علم وادب کا پارس پتھرپروفیسرڈاکٹر منصورعالم : ’’نتائج الافکار‘‘کی روشنی میں – ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی
منصور علم ایک ایسا نام ہے جس کی بازگشت جگتدل رستم گمٹی کی گلیوں سے اٹھ کر ایوان صدرجمہوریہ ہند کے گلیارے تک گونجی ہے۔یہ وہ نام ہے جو فارسی زبان و ادب کی ترویج و تحقیق میں بھی ایک نمایاں مقام رکھتاہے۔صدارتی ایوارڈیافتہ پروفیسرڈاکٹر منصور عالم کا دوسرے مضامین کا مجموعہ’’ نتائج الا فکار‘‘ مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے مالی تعاون سے منظرعام پرآیاہے۔کل۱۲تحقیقی مقالوں پر مشتمل یہ کتاب ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ مقالے ملک و بیرون ملک کے قومی اور بین الااقوامی سیمیناروں اور کانفرنسوں میں پڑھے گئے ہیں جس سے کتاب میں شامل مضامین کی اہمیت وافادیت و دبیزیت کا اندازہ ہوتاہے۔کتاب کا انتساب قلم کے نام معنون ہے جو علم وہنر کے فروغ میں نمایاں رول اداکرتاہے جس کاتذکر مقدس آسمانی صحیفہ قرآن وحدیث میں موجود ہے۔صوفی صفت اور خانکاہی اوصاف کے حامل پروفیسرڈاکٹر سیدمنال شاہ قادری قبلہ نے اس کتاب کے حوالے سے جو کچھ بھی لکھاہے وہ صاحب کتاب کی کثیرالجہات شخصیت نیزموصوف کی قلمی توانائی پر روشنی ڈالتاہے۔صاحب کتاب کے تحقیقی وادبی مضامین ملک وبیرون ملک کے مقتدررسائل وجرائد میں شائع ہوچکے ہیں جن میں ایران سوسائٹی کا شہرہ آفاق رسالہ انڈوایرانیکابھی شامل ہے جس میں کم بیش ۲۵انگریزی اور فارسی زبان میں تحقیقی مضامین شائع ہوئے ہیں۔سخن گفتنی کے باب میں مصنف:
’’نتائج الافکارمیرے بارہ ادبی،تحقیقی اور معلوماتی مقالوں کا مجموعہ ہے جسے میں نے علی گڑھ،حیدرآباد، دہلی، رامپور،پنجاب اور ڈھاکہ کے مختلف قومی اور بین الاقوامی سمیناروں اور کانفرنسوں میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔یہ میرے مقالوں کا دوسرا مجموعہ ہے جس میں اردو اور فارسی زبان و ادب کے حوالے سے مقالے شامل ہیں‘‘ ص:۶
بنیادی طور پروفیسرڈاکٹر منصور عالم کی وابستگی فارسی زبان وادب سے رہی لیکن مادری زبان کی وجہ سے انہوں نے اردو ادب سے بھی دلچسپی قائم رکھی صرف دلچسپی نہیں بلکہ تحقیقی میدان میں بھی انہوں نے اپنی سرگرمی د ِکھائی اور یکے بعد دیگرے دوکتابیں منظرعام پر آئیں۔ زیرنظرکتاب کا پہلامضمون ’’بنگال کی اردو شاعری میں اخلاقی قدروں کا تصور‘‘ ہے ۔اس مضمون میں انہوں نے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے درس و اخلاق کی شناوری بنگال کی اردو شاعری کے حوالے سے کی ہے۔بنگال کے شعرائ کی شاعری میں اخلاقی نظام کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے متراد ف ہے۔