوجود اسے مچھلی سمجھنے کی ضد پر اڑے رہے ہیں اور ہمیشہ اڑے رہتے ہیں۔اسی لیے اردو کی وہی کہانیاں مقبولیت کے خانے میں گئی ہیں جن کی علامتوں کے عمل میں احتیاط برتی گئی اور خوب ہوشیاری دکھائی گئی۔ یہاں ہوشیاری دکھانے سے مراد وہ ہشیاری نہیں ہے جس میں مکّاری اورعیّاری شامل ہوتی ہے بلکہ زیرکی اور سمجھ داری مراد ہے جس میں سوچ سمجھ ، اورفہم و فتانت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ مثلاً جو سمجھ داری سریندر پرکاش نے بجوکا اور باز گوئی میں ،غیاث احمد گدی نے پرندہ پکڑنے والی گاڑی میں ،خالدہ حسین نے سواری میں اور انتظار حسین نے آخری آدمی میں دکھائی ہے۔ یا کچھ اور لوگوں کی کہانیاں بھی ہیں جو پاس ہوگئے اپنی علامتوں کے امتحان میں اور سرینرر پرکاش کو تو انتظار حسین نے یہ سند بھی عطا کر دی :
” علامتی افسانہ لکھنا کوئی سریندر پرکاش سے سیکھے۔ ”
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ بلراج مین را نے اپنے اِس امتحان کی کاپی میں کیا کیا ہے اور ان کو کتنے نمبر ملتے ہیں ؟ ویسے مینرا ان افسانہ نگاروں کی اگلی صف میں ہیں جنھوں نے ہندستانی اردو افسانے میں تجرید اور علامت کے علم بلند کیے اور اپنی کہانی ‘ وہ ‘ میں انھوں نے اس جھنڈے کو مضبوطی سے تھامے بھی رکھا، اسےجھکنے نہیں دیا۔
بزمِ افسانہ کے بنے بینر پر آج کی کہانی کا یہ عنوان ” پورٹریٹ ان بلیک بلڈ ”
درج ہے۔ ایک طرف یہ بھی لکھا ہے،رموز آشنا افسانے ۔ آگے قوسین میں ‘علامت ” تحریر ہے جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ علامتی افسانے رموز آشنا ہوتے ہیں۔یعنی جن میں اسرار و رموز ہوتے ہیں۔آئیے دیکھیں کہ اس پورٹریٹ میں کیا کیا رموز ہیں پنہان ہیں؟ کیا کیا اسرار پوشیدہ ہیں؟
کتنی علامتیں استعمال کی گئی ہیں اور کون سی علامت کیا رمز رکھتی ہے؟ (یہ بھی پڑھیں غضنفر کا افسانہ’سرسوتی اسنان‘ کا تجزیاتی مطالعہ – پروفیسر (ڈاکٹر) عبدُ البرکات )
پہلے عنوان پر غور کرتے ہیں۔اس عنوان کے دو حصے ہیں : _ پورٹریٹ
اور
_ ان بلیک اینڈ بلڈ
پورٹریٹ اگر علامت ہے تو کس بات یا کس چیز کی یہ سوال عنوان کو دیکھتے ہی ذہن میں ابھرتا ہے ۔ ،ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ پورٹریٹ بلیک اینڈ بلڈ کیوں ہے اور بلیک اینڈ بلڈ سے کیا مراد ہے؟ یہیں پر ایک سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ پورٹریٹ” ریڈ اینڈ بلڈ ” یا ” وائٹ اینڈ بلڈ” بھی تو ہو سکتا تھا مگر کسی اور کلر کے بجاۓ بلیک ہی کیوں ہے؟ ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لیے جب ہم وادیِ افسانہ میں اترتے ہیں تو ہمیں ایک دکان ملتی ہے جس کے سائن بورڈ پر لکھا ہے:
آئینہ خانہ، جو پارسی ڈرگ اسٹور کہلاتا ہے۔وہاں شیشے کے کاؤنٹر پر جھکی ہوئی ایک لڑکی ملتی ہے اور جھکی ہوئی اور بہت ساری دبلی پتلی لڑکیاں بھی ۔ ان سبھی لڑکیوں کے لبوں سے ایک اھورا جملہ نکلتا ہے:
” ایک پیکٹ ایف۔ایل ،،
وہاں وہ کردار بھی کھڑا ہے جو ہمیں یہ کہانی سنا رہا ہے اور وہ بھی اس دکان پر ایف ۔ایل لینے گیا ہے۔ ان سب کو دیکھ کر
تابڑ توڑ ذہن میں کئی اور سوالات ابھرتے ہیں:
_ ” آ ئینہ خانہ ” محض ایک پارسی ڈرگ اسٹور ہے یا کس چیز یا بات کی علامت ہے؟
_ ڈرگ اسٹور میں پارسی کا لفظ کیوں شامل ہے؟
_ سبھی کسٹمر صرف ایف۔ ایل ہی کیوں مانگتے ہیں ،کوئی اور دوا کیوں نہیں؟
_ ہر ایک لڑکی کو ایف ۔ایل کیوں چاہیے؟
_ لڑکیوں کے ساتھ دبلی پتلی کی صفت کیوں لگائی گئی ہے؟
_ مرکزی کردار کاؤنٹر پر لہو لہان کیوں ہوتا ہے؟
اور بھی کئی سوال ابھرتے ہیں جو توجہ چاہتے ہیں ۔ اچھی کہانی کے بار میں ہم اچھے تخلیق کاروں اورمعتبر و مستند نقادوں سے سنتے چلے آ رہے ہیں کہ اچھی کہانی میں ایک بھی لفظ بھرتی کا نہیں ہوتا، اور یہ کہ اگر کہانی میں بندوق کا ذکر ہے تو اس بندوق کو چلنا بھی چاہیے اور علامت کے باب میں یہ بات بھی سنتے رہے ہیں کہ کہانی میں خواہ کوئی ایک علامت ہو،خواہ کئی ہوں ہر ایک کی معنویت کھلنی چاہیے اور ہر ایک کا رشتہ کسی نہ کسی اعتبار سے کہانی کے تھیم کے ساتھ پیوست ہونا چاہیے تو اس کہانی کو پڑھتے ہوے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کہانی ان سوالوں کا جواب دیتی ہے یا نہیں۔ اس میں موجود علامتیں کہانی کے مطالعے کے دوران یا کہا نی کے اختتام پر کھلتی ہیں یا نہیں؟ تھیم سے ان کا رشتہ جڑتا ہے یا نہیں ؟ ہمارے ذہن کو مطمئن کرتی ہیں یا نہیں؟ (یہ بھی پڑھیں آئیے آج اپن "پن” کی بات کرتے ہیں – پروفیسر غضنفر )
اگر کرتی ہیں تو کہانی رموز آشنا ہے اور سوالوں کا جواب نہیں دیتیں تو کہا جاۓ گا کہ یہ کہانی ،افسانہ تو ہے مگر رمز آشنا نہیں ہے۔
پڑھیے اور پڑھ کر مجھے بھی پتائیے کہ کہانی رمز آشنا ہے یا نہیں ہے۔ہے تو کیوں اور نہیں ہے تو کیوں؟
آپ علائم اور تجرید کی گتھیاں سلجھائیے اور میرے سوالوں کے جواب تلاش کیجیے جب تک میں اس افسانے کی کچھ لسانی خوبیاں ڈھونڈتا ہوں کہ جدید افسانہ نگاروں نے کچھ اور کیا ہو یا نہ کیا ہو اچھی اور تخلیقی زبان ضرور لکھی ہے ۔میں پہلے بھی کہیں غالباً خالدہ حسین کی کہانی ” سواری ” پر تبصرہ کرتے ہوۓ لکھ چکا ہوں اور یہاں اسے پھر دوہرا رہا ہوں کہ جدید افسانہ نگاروں نے یہ کوشش کی کہ بیان میں کمال تو ہو اور کمال کا جمال دکھائی بھی پڑے مگر کہانی کے تناظر میں اس کی معنویت نہ کھلے۔اس کہانی میں بھی یہ کمال اپنا حسن و جمال دکھا رہا ہے۔
مثلاً :
_ ” کچھ لوگ ذہن کے لیے جسم بیچتے ہیں اور کچھ لوگ جسم کے لیے ذہن۔ ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_ ” آسمان کالی خاموشی میں بے معنی ہوا پڑا تھا۔ دائیں بائیں کے مکانوں کی کالی
قطاریں معنوں کی تلاش میں صبح کی روشنی سے کندھے رگڑ رہی تھیں۔ ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_ ” اس کے جسم پر بچّھو چِپکے ہوۓ تھے:۔کالی کوٹھری، شہر یا رات کی سوغات ۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_” اس نے وراثت میں پاۓ ہوۓ چاقو سے ایک ایک بچھّو کو جسم سے نوچ، سمندر میں پھینک دیا۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_” وہ اٹھا۔ ہر مسام، ہر گھاؤ میں نمک لیے
بیچ شہر آ گیا۔ ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_” اس کا جرم آورگی ہے، اسے گرفتار کر لو۔
اس کا مرض آوارگی ہے، اسے اسٹریچر پر لٹا دو۔
اس کی آوارگی آگ ہے،اسے بجھا ڈالو۔ ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان جملوں کا تعلق کہانی کے تھیم سے کتنا ہے اور علامت کی گتھیوں کو سلجھانے میں یہ کس حد تک معاون ہیں، ان باتوں کا پتا تو آپ لگائیں مجھے تو بسں یہ عرض کرنے دیں کہ یہ جملے تخلیقی زبان کے اچھے نمونے ہیں اور ان میں بے پناہ حسن بھرا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غضنفر
_
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |