اُردو میں ابنِ عربی کی دو تصانیف ”فصوص الحکم ” اور ” فتوحات ِ مکیّہ ” کے اُردو تراجم خاصے مقبول ہیں،چند ایک مختصر رسائل کا ترجمہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ دوسری جانب مستشرقین کی فرہادی کاوشوں کی بدولت شیخ ِ اکبر کاعلمی سرمایہ مختلف مغربی زبانوں (جرمن،فرانسیسی، ہسپانوی،روسی،ڈچ،انگریزی، چینی،جاپانی ) میں ترجمہ ہوتا رہتا ہے،اسی قبیلے کا ایک فرد آر۔ ڈبلیو۔ جے۔ آسٹن (R.W.J.Austin) بھی ہے۔ آسٹن ١٩٣٨ ء میں انگلستان میں پیدا ہوا اور لندن یونیورسٹی سے کلا سیکی عربی زبان میں آنرز کرنے کے بعد اسلامی تصوف میں پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی۔اس کی زندگی کا بیش تر حصہ اسلامی علوم و فنون کے مطالعے میں صرف ہوا۔تصوف کے قدیم مخطوطات خصوصاً ابن ِ عربی کے قلمی نسخوں پر تحقیقات اور تراجم جیسے مشکل کام سرانجام دے کر مسلم حکما کو حیران کر دیا۔ ابن ِ عربی کی شہرہ آفاق تصنیف ”فصوص الحکم ” کا انگریزی ترجمہ اسی محقق کا مرہونِ منت ہے۔ اس عظیم مستشرق نے یورپی ممالک میں اسلامی تصوف کو جس انداز سے متعارف کرایا وہ ہم سب کے لیے قابلِ فخر اور قابلِ تقلید ہے ۔
ابن ِ عربی کے دو رسائل ایسے ہیں جن کا تذکرہ تقریباً ہر محقق کرتا آیا ہے مگر عوام و خواص میں معدودے چند اصحاب نے اُنہیں کتابی یا قلمی صورت میں دیکھا ہو گا۔ان رسائل کا نام ” روح القدس” اور ” الدرة الفا خرہ” ہے۔ آسٹن نے بڑی تحقیق و جستجو کے بعدان رسائل کا انگریزی ترجمہ مع حواشی و تعلیقات شائع کر دیا ہے،جس کی پزیرائی اہل ِ مشرق و مغرب نے دل کھول کر کی ہے۔ابن ِ عربی کے ذاتی حالات، اُن کا عہد اور اساتذہ و شیوخ کی براہِ راست جانکاری کے لیے یہ رسائل کلیدی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ویسے تو شیخ ِ اکبر نے ” فتوحات ِ مکیہ ” کے کئی مقامات پر اپنے حالات بیان کیے ہیں لیکن پھر بھی تشنگی کا احساس باقی رہتا ہے یہ رسائل اُن کے فکری اور روحانی سفر پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں۔
ابن ِ عربی کی ان دونوں کتابوں میں سادہ،سہل اور رواں اُسلوب ِ نگارش ملتا ہے۔جو لوگ شیخ ِ اکبر کے ادق،علامتی اورعسیرالفہم طرزِ نگارش سے واقف ہیں اُن کے لیے اس تحریر کا پڑھنا ایک نیا خوشگوار تجربہ ہے۔ ان دونوں کتابوں میں خاصی مطابقت ہے، ابن ِ عربی نے دونوں جگہ اپنے شیوخ کا ذکر کیا جن میں چار خواتین بھی ہیں،یہ خواتین تصوف سے وابستہ اور راہِ طریقت میں خاص مقام پر فائز تھیں۔ اگر رسائل میں شامل مواد کو نیم سوانحی خاکے کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔آسٹن نے دونوں رسائل یکجا کر کے چھاپ دیے ہیں اور اس کتاب کا نام "Sufis of Andalusia” رکھاہے۔ یہ توام کتاب بارھویں اور تیرھویں صدی کے اُن اندلسی صوفیا کا احوال بیان کرتی ہے جو شیخ ِ اکبرکی شخصیت پر کسی نہ کسی حوالے سے اثرات مرتسم کرتے رہے۔آسٹن کی اس کتاب کا دیباچہ مارٹن لنگس(Martin Lins) کا لکھا ہوا ہے،وہ بھی اس کتاب کی اہمیت کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ ان رسائل کی انگریزی اشاعت کی بدولت یہ اضافی فائدہ بھی ہو گا کہ مغرب میں جو لوگ ابن ِ عربی کو محض ایک فلسفی سمجھتے ہیںوہ اب یہ اچھی طرح جان لیں گے ابن ِ عربی اصلاً ایک صوفی ہیں اور ان کا سلسلہ ء ولایت نہایت وسیع پس منظر کا حامل ہے۔
”روح القدس” اصل میں ایک طویل مکتوب ہے جو ابن ِ عربی نے اپنے ایک پرانے دوست ابو محمد عبدالعزیز بن ابو بکر القریش المداوی کواندازاً ١٢٠٣ء کے آس پاس اُس وقت تحریر کیا جب وہ خود مکہ میں مقیم تھے۔اس مکتوبی رسالے میں تین اہم موضوعات پر بات کی گئی ہے۔
( ا ) ابن عربی کے عہد میں تصوف میں جوغیر اسلامی عناصر اور کمزوریاں پیدا ہونا شروع ہو گئی تھیں اُن پر اظہار ِ خیال
(ب) تقریباً پچپن (٥٥) ایسے شیوخ کا ذکر جو ابن ِ عربی کی تربیت میں کسی نہ کسی حوالے سے شریک رہے
(ج) طریقت کے راستے پر پیش آنے والی مشکلات کا احوال،ابن ِ عربی نے اس ضمن کچھ اپنے ذاتی تجربات کا حوالہ بھی دیا ہے
جے آسٹن کا کہنا ہے کہ ” روح القدس ” اس انگریزی ترجمے سے قبل تین دفعہ طبع ہو چکی ہے۔تفصیل کچھ یوں ہے:
( ١) طبع اول ، سن ١٢٨١ء ، مقام (قاہرہ)
( ٢) طبع دوم، سن ١٩٣٩ ء ، مقام ( میڈرڈ)
( ٣) طبع سوم، سن ١٩٦٤ء ، مقام (دمشق)
اگر جے آسٹن چاہتا تو انہی طبع شدہ کتب کی مدد سے اپنی انگریزی کتاب کا متن بآسانی تیار کرسکتا تھا لیکن اُس نے استنبول یونیورسٹی کے کتب خانے سے وہ اولین قلمی نسخہ ڈھونڈ نکالا جو ابن ِ عربی کا اپنا تحریر کردہ تھا اور اُس پر اُن کے دستخط بھی موجود تھے۔اس قلمی نسخے کا سن ِ تالیف ١٢٠٣ ء ہے اور مخطوطے کا نمبر (79a,ff.1-103)ہے۔یہ نسخہ اپنی زمانی قدامت اور متنی صحت کی وجہ سے تاحال معتبر سمجھا جاتا ہے۔
آسٹن نے دوسری کتاب ” الدرة الفا خرہ” کا مکمل ترجمہ نہیں کیا (گو پہلی کتاب کا ترجمہ بھی مکمل نہیں ہے) بلکہ صرف جزوی ترجمے پراکتفا کیا ہے۔ یہ رسا لہ اصل میں ایک اہم اور بڑے تصنیفی منصوبے کا خاکہ(synopsis)ہے، ابن ِ عربی ماضی میں اسی عنوان کے تحت ایک جامع کتاب تصنیف کر چکے تھے جو غالباً اندلس یا شمالی افریقہ میں کہیں رہ گئی تھی۔ جب اُن سے اس کتاب کا تقاضا کیا گیا تو انہوں اپنی یادداشت کے زور پر اُسی کتاب کا خلاصہ لکھ کر بھیج دیا۔ اس رسالے کی وجہء تصنیف بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیںکہ ” دمشق کے ایک دوست نے مجھ سے درخواست کی کہ اپنے اُن تمام اساتذہ اور شیوخ کا احوال قلم بند کروں جو راہِ سلوک میں میرے مرشد رہے ہیں” ۔ اِن دونوں رسائل کا نفس ِ مضمون کم و بیش ایک جیسا ہے اسی لیے آسٹن نے ”درة الفاخرہ ” کے صرف اُنہی مباحث کا انگریزی ترجمہ کیا جو ” روح القدس” میں شامل نہیںہیں۔
”درة الفاخرہ ” کا جو مخطوطہ استنبول میں موجود ہے وہ ١٥٩٧ء (یا مزید ایک دو سال بعد) کا لکھا ہوا ہے، حالت خاصی شکستہ اور پڑھنا دشوار تر،مترجمین کو دوران ِ ترجمہ جن مشکلات سے گزرنا پڑا وہ ایک الگ داستان کا متقاضی ہے، تاہم اس مخطوطے کا حوالہ نمبر یہ (1777,ff.75-113b) ہے۔ یہ نسخہ ابن ِ عربی کی وفات کے تقریباً چار سوسال بعد لکھا گیااور تاحال اسے ” نسخہ ء وحید” کا درجہ حاصل ہے۔ابنِ عربی نے اپنے عزیز شاگرد صدرالدین قونوی کوجو فہرست ِ کتب مہیا کی تھی اُس میں ”درة الفاخرہ” کا نام موجود ہے۔قیاس غالب ہے کہ اس کتاب کا پہلا قلمی نسخہ ١٢٠٣ء سے قبل تحریر ہوا تھا۔آسٹن نے اُمید ظاہر کی ہے کہ اس کے دیگر قلمی نسخوں کا منظرِعام پر آنے کا قوی امکان موجود ہے۔اب ان کتابوں (جو اصل میں اب ایک ہی کتاب ہے۔) کے کچھ جستہ جستہ صفحات کا آزاد اُردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے تا کہ قارئین کو بھی اصل مندرجات سے آگاہی ہو سکے۔ اس ضمن میں کچھ اقتباسات حاضرِ خدمت ہیں۔
ابو جعفر العریانی: ”میرے یہ بزرگ اُس وقت اشبیلیہ) (Seville آئے جب میں طریقت کے ابتدائی مراحل طے کر رہا تھا اور دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی اِن سے ملنے جایا کرتا تھا۔وہ ہر وقت منا جات کی حالت میں ہوتے تھے ۔میں جب اُن کے پاس گیا تو وہ ملنے کے فوراً بعد ہی سمجھ گئے کہ میں کس روحانی ضرورت کے تحت اُن کے پاس آیا ہوں۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ”کیاتم نے خدا کے راستے پر چلنے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے؟”۔میں نے کہا کہ” شاید میں اس کا جواب نہ دے سکوں، لیکن خدا اس مسلے کا بہتر حل جانتا ہے ۔” وہ بولے”اگر تم دنیا کے دروازے اپنے اُوپر بند کر لو،خود کو تمام بندھنوں سے آزاد کر لو،اُس کی کریمی کو دوسرے ساتھیوں کی طرح تنہا سمیٹنے کی سعی کرو تو پھر خدا تم سے بغیر کسی درمیانی واسطے کے کلام کرے گا”۔چنانچہ میں نے یہ ریاضت مکمل کی اور وہ سب کچھ حاصل کیا جس کی طرف اُنہوں نے توجہ دلائی تھی۔میرے یہ بزرگ اَن پڑھ دیہاتی تھے،لوگ اُن کی وحدت الوجود پر زبانی عالمانہ گفتگو سے فیض حاصل کرتے اور تربیت کے اصول سیکھتے تھے۔ روحانی مسائل پر اُن کا فہم و ادراک قابلِ رشک تھا۔اپنی قوت ِ ارتکاز کی بدولت وہ لوگوں کی سوچ پڑھ لینے پر قادر تھے اور ہر شخص پر تصرف حاصل تھا۔اُنہیں ہمیشہ عبادت کی حالت میں دیکھا گیاہے،وہ اُٹھتے بیٹھتے قبلہ رُو رہتے اور اُن کی زبان پر اللہ کے صفاتی اسمائے مبارکہ کا ورد جاری رہتا۔
ایک دفعہ وہ کسی قافلے کے ساتھ سفر کر رہے تھے،اچانک انہیں کشف ہوا کہ اگلے دن قافلے کے تمام افراد گرفتار کر لیے جائیں گے، چنانچہ اپنے ساتھیوں کو آگاہ کر دیا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے مگر لوگوں نے کچھ خاص یقین نہیں کیا ،دوسرے دن عیسائیوں کے ایک ٹولے نے قافلے پر حملہ کر دیا اور تمام مردوںکو قیدی بنا کر لے گئے۔حیران کُن بات یہ ہوئی کہ تمام قیدیوں کو عام جگہ پر بند کر دینے کے بعد اِن بزرگوںکوحد درجہ ادب و احترام کے ساتھ ایک اچھے کمرے میں رکھ کر چند ملازمین کو ہمہ وقت ان کی خدمت پر مامور کر دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہ اس قید سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور میرے علاقے میں آ کر آباد ہو گئے۔میرے شیخ کا زیادہ وقت مراقبے میں بسر ہوتا، اور اپنی روحانی ترقی کی بدولت خوشی اور رجا کی کیفیات میں رہتے تھے۔جب میں اپنے چند احباب کے ہمراہ آخری بار اُن سے ملنے گیا تو ہمیں دیکھتے ہی عالمانہ اور فاضلانہ مسائل پر گفتگو شروع کردی ۔شاید میرے دوستوں کے ذہنوں میں جو سوالات مچل رہے تھے وہ اُن سب کے جواب دینا چاہ رہے تھے۔
ایک دفعہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہم سب شیخ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شر پسند ہاتھ میں خنجر لیے اندر داخل ہوا اور چاہا کہ شیخ کو قتل کر ڈالے،ہم سب نے مزاحمت کرنا چاہی،شیخ نے ہمیں ایسا کرنے سے روک دیا اور کہا کہ اس آدمی کو اپنی مرضی کر لینے دو،وہ خنجر لہراتا ہوا آگے بڑھتا گیا اور آپ کو مارنے کے لیے خنجر پر گرفت مضبوط کرنا شروع کی عین اُسی لمحے خنجر اُس کے ہاتھ میں رقص کرنے لگ گیا، حملہ آور گھبرا گیا اور آپ کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگا۔”
ابو عبداللہ محمد شرفی: ”یہ بزرگ نماز ِ پنجگانہ باقاعدگی سے ادا کرتے۔ طویل قیام کی عادت تھی اسی لیے پائوں پر ورم پڑ چکے تھے ۔عبادت کے دوران اتنا زیادہ روتے کہ ڈاڑھی موتیوں کی طرح چمک جاتی ۔آپ چالیس برس تک ایک ہی گھر میں قیام پذیر رہے جس میں روشنی اور آگ کا کوئی انتظام موجود نہیں تھا۔اپنی زندگی کو صرف عبادات کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ایک مرتبہ میں کسی جگہ پر اپنے علاقے کے پاگل آدمی کو دیکھنے میں محو تھا کہ میرے یہ بزرگ وہاں سے گزرے، جب مجھ پر نظر پڑی تو قدرے برہم ہوئے اور مجھے کان سے پکڑ کر ہجوم سے دور لے گئے اور کہا” کیا تم اس طرح کے کاموں میں مصروف رہتے ہو؟”،مجھے بہت شرمندگی ہوئی اور پھر اُن کے ہمراہ مسجد کی طرف چل پڑا۔وہ مجھے آئندہ پیش آنے والے واقعات کے بارے میں آگاہ کرتے رہتے تھے جو بعد ازاں بالکل ویسے ہی پیش آیا کرتے جیسا انہوں نے بتایا ہوتا تھا۔ لوگ اُن کی روحانی قوتوں سے کام بھی لیتے تھے۔جس شخص کا کوئی کام اُن تک پڑتا وہ پہلے اُن کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرتاپھر وہ بزرگ متعلقہ شخص کے ساتھ جاتے اور اُس کا ہر جائز کام روحانیت کے زور پر حل کر دیتے ۔ایک بار میں نے اُن سے درخواست کی کہ میرے لیے بھی دُعا کریں،اُسی وقت آنکھیں بند کرکے دعا میں محو ہو گئے۔مجھ پر ان کے بہت احسانات ہیں۔روحانیت میں وہ اعلیٰ مقام پر تھے،میرے دل میں ان کی بڑی قدر ہے اور کسب ِ فیض کا خاصا موقع ملا۔
ابویحییٰ صنہاجی ضریر : یہ ایک بصارت سے محروم بوڑھے شخص تھے جو زندگی کے آخری لمحات تک زبیدی مسجد میں خدمات انجام دیتے رہے۔ جب فوت ہوئے تو ہم نے خود انھیں المنتبرمیں دفن کیا اور رات قبر کے سر ہانے بسر کی۔میں کافی عرصہ اُن سے وابستہ رہا اور دیکھا کہ عبادات میں بہت اہتمام کرتے ہیں۔ وہ روحانی کیفیات سے مالا مال اور متصوفانہ علوم پر گہری نظر رکھتے تھے ۔میں نے اکثر اُن کو ایک چھوٹی سی کرسی پر بیٹھے دیکھا ہے۔ اُن کا انتقال اشبیلیہ میں ہوا اور وفات کے بعد اُن کی روحانی قوت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس بلند پہاڑ پر ہم انھیں دفن کرنے لے کر گئے، اُس جگہ ہمیشہ تند و تیز ہوائیں چلتی رہتی ہیں لیکن جس روز ہم جنازہ لے کر جا رہے تھے وہاں کی ہوائیں مکمل پُر سکون ہوگئیں۔علاقے کے تمام لوگ فطرت کی اس تبدیلی پر حیران تھے،جو احباب بزرگ کے مقام و مرتبے سے واقف تھے اُن سب نے رات قبر پر قیام کیا اور قرآن کی تلاوت کرتے رہے۔جب صبح لوگوں نے واپسی کا قصد کیا تو پہاڑی ہوائیں پھر دوبارہ اُسی تیزی سے چلنا شروع ہو گئیں۔ان بزرگوں کی زندگی میں لوگ مجھے اُن کا شاگرد کہا کرتے تھے۔وہ اکثر لوگوں سے دور رہتے اور خلوت کی تلاش میں ساحلِ سمندر پر گھومتے رہتے تھے۔
صالح الحزاز: آپ پیشے کے لحاظ سے موچی تھے،عبادات کا خاص خیال رکھتے اور اشبیلیہ میں مستقل قیام پذیر تھے۔آپ کم سنی یعنی صرف سات سال کی عمر سے ہی طریقت کی راہ پر چل نکلے اور خاص مقام تک پہنچ گئے۔ اُن کے بچپن کا زمانہ بھی عبادت و ریاضت میں بسر ہوا جب کہ اُن کے دوسرے ساتھی کھیل کود میں وقت گزارنا پسند کرتے تھے۔ان کے انکسار کا اندازہ یہاں سے لگائیے کہ اپنی گزر بسرکرنے
کی خاطر کفش دوزی کا پیشہ اختیار کیااورآپ اپنی والدہ کی خدمت پر مامور رہے۔اگرچہ آپ کی عمر بہت کم تھی لیکن آپ ابنِ اصّال کی کتابیں شوق سے پڑھتے اور اُس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے۔آپ لوگوں کی محفل سے دور رہتے اور زیادہ تر وقت خاموشی میں گزارتے۔اِن کے قریبی احباب کا کہنا تھا کہ وہ بلا ضرورت بات نہیں کرتے ۔میں جب بھی اُن کے ہمراہ ہوتا وہ مجھ سے باتیں کرتے اور بے پناہ شفقت کا اظہار فرماتے تھے۔اُن کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں دیکھا اور ہمیشہ حق بات پر قائم رہتے۔انہوں نے اپنی جان پہچان والوں کے لیے کچھ زیادہ روحانی کام نہیں کیے،البتہ اُن شناسا احباب کا کوئی کام کر دیتے جو اُن کے روحانی جوہر سے واقف بھی تھے ،لیکن زیادہ تر کام اُن لوگوں کے ہوتے جو یکسر اجنبی تھے اور جن سے دوبارہ ملنے کی کوئی اُمید نہ ہوتی۔ہمارے دوستوں میں ایک شخص اُن کے ساتھ گفتگو کرنے کا بہت خواہش مند تھا مگر کوئی طریقہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا،کافی سوچ بچار کے بعد اُس نے اپنا جوتا خود ہی خراب کیا اور مرمت کرانے کے لیے اُن کی جانب چل پڑا۔وہاں پہنچ کراس نے کہا کہ میرا جوتا مرمت کر دیں۔وہ بولے،ابھی تو میں ایک جوتا ٹھیک کر رہا ہوں فارغ ہو کر تمہارا جوتا دیکھتا ہوں، میرے دوست نے کہا کہ آپ جوتا رکھ لیں میں پھر کسی وقت آکر لے جائوں گا۔وہ بولے اس طرح تو مشکل ہو گا کیوں کہ اس دوران اگرمجھے موت آ گئی تو پھر کیا ہو گا؟ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ تم کسی اور سے مرمت کرا لو۔میرا دوست بولا آپ جتنے مرضی پیسے چاہیں میں دوں گاپر میرا جوتا ٹھیک کر دیں۔بزرگ نے جواب دیا کہ اگر تمہارا سخاوت کرنے کا اتنا ہی دل چاہ رہا ہے تو کسی اور ضرورت مند کی مدد کر لو۔یہ کہہ کر اُنہوں نے سلسلہء کلام منقطع کر دیا۔وہ مایوسی کی حالت میں واپس آ یا اور پوچھا اب کیا کروں؟ میںنے اسے سمجھایا کہ دوبارہ جائو اور کہو کہ میرا جوتا بغیر مزدوری لیے مرمت کر دیں۔وہ گیا،مگر اس دفعہ بزرگ نے اُسے صاف صاف کہہ دیا کہ اب تمہیں کسی اور شخص نے سمجھا کر بھیجا ہے۔اسی دوران اُن کی نظر مجھ پر پڑ گئی اور مجھے بُلا لیا،میں اُن کے پاس گیا تو ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے ” کیا ایک دوست دوسرے دوست کو اسی طرح تنگ کرتا ہے؟ کیا کسی کو زبردستی کام کے لیے مجبور کرنا اچھا عمل ہے؟ آئندہ ایسا مت کرنا! ”۔
آخر میں یہ نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ میرے دل میں تمہارے لیے جو محبت ہے اُس کی وجہ سے میں تمیں کچھ نہیں کہتا،لیکن میری ناراضی کو ہمیشہ یاد رکھنا۔بعد میں یہ بزرگ نظروں سے اوجھل ہو گئے،شاید لوگوں سے دور کسی جنگل بیابان میں جا کر آباد ہو گئے تھے۔
شمس اُم الفقرا: یہ پاکیزہ خاتون اشبیلیہ سے ساٹھ کلو میڑ دورجنوب میں مارچینا کے مقام پر رہائش پذیر تھی۔ مشائخ کی بڑی تعداد اِن سے ہدایت یافتہ تھی میں بھی اکثر اِن کے پاس جایا کرتا تھا۔ اُنہیں اپنے روحانی تصرفات پر جو قدرت حاصل تھی وہ ہمارے سلسلے کے لوگوں میں نہایت کمیاب ہے۔ان کو اپنی روحانی سرگرمیوں کے اعتبار سے درجہ فضیلت حاصل تھا۔وہ اپنے روحانی جوہر کا اظہار کم کم کرتی تھیں، میری یہ خوش نصیبی تھی کہ کبھی کبھار میرے سامنے کسی کرامت کا مظاہرہ محض اس وجہ سے کر دیتیں کہ انہیں بھی میرے کشفی ادراک کا پورا پورا شعور تھا،مجھے اس کی وجہ سے بڑی طمانیت حاصل ہوتی تھی۔خدا نے انہیں بے شمار صفات سے نواز رکھا تھا۔کشف و الہام میں اُن کا کوئی مدِ مقابل نہیں تھا۔اُن کی تمام تر روحانی کیفیات کا مدار خوفِ الٰہی اور اللہ کی خوشنودی میں مضمر تھا۔کسی صوفی میں اِن خوبیوں کا یکجا ہونامحال ہوتا ہے۔ (اِن کا کچھ احوال”درة الفاخرہ ” میں بھی درج ہے اب آگے اُس کتاب کا ترجمہ آ رہا ہے۔) میری جب اِن سے پہلی ملاقات ہوئی اُس وقت وہ اپنی عمر کی اسی(٨٠) بہاریں دیکھ چکی تھیں۔ایک دن عبد اللہ محروری اور میں اُن کے پاس گئے،معاً وہ کمرے کے ایک خالی حصے کی طرف دیکھ کر زور زور سے چلّاکر کہنے لگیں”علی واپس جائو اور رومال واپس لے کر آئو ”،جب ہم نے اُن سے پوچھا کہ وہ کس سے بات کر رہی ہیں تو بتایا کہ” علی (کوئی قریبی عزیز) اُن سے ملنے آ رہا تھا ، راستے میں پانی والی جگہ پر بیٹھ کر کچھ کھانے لگا اور جب اُٹھا تو اپنا رومال وہیں بھول گیا،میں نے آواز دی پھر اُس نے جا کر اٹھا لیا۔” جب علی گھر آیا تو میں نے اُس سے پوچھا کہ راستے میں کیا ہوا تھا؟ کہنے لگا ایک جگہ اپنا رومال بھول گیا تھا کہ اچانک شمس (اُم الفقرا) کی آواز آئی تو میں پلٹ کر رومال اٹھا لایا۔یہ خاتون دوسروں کی سوچ بھی پڑھ لیا کرتی تھیں۔اُن کا کشف لاجواب تھا اور میں اُن کی کئی کرامات کا مشاہدہ بھی کر چکا ہوں۔ڈاکٹر محسن جہانگیری نے اپنی فارسی تصینف ”محی الدین ابنِ عربی،حیات و آثار” (اس کتاب کا اُردو ترجمہ احمد جاوید اور محمد سہیل عمر نے کیا ہے) میں اس خاتون کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
” اپنے زمانے کے بڑے عُرفا میں سے تھیں۔ابن عربی پر خاص عنایت فرماتی تھیں۔ان کا شیخ پر بہت اثر تھا۔ابن عربی نے بار ہا اُن سے ملاقات کی اور بہ تکرار اُن کی مدح و ستائش کی ہے۔معاملات و مکاشفات میں اُن کوبڑی شان والا،اُن کے قلب کوقوی، ہمت کو بلند، اچھے برے کی پہچان کو مضبوط اور اُن کی برکات کو کثیر جانتے تھے۔ابن عربی نے انھیں” اولیایء اوھون اور نفس الرحمن ”کی منزل کے زمرے میں شمار کیا ہے۔”(ادارہ ثقافت ِ اسلامیہ،لاہور،طبع دوم،اکتوبر١٩٩٩ئ،ص٤٤)
فاطمہ بنتِ ابنِ المثنٰی قرطبی:ان کا قیام اشبیلیہ میں تھا۔جب میری اُن سے پہلی ملاقات ہوئی تو وہ تقریباً نوے (٩٠) برس کی تھیں۔لوگ اُن کے گھر کے با ہر جو کوڑا کرکٹ پھینک کر جاتے وہ اُسی میں سے اپنی خوراک تلاش کر کے کھا لیا کرتی تھیں۔اگرچہ وہ بہت بوڑھی اور خوراک بھی کم تھی لیکن اُن کا چہرہ اتنا ترو تازہ اور سرخ تھا جیسا عموماًجوان لڑکیوں کا ہوتا ہے،مجھے اُن کے پاس بیٹھتے ہوئے حیا آتی تھی۔ قرآن حکیم کی تلاوت کرنا اُن کا معمو ل تھا،خصوصاً سورة فاتحہ کی تلاوت کثرت سے کرتیں،اُن کا کہنا تھا کہ مجھے اس سورة پر مامور کر دیا گیا ہے،اور اس کی بدولت جوحیرت انگیز قوت نصیب ہوئی اُس کا استعمال میں حسبِ منشا کر سکتی ہوں۔
مجھے محسوس ہوا کہ اُن کی خستہ حال کُٹیااب اس قابل نہیں رہی کہ اُس میں کوئی رہ سکے چنانچہ میں نے اپنے دو قریبی احباب کے ساتھ مل کر اُن کے لیے ایک چھپر نُما مضبوط کمرہ تعمیر کردیا،تا کہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی آرام سے بسر کر سکیں۔وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ مجھ سے آج تک جتنے لوگ ملنے آئے اُن میں سے ابن ِ عربی نے زیادہ متاثر کیا۔جب اُن سے وجہ پوچھی گئی تو کہا:
” دوسرے لوگ میرے پاس اپنی جزوی شخصیت لیکر آتے ہیں،وہ ادھورے ہوتے ہیںیا اپنے آپ میں نہیں ہوتے۔لیکن ابن ِ عربی کی شخصیت بھرپور اور مکمل ہے،اسی لیے مجھے اس کے آنے پر تسکین ملتی ہے۔ابن ِ عربی جب آتا ہے تو اپنی ذات کو اِدھر اُدھر بکھیرتا نہیں بلکہ سمیٹ کر رکھتا ہے۔اس کا اٹھنا اور بیٹھنا مکمل ہے۔وہ میرے پاس آتے ہوئے اپنے باطن کا تمام سرمایہ ساتھ لے کر آتا ہے،اور ایک روحانی شخص کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔”
خدا کا اُن پر بڑا انعام تھاگو کہ اُن کے لیے دنیاوی جاہ وحشم حاصل کرنا کچھ مشکل نہ تھا،لیکن فقر کو خود پر ایسا طاری کیا کہ دنیا کی ہر شئے بے معنی ہو کر رہ گئی۔خدا کے عشق میں سر تا پا غرق رہنا اُن کی زندگی کا اصل نصب العین تھا۔ میں نے اکثر اُن سے کہتے سُنا ہے:
” مجھے اُن لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو خدا سے دوستی کا دم بھرتے ہیں مگرپھربھی رونا روتے ہیں،اُس کی دید سے شاد نہیں ہوتے،حالانکہ وہ تو ہمہ وقت اُن کے سامنے ہے اور پل بھر کوبھی اُن کی آنکھوں سے اوجھل نہیں،آخر یہ گریہ کنند گان کس منہ سے اُس کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ! کیا اُنھیں حیا نہیں آتی؟یہ خدا کے دوست نہیں ہیں؟محبت کرنے والوں سے بڑھ کر اُن کے محبوب سے اور کون قریب ہو سکتا ہے !یہ کس لیے آہ و زاری کر تے ہیں؟یہ ایک عجوبہ ہے”۔( یہ واقعہ کتاب العلم کاہے،میں نے یہ حوالہ ڈاکٹر محسن جہانگیری کی فارسی تصنیف ”محی الدین ابن عربی، احوال و آثار” کے اُ ردو ترجمے سے نقل کیا ہے،ص٤٠،٤١) ا ان کے روحانی اثرات بڑے گہرے تھے ۔ ایک بامقصد اور قابلِ رشک زندگی گزارنے کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔”
محولہ بالا اقتباسات اصل کتاب کی محض ایک ادنیٰ جھلک ہے اور یہ تمام واقعات ابنِ عربی کے ایک خاص دور سے متعلق ہیں۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شیخ ِ اکبر جادہء سلوک پر بغیر کسی اُستاد یا مرشد کے گامزن رہے۔یہ کتاب اس مفروضے کی نفی کرتی ہے۔اب اندازہ لگانامشکل نہیں رہا کہ مشائخ کی کثیر تعداد سے اُنھوں نے فیض اُٹھایا ہے۔مذکورہ عرُفا اور حکما کے علاوہ بھی اس کتا ب میں اشبیلیہ کی بلند پایہ ہستیوں کا تذکرہ ہے جن کا مطالعہ علوئے معارف کے پُر اسرار در وا کرتا ہے۔
,
Dr. Aamir Sohail – Head, Department of Urdu
Abbottabad Public School and College
Mansehra Road, Abbottabad, Pakistan
Tel: 0992 – 406571
Cell: 0331-5727998
Email: aamirsohailaps@hotmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page