اس مضمون میںپروفیسر صاحب نے اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا ہے کہ دور فرنگی میں شاعروں اور ادیبوں کے ذریعہ دیے گئے درسِ اخلاق و تہذیب کی وجہ سے فرنگیوں کی فکری یلغار اور ان کی تہذیبی چمک دمک سے یہاں کے عوام متاثر نہیں ہوئے نیز ان کی تہذیب اور کلچر کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے انکاری بنے۔اس شناوری کے دوران صاحب کتاب معترف ہیں کہ بنگال کے کلاسکی شعرا کے کلام میں نصیحت ،غیرت،اخلاقی درس،محبت،عبادت،شجاعت،طہارت اور عفت کا بھی ذکر ہواہے۔آیات قرآنی اور احادث کی تلمیح، مذہبی علوم،تصوف کی خوشبو،زہدوقناعت اور توحید کے اظہار کی شمولیت ہوئی ہے۔توحیدی تصور سے اخلاق کی شعاعیں پھوٹتی ہیں پر ایمان رکھنے والے منصور عالم ہمارے کلاسکی شعرا کے کلام میں قناعت،توکل الہی، وفاومہر الفت،اخلاص خدمت خلق،توضیع وانکساری،جدوجہداور عمل،حسد،بغض رعا،دل آزاری،حرص وطمع اور توہم پرستی کے عناصر کو ڈھونڈکر تشت از بام کرتے ہیں جو قابل تحسین تحقیقی کام ہے۔
مضمون’’بنگال میں مسلمانوں کی جدید تعلیمی تحریکات کے چندعلمبردار‘‘میں یہ انکشاف ہوتاہے کہ سرسید سے پہلے مسلمانوں کو انگریزی تعلیم کی طرف راغب کرنے کا بیڑ اعبدالطیف نے اٹھایا تھا۔مسلمانوں کی تعلیمی سماجی اور ادبی فلاح و بہبود کے لیے بنگال کے ہوشمند حضرات ۱۸۶۰ میں عملی قدم اٹھایا جس سے متاثر ہوکر سر سید نے کلکتہ سے لوٹنے کے بعد ساننٹفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی تھی۔ مذکورہ اشخاص کا نصب العین یہ تھا کہ کس طرح مسلمانوں کو جدید علوم وفنون سے بہرور کیا جائے اور ان کے اندرسیاسی شعور پید اکیا جائے تاکہ وہ انتظامیہ کا حصہ بن سکیں اور ان کی زبوں حالی دور ہوسکے۔’’علامہ شبلی اوربنگال‘‘ میں شبلی کے خدمات کواجاگر کیا گیاہے جس میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ بنگال میں فارسی کا جو چراغ جل رہا ہے وہ شبلی کا مرہوں منت ہے۔ مولاناشبلی مسلم لیگ کے قیام کے منکر تھے۔انہوں نے مسلمانوں کے حق میں اس کا قیام سود مندنہیں سمجھا۔
’’بنگال میںتعلیم اور حقوق نسواں کی علم بردار:بیگم رقیہ سخاوت‘‘مضمون میں ان کے کارنامے کو چراغ دکھانے کی کوشش ہوئی ہے۔موصوفہ تعلیم نسواں اور تحفظ نسواں کی علمبردار تھیں ان کی خدمات کا بھرپور جائزہ اس مضمون میں شامل ہے۔بیگم رقیہ کا شمار ایسی شخصیات کی صف میں ہوتاہے جو اپنی قوم کی ترقی و کامرانی کی تاریخ مرتب کرتی ہیں اور اپنے پیچھے تاریخ کے اوراق پر تابندہ نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔رقیہ بیگم نے اپنی قوم کی سربلندی کے لیے جو جدوجہد کی وہ آبدار موتی کے مترادف ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ انیسویں صدی کا نصف آخر اور بیسویں صدی کا نصف اول ہندوستانی مسلمانوں خصوصاً بنگال کی سیاست میں عبوری دور رہا جب فرنگی حکومت تعلیمی نظام خصوصاًمسلمانوں کی تعلیم اور معاشرتی زندگی پر شب خون مارہی تھی۔اس پر آشوب دور میں سرسید جیسے ولی صفت انسان کاسامنے آنا اور اپنی قوم کی مسیحائی کا بیڑا اٹھانا معجزہ سے کم نہیں تھا۔بنگال کی مٹی پر بھی سرسید جیسے افکار رکھنے والے اشخاص سامنے آئے اور اپنی انتھک کوششوں سے اس طوفان کے رخ کو موڑانیز اپنی قوم کی تعلیمی سماجی اور معاشرتی زندگی کی بقاو تحفظ کے لیے کوشاں ہوئے اور ملت اسلامیہ کو خواب غفلت سے بیدار کیا۔ان کی اولادوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ وپیراستہ اور سرکاری ملازمتوں میں ان کی حصہ داری کے لیے جد وجہد شروع کی لیکن ادھر فرنگی حکومت میںنوالہ اتنا تر نہیں تھا تو ادھر حوصلے کا فریرالہرارہاتھا۔انہوں نے محسوس کیا کہ زمانہ اعلٰی تعلیم کا متقاضی ہے تاکہ زندگی کے ہر شعبے میں پر پھیلا یاجاسکے۔ اس مقصد کے تحت اسلامیہ کالج موجودہ مولانا آزاد کالج کی بنیاد رکھی گئی۔اس کار خیر کی سربراہی فضل الحق کی قیادت میں ہوئی ۔اس باب میں ڈاکٹر منصور عالم نے اپنے اسلاف کے کارناموں کو پیش کیاہے۔مولانا آزاد کالج کے حوالے سے یہ مضمون اس لیے اہمیت رکھتاہے کہ اس میں اس کالج سے منسلک تمام تاریخی باتیں سمٹ آئی ہیں۔اس مضمون کو کم از کم ہر تعلم یافتہ شخص کو ایک بارپڑھنا چاہئے تاکہ ہم اپنے اکابر کے کارناموں سے واقف ہوسکیں۔
ڈاکٹر موصوف ۱۹۶۴ سے 1967 تک اس تعلیمی گہوارے میں بطور طالب علم اور ۱۹۸۲ سے ۲۰۰۵ تک اس مادر علمی میں تشنگان علم کی پیاس بجھاتے رہے یعنی کم و بیش ۲۸ برسوں تک ان کی وابستگی اس کالج سے رہی ۔اس دوران انہوں نے بھی اس کے کتب خانے سے فیض اٹھایا۔کتب خانہ کسی قوم کی تہذیب و ثقافت کا مرکز ہے۔اس پر کسی قوم کی بقا وفنا کا انحصار ہوتاہے۔اس لیے اس کی افادیت کو سمجھتے ہوئے انہوں نے ’اردو زبان و ادب کے فروغ میں مولانا آزاد کالج کے کتب خانے کا حصہ ‘‘مضمون رقم کیا ہے۔مولانا آزاد کالج کے اس کتب خانے کے خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے موصوف رقم طراز ہیں:
’’مولانا آزاد کالج کا یہ کتب خانہ ایک ٹکسال ہے جہاں اردو ادب کے شہ پارے ڈھلتے ہیں۔اس کتب خانے سے فیضیاب ہوکر ایسے ایسے حضرات علم و ادب کی دنیا میں سرخرو ہوئے جن کا ایک زمانہ معترف ہے۔یہ کتب خانہ محض ایک کتب خانے کی حیثیت سے ہی نہیں جانا جاتاہے بلکہ یہ اردو زبان و ادب کے فروغ و ثقافت کے تحفظ اور استحکام میں طلبہ کی ذہنی اور علمی تربیت کے ذریعہ چمنستان اردو کو لالہ زار اور پر بہار بنانے میں قابل قدر خدمات انجام دے رہا ہے اور تادم تحریر تسلسل کے ساتھ اس کی اردو خدمات کا سلسلہ جاری ہے۔‘‘ ص:۱۱۰
زمانہ اسلام میں خطاطی وجود میں آئی اور وقت کے دھارے میں یہ فن پروان چڑھتارہا ۔دراصل خطاطی کسی رسم الخط کو یوں لکھنے کا فن ہے جو اس کے پڑھنے والوں کے احساس جمال میں دلنشینی پیداکر تاہے ۔برصغیرمیں یہ فن مغلوں کے زمانے میں عروج پر رہالیکن جب دورجدیدمیں سائنس وٹکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبے کومتاثرکیا توکمپوٹر نے زندگی کے ہر شعبے میں جہاں انقلاب لایا وہیں زوال فن ِخطاطی کا مقدر بنا۔اس ضمن میں یہ مضمون خاصے کا ہے جس میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ:
’’ماضی کے ہندوستان میںمذہب ،انسانی اقدار،اخلاقی روایات اور تہذیب نفسی کا ضامن تھا۔ہندوؤں کی مذہبی کتابیں مثلاً رامائن،گیتا،ہنومان چالیسواں،اپنیشد اور دوسری مذبی کتابوں کے فارسی تراجم اور ان کی خوش نما کتابت،قران شریف اور ا حادیث و بزرگان دین کے اقوال کی خوش خطی نے مل جل کر عہد اکبر میں ہندو مسلمان کے درمیان محبت،یگانگی اور مفاہمت کا ایک ایسا ماحول تیار کردیا تھا جس کی آج کے ماحو ل میں سخت ضروت ہے۔‘‘ ص:۱۲۴
مٹتی قدروں کے امین اور پیکر اخلاق و شرافت پروفیسرشاہ مقبول،پروفیسر جاوید نہال،فارسی کا ایک دریا جو سمندر میں اتر گیا،تہذب دانشوری و سخنوری کا نقش جمیل حشم الرمضان وغیرہ مضمون شخصیت کا اعتراف نامہ ہے جن میں مزکورہ اشخاص کے جوہر کو اجالنے کی کوشش ہوئی ہے کہ یہ شخصیتں دم آخر تک علم و ادب کے پاسباں رہے ۔
عالم، مفکر ،مفسر،دانشور،بے باک صحافی،حق وصداقت کا علمبردار،شعلہ بیاں مقرر نڈر جنگ آزادی کا مجاہد مولانا ابولکلام آزاد کے اقوال و افکار کی روشنی میں اس کتاب کا آخری مضمون قابل قدر ہے ۔اس معنوں میں کہ اس میں مولانا کے دور اندیشی پر مبنی اقتباس کی روشنی میں اِس جانب انگشت نمائی ہوئی ہے کہ مولانا نے اپنی ملت کو ہمیشہ صحیح رہنمائی کی۔انہوں نے رہبری کا حق اداکرتے ہوئے ہندومسلم دونوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا۔ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا نامساعد حالات کا ڈ ٹ کر مقابلہ کیا ۔فرنگیوں کی پھیلائی منافرت سے اہل وطن کو بچانے کے لیے ترغیب سجھائی ،حب الوطنی کا پیغام دیا اور دم آخر تک مشترکہ تہذیب کا علم اپنے کاندھے پر اٹھائے رکھا۔
المختصراس کتاب کو رقم کرنے کا مقصد یہی ہے کہ جو قوم اپنے اسلاف کے کارنامے کو بھول جاتی ہے وہ تاریخ کے اوراق میں گم ہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ پروفیسر صاحب نے اس کتاب میں زیادہ تر توانائی اپنے اسلاف کے کارنوموں کو گنوانے میں صرف کی ہے کیونکہ ان اکابرکے نقش پا سے ہی آنے والی نسلیں اپنا راستہ تلاش کرتی ہیں۔مجموعے کا متن فاروق ارگلی کے اس شعر کی پیروی کررہاہے۔
سچے الفاظ کو رکھتا ہے زمانہ محفوظ
آج کوئی نہ سنے پھر بھی سناتے رہنا
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |

