یونان کا زوال ہو رہا ہے کیونکہ لفظ اپنے معنی کھو رہے ہیں۔(سقراط،۴۶۹۔۳۹۹ق م)
اچھا،آج تمہیں لفاظ کی کہانی سناتا ہوں،ایک سچی کہانی۔بہت سال ہو گئے،شاید بیس یا پچیس یا اس سے بھی زیادہ، جب سے میں اسے جانتا تھا اور ادھر عرصے سے اسے نہیں دیکھا،پھر بھی اس کی یاد آتی ہے تو ایک نامعلوم خوف سے کانپ جاتا ہوں۔’جانتا تھا‘کہنا دراصل مبالغہ ہے۔اتنے برسوں میں میری اس سے ملاقاتیں ہی کتنