غضنفر دورَ حاضر کے مقبول اور معتبر فکشن نگار ہیں۔ اپنے مخصوص داستانی اسلوب اور استعاراتی اساطیری نظام کی وجہ سے منفرد اور ممتاز مقام حاصل کرتے جارہے ہیں۔ان کا امتیازِ خاص یہ ہے کہ وہ جتنی گہری نظر اسطور پر رکھتے ہیں اتنا ہی سائنس اور اس کے متعلقات پر بھی۔ نہ صرف ان کو ہندوستان کی اساطیر الاوّلین کی اچھی معلومات ہے بلکہ مذہبی روایات اور عظیم مفکرین کے اقوال سے بھی اپنی واقفیت کا احساس کراتے ہیں اور جدید سائنسی ایجادات اور ان کی تکنیکی نزاکتوں پر بھی باریک نظر رہتی ہے۔ ’دویہ بانی‘، ’وِش منتھن‘، ’سرسوتی اسنان‘، ’مہارِشی ددھیچی‘ جہاں ایک طرف مابعد الطبیعاتی واقعات و کردار کو اُجاگر کرتے ہیں، وہاں ’پانی‘ اور ’آبیاژہ‘ میں سائنس دانوں کی کیفیات اور سائنسی اصطلاحات کے استعمال سے قاری کو حیرت زدہ کردیتے ہیں۔’سائبراسپیس‘، ’میسج الرٹ ٹون‘ جیسے افسانوں میں سائنس اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے رموز و نکات سے واقف کراتے ہیں۔ علاوہ ازیں غضنفر کے خاکوں میں بھی علم کا دریا ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے۔ وہ جس فرد پر خاکہ تحریر کرتے ہیں اس کے پیشہ کو خصوصی طور پر مطمح نظر بناتے ہیں کیوں کہ شخصیت کی تعمیر تشکیل میں پیشہ کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ آدمی یا تو اپنے مزاج کے مطابق روزگار اختیار کرتا ہے یا کسی بھی ملازمت یا کاروبار کو ذریعہ بناکر گزر اوقات کرتا ہے جس کے اثرات اس کے کردار و عمل پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔اس طرح پیشہ اور شخصیت لازم وملزوم قرار پاتے ہیں۔ لہٰذا غضنفر خاکہ نگاری کے وقت پیشہ سے متعلقہ تمام معاملات و مطالبات کو بڑی عمدگی سے پیش کرتے ہیں جس سے پیشہ کے تقاضے عیاں ہوجاتے ہیں جس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ قاری ملازمت کے مطالبات سے روبرو ہوجائیں اور موقع ملنے پر اپنے معاملات کو بحسن و خوبی انجام دیں۔مثلاً درس و تدریس سے وابستہ افراد کی خاکہ نگاری کے وقت معلمی کے تمام تقاضے اور درس وتدریس کے مطالبات کو مدِ نظر رکھتے ہیں۔اس طرح علمی و ادبی کاموں میں مستغرق رہنے والے افراد ہوں یا انتظامی امور سنبھالنے والے، مشاعرے کے ناظم ہوں یا سمینار کے مہتمم، ادبی و شعری نشستوں کی صدارت کی کرسی کو رونق بخشنے والے ہوں یا نظامت کرنے والے، علم و ادب سے الگ شغل کے افراد۔یعنی غضنفر جن کو خاکہ کے لیے منتخب کرتے ہیں اس کے پیشہ کے مطالبات، معاملات کی باریکیوں اور نزاکتوں کو بخوبی بیان کرتے ہیں جس سے ان کے خاکوں میں علمیت بجلی کی طرح کوندتی ہے۔ نیز گاؤں سے شہر تک رہائش اختیار کرنے والے افراد کے مزاج اور تہذیبی روایت کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں اور ایک عام آدمی کا بھی خاکہ تیار کرتے ہوئے اخلاقیات اور معاملات کے وسیع تناظر میں پیش کرکے مثالی کردار بنادیتے ہیں۔خاکہ ’مجید میاں‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ مجید میاں بہار کے ایک گاؤں کے باشندہ ہیں اور کولکاتا میں تجارت کرتے ہیں۔ اس طرح کولکاتا سے اپنے گاؤں اور وہاں سے کولکاتا واپسی کے دوران جس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ تحائف پہنچتے ہیں اس سے گاؤں کے افراد کی معصومیت، ملنساری اور آداب و تہذیب جلوہ گر ہوتی ہے۔ مجید میاں کوئی بڑے تاجر نہیں ہیں، پھر بھی اپنی آمدنی کی بچی ہوئی رقم سے عزیز و اقرباء کے لیے سوغات خرید کر ٹرنک میں جمع کرتے ہیں اور گاؤں پہنچ کر: (یہ بھی پڑھیں کلیم عاجزؔ کی شاعرانہ مقبولیت کے اسباب – پروفیسر عبدُ البرکات )
”ٹرنک کھلتا تو آس پاس میں مینا بازار لگ جاتا۔ پتہ چلتا کہ کلکتے سے صندوق میں بندکرکے لایا گیا یہ بازار ان کے گاؤں والوں کے لیے لگایا گیا ہے جہاں چیزیں مفت میں ملتی ہیں۔ اس بازار کی اشیاء میں گاؤں کے تقریباً ہر گھر کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا۔ کسی گھر کے لیے چارخانے کی لنگیاں ہیں تو کسی کے لیے سنڈو گنجیاں، کسی کے لیے چمڑے کی چپلیں ہیں تو کسی کے لیے دوپلّی ٹوپیاں، کسی کے لیے پاؤں کی جھانجھریں ہیں تو کسی کے لیے ہاتھ کی چوڑیاں، کسی کے لیے شلوار سوٹ کے کپڑے ہیں تو کسی کے لیے تانتی ساڑیاں، کسی کے لیے سرمہ دانیاں ہیں تو کسی کے لیے عطر کی شیشیاں، کسی کے لیے لیمن چوس کی رنگین گولیاں ہیں تو کسی کے لیے مارٹن کی نرم اور سخت ٹافیاں، کسی کے لیے ناک کی نتھنی ہے تو کسی کے لیے کان کی بالیاں، کسی کے لیے جانماز ہے تو کسی کے لیے بہشتی زیور کی کچھ کاپیاں۔“(’خوش رنگ چہرے‘ غضنفر، ص66)
گاؤ ں سے کولکاتا واپسی کے وقت بھی کولکاتا کے دوستوں کے لیے تحائف لے جاتے۔ گاؤں کے تحائف ملاحظہ کریں:
”کسی کے لیے چیوڑا، کسی کے لیے چیوڑی، کسی کے لیے مرمرے، کسی کے لیے کھیلیں، کسی کے لیے بونٹ کے ہولے، کسی کے لیے بھنے ہوئے چنے، کسی کے لیے مکئی کا بھوجا، کسی کے لیے مڑوے کا آٹا، کسی کے لیے جو کا ستّو، کسی کے لیے باجڑے کی گڑدھنیا، کسی کے لیے تل کے لڈّو، کسی کے لیے بیسن کی قتلیاں، کسی کے لیے چاول کے کسار، کسی کے لیے شکرپارے، کسی کو خستہ، کسی کے لیے میٹھی ٹکیا، کسی کے لیے لائی مٹھائی، کسی کے لیے سوجی کی برفی، کسی کے لیے گوری شنکر حلوائی کی دکان کی خالص دیسی گھی میں بنی کھوئے کی پوڑکیا(گجیا)، کسی کے لیے آم کے اچار، کسی کے لیے آنولیں کا مربّہ، کسی کے لیے ہاتھ کا کڑھا ہوا تکیہ کا غلاف، کسی کے لیے کرشیے کا بنا ہوا دسترخوان، کسی کے لیے دھاگے سے بنا ہوا بٹوا، کسی کے لیے مونج کی ڈلیا……“ (ایضاًص68)
غضنفر نے اپنی تحریروں خواہ فکشن ہو یا خاکے، بڑی تعداد میں ایسے رواج، پکوان، اجناس، الفاظ اور اشیاء کا ذکر کیا ہے جو آہستہ آہستہ ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ لہٰذا دورِ طفولیت سے عمر کی پختگی تک پہنچتے ہوئے جن سے ان کا سابقہ پڑا ہے یا مشاہدہ کیا ہے، ان کو تخلیقی شکل دے کر دستاویزی بنادیا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں بیکل اُتساہی کی نعتیہ شاعری – امام الدین امامؔ )
اس طرح قدیم سے جدید اور گاؤں سے شہر تک کی سماجی، تہذیبی رواج، مذہبی اسطوری اور کلیدِ سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق معلومات اور اس کی تخلیقی اظہاریت نے غضنفر کو ’لِجنڈ‘ بنادیا ہے۔ اس وسیع مطالعے و معلومات اور مشاہدات و تجربات کی وجہ سے ان کے اسلوب میں انفرادیت آگئی ہے جس میں سنجیدگی، متانت، علمیت اور دانشوری ہے۔ ان کی زبان و بیان میں وقار، شائستگی اور روانی ہے اس لیے مقبول افسانہ نویس عبد الصمد رقمطراز ہیں:
”جولوگ فکشن کی زبان، تخلیقی نثر، بیانیہ وغیرہ کا غیرضروری طورمار کھڑاکرتے ہیں، انھیں تمھاری زبان سے سبق لینا چاہیے۔ یہ سب دل کی گہرائیوں سے کہہ رہا ہوں اور ببانگِ دہل کہتا ہوں کہ فکشن کی زبان کو تمہاری زبان ہونا چاہیے یعنی غضنفر کی زبان۔“
(بحوالہ ’پارکنگ ایریا‘ کے کَوَر پیج کا پچھلا ورق، ایڈیشن 2016)
افسانہ ’سرسوتی اسنان‘ میرے خیال میں غضنفر کا شاہکار افسانہ ہے۔ یہ افسانہ ہندو مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی کا پیغام دیتا ہے اور ہندوستان کے مشترکہ کلچر کا ترجمان ہے۔غضنفر نے اس افسانہ میں بڑے مفکرانہ انداز میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومیت کوجذبہئ انسانیت کے تناظر میں پیش کیا ہے اور اس کے مطالعہ سے مادرِ وطن ہندوستان سے قاری کی محبت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے کہ سرزمینِ ہند کا دامن کتنا کشادہ رہا ہے جس نے اپنے باشندے کو ممتا کا آنچل دیا اور سب کو مساوی محبت سے قومی یکجہتی کی مثال قائم کی۔ غضنفر نے اپنے افسانہ ’سرسوتی اسنان‘ میں صدیوں کی مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی عوامل کو استعاراتی نظام کے وسیلے سے نمایاں کیا ہے اور بیانیہ اسلوب کے ساتھ شعور کی رَو کی تکنیک استعمال کرکے اپنے مقصد میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ افسانہ کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے:
”بھائی صاحب! الٰہ آباد تک آیا ہوں تو سوچتا ہوں کہ سنگم بھی ہو آؤں۔“
”سنگم جاؤگے؟“ رگھورائے سنگھ؛اے.جے.آر. کو گھورنے لگے۔
”میں کسی آستھا اور پونیہ کی وجہ سے نہیں جانا چاہتا ہوں۔“
”تو پھر؟“
”بھائی صاحب! سنگم ایک تیرتھ استھان ہی نہیں، وہ اور بھی بہت کچھ ہے۔“
”جیسے“
”جیسے وہ ایک متھ ہے۔ ایک مسٹری ہے۔ وہاں کے واتاورن میں رہسیہ ہے۔ سسپنس ہے۔ تھرل ہے۔“
”تو یہ بات ہے! میں بھی تو سوچوں کہ مسٹر اے.جے.آر. شری اجے جسونت رائے کب سے ہوگئے؟کب جانا چاہتے ہو؟
”جب آپ انتظام کردیں۔“
”ابھی چلے جاؤ! اس وقت گاڑی خالی ہے۔ میں ڈرائیور کو بول دیتا ہوں۔“
”شکریہ۔“(افسانہ’سرسوتی اسنان‘ مشمولہ ’پارنگ ایریا‘ غضنفر، ص 9)
سنگم پر پہنچ کر دوسرے زائرین کی طرح اے.جے.آر. بھی کرایہ کی کشتی پر سوار ہوتے ہیں۔ ان کی کشتی پانی پر تیرنے لگتی ہے اور دیگر زائرین کی طرح وہ بھی خلا میں دانے اچھالتے ہیں اور چڑیاں غول کے غول منڈلاتے ہوئے اُن دانوں کو اُچک رہی تھیں۔ رنگ برنگی چڑیوں کے غول نے فضا کو سہانا بنادیا۔خوبصورت سماں نے ناظرین کو مبہوت کردیا۔دانہ ڈالنے والے عقیدت مند کے لیے یہ کارِ ثواب تھا لیکن نفرت کے چند تجّار کے لیے تفریح کا ذریعہ۔ لہٰذا وہ ہوا میں اس طرح دانے اچھالتے کہ چڑیاں آپس میں دانے کے لیے جھگڑنے لگتیں اور تب ملاح نے اے.جے.آر. کو ٹہوکا لگایا جو خیالوں میں گم تھے:
”صاحب! ایک طرف ان پرندوں کو یہاں دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ دنیا میں ہم سے بھی گئے گزرے دیس موجود ہیں اور دوسری اور ان کی حالت پر دُکھ ہوتاہے کہ یہ بے چارے تو مصیبت کے مارے یہاں آئے ہیں اور ہم ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انھیں اپنی تفریح کا ذریعہ بنارہے ہیں۔ ان سے ہوا میں قلا بازیاں کھلوا رہے ہیں۔ پانی میں ڈبکیاں لگوا رہے ہیں۔“
(افسانہ’سرسوتی اسنان‘ مشمولہ ’پارکنگ ایریا‘ غضنفر، ص 21)
غالباً پرندے ہندوستان کے سیدھے سادے معصوم عوام ہیں جن کو استعارے کے طور پر غضنفر نے پیش کیا ہے۔ ملاح کی بات سنتے سنتے اے.جے.آر. ماضی میں کھوجاتے ہیں۔ کئی تاریخی واقعے ان کے ذہن میں اُبھرتے ہیں۔ بچپن کے گزرے دن سامنے آتے ہیں کہ گاؤں میں توقیر علی کے والد تنویر علی عید کی نماز پڑھ کر آتے اور بابوجی جسونت رائے سنگھ کے گھر پہنچتے، جن کے ماتھے پر گلال ہوتا، دونوں گلے ملتے، لگتا گنگا اور جمنا کی دھاریں آپس میں مل رہی ہوں۔ بڑا خوبصورت منظر اُبھرتا جیسے فضا میں رنگ برنگے پرندوں کے غول پرواز کناں ہوں۔ ان کو تنویر علی نے بتایا تھا کہ روٹی کی تلاش میں وہ بیرونِ ملک گیا تھا لیکن لوٹ آیا کہ اپنے وطن میں امن و سکون کا جو ماحول ہے، جو آزای اور رواداری ہے وہ وہاں نہیں تھا۔ایک قیدی کی زندگی تھی۔ ان کو کھوئے ہوئے دیکھ کر ملاح نے پھر ٹہوکا دیا اور ان کو بتایا کہ یہ جمناجی ہیں۔ ان کے پانی کا رنگ ہرا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں مناظر عاشق ہرگانوی اور بچوں کا جاسوسی ادب – ڈاکٹر وصیہ عرفانہ )
”صاحب! اب ہم اس استھان پر پہنچ گئے جسے دیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے ہزاروں روپئے خرچ کرکے آتے ہیں اور جس کا درشن کرکے مرنے کے بعد کی چنتاؤں سے مکت ہوجاتے ہیں اور بہت سے لوگ تو اس کے درشن کے سپنے کو ساکار کیے بنا ہی اس دنیا سے سدھار جاتے ہیں۔ یہ دیکھیے دو ندیوں کا ملن۔ ایک طرف سے گنگاجی آرہی ہیں، دوسری اور سے جمناجی۔ دونوں کا رنگ الگ الگ دکھائی دے رہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے مل بھی رہی ہیں اور مل کر آپس میں ملنے کے بجائے ایک دوسرے سے الگ بھی رہ رہی ہیں۔ اسی اَدبھُت ملن کو سنگم کہتے ہیں۔“(ایضاً ص 25)
ملاح کی بات سنتے ہوئے اے.جے.آر. پھر تصور میں کھو جاتے ہیں اور گنگا جمنا کے اوصاف انھیں ہندومسلم کی تہذیب سے روبرو کراتاہے۔ لہٰذا میری سمجھ کے مطابق افسانہ میں گنگا اور جمنا، ہندو مسلم کی علامت ہیں اور سروسوتی ہندوستان کی علامت۔ یہ عبارت ملاحظہ ہو، اس سے میرے خیال کی تصدیق ممکن ہے:
”اس کو تروینی بھی تو کہا جاتاہے؟“
”جی صاحب! اسے تروینی بھی کہتے ہیں، تروینی ارتھات تین ندیوں گنگا، جمنا اور سرسوتی کا سنگم۔ پرنتو سرسوتی جی لُپت ہیں۔“
”سرسوتی جی واستو میں ہیں بھی یا ان کا وجود محض ایک متھ، مطلب کہانی بھرہے؟“
”ہیں صاحب! ہیں! سرسوتی جی ہیں! وہ دکھائی بھی دیتی ہیں پرنتو کسی کسی کو، سبھی کو نہیں۔“
”تمھیں دکھائی دیتی ہیں؟“
”ہاں صاحب! مجھے دکھائی دیتی ہیں۔“
”کمال ہے۔“اے.جے.آر. کی آنکھیں پھیل گئیں۔
”میں سچ کہہ رہا ہوں صاحب! مجھے سرسوتی جی دکھائی دیتی ہیں۔“
”کدھر دکھائی دیتی ہیں؟“
”یہیں پر صاحب! ان دونوں کے سنگم کے نیچے۔“
”کتنا نیچے؟“
”بہت نیچے۔“
”پانی کے اندر تمہاری نظریں ان تک پہنچ جاتی ہیں؟“
”ہاں صاحب! پہنچ جاتی ہیں۔“
”اچھا!“
”آپ کو اچنبھا ہورہاہے صاحب! پرنتو یہ سچ ہے کہ کچھ نظریں پانی کے اندر تک پہنچ جاتی ہیں ……“(ایضاً ص25-26
افسانہ’سرسوتی اسنان‘ میں غضنفر نے ہندوستانی تواریخ اور تہذیب کے عوامل، ایثار، خلوص، صداقت اور کشاہ دلی کے پس منظر میں زمانۂ قدیم سے دورِ حاضر تک کی کیفیات، خصوصیات اور معاملات سے افسانے کا تانابانا تیار کیا ہے جو افسانہ کے بین السّطور سے اُبھرتا ہے اور فنکار کی علمیت، بصیرت اور تخلیقیت سے شاہکار فن پارہ بن جاتا ہے۔ افسانہ نہ صرف موضوعی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ اسلوب اور غضنفر کی فنی مہارت اور علامتی و استعاراتی نظام کے ساتھ عمدہ زبان و بیان متن کے مطالعہ پر آمادہ کرتا ہے۔
Correspondence Address:-
Prof. (Dr.) Abdul Barkat
Quila Chowk, Near Nadi
Mehdi Hasan Road,
P.O. M.I.T., Brahampura
Muzaffarpur-842003 (Bihar)
E-mail: abarkat9835@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |