اُترپردیش میں ایک ضلع ہے بارہ بنکی، اس شہر میں چھوٹے بڑے بہت سے گاؤں ہیں جہاں قدوائی کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اب یہ قدوائی پورے ہندوستان کیا پوری دنیا میں پھیل گئے ہیں۔ جس طرح اعلیٰ نسل کے مسلمان صدیقی، فاروقی، عثمانی یا علوی اپنے نام کے ساتھ لگانے پر فخر محسوس کرتے ہیں، اسی طرح قدوائی کا لاحقہ بھی اعلیٰ نسل ہونے کی دلیل ہے۔ لفظ قدوائی کے متعلق مختلف روایتیں ہیں کہ خواجہ معین الدین چشتیؒ کے زمانے میں قاضی قدوۃ الدین نام کے ایک بزرگ ہندوستان آئے تھے، جو کچھ عرصہ دہلی میں قاضی کے فرائض انجام دے کر اُترپردیش کے پورب میں چلے گئے۔ مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی ’’آپ بیتی‘‘ کے مطابق محمود غزنوی کے کسی قافلے کے ساتھ ہندوستان آئے اور اجودھیا (فیض آباد) میں آباد ہوگئے، جہاں ان کا مزار بھی ہے۔ قاضی قدوہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی اولاد نے اپنے جدّاعلیٰ کے نام کی مناسبت سے اپنا سرنیم قدوائی رکھ لیا، جو آج تک رائج ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قدوائیوں کا تعلق مدینے کے یہودیوں یا بنی اسرائیل سے تھا۔ دراصل قُدوہ (Qudwah) عربی کا لفظ ہے جس کے اردو معنی ’نمونہ‘ ہے۔ قدوہ فلسطین کا ایک مشہور خاندان بھی تھا۔ قُدوہ (Qudwah) ہندوستان میں آکر کب قِدوہ (Qidwah) بن گیا اور کب انگریزی میں کِدوہ (Kidwah) بنا اور کدوائی (Kidwai) لکھا جانے لگا، ہمیں نہیں معلوم۔ ضروری بھی نہیں کہ ہر بات ہمیں معلوم ہو۔ ہم تو قدوائیوں کو جانتے ہیں اور جتنا جانتے ہیں اس سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ جس کے نام کے ساتھ قدوائی لگا ہوا ہے وہ پڑھا لکھا بھی ہے اور کسی بڑے عہدے پر بھی فائز ہے۔ یہ شاید سرنیم کی برکت ہے۔ ان کے خاندان میں سپہ گری کا شاید کسی کو شوق نہیں تھا ورنہ اودھ کے معرکوں میں کہیں تو نام ہوتا۔
دراصل قدوائی صاحب کے جدّاعلیٰ قاضی قدوۃ الدین نے اپنا وطن ہی اس لیے چھوڑا تھا کہ وہ ہتھیاری نہیں بلکہ زبانی جنگ پر یقین رکھتے تھے، بھائیوں کو حکمرانی کے اختیار دے کر ہندوستان آگئے۔ ہندوستان میں رہ کر بھی کبھی ہتھیار نہیں اُٹھایا۔ قاضی کا عہدہ سنبھالا جس میں ہتھیار کی ضرورت نہیں پڑتی، زبان اور قلم فیصلے کرتا ہے۔ جب تک ملک میں تلوار بازی رہی، اُن کے خاندان کا کوئی آدمی سیاست میں نہیں آیا، جب زبانی اور قلمی سیاست کا دور شروع ہوا تو اپنے جوہر آزمائے اور کامیاب ہوئے۔ رفیع احمد قدوائی، شفیق الرحمن قدوائی، انیس قدوائی، ہاشم قدوائی نے ایوانوں میں زبانی جنگیں لڑیں اور مولانا عبدالماجد دریاآبادی سے لے کر پروفیسر عبدالرحیم قدوائی تک نے قلمی معرکے سر کیے۔ مولانا نے خدا جانے کیوں اپنے نام کے ساتھ قدوائی کی جگہ دریاآباد کو ترجیح دی ورنہ وہ بھی خالص قدوائی ہیں اور قاضی قدوۃ الدین کی علمی روایت کو آگے بڑھانے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
بارہ بنکی کا علاقہ اردو زبان و ادب کے لیے بڑا زرخیز رہا۔ یہاں کے ہر گاؤں میں اردو کے نامور ادیب اور شاعر پیدا ہوئے۔ اٹھارہویں صدی میں دہلی میں میر کے معاصرین تلاشِ معاش میں پورب کی طرف گئے تھے، بیسویں صدی میں پورب کے لوگ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جوق در جوق علی گڑھ آگئے، جن میں اچھے خاصے قدوائی بھی تھے۔ رفیع احمد قدوائی سے لے کر شافع قدوائی تک یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ جب ہم علی گڑھ کے منٹو سرکل میں پڑھتے تھے تو قدوائی برادری مختلف درجات میں موجود تھی۔ سلیم قدوائی ،عبدالرحیم قدوائی، مظاہر قدوائی، مصاعد قدوائی، مجاہد قدوائی وغیرہ۔ بارہ بنکی سے نکل کر زیادہ تر قدوائی لکھنؤ اور علی گڑھ یا پھر دہلی اور کراچی میں آباد ہوئے۔ قدوائیوں کے علی گڑھ میں اعلیٰ عہدوں پر ہونے کے سبب ہمارے اوپر اُن کے اعلیٰ نسل ہونے کا رعب پڑچکا تھا۔ تعلیم کے علاوہ دیگر سیاسی، سماجی اور ادبی سرگرمیوں میں قدوائی برادری پیش پیش نظر آتی تھی۔
جب ہم علی گڑھ سے دہلی آئے تو جامعہ نگر میں رہائش اختیار کی۔ پروفیسر قمر رئیس صاحب سے قربت تھی اور قمر صاحب سے قربت رکھنے میں ایک صدیق الرحمن قدوائی بھی تھے، جن کا قیام جامعہ نگر ہی میں تھا اور اب بھی ہے۔ قمر صاحب اور اردو کی وجہ سے قدوائی صاحب سے ہماری بھی قربت بڑھ گئی۔ یوں بھی علی گڑھ کے زمانے ہی سے ہم قدوائی برادری سے مرعوب تھے۔ رفیع احمد قدوائی نے جدوجہد آزادی میں گاندھی جی کا ساتھ دے کر قدوائیوں کی ہندوستان میں ناک اونچی کردی اور شفیق الرحمن قدوائی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ ہمارے دل میں مذکورہ شخصیات کی قدر اس لیے تھی کہ دونوں علی گیرین تھے اور ہم سے بہت زیادہ سینئر تھے۔ علی گڑھ میں سینئر کی عزت لازمی ہے۔ قدوائی صاحب کی قدر و منزلت کی ایک وجہ اُن کا علی گیرین ہونا بھی ہے۔ ویسے بھی زیادہ تر قدوائی بارہ بنکی سے نکل کر علی گڑھ کا ہی رخ کرتے تھے۔ صدیق الرحمن قدوائی صاحب 20 ستمبر1936 کو پیدا تو بارہ بنکی کے ’بڑا گاؤں‘ میں ہوئے، لیکن بارہ بنکی کے اسکول یا کالج میں پڑھنے کے بجائے والد کے پاس دہلی آگئے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے دہلی میں نامور کالج بھی تھے اور یونیورسٹی بھی، مگر ہر علی گیرین کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کا بچہ کچھ دن علی گڑھ میں زندگی گزارے، اسی لیے قدوائی صاحب کے والد نے انھیں بھی 1951 میں بی اے کرنے کے لیے علی گڑھ بھیج دیا۔ تعلیم مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ ان کے والد شفیق الرحمن قدوائی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ قدوائی صاحب ایم اے کرنے کے بعد واپس دلی آگئے اور دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کی سرپرستی حاصل کرکے پی ایچ ڈی کرڈالی۔ اس زمانے میں پروفیسر خواجہ احمد فاروقی دہلی یونیورسٹی میں اردو کے مطلق العنان بادشاہ تھے، جسے چاہتے تھے اپنے نورتنوں میں شامل کرلیتے تھے۔ فاروقی صاحب نے قدوائی صاحب کی صلاحیت اور لیاقت کو آزمانے کے لیے پی ایچ ڈی سے پہلے ماسٹر رام چندر پر ایک کتاب لکھوائی اور جب معیار پر انھیں کھرا پایا تو 1961 میں اپنے رفقاء میں شامل کرلیا، جہاں پہلے سے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ڈاکٹر قمر رئیس موجود تھے۔ ان دونوں کی موجودگی میں بھولے بھالے شریف الطبع صدیق الرحمن قدوائی کی کیا حالت ہوئی ہوگی، یہ تو وہی بتاسکتے ہیں لیکن قدرت نے ان کی مدد کے لیے بہت جلد شعبہ میں ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی، ڈاکٹر شمیم نکہت اور ڈاکٹر محمد حسن کو بھیج دیا، یہ بھی قدوائی صاحب کی ایک غیبی مدد تھی کہ ڈاکٹر خلیق انجم شعبۂ اردو کے بجائے کروڑی مل کالج میں تھے، ورنہ سب جانتے ہیں کہ مرحوم ڈاکٹر خلیق انجم کی موجودگی میں لوگوں کو اپنی دستار سنبھالنا مشکل ہوتی تھی۔ ایسے ہی دلّی والوں کے سبب کسی شاعرؔ نے اپنی پگڑی سنبھالنے کی تلقین کی تھی، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ قدوائی صاحب، ڈاکٹر خلیق انجم، ڈاکٹر شمیم حنفی اور ڈاکٹر اسلم پرویز کاساتھ چار درویش یا چار خلفائے اردو کا سا تھا۔
میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ قدوائی برادری تعلیم کے علاوہ سیاسی، سماجی اور ادبی سرگرمیوں میں بھی ہمیشہ سرگرم رہی۔ میرا خیال ہے بہت سے بارہ بنکی کے غیرقدوائیوں نے قدوائیوں کی قدر دیکھ کر اپنے نام کے ساتھ سیّد اور خان کی طرح قدوائی لگانا شروع کردیا ہوگا۔ خیر اگر کسی سابقے یا لاحقے سے کسی کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے تو ہم کیوں پریشان ہوں۔ قدوائی صاحب تو شجرتاً قدوائی ہیں۔ اصل قدوائی کو اگر پہچاننا ہو تو صورت نہیں سیرت دیکھنی ہوگی، وہ ذہین بھی ہوگا اور تعلیم یافتہ بھی۔ ساتھ ہی اس کے اندر خدمت خلق کا جذبہ بدرجۂ اتم پایا جائے گا، خدمتِ خلق کا جذبہ قدوائی خاندان کی خواتین میں کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے۔ قدوائی صاحب کی والدہ صدیقہ قدوائی اپنے شوہر کے شانہ بشانہ کیا قدم بہ قدم سماجی خدمات میں ساتھ رہیں۔ جامعہ میں عورتوں اور بچوں کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا، تعلیمی مراکز کے طور پر دہلی میں کئی جگہ بالک ماتا سینٹر قائم کیے، راجیہ سبھا اور میونسپل کارپوریشن کی ممبر بھی رہیں۔ جس طرح قدوائی صاحب کے والد کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اُن کی والدہ کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ میں قدوائی صاحب سے ایک بات پوچھنے کی کبھی ہمت نہ کرسکا کہ جب صدیقہ بیگم پہلے سے گھر میں موجود تھیں تو اُن کے والد کو ’صدیق‘ کے علاوہ اپنے نام کا کوئی اور ہم قافیہ لفظ کیوں نہیں ملا۔ خدا جانے کیا مصلحت تھی۔ قدوائی صاحب کی والدہ کے علاوہ قدوائی خاندان کی انیس قدوائی، امینہ قدوائی، حبیبہ قدوائی اور محسنہ قدوائی جیسی خواتین بھی سماجی، سیاسی اور ادبی خدمات انجام دے رہی تھیں۔
ہم جب دہلی کے شعبۂ اردو میں آئے تو اس وقت تک پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کے قائم کردہ شعبہ میں ایک درجن سے زیادہ اساتذہ آچکے تھے، لیکن پروفیسر محمد حسن اور پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی شعبہ سے رخصت ہوکر نئی نویلی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں جاچکے تھے۔ ترقی پسندوں کی یونیورسٹی تھی، ہر ایک کو ترقی کی تلاش تھی۔ یوں تو قمر رئیس صاحب بھی ترقی پسند تھے، لیکن انھیں دہلی یونیورسٹی میں ہی اچھی خاصی ترقی مل رہی تھی۔ محمد حسن صاحب سے ہماری علیک سلیک علی گڑھ کے زمانے ہی سے تھی، قدوائی صاحب سے یہاں آکر ہوگئی۔ اوّل تو وہ شعبہ سے وابستہ رہ چکے تھے، دوسرے ہم محلہ تھے، ان کے دولت خانہ اور ہمارے کرایہ خانہ کا فاصلہ پیدل ہی طے کیا جاسکتا تھا ویسے چالیس سال قبل جامعہ نگر میں رکشے بھی نہیں تھے۔ اپنے جسمانی وزن کے علاوہ متعلقہ سامان کو بھی خود اٹھاکر چلنا پڑتا تھا۔ ہمارے اور قدوائی صاحب کے درمیانی راستے میں ڈاکٹر اجمل اجملی جیسے مخلص انسان کی رہائش گاہ تھی، جن کے پڑوس میں کوثر چاندپوری بھی آباد تھے۔ بڑے ادیبوں سے ملاقات میں کبھی ہماری افسانہ نگاری کام آتی اور کبھی پروفیسر قمر رئیس صاحب سے قربت۔ ویسے دہلی میں آکر بہت جلد ہماری ملاقات دہلی میں موجود ہر عمر کے سو فی صد ترقی پسند، نیم ترقی پسند اور غیر پسند ترقی پسند سبھی ادیبوں اور شاعروں سے ہوگئی تھی۔ کچھ بزرگوں نے اپنی خاندانی اخلاقی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے گھر کے دروازے بھی ہمارے لیے کھلے رکھے تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے دل میں جب بزرگانہ باتیں سننے کی خواہش بیدار ہوتی تو ہم کبھی ہم ڈاکٹر اجمل اجملی کے چلے جاتے، کبھی تاباںؔ صاحب کی خیریت معلوم کرلیتے، کبھی عنوان چشتی صاحب یا عتیق صدیقی صاحب کے یہاں چائے پی لیتے، کبھی ’’باغ شفیق‘‘ میں بیٹھ کر قدوائی صاحب کے مشفقانہ کلمات سے استفادہ کرتے۔ قدوائی صاحب کی رہائش گاہ عہد حاضر میں واقعی دولت خانہ ہے۔ گھاس کے میدان میں مونڈھوں پر بیٹھ کر چائے پینے کا لطف دہلی میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ بانیانِ جامعہ ملیہ نے اوکھلا گائوں میں بڑی بڑی کوٹھیاں بناکر اسے شہر بنادیا۔ اللہ کرنل بشیر حسین زیدی مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت عطا کرے کہ جن کی درواندیشی کے سبب اُن کی زمین پر کتنے بے گھر لوگوں کو سر چھپانے کے لیے معقول جگہ مل گئی اور اُن کے وارثین کو خوش حالی۔
چالیس سال پہلے اوکھلا بہت پُرسکون جگہ تھی، مختصر آبادی تھی۔ پہلے لوگ سڑکوں پر آدمیوں کو تلاش کرتے تھے اور اب سڑکوں پر چلتے وقت بھیڑ میں خود کو تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اوکھلا بہت قدیم گائوں ہے، یہاں گوجر اور گدی برادری کے لوگ رہا کرتے تھے۔ جامعہ ملیہ کے آنے سے یہاں کا ماحول ہی بدل گیا۔ ابتدا میں جامعہ کی حدود بھی محدود تھیں۔ دریائے جمنا کی وجہ سے اوکھلا سیر و تفریح کا مقام بھی بنا ہوا تھا۔ نہ صرف پرانی دہلی سے بلکہ دور دراز سے لوگ پکنک کے لیے آیا کرتے تھے۔ تاباںؔ صاحب ذاکر نگر سے روزانہ شام کو ٹہلنے کے لیے اوکھلا ہیڈ تک جاتے تھے۔ اگر آجکل وہ ہوتے تو گھر سے باہر بھی نہیں نکل پاتے۔ اس زمانے میں اوکھلا سے آمدورفت کے لیے چند بسیں چلا کرتی تھیں۔ دورانِ ریسرچ تو ہم گھر سے کسی وقت بھی چلے جاتے تھے، لیکن جب پڑھانے کی ذمہ داریاں آئیں اور وہ بھی صبح آٹھ بجے تو روزی حلال کرنا کافی تکلیف دہ ثابت ہوا۔ قدوائی صاحب 1961 سے 1974 تک دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ ایک دن جب ہم نے اپنی تکلیف ظاہر کی تو کہنے لگے:
’’آپ کو تو بہت سہولت حاصل ہے، ہم سے پوچھئے، بیس سال پہلے ہم سردی کے موسم میں آٹھ بجے کی کلاس میں پہنچتے تھے۔ صبح چھ بجے گھر سے نکلتے تھے۔ صبح کو اُٹھتے وقت ایسا لگتا تھا کہ سحری کھانے کے لیے اُٹھ رہے ہیں۔‘‘
شعبۂ اردو میں ابتدا ہی سے سرٹیفکیـٹ کورس اور ڈپلوما کی کلاسیں صبح آٹھ بجے سے ساڑھے نو بجے تک ہوا کرتی تھیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان میں ملازم طبقہ اردو سیکھنے کے لیے داخلہ لیتا تھا۔ ڈاکٹر شمیم نکہت نے ہزاروں طلبہ کو اردو سکھائی۔ قدوائی صاحب اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیتے:
’’آپ نے خواجہ احمد فاروقی صاحب کی صدارت نہیں دیکھی، ورنہ آپ کلاس کے وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے کلاس روم کے باہر کھڑے ہوتے۔ کسی ٹیچر کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ اُن کے کمرے کے دروازے کے سامنے سے بھی گزر جائے۔‘‘
میں نے بھی یہ سن رکھا تھا کہ فاروقی صاحب کا عہد صدارت عہد اکبری سے کم نہیں تھا۔ جلالِ فاروقی جلال اکبری کی یاد دلاتا تھا، یہی وجہ ہے کہ پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کے زمانے میں شعبۂ اردو نے وہی عروج حاصل کیا تھا جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان کو حاصل ہوا تھا۔ قدوائی صاحب 1974 میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی چلے گئے اور 2001 میں وہاں سے سبکدوش ہوئے۔ تقریباً ان کی زندگی کی چار دہائیاں درس و تدریس سے وابستہ رہیں۔ ان چار دہائیوں میں انھوں نے کبھی اپنے فرائض میں کوتاہی نہیں برتی۔ اوکھلا میں رہنے والوں کے لیے دہلی یونیورسٹی یا جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے فاصلے ایسے نہیں ہیں کہ سائیکل یا رکشہ سے چلے جائیں۔ میلوں کا سفر طے کرنا ہوتا ہے۔ قدوائی صاحب جب دہلی یونیورسٹی میں تھے تب بھی بحر ظلمات کو پار کرکے وقت پر یونیورسٹی پہنچ جاتے تھے اور جب جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں آئے تب بھی وقت کے پابند رہے، جبکہ میں نے کبھی انھیں سائیکل، اسکوٹر یا کار چلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ خدا جانے کسی اور کو یہ نظارہ دیکھنے کو ملا یا نہیں۔ جب ’’بے کار‘‘ تھے بس میں سفر کرتے تھے، جب کار آگئی تو چلانے کے لیے ڈرائیور رکھ لیا۔ ہوسکتا ہے دورانِ تعلیم قدوائی صاحب علی گڑھ میں سائیکل چلاتے ہوں، کیونکہ وہاں تو معروف مورخ پروفیسر عرفان حبیب نے بھی تاریخی کتابیں سائیکل پر ہی سفر کرکے لکھی ہیں، اُن کی تندرستی کا راز بھی اُن کی سائیکل ہے۔ زندگی کو ری سائیکل (Recycle) کرنے کے لیے سائیکل بہت ضروری ہے۔ میں نے کبھی قدوائی صاحب کو تدریسی خدمات ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا، لیکن تدریسی خدمات کے لیے جاتے ہوئے ضرور دیکھا ہے۔ اوکھلا سے ایک بس جس کا نمبر 507 ہے، جو دھولا کنواں جاتی ہے۔ یہ بس جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے بھی گزرتی تھی، قدوائی صاحب اسی بس سے یونیورسٹی جاتے تھے۔ بس میں بائیں طرف کنڈیکٹر سے ایک دو سیٹ آگے ان کی سیٹ متعین تھی۔ قدوائی صاحب کیونکہ بائیں بازو والوں کے نظریات سے قریب تھے، بائیں بازو والوں کی یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے، اس لیے بس میں بھی بائیں جانب بیٹھتے تھے۔ قدوائی صاحب کے معتبر شاگرد بتاتے ہیں کہ انھوں نے کبھی پڑھانے میں کوتاہی نہیں برتی، کوئی موسم انھیں پڑھانے سے نہیں روک سکا، کبھی کبھی تو بے کار گھومتے ہوئے طلباء کو پکڑکر لے جاتے تھے اور پڑھانا شروع کردیتے تھے، اس لیے بعض بدذوق طلباء انھیں دیکھ کر راستہ ہی بدل لیتے تھے۔ دراصل پڑھاتا وہی ہے جس کے پاس علم ہوتا ہے ورنہ ہماری دانش گاہوں میں بہت سے اساتذہ ایسے بھی ہیں، جو طلباء کو دیکھ کر بھاگتے ہیں، پڑھانے کے علاوہ تمام کام استادانہ ڈھنگ سے انجام دیتے ہیں۔ قدوائی صاحب نے پڑھانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔
قدوائی صاحب کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب سے ماسٹر رام چندر کا نام سنا ہے۔ ماسٹر رام چندر دلّی کالج میں پڑھاتے تھے اور قدوائی صاحب دہلی یونیورسٹی میں۔ جب بھی رام چندر کا نام سامنے آتا تھا، قدوائی صاحب کی شکل سامنے آجاتی تھی اور جب قدوائی صاحب کو دیکھتا تھا تو ماسٹر رام چندر یاد آجاتے تھے۔ دہلی آکر معلوم ہوا کہ یہ دونوں الگ الگ شخصیات ہیں۔ دہلی ابتدا ہی سے سیاسی، سماجی اور ادبی معرکہ آرائی کا مرکز رہی ہے۔ اردو میں اٹھارہویں صدی میں بھی معرکے ہوئے اور انیسویں صدی میں بھی۔ بیسویں صدی تو معرکوں کی صدی ہی تھی، کیونکہ اس صدی میں اتنے زیادہ ادبی نظریات سامنے آگئے کہ اُن کا آپس میں ٹکرانا تو لازمی ہی تھا، کوئی ترقی پسندی کا جھنڈا اٹھائے ہوا تھا کوئی جدیدیت کا اور کوئی مابعد جدیدیت کا۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو بغیر جھنڈے کے صرف ڈنڈے کے بوتے پر سب پر رعب جمانے کی کوشش کرتے تھے۔ کچھ کے قبضے میں یونیورسٹیاں تھیں، کچھ کے پاس سرکاری یا نیم سرکاری یا غیرسرکاری اداروں کے اختیارات تھے۔ کچھ لوگوں کی اس لیے قدر ہوتی تھی کہ ان کے ہاتھوں میں انعامات کا لین دین تھا، کچھ لوگوں سے لوگ اس لیے خوف زدہ رہتے تھے کہ ان کے اختیارات میں اعزازات کو چھیننا بھی شامل تھا۔ قدوائی صاحب طبیعتاً انتہائی شریف آدمی ہیں۔ دہلی میں بعض دہلی والوں کے ساتھ رہ کر بھی ’’بڑا گاؤں‘‘ کی شرافت پر انھوں نے داغ نہیں آنے دیا۔ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘‘ پر قائم رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھیں ہر ادبی طبقہ میں عزت ملی، بلکہ غیر ادبی طبقے نے بھی ’پدم شری‘ کے اعزاز سے نواز دیا۔ اللہ جسے عزت دے۔
گزشتہ چالیس دہائیوں کا قدوائی صاحب کی ادبی سرگرمیوں کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ غیر ادبی سرگرمی میری دانست میں شاید ان کی زندگی میں کوئی نہیں ہے، جبکہ انھوں نے ایک ایم اے سیاسیات میں بھی کیا تھااورجے این یومیں زندگی کاطویل عرصہ گزارا،جہاں ماحول ہی احتجاجی ہے،قدوائی صاحب احتجاجیسرگرمیوں سے نہ صرف دوررہتے ہیں بلکہ طلباکوبھی روکتے تھے۔ میں نے انھیں کلاس روم کے علاوہ دہلی میں تقریباً ہر جگہ سنا ہے، ان کی باتوں کی گہرائی سے مجھے یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ کلاس روم میں واقعی وہ موضوع کا حق ادا کرتے ہوں گے۔ اسی لیے ان کے طلباء آج بھی اُن کی عزت کرتے ہیں اور وہ طلباء کے ساتھ مشفقانہ رویہ رکھتے ہیں۔ کچھ برسوں سے قدوائی صاحب کی ایک عادت ہے کہ جب وہ مجلس صدارت میں ہوتے ہیں تو پروگرام شروع ہونے کے کچھ دیر بعد ہی عالم خواب میں چلے جاتے ہیں۔ میرے علاوہ سیمیناروں کے سامعین اس کی شہادت دیں گے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ صدارتی تقریر میں یہ کیسے مقالات پر گفتگو کریں گے، جبکہ تمام مقالات تو عالم غنودگی کی نذر ہوگئے، لیکن میں کیا، سب دیکھتے اور حیران ہوتے تھے کہ قدوائی صاحب ہر ایک مقالے پر اس طرح بات کرتے ہیں جیسے انھوں نے لفظ بہ لفظ سنا ہو۔ ایسے موقعوں پر مجھے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مرحوم پروفیسر علی محمد خسرو یاد آتے ہیں، اُن کی بھی آنکھیں پروگرام شروع ہوتے ہی بند ہوجاتی تھیں۔ ایک بار جب طلباء یونین کے صدر مرحوم جاوید حبیب نے اس بات پر اعتراض کیا تو خسرو صاحب کہنے لگے: میں آنکھیں بند ہونے کے بعد زیادہ صاف سنتا ہوں۔ قدوائی صاحب کے ساتھ بھی شاید کچھ ایسا ہی ہے۔ وہ ظاہر کی آنکھوں سے نہیں بلکہ باطن کی آنکھوں سے نہ صرف سنتے ہیں بلکہ دیکھتے بھی ہیں، آنکھیں بند کرکے ان کی قوت سماعت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی تقریباً تین دہائیوں سے غالب انسٹی ٹیوٹ سے وابستگی ہے۔ ٹرسٹی کے طور پر بھی اور سکریٹری کی حیثیت سے بھی۔ قدوائی صاحب کی سرپرستی میں غالب انسٹی ٹیوٹ میں قومی اور بین الاقوامی متعدد کامیاب سیمینار ہوئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر پروگرام میں قدوائی صاحب خود موجود ہوتے ہیں، اگرچہ کچھ برسوں سے ان کی صحت اس کی اجازت نہیں دیتی، لیکن ان کا شوق اور خدمت کا جذبہ انھیں جوان رکھتا ہے۔ قدوائی صاحب کو دیکھ کر اُن تندرست ادیبوں کی تندرستی پر افسوس ہوتا ہے جو اُس وقت تک کسی پروگرام میں نہیں جاتے، جب تک کہ انھیں مجلس صدارت میں کوئی نشست فراہم نہ کی جائے یا مقالہ خوانی کی دعوت نہ دی جائے۔ قدوائی صاحب کی عاجزی اور انکساری کے سبب ہی ہر خرد کلاں کے دل میں اُن کا احترام ہے۔ میں نے کبھی انھیں طلباء کیا چپراسی تک پر غصہ کرتے نہیں دیکھا۔ میرا خیال ہے غصہ تو انھیں بھی بعض باتوں پر ضرور آتا ہوگا، لیکن وہ اس کا اظہار کرکے کسی کوتکلیف نہیں دینا چاہتے ہوں گے، اُن کی خوش گفتاری سے لوگ خوش فہمی کا شکار بھی ہوتے ہیں اور ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
قدوائی صاحب کو میں بیسویں صدی عیسوی کی آٹھویں دہائی سے دیکھ رہا ہوں، ان کا قد بھی وہی ہے اور وزن بھی۔ گھنے بالوں کا اسٹائل بھی یکساں ہے ،بال جتنے جوانی میں تھے آج بھی ہیں، بس اُن کی سیاہ رنگت سفیدی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ آواز میں وہی دَم ہے جو کلاس روم میں ہوتا تھا۔ قدوائی صاحب کی تحریر سے زیادہ تقریر پر توجہ رہی اُن کی بہت کم تصانیف ہیں، لیکن اگر اُن کے خطبات یعنی تقاریر کو یکجا کیا جائے تو نہ جانے کتنی اہم کتابیں تیار ہوسکتی ہیں۔ قدوائی خاندان ابتدا ہی سے اپنی علمی، ادبی اور سماجی خدمات کے لیے منفرد شناخت رکھتا ہے، قدوائی صاحب نے بھی اپنی خاندانی روایت کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں ان کی درازیٔ عمر اور صحت کے لیے دعا ہی کرسکتا ہوں:
دعا کرو کہ یہ پودا سدا ہرا ہی لگے
اداسیوں میں بھی چہرہ کھلا کھلا ہی لگے
شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی،دہلی۔موبائل:9891455448
٭٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
ابن کنول صاحب کو اس بہترین خاکہ نگاری پر بصمیم مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ قدوائی صاحب میری ایم فل کے نگراں بھی رہے ہیں۔ لہٰذا، اُن کی شریف النفسی اور انکساری کا کوئی جواب نہیں۔ اُنھیں بھولنے کی بھی بہت معروف قسم کی عادت رہی ہے۔ ایک بار پی ایچ ڈی کے ایک ریسرچ اسکالر کو اُس کے topic بھی صحیح نہ لکھ پینے کی وجہ سے ڈانٹا تھا۔ میرے بلکہ ہم سب کے مشفق استاد کے لیے صحت اور درازی عمر کی دعا ہے۔ ڈاکٹر پرویز شہریار