جو سوی میں شب کو ، تو دیکھا اک خواب
جسے دیکھ کر ، بڑھ گیا اضطراب
ہیں کوی بزرگ ، جو جھنجھلا رہیں ہیں
بات کوی مصلحت کی، مجھے بتا رہے ہیں
کہ آنکھوں سے پردے ہٹا لو زرا
ہے وقت اب بھی، خود کو سنبھالو زرا
ہو تم کون سی قوم ، پہچان کر لو
بے جان سی خرد میں، جان بھر لو
یہ جو مال و دولت پہ کرتے ہو ناز
اولاد تو جیسے تمہاری کامیابی کا تاج
ہے سب کچھ یہ وقتی اور نا پایدار
اتارو بھی دل سے ، اب ان کا خمار
اگر چاہتے ہو معروفوں میں اپنا شمار
انہیں خرچ کرنا نہ سمجھو دشوار
راہ خدا میں ، جتنا زیادہ لگاو گے
نیکی کی شکل میں، اسے واپس پاوگے
یہ سن کر کہ مجھکو ،حیرانی ہوی
بڑی بات منھ سے نکلی، نادانی ہوی
کہا میں نے کہ ، مال تک تو ہے بات ٹھیک
اولاد کے خرچ کی، بتا دو ترغیب
وہ ہنس کر یہ بولے ، ہو نادان تم
بتاتا ہوں سب ، نہ ہو پریشان تم
جس چیز کو بھی ، تم رکھتے ہو مرغوب
کر دو کچھ حصہ، راہ خدا میں منسوب
اولاد کے تعلق تو ہے کہنا یہی
کہ سکھاو اسے دین کی آگہی
قرآن میں ہے اللہ کا فرمان یہ
نبیوں ، صحاباو کا بھی ایمان یہ
سنی بات یہ ، تو دل میں ایا قرار
بے دھڑک منھ سے نکلا، شکریہ بار بار
ثنا شمیم