اردو تنقید کا ایک سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ اس نے خوب و زشت کے پیمانے میں کبھی بھی مئے انصاف نہیں بھرا ۔خاص کر اس تنقیدی مزاج سے غزل سب سے زیادہ متاثر ہو ئی۔یہی وجہ ہے کہ ناقدین غزل دو متضاد خانوں میں منقسم نظر آتے ہیں۔ اردو تنقید کی بنیاد رکھنے والے شعر فہم اور غالب جیسے عظیم شاعر کے شاگرد رشید الطاف حسین حالی بھی غزل کو یک رخی نگاہ سے دیکھتے رہے اور ایک خاص کج خیال ناقد کلیم الدین احمد اسے نیم وحشی گردانتے رہے مگر اردو غزل زمانے کے ساز سے ہم آہنگ ہو کر بزرگوں کی نصیحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی مستانہ چال میں رواں دواں رہی۔رشید احمد صدیقی جیسے تاثراتی ناقد کی فقرہ بازیوں پر مسکراہٹ بکھیرتی رہی ۔
شاد عظیم آبادی دبستان عظیم آباد کے سب سے اہم شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں۔عظیم آباد کا مقدر دکن ،دہلی اور لکھنؤ کے مقابلے شاہی سرپرستی سے کوسوں دور تھا پھر بھی عظیم آباد کے قلم کاروں نے علمی وادبی کاوشوں میں خون جگر صرف کرنے میں کویء کوتاہی نہ برتی۔فکروفن کی حنا بندی میں بغیر کسی ستایش اور تمنا کے لگے رہے ۔
شاد کی زندگی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں شعری مذاق قدرت نے فطری طور پر بخشا تھا۔وہ بچپن میں تلنگی اڑا نے کا شوق رکھتے تھے۔اور اپنی تلنگی کے متعلق کم عمری میں شعر بھی تخلیق کیے،ملاحظہ ہو
جو کوئی اس تلنگی کو لوٹے
سنگ آفت سے اس کا سر پھوٹے
بےسبب اس کے گھر لڑائی ہو
اس کی جورو بھی بے سبب چھوٹے
بچپن کی اس لنگڑی زبان میں صرف مزاح کا عنصر ہی نہیں اس کے اندر فکر کی شوخی بھی ہے۔یہی فکری نظام آگے چل کر شاد کی شاعری کا خاص حصہ بنا ۔
خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے
"”””
رات دو رات کا وقفہ بھی کوئی وقفہ ہے
مر چکا اب ترے بیمار میں کیا باقی ہے
شاد کی غزلیہ شاعری کا یہ فکری نظام ہمیں غزل کی تیسری دنیا کا سیر کراتا ہے۔غزل کی پہلی دنیا ولی دکنی نے آباد کی دوسری میر و غالب نے روشن کی اور تیسری دنیا شاد و اقبال نے بسائی۔کلیات شاد کے مرتب مشہور ناقد کلیم الدین احمد جب شاد کی اس فکری جہت سے روشناس ہو تے ہیں تو وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں ۔ (یہ بھی پڑھیں حکیم آغا جان عیش کی غزل گوئی۔ ڈاکٹر نوشاد منظر )
،،،میں نے کہا ہے کہ اردو غزل کی کاینات کی تثلیث میر ،غالب اور شاد ہیں۔میر میں خالص شاعری ملتی ہے یعنی جذبات کی شاعری ہے۔غالب کے فکری عناصر پر ضرورت سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔غالب نہ بڑے مفکر تھے اور نہ فلسفی کسی کے فلسفیانہ خیالات کا ہونا اور بات ہے اور اس کا فلسفی ہونا کچھ اور ۔۔۔شاد بھی فلسفی نہ تھے لیکن وہ مفکر شاعر ضرور تھے اور ان کی خلوت شعر میں انجمنیں بسی ہوئی ہیں ان کے فکری عناصر میں زیادہ بو قلمونی ہے ان کے افکار زیادہsustend ہوتے ہیں ۔،،
کلیم الدین احمد شاد کو غزل کا تیسرا اہم ستون مانتے ہیں مگر دلایل دینے میں بات آدھی ادھورے رکھی ہے ۔مثلا”اس کائنات غزل میں درد،اکبر ،اقبال اور فیض کو کہاں رکھیں گے ۔پھر فانی ،فراق ،اصغر اور جگر کا بھی مسئلہ ہے اور مومن ،داغ ،حسرت بھی فریادی ہیں۔انھیں اپنی بات کو مستحکم کرنے کے لئے کچھ جواز بھی فراہم کرنا چاہیے تھا۔جس طرح میر و غالب اپنے عہد کے نمایندہ غزل گو ہیں اسی طرح شاد بھی اپنے عہد کے نمایندہ غزل گو ہیں اور ان کی شاعری اپنے ہمعصر وں میں الگ پہچان رکھتی ہے۔
شاد اپنی شاعری کے متعلق ایک شعر یوں بیان کرتے ہیں۔
نمک ہے فارسی کا ،درد ہندی شاعری کا ہے
یہ اردو ئے معلی نکتہ سنجان عجم دیکھیں
اور اس خیال سے متاثر ہو کر کلیم الدین احمد یہ راے بھی قائم کرتے ہیں ۔
،،اگر عجمی اور ہندی طرزوں کی آمیزش شاد وسیع پیمانے پر کرتے تو شاید اردو شاعری ایک نیء راہ پکڑ لیتی ۔،،
اور نئی راہ نہ پکڑنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان میں جدت و اجتہاد کی قوت تو تھی لیکن اشعار کی اصلاح میں جو سعی پیہم کی وہ اپنے نئے رنگ کی آمیزش اور اسے نکھار نے میں نہیں کیا ۔اس بات کا اعتراف شکست شاعر کو بھی ہے لیکن وہ نئے تجربات کرتے رہے ۔انجم فاطمی شاد کی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ توحید،معرفت، رسالت،راز ونیاز،فلسفۂ عمل ،فلسفہ اخلاق اور فلسفۂ حکمت کے جو نکات بیان کیے ہیں وہ چیزیں بھی دوسرے غزل گو شعراء کے یہاں نا پید ہیں ،،۔
نئی بات آج تک اے شاد دیکھی کچھ نہ عالم میں
وہی گھٹتی ہوئی عمریں ،وہی مٹتی ہوئی دنیا
مندرجہ بالا شعر کو اگر ہم صرف روایتی معنی میں قرأت کریں تو موجودہ عہد کی حقیقت ہمیں معاف نہیں کرے گی ۔اور زمانہ جس طرح موت کی دستک سے لرزہ براندام ہے ۔اس صورت میں شاد کا ایک اور شعر نئی دنیا کی اضطرابی کیفیت سے ہم آہنگی کا خوبصورت عکاس ہے۔
کہاں سے لاؤں صبر حضرت ایوب اے ساقی
خم آےگا،صراحی آئے گی ،تب جام آئے گا
اور یہ جمالیاتی حس بھی کیا خوب ہے ۔۔۔
شبنم نے دیا غسل مری لاش کو اے دشت
اللہ ری غربت کہ کفن پوش ہوئی دھوپ
میر اور غالب اردو شاعری کے دو بڑے ستون ہیں ۔میر کی شاعری میں حزن وملال کا رنگ بہت گہرا ہے مگر مسرت بخش ہے ۔کہاجاتا میر کی شاعری ،،دل اور دلی کا مرثیہ ہے،،اس کے با وجود میر کی شاعری قنوطیت سے آزاد نہیں ہو پایا جب کہ شاد کے حزن وملال میں ایسی بات نہیں ہے
غنچوں کے مسکرا نے پہ کہتے ہیں ہنس کے پھول
اپنا کرو۔ خیال ہماری تو کٹ گئی
"”””””
منہ سے نکلا بھی تو ہر دکھ میں اسی کا شکوہ
لطف دیکھو کہ مصیبت میں وہی یاد آیا
جہاں تک شاد کی غزلیہ شاعری کا سوال ہے تو ان کی فکری متانت نے اپنے آنے والے عہد کو بے حد متاثر کیا ہے ۔جدید دور میں شاعری کی ڈگر پر غزل جس راہ چل رہی ہے اس میں ایک میر کا حزنیہ رنگ ہےجو فانی ،فراق اور ناصر کاظمی جیسے شاعروں کے یہاں بہت آسانی کے ساتھ تلاش کیا جا سکتا ہے دوسرا شاد کا فکری لہجہ ہے جس کی تفکر آمیزی میں متانت اور سنجیدگی حسن نعیم ،معراج فیض آبادی اور شہر یار جیسے شاعروں کے کلام میں دیکھا جا سکتا ہے رہی غالب کی بلند آہنگی کی بات تو اس کی شرح آسان نہیں ہے یاس یگانہ چنگیزی کی جسارت غالب شکنی میں قابل داد ضرور ہے مگر غالب غالب ہے ۔ہاں اردو شاعری میں میر و غالب کے بعد ایک نئی شاہراہ شاد عظیم آبادی کے ذریعہ بنتی دکھائی دیتی ہے جو نہایت کشادہ اور کھلی ہوی ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ | 

