دبیر عباس (شاہ جی)شاعر،افسانہ نگار،محقق ،نقاد،معلم اورمقررکے طورپراپنی ایک منفردپہچان رکھتے ہیں ۔مگران تمام خصوصیات میں سے بطورشاعراورمحقق اُردوحلقوں میں اپنی مخصوص پہچان کے حامل ہیں ۔آپ کے کئی تحقیقی وتنقیدی مضامین قومی اور بین الاقوامی مجلات میں شائع ہوچکے ہیں۔خوب صورت شاعری اورافسانہ ،آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کاعکاس ہے۔
دبیرعباس کاتعلق سرزمینِ سرگودھاسے ہے ۔آپ 7فروری 1981ء کوضلع سرگودھاکی تحصیل بھیرہ کے ایک نواحی گاؤں چھنی سیداں میں پیداہوئے۔آپ نے پانچ مضامین میں ایم۔اے کررکھاہے جن میں مطالعہ پاکستان،انگلش،اُردو،پنجابی اوراسلامیات شامل ہیں ۔اس کے علاوہ سرگودھا یونی ورسٹی میں اُردومیں پی۔ایچ۔ڈی کامقالہ جمع کرواچکے ہیں۔آج کل شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں اورگورنمنٹ کالج میانی(سرگودھا) میں بطوراسسٹنٹ پروفیسر(اُردو) فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
دبیرعباس نے شاعری کی کئی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے جن میں غزل،نظم،کافی،قطعات اورنثری نظم شامل ہیں ۔مگراُن کازیادہ تررجحان غزل کی طرف ہے ۔غزل کے میدان میں آپ نے کھل کرطبع آزمائی کی ہے اوراپنے ہنرکے جوہر دکھلائے ہیں ۔آپ کی شاعری بالخصوص غزل کلاسیک اور جدیدلہجے کاحسین امتزاج ہے ۔اُن کے ہاں دونوں رنگ ،دونوں لہجے اوردونوں طرح کے رویے باہم یک جااورمربوط نظرآتے ہیں ۔جس سے کلاسیک وجدیدکاحسین امتزاج نظرآتاہے ۔ اس حوالے سے چنداشعارملاحظہ کیجیے۔
؎ اُس نے جونام سے پکاراہے
یہ محبت کااستعارہ ہے
؎محبت کی وضاحت مانگتا ہے
حقیقت میں محبت مانگتا ہے
؎ تیرے ہجر کےناگ کا ڈسنا کچھ اتنازہریلا تھا
میری آنکھ سے بہنے والے آنسونیلے نیلے تھے
؎ساتھ لے کر میرے رقیبوں کو
وہ میرے پاس سے گزرتا ہے
؎سارادن خاموش گزار کے لوگوں میں
رات کو مجھ سے ساری باتیں کرتاہے
؎ کوئی چوتھا بھی آن ٹپکا ہے
درمیاں اب وہ تیسراہی نہیں
؎اب ذرااحتیاط سے صاحب
ہردفعہ معجزہ نہیں ہوتا
دبیرعباس نے شاعری میں ہرطرح کے موضوعات کوبرتنے کی کوشش کی ہے اورہرطرح کے موضوعات اُن کے ہاں ملتے ہیں مگرزیادہ مقبول موضوعات میں عشق و محبت،عمومی رویے،غم جاناں وغم دوراں،معاشرتی زبوں حالی،انسانیت کا بحران اورمعاشرتی روایات واقدارشامل ہیں ۔عشق اُن کاخاص موضوع ہے ۔اس موضوع پراُنھوں نے کھل کرطبع آزمائی کی ہے ۔عشق کی مختلف صورتوں ،کیفیات،جذبات،احساسات کوجس اندازسے برتنے کافن آپ کوآتاہے شاید ہی عہدِ حاضرکے کسی شاعر کوآتاہو۔عشق ہمیشہ صنفِ نازک کی طرف سے ہوتاہے مگروہ پہلے اظہارنہیں کرپاتیں ،لیکن ان کے اشارات بتارہے ہوتے ہیں ،لیکن ان کودیکھنے کے لیے بصارت چاہیے اورپھربیان کے لیے الفاظ جوہرکسی کے ہاں نہیں ہوتےمگردیبرعباس نے ایسے اشاروں کوخوب پرکھااوربرتاہے ،چنداشعارملاحظہ کیجیے۔
؎اس نے جونام سے پکاراہے
یہ محبت کااستعارہ ہے
؎محبت کی وضاحت مانگتاہے
حقیقت میں محبت مانگتاہے
؎اب مراامتحان کیساہے
زندگی توگزارآیاہوں
؎اب مجھے دیکھ دیکھ ہنستاہے
پھر مجھے سوچ سوچ روئے گا
آپ کے ہاں عشق کی مختلف کیفیات اورمختلف مراحل کے حوالے سے بھی شعر ملتے ہیں اورایسے محسوس ہوتاہے کہ انسان واقعی ان مراحل میں سے گزررہاہے ۔تمام واقعات،کیفیات اورمراحل یوں لگتے ہیں جیسے آنکھوں کے سامنے ہورہے ہیں ۔شاعرنے بڑے خوب صورت اندازمیں ان کیفیات کو بیان کیاہے ۔ذیل میں مختلف مراحل کے حوالے سے شعرپیشِ خدمت ہیں ۔عاشق اپنے محبوب کو تلاش کرلینے کے بعد اس سے مخاطب ہے۔
؎ایسا آساں نہ تھا ترا ملنا
توبہت ڈھونڈنے کے بعد ملی
محبوب ،عاشق کودیوانہ،مجنوں اور پاگل سمجھتے ہوئے ہنستااور مسکراتاہے توعاشق سنجیدگی سے جواب دیتاہے۔
؎ اب مجھے دیکھ دیکھ ہنستاہے
پھرمجھے سوچ سوچ روئے گا
عشق ومحبت میں ایک مرحلہ ہجرکامرحلہ ہے جوعاشق کے لیے تکلیف دہ نہیں بلکہ لذت کاسماں پیداکرتاہے۔یہ مرحلہ تخلیق کے لیے انتہائی موزوں اورمناسب مرحلہ ہے۔خوب صورت شاعری زیادہ ترایسی کیفیت میں ہوتی ہے اورعاشق اگرشاعرہوتوپھرسونے پرسہاگہ ہوجاتاہے۔ایسے لمحات عاشق کے لیے کسی غنیمت سے کم نہیں ہوتے۔اُردوشاعری میں یہ موضوع نیانہیں بلکہ شروع سے برتاگیاہے مگرہردورمیں اس کوبیان کرنے کے اندازبدلتے رہے ہیں ۔دبیرعباس کے ہاں بھی یہ موضوع بڑاجان دارموضوع ہے ۔آئیے دوشعرملاحظہ کیجیے۔
؎دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں
رات کٹتی نہیں اکیلے میں
؎ لگ کر سینے سے میرے جب رونے لگتا ہے
میرے دل کوہجر کا خدشہ ہونے لگتاہے
دبیرعباس سینے میں دل تورکھتے ہیں اورعاشق کے نازنخرے برادشت کرتے ہیں ،مگرانا بھی غالب کی سی رکھتے ہیں ۔آپ کے ہاں انا،شاعرانہ تعلی یانرگیسیت جو بھی نام دیاجائے بہت زیادہ ہے ۔شاعری میں تووہ میرتقی میرؔ اورناصرؔکاظمی کے پیروکارنظرآتے ہیں مگرانا میں مرزااسداللہ خاں غالبؔکے مقلددکھتے ہیں ۔محبوب کے نازنخرے اٹھانے کااندازملاحظہ کیجیے۔
؎ چل پڑوں بھول کے ہربات میں آگے اس کے
اب بھی آجائے وہ ہرجائی اگرلینے کو
مگراب ذرادوسراپہلو دیکھیے کہ انامیں وہ کس حدتک جاتے ہیں ۔محبوب کی عزت واحترام اپنی جگہ ،مگراپنی انااوراصولوں کوٹھیس نہیں پہنچاتے بلکہ کہ اپنے اصول مدنظررکھتے ہیں ۔آپ کی نرگسیت اوراناملاحظہ کیجیے۔
؎اب ذرااحتیاط سے صاحب
ہردفعہ معجزہ نہیں ہوتا
؎جس قدرلوگ اس پہ مرتے ہیں
اس قدرشخص وہ جمیل نہیں
؎یہ ایک تم ہوجسے دستیاب ہیں ورنہ
بہت سے لوگ ترستے ہیں ایک پل کے لیے
محبت کے موضوع پر بڑے کھل کر طبع آزمائی کرتے ہیں اور چھوٹے سے چھوٹے پہلوکو بھی نظرانداز نہیں کرتے ،عشق کے موضوع پروہ بغاوت کی حد تک جانے سے بھی گریز نہیں کرتے ،عشق کے مراحل میں وصل کالمحہ بھی بڑاپرسکون لمحہ ہے ،جس پر اُردو شاعری میں ہجرکی نسبت کم مثالیں ملتی ہیں ،کیوں کہ اکثرعشاق وصل کے بعدتخلیقی قوت کھوبیٹھے ہیں مگرشاہ جی نے وصل کے اُن لمحات کوبھی شعرکے قالب میں ڈھال کے جان داربنادیاہے جس سے اُن کے مضبوط حواس کابھی اندازہ ہوتاہے وگرنہ ایسے لمحات میں لوگ حواس باختہ ہوجاتے ہیں ۔وصل کی گھڑی پرشعر ملاحظہ کریں۔
؎فقط گلے ہی لگایانہیں ہے میں نے اُسے
ستم ظریف کے بوسے بھی میں نے بلکہ لیے
؎ تمام آج ہی اُس نے لٹادیامجھ پر
ذرابھی پیاربچایانہ اُس نے کل کے لیے
خوب صورت دوشیزہ کوکون اپنانانہیں چاہتا؟ ہرکسی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اسے اپنالے ،مگرمحبوب اُن میں سے بہترین عاشق کاانتخاب کرناچاہتاہے۔عہدحاضرمیں محبوب کے عاشق میں صرف ایک خوبی ہوناضروری ہے اور وہ ہے دولت،لہذاہرچاہنے والااپنے محبوب کو اپنے جھانسے دیتاہے اوردوسرے کوکم تربناکرپیش کرتاہے ایسی کیفیت شعرمیں کیسے بیان ہوئی ہے ذرادیکھیے۔
؎وہ کفالت کرے گا کیاتیری
جومری جان خودکفیل نہیں
بعض دفعہ عاشق ،محبوب کواپنالینے کے بعد اپنے سابقہ انتقام بھی عشق کے اندازمیں ہی لینے پراترآتاہے ۔اسی طرح کارویہ آپ کی شاعری میں ملتاہے ۔کہ ایک عاشق اب اپنے بدلے لینے پراُتراہے ۔ملاحظہ کیجیے کیفیت ِ انتقام۔
؎ تمام قول ہی میرے جب اُس نے ہلکے لیے
تومیں نے بدلے بھی اُس سے بدل بدل کے لیے
عشق میں ایک وقت ایسابھی آتاہے جب عاشق ،محبوب کے باربارنظراندازکرنے اورنئے امتحانات لینے پر تنگ آجاتاہے ۔آخرکاروہ اکتاہٹ کاشکارہوکرمحبوب سے کیسے مخاطب ہوتاہے ایک عاشق شاعر کے الفاظ میں سنیے۔
؎بھاڑ میں علم محبت کی پڑھائی جائے
اب مجھے اور مشقت نہ سکھائی جائے
عشق ومحبت کے علاوہ تدفین کی وصیت بھی ہمارے اُردوادب میں اپنی ایک پہچان رکھتی ہے ،جونثراورنظم دونوں صورتوں میں ملتی ہے۔کیوں کہ شعراکے مذہب کے بارے میں سماج میں کئی طرح کے خیالات ملتے ہیں ۔اوراکثرشعرانے شادیاں بھی دوسرے مذاہب کی لڑکیوں سے کررکھی ہوتی ہیں جس پربعد میں میت کوجلانے یادفنانے پرجھگڑے ہوتے ہیں ،جس کی بہترین مثال ن۔م راشدکی میت کوجلانے والی ہے کہ اُن کی بیوی نے کہاکہ اُن کی وصیت تھی لہذامیت کوجلادیاگیاجس پرآج تک طرح طرح کے تبصرے اورسوالات اٹھتے آرہے ہیں لہذاشاہ جی نے واضح کردیاکہ میرے ساتھ کیاکیاجائے شعر دیکھنا۔
؎دفن کرنانہ مجھے زیرِ زمیں ،یاد رہے
نہ میری لاش بہائی،نہ جلائی جائے۔۔
انسانیت کادکھ دردہردورکی شاعری کاپسندیدہ موضوع رہاہے ۔ہردورکے اپنے دکھ ہوتے ہیں مگرموجودہ دور کی صورتِ حال بالکل ناقابلِ بیاں ہے۔موجودہ عہدافراتفری،مردبیزاری،مصروفیت،عدم اطمینان،عدم برداشت اورنفس ونفسی کاعہدہے۔اس دورمیں ہرکوئی گبھرایاہوااورمصیبت زدہ نظرآئے گا۔اگرآپ کسی کے آگے بُک روئیں گے تووہ آپ کے سامنے چھج رونے لگے گا۔ایسی صورت حال کوبھی شاہ جی نے لفظوں کی صورت میں بیان کیا ہے جس سے اُن کے ہاں عصری روئیے بھی شعرکے قالب میں ڈھلتے نظرآتے ہیں ۔اس حوالے سے شعر ملاحظہ کریں۔
؎ کون ساشخص نہیں خوف وخطرکی زدمیں
کس کورودادمصیبت کی سنائی جائے۔۔۔
فکراورفن دونوں لازم وملزوم ہیں ،کسی ایک کی کمزوری بھی شعرکوبڑاشعربننے نہیں دیتی۔اس لیے وہی شاعر زندہ رہتاہے جوفکروفن دونوں چیزوں کوساتھ لے کرچلتاہے۔لہذادیکھتے ہیں کہ دبیرعباس نے فکرکے ساتھ ساتھ فن پرکتنی توجہ دی ہے۔
دبیرعباس کی شاعری فنی حوالے سے بھی پختہ شاعری ہے۔غزل کے لیے وہ زیادہ ترچھوٹی بحرکااستعمال کرتے ہیں۔اُن کااسلوب انتہائی سادہ اورعام فہم ہے ۔آپ کے ہاں تشبیہ،استعارہ،تلمیح ،صنعتِ لف ونشر،تکرارلفظی،صنعتِ تجنیس،صنعتِ مراعات النظیراوردوسرے کئی فنی حوالے پائے جاتے ہیں ۔شروع شروع میں آپ تخلص بھی استعمال کرتے رہے ہیں مگراب تخلص کرناچھوڑ دیاہے جس کے بارے میں اُن کاخیال ہے کہ وہ بچپناتھااب ضرورت نہیں ،دبیرعباس بطور عاصمؔ تخلص کرتے رہے ہیں ۔ان کی ایک غزل کامقطع ملاحظہ کیجیے۔
؎ ننگے پاؤں چلناعاصم ؔموت کودعوت دیناتھا
ان گلیوں میں جاپہنچے جہاں پتھر بھی زہریلےتھے
مختصراََ دبیرعباس فکروفن کے حوالے سے میرتقی میرؔ کے قبیلے کے شاعر نظرآتے ہیں اوران کی شاعری فکری وفنی حوالے سے میرتقی میرؔ اور ناصرؔ کاظمی سے ملتی نظرآتی ہے ،مگرانااورنرگیست میں مقلدِ غالبؔ نظرآتے ہیں ۔عشق میں اُن پرجوش ملیح آبادی کارنگ عملی طورپر نظرآتاہے ۔بعض غزلیں سیدجون ؔ محمدایلیا کی زمین اور رنگ میں نظرآتی ہیں ۔مگراس سب کچھ کے باوجود وہ اپناایک مخصوص اورمنفرد اندازرکھتے ہیں جوان کی انفرادیت اور پہچان قائم رکھے گا۔آخر میں دبیرعباس کاایک شعر اورایک غزل بطورانتخاب پیشِ خدمت ہے۔
؎ دوسرے کام ہوچکے سارے
ایک مشہورہونا باقی ہے
غزل
ہم نے مانا کہ وہ بخیل نہیں
پریہ اتنی بڑی دلیل نہیں
کوئی اک بھی نظر نہیں آتا
تیری آنکھوں پہ جوقتیل نہیں
کون رسوانہیں ترے آگے
کون پیچھے ترے ذلیل نہیں
وہ کفالت کرے گا کیا تیری
جومری جان خودکفیل نہیں
جس قدرلوگ اُس پہ مرتے ہیں
اُس قدرشخص وہ جمیل نہیں
اب تویاروخداہی حافظ ہے
کوئی بچنے کی اب سبیل نہیں
عمیرؔ یاسرشاہین
پی۔ایچ۔ڈی (اسکالر)
شعبہ اُردو یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا
0303.7090395
v
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page

