کسی بھی آدمی میں یوں تو سفید اور سیاہ دونوں رنگ ہوتے ہیں مگر ہماری نگاہ کبھی اس میں پوری کی پوری سفیدی دیکھتی ہے اور کبھی ساری کی ساری سیاہی۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ہم ایک ساتھ دونوں رنگ دیکھ پاتے ہوں۔ دونوں رنگ ایک ساتھ ہم اس لیے نہیں دیکھ پاتے کہ ہم یہ طے کرکے نظرڈالتے ہیں کہ کون سارنگ دیکھنا ہے اور کون سا رنگ نہیں دیکھنا ہے اور اس فیصلے کے پیچھے ہماری نیت کا دخل ہوتا ہے جو شعوری اور غیر شعوری طورپر کہیں نہ کہیں فلسفۂ سود و زیاں سے گورن (Govern) ہوتی ہے مگر میری آنکھیں بیک وقت دونوں رنگ دیکھتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ میں سیاہ رنگ کو خود تک محدود رکھتا ہوں۔ اسے دوسروں کو نہیں دکھاتا کہ اس سے تاریکی پھیلتی ہے۔ تاریکی جو راہ سے بھٹکاتی ہے۔ بیمار کرتی ہے۔ دل اور دماغ کا چین چھین لیتی ہے اور سفید رنگ کو میں دوسروں کو بھی دکھاتا ہوں کہ اس سے روشنی ملتی ہے۔ روشنی جو راستہ دکھاتی ہے۔ صحت مند بناتی ہے اور سکون و اطمینان فراہم کرتی ہے۔
سفید رنگ کو دکھانے میں میں بخل سے کام نہیں لیتا بلکہ اس عمل میں کسی حد تک تخئیل اور مبالغے کی آمیزش بھی کرتا ہوں۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے سفیدی کی چمک اور بڑھ جاتی ہے۔ اس سے رنگینیاں بھی پھوٹ پڑتی ہیں جن سے دل اور دماغ رنگین اور روشن ہوتے ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں سازِ بوالعجبی کا تارِ حیات – (شوکت حیات کا خاکہ) – پروفیسر غضنفر )
آج میری نگاہ کے فوکس میں جو آدمی موجود ہے اس میں بھی مجھے دونوں رنگ دکھائی دے رہے ہیں مگر میں اپنی فطرت کے مطابق سیاہ رنگ اپنے تک محدود رکھوں گا اور سفید رنگ پوری آب و تاب کے ساتھ آپ کو بھی دکھانے کی کوشش کروں گا۔
اس شخص سے میرا غائبانہ تعارف تقریباً تیس پینتیس سال قبل ہوا تھا جب وہ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ایم-اے سال اول کا طالب علم تھا اور میں بہار یونیورسٹی میں بی-اے فائنل کا۔ تعارف کرایا تھا اس وقت کے اس کے ایک کلاس فیلو اور آج کے پروفیسر اور ممتاز فکشن نقاد خورشید احمد نے۔ تعارف کا سبب بنا تھا میرا ایک سوال۔
”خورشید بھائی، آپ تو ضرور ٹاپ کریں گے؟“
”نہیں۔ میری کلاس میں ایک ایسا لڑکا آگیا ہے جو ”بیسویں صدی“ میں چھپتا ہے۔“
اس جواب کا رعب مجھ پر بھی طاری ہوگیا۔ اس لیے کہ اس وقت بیسویں صدی ہمارا آئیڈیل رسالہ تھا اور ایک پوری صدی کی طرح ہی ہماری نگاہ میں دور تک پھیلا ہوا تھا۔
اس مرعوب کرنے والے لڑکے سے میرا باقاعدہ تعارف اس وقت ہوا جب میں خطہئ بہار سے نکل کر سرزمینِ علی گڑھ میں داخل ہوا اور اسی کے شعبے میں ایک سال بعد ایم اے سال اوّل کا طالب علم بنا۔
مجھے فلم ”میرے محبوب“ والے وکٹوریہ گیٹ کا جس کے سامنے راجندر کمار اور سادھنا ٹکرائے تھے، کو دیکھنے کی اتنی جلدی نہ تھی جتنی کہ اس بیسویں صدی والے لڑکے جس نے خورشید بھائی جیسے اردو داں، ہونہار اور شاعر طالب علم کو نمبر دو پر پہنچادیا تھا، سے ملنے کا اشتیاق تھا۔
مجھے خورشید بھائی نے اشارے سے بتایا کہ یہی ہے وہ بیسویں صدی والا طالب علم جس نے میری پوزیشن خراب کر رکھی ہے۔
غور سے دیکھا تو ایک مشرقی وضع قطع کا دبلا پتلا، اوسط شکل و صورت کا لڑکا کچھ دوری پر کھڑا تھا۔ اسے دیکھ میں نے کوئی خاص تاثر نہیں لیا بلکہ اس نے مجھے پر کوئی خوشگوار تاثر نہیں چھوڑا مگر قریب پہنچنے پر جیسے ہی اس نے منہ کھولا اور لبوں سے لفظ نکلے تو نہ صرف یہ کہ اس کی مشرقی وضع قطع میں اور چمک دمک پیدا ہوگئی بلکہ اس میں مغربی گل بوٹے بھی لگ گئے۔ دبلا پتلا جسم یک لخت بھاری بھرکم سراپے میں تبدیل ہوگیا اور معمولی شکل و صورت نہایت پر کشش بن گئی۔ پہلی نظر میں کوئی خاص تاثر نہ چھوڑنے والا لڑکا اب سرتاپا تاثر بن گیا تھا۔
روایتی انٹروڈکشن کے بعد ہم میں بے تکلفی بڑھ گئی۔ بہت جلد ہمارا ایک چھوٹا سا گروپ بھی بن گیا جس کی روزمرہ کی تہذیبی، تعلیمی اور کچھ دوسری سرگرمیوں نے ہمیں اور بے تکلف بنادیا۔ اس گروپ میں صرف تین لڑکے تھے، وہ، خورشید بھائی اور میں، باقی سب لڑکیاں تھیں۔ لڑکیاں زیادہ تر اس کے قریب پھرتی تھیں۔ یہ دیکھ کر ہمیں رشک سے زیادہ حسد ہوتا تھا۔ اس لیے بھی کہ ہم جدید حلیے والے کلین شیولوگ تھے اور وہ مشرقی وضع قطع کا اور اوپر سے باریش بھی۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ لڑکیاں باریش لوگوں سے خواہ، وہ نوجوان ہی کیوں نہ ہوں، دور بھاگتی ہیں مگر یہاں تو معاملہ بالکل برعکس تھا۔ معاملے کی ٹوہ میں پڑے تو معلوم ہوا کہ اس کے اور لڑکیوں کے درمیان رونما ہونے والے اس کششِ ثقل (Gravity) کا راز اس کی اس مقناطیسی شخصیت میں پہناں تھا جس کی تعمیر اس کے دماغ کی وسعت، دل کی کشادگی، مزاج کی شگفتگی، اظہار کی بے باکی، گفتگو کی سلیقگی، حِسِّ لطیف اور خوش ذوقی سے ہوئی تھی مگر حسنِ دل فریب کے اس بے محابانہ جھکاؤ اور اس کی جانب دنیاوی نعمتوں کے فیاضانہ بہاؤ کے باوجود اس کی شخصیت کا توازن نہیں بگڑا۔ کردار کی مشرقیت اپنی جگہ کوہ و جبل کی طرح جمی رہی۔ اس کے اپنے سنسکار سے جنما توازن ہمیشہ اس کے اندر بنارہا۔ اس کی متوازن شخصیت بعد میں بھی اپنا مظاہرہ کرتی رہی جس سے وہ دین دنیا دونوں میں کامیاب رہا۔ اس کی شخصیت کے اسی توازن نے اس کی تقرری کے وقت دومتضاد اور ایک دوسرے کے مخالف اکسپرٹس سے ایک مشترک فیصلے پر دستخط کرادیے۔ (یہ بھی پڑھیں شہسوارِ رخشِ خامہ (مشرف عالم ذوقی کا خاکہ) – پروفیسر غضنفر )
وہ ایم-اے پاس کرتے ہی استاد بن گیا مگر وہ مطمئن نہیں ہوا۔ اس لیے کہ اسے منصبِ معلم سے آگے جانا تھا۔ اسے وہ سب کچھ کرنا تھا جس سے مدرس کلاس روم سے باہر کی دنیا میں پہنچتا ہے۔ جس سے اس کا نام روشن ہوتا ہے۔ جس سے وہ تاریخ کے پنّوں میں محفوظ ہوتا ہے۔ اس لیے سب کچھ کرنے کے لیے اس نے سب سے پہلے اپنا احتساب شروع کیا۔ اس کے لیے کیا مناسب ہے اور کیا مناسب نہیں ہے، یہ فیصلہ کرنے میں اسے دیر نہیں لگی۔ دورانِ احتساب اسے احساس ہوگیا کہ اس کا اصل میدان بیسویں صدی نہیں ہے بلکہ اس سے آگے کی صدیاں ہیں اور ان کے لیے شاعری یا افسانہ نگاری اس کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ اس کے لیے مناسب اور موزوں ترین راستہ نقد و انتقاد ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی تمام تر توجہ تنقید نگاری کی جانب مرکوز کردی۔ اس راہ پر اس کا قلم اتنا رواں ہوا کہ اس کی نوک سے قابل قدر تنقید پارے نکلتے چلے گئے اور بہت جلد وہ اہل نظر کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ کا م نے اسے ایک نام عطا کردیا اور وہ استاد سے ایک اہم نقاد ابوالکلام قاسمی بن گیا اس کی تنقیدی تحریروں کی قدرو قیمت اور ان کے ادبی مرتبے کا تعین تو وہ لوگ کریں گے جو اس کے اہل ہیں، میں تو اپنا دائرہئ نظر صرف اس کی ذات و صفات تک ہی محدود رکھوں گا کہ فی الحال میری آنکھوں میں اس کی شخصیت ہے، فن نہیں۔ البتہ اس کی تقریری صلاحیت پر کچھ عرض کرنا ضرور چاہوں گا کہ اس کا تعلق شخصیت سے بھی ہے۔
قاسمی ان گنے چُنے نقادوں میں سے ایک ہیں جو تحریر اور تقریر دونوں پریکساں عبور رکھتے ہیں۔ قاسمی کی تقریر ان کی شخصیت ہی کی طرح منظم، متوازن مربوط، ڈسپلنڈ اور پُرکشش ہے۔ انسان کا اصل جوہر تقریر میں کھلتا ہے اور اس کی قابلیت کا امتحان بھی اسی سے ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب اچانک اس کا نام تقریر کرنے کے لیے اسٹیج سے پکار دیا جائے۔ اس لیے کہ ایسے میں اسے سوچنے تک کا بھی وقت نہیں ملتا اور سامنے پڑ ھے لکھوں کا مجمع ہوتا ہے۔ قاسمی کے سامنے اس طرح کے امتحان کی گھڑی اکثر آئی ہے اور میں نے ہمیشہ ہی انھیں اس صورت حال سے سرخ روئی کے ساتھ نکلتے دیکھا ہے۔ قاسمی کی تقریروں میں صرف الفاظ کے در وبست ہی ٹھیک نہیں ہوتے، محض جملے ہی چست درست نہیں ہوتے، صرف لہجے کے اتار چڑھاؤ کا ہی خیال نہیں رکھا جاتا اور صرف زبان و بیان کو ہی مؤثر بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ موضوع کے ساتھ بھی انصاف ہوتا ہے اور اس میں تازگی وندرت پیدا کرنے کی سعی بھی کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی بات کو پھیلانے اور اسے سمیٹنے کا ہنر بھی دکھائی دیتا ہے۔ ایک جملے میں اگر بیان کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ قاسمی کی تقریر مناسب، موزوں، معنی خیز، مؤثر، برمحل، برجستہ، شستہ اور شگفتہ ہوتی ہے۔
قاسمی کی شخصیت کا ایک حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے بزرگ اور خورد دونوں میں محترم رہے۔ بزرگوں کے درمیان اپنی علمی و ادبی کارگزاری، خاکساری، وضع داری اور بردباری کی بدولت اور خوردوں کے بیچ اپنی ملنساری، خوش گفتاری، خوش اطواری اور رواداری کے باعث۔ دورِ طالب علمی میں میرا قاسمی کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ دو سال تک مسلسل ریستوراں اور چائے خانوں میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا مگر مجھے ایسی کوئی نشست یاد نہیں جہاں قاسمی کی موجودگی میں کسی اور نے بل ادا کیا ہو۔ ہر بار بل ادا کرنے کے پیچھے ہرگز یہ نفسیات نہیں تھی کہ قاسمی یہ کام اپنی سینئریٹی کے زعم میں کرتے تھے یا اس سے اپنی دولت و ثروت کا مظاہرہ مقصود تھا۔ جہاں تک میں نے محسوس کیا اس کا سبب صرف اور صرف قاسمی کی رواداری تھی۔ آگے چل کر ان کی یہ رواداری اتنی Cultivate ہوئی، اس کی ایسی آبیاری ہوئی کہ یہ ان کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف بن گئی۔ تعلقات کی راہ میں، رشتوں کے نباہ میں، پسند اور چاہ میں، شادی بیاہ میں، محفلِ الم و آہ میں، گویا ہر طرح کی رسم و راہ میں، ہر جگہ یہ وصف دکھائی دینے لگا۔ جس سے قاسمی اور بھی مقبول و محترم ہوگئے۔ خورشید الاسلام، خلیل الرحمن اعظمی اور نسیم قریشی سے لے کر قاضی عبدالستار، شہریار اور شمیم حنفی جیسے جیّد اساتذہ کی نظر میں بھی وہ محترم رہے اور آشفتہ چنگیزی، پرویز جعفری اور اسعد بدایونی جیسے سرپھرے طالبِ علموں نے بھی ان کا احترام کیا۔
قاسمی کی رواداری کے دو مختصر واقعات بھی سن لیجیے جن کا تعلق میری ذات سے بھی ہے۔ میری شادی کے وقت یہ طے ہوا کہ میرے علی گڑھ کے تمام قریبی دوست احباب بارات میں جائیں گے مگر ان میں سے زیادہ تر دوستوں نے عین وقت پر دھوکا دے دیا۔ ایک قاسمی تھے جنھوں نے دل سے دوستی نبھائی۔ نہ صرف یہ کہ وہ خود گئے بلکہ اپنی بیگم کو بھی ساتھ لے گئے اور اس طرح میری تقریب کی رونق دوبالا ہوگئی۔
ایک بار وہ اپنی بیوی اور دونوں بچوں تاثیر اور سمیر کے ساتھ سولن (ہماچل پردیش) پہنچے اور میرے ہی گھر قیام کیا۔ تقریباً دو ہفتے تک وہ ہمارے ساتھ رہے مگر اس بات کی پوری کوشش کرتے رہے کہ ہم پر کسی طرح کا بے جا بوجھ نہ پڑے اور اس بات کا بھی خوبصورتی کے ساتھ خیال رکھا کہ ہماری غیرت اور حمیّت پر بھی کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ اس ملاقات میں بیگم قاسمی دردانہ آپا کی شخصیت بھی کھلی اور پتہ چلا کہ بظاہر خاموش، نہایت سنجیدہ اور پُر تمکنت خاتون کے اندر ایک پرخلوص، ملنسار اور ایک بے تکلف عورت بھی موجود ہے۔ (یہ بھی پڑھیں تلاشِ مشکِ شگفتگی- پروفیسر غضنفر)
قاسمی کی شخصیت میں کبھی کہیں ٹھہراؤ نہیں آیا۔ وہ علّامہ اقبال کے اس فلسفۂ حیات کے حامی ہیں کہ زندگی ہر دم رواں اور پیہم دواں رہنے کا نام ہے۔ 1974ء سے آج یعنی 2004ء تک میں نے انھیں ہمیشہ چلتے اور آگے بڑھتے ہوئے دیکھا ہے حالاں کہ عام طور پر کامیابی اور شہرت مل جانے کے بعد انسان کے اندر اطمینان اور ٹھہراؤ آجاتا ہے مگر قاسمی کے یہاں یہ بات نہیں آئی۔ ان کا علمی و ادبی سفر ہو یا تعلیمی و تدریسی سفر، کہیں بھی قیام نہیں ہے۔ وہ اپنی اطمینان بخش قابلیت اور خاطر خواہ مطالعے کے باوجود کلاس روم میں پڑھ کر جاتے ہیں اور طلبہ کو نئی نئی باتیں بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنے، اپنے پیشے اور طالب علم تینوں کے ساتھ انصاف کرتے ہیں اور پابندیِ وقت میں ایمانداری برتتے ہیں جب کہ عام روش یہ ہے کہ ملازمت مستقل ہوتے ہی پڑھنا پڑھانا تو دور کی بات ہے، لوگ وقت پر کلاس روم میں جانا بھی بھول جاتے ہیں۔
سفر سے ایک بات یاد آئی کہ سفر کے سلسلے میں قاسمی ایک مردِ مجاہد سے کم نہیں، وہ ہمیشہ پابہ رکاب رہتے ہیں اور اپنے مقصد کے سامنے سفر کی صعوبت کی کبھی پروا نہیں کرتے۔ انھیں قرآن کی اس آیت پر ایمان کامل ہے کہ السفر وسیلۃ الظفر، یعنی سفر کامیابی کا ذریعہ ہے اور دیکھا جائے تو سفر واقعی ان کی بعض کامیابیوں کا ذریعہ بنا ہے۔
آج اردو کے نقادوں میں یہ رویّہ تیزی سے عام ہوتا جارہا ہے کہ نقاد تخلیقات کو پڑھے بغیر رائے دیتا اور اچھے برے کا فتویٰ صادر کردیتا ہے مگر قاسمی اس سے مستثنیٰ ہیں۔ وہ پرانا نیا ہر طرح کا ادب پڑھتے ہیں اور نہایت ایمانداری اور دیانت داری سے پڑھتے ہیں۔ ان کا یہ رویّہ بھی انھیں ان کے معاصرین سے ممتاز و منفرد بناتا ہے اور ان کی مقبولیت کا سبب بنتا ہے۔
قاسمی کا ایک اور امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ اپنے مخاطب سے اس کے اندر کی بات اگلوا لینے کا ہنر جانتے ہیں۔ آپ لاکھ سوچ کر اور طے کرکے جائیے کہ اس بار اپنا کوئی بھید نہیں دیں گے مگر قاسمی کے سوالات آپ کے ذہن و دل کے ارد گرد اس طرح محاصرہ کردیں گے کہ آپ کو اپنا راز فاش کرنا ہی پڑے گا مگر قاسمی اس کارروائی میں سی بی آئی کی طرح کوئی زور زبردستی نہیں کرتے بس وہ اپنے مخصوص طریقہئ سوال سے مخاطب کو اس حد تک ہپناٹائزڈ کردیتے ہیں کہ وہ اسی طرح بولنے لگ جاتا ہے جس طرح قاسمی چاہتے ہیں اور اس طرح وہ اپنا سارا راز اگل دیتا ہے۔
قاسمی یہ ہنر بھی جانتے ہیں کہ لوگوں کو خوش کیسے کیا جاتا ہے اور انھیں اپنے بس میں کس طرح رکھا جاتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت تو ان کی پہلی تقرری کے وقت دیکھا جاچکا ہے۔ دوسرا ثبوت ہم ان کے، نارنگ اور فاروقی کے ساتھ تعلقات میں دیکھ سکتے ہیں۔ ان دونوں متضاد و متخالف ہستیوں سے قاسمی کے یکساں خوشگوار تعلقات ہیں۔ یہ تعلقات کسی قسم کی خوشامد، جی حضوری اور چاپلوسی کے سبب نہیں بلکہ ان کی استواری اور پائداری میں قاسمی کی شخصیت کے اس جوہر کا کمال ہے جس نے اسے ان دونوں کے لیے ناگزیر بنادیا ہے۔
قصّہ مختصر یہ کہ میری نگاہ میں اس وقت جو آدمی کھڑا ہے اس میں سفید رنگ آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ اگر اسے مثبت رویّے اور شاعرانہ نظر سے دیکھا جائے تو اس رنگ کی چمک دمک اور بھی بڑھ سکتی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |