رمضان کو یقیناً سب سے مقدس اور بابرکت مہینہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ رمضان جہان آرا کی طرف سے ایک ایسی نعمت ہے جو صرف معلمِ انسانیت آنحضرتﷺ کی امّت کو نذرانے کے طور پر حاصل ہوئی، جو قرونِ اُولیٰ کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔
رمضان کو تین حصوں میں تقسیم کرنا بجا ہوگا جیسا کہ رحمت، برکت اور مغفرت۔ فی الحقیقت ماہِ رمضان ایک تحریک کی حیثیت سے مسلمانوں کو روحانی طور پر برانگیختہ کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ رمضان کس طرح مسلمانوں کی ہمت افزائی کرتا ہے؟
جب انسان دنیا میں آتا ہے تو وہ اِس عالمِ مادّی میں مستغرق ہو جاتا ہے۔ مثلاً: کھانا، پینا، نوکری کرنا، مال و متاع، شان و شکوہ، عزت و رتبہ، عیش و عشرت وغیرہ۔ ان سب کے پیچھے وہ اپنے رب کو ہی فراموش کر دیتا ہے جس نے اسے وجود دیا۔ باری تعالیٰ نے انسان کو زندگی کی تمام آسائش فراہم کی۔ حیف! انسان اپنے خالق کی طرف لاپرواہی برتتا ہے۔
رمضان میں باقاعدگی کے ساتھ پنج وقتہ نماز ادا کرنی ہوتی ہے جو بدستور امّتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ماہِ رمضان میں نوافل کی ادائگی بھی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ اب رمضان میں کیوں معمول سے زائد نمازیں، نوافل، تلاوت وغیرہ کرنا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مذکور الذّکر اعمالِ صالح انسان کی توجہ کو مادّی دنیا سے علیحدہ کر کے، ﷲ تعالیٰ کی طرف مبذول کر دیتے ہیں۔ اس طرح عبادت صرف فرض کا ظاہری ڈھانچہ بن کر نہیں رہ جاتا، بلکہ اس میں جان پڑتی ہے۔ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”کامیاب ہوئے وہ مومن جو اپنی نماز میں صاحبِ خشوع ہے“۔
دیگر ازاں، روزے کا ذکر آتا ہے۔ اب روزہ کس بات کی تلقین دیتا ہے؟
درحقیقت، روزہ یہ سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنی توجہ صرف اشیائے خوردنی کی طرف مرکوز نہیں کرنی چاہیے بلکہ خالقِ ارض و سما کی طرف راغب ہونا چاہیے جس نے ہمیں کھانے پینے جیسی نعمتیں فراہم کیں۔ اسی زمرے میں، زکوٰۃ کی ادائگی بھی یہی سکھاتی ہے کہ دولت و سرمایہ کے نشے میں محو ہونے کے بجائے ﷲ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے جس نے ہمیں روپیہ پیسہ دیا۔
ماسوا، لیلتہ القدر ماہِ صیام کا ایک غیر منفک جز ثابت ہوتا ہے۔ لیلتہ قدر اس بات کی طرف نشاندہی کرتی ہے کہ اپنے بیوی بچوں یا عزیز و اقارب سے علیحدہ ہو کر مسجد میں خدا کی یاد میں منہمک ہونا چاہیے۔ بہ الفاظِ دیگر، اپنے خاندان سے حد سے زیادہ قربت رکھنے کے بجائے اپنے رب سے قربت رکھنے کی جان فشانی کرنی چاہیے، کیونکہ اصل میں ﷲ تعالیٰ ہمارا یار و مددگار ہے۔
تو اس طرح رمضان ہماری حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ رمضان ہر اعتبار سے ہمارے مردہ ضمیر کو جگا کر ﷲ تعالیٰ کی طرف مائل ہونے کا جوش پیدا کرتا ہے۔ اگر ماہِ صیام کے دوران امّتِ مسلمہ میں یہ جوش پیدا نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس مقدس مہینے سے متاثر ہی نہیں ہوا؛ وہ اس مہینے کی مقصدیت و افادیت سے ہی غافل رہا۔ اسی لئے مسلمان اکثر و بیشتر کثرت سے نمازیں یا نوافل ادا کرنے کے باوجود بھی رمضان المبارک کے بعد بھی ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے؛ اس میں کوئی تبدیلی ہی نہیں آتی ہے۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے قربت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
آخرکار، ماہِ رمضان کا نصب العین مسالمانوں کو ﷲ تعالیٰ سے رغبت دلانا ہے۔ اگر مسلمان یہ پیغام جذب کرنے میں کامیاب ہوا تو یہ اسے بدلنے کے لئے کافی ہے!
ثریّا بی بی مہنگر
یونیورسٹی آف موریشس
اسکول آف انڈین اسٹڈیز،شعبہ اردو
مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ
موکا، موریشس
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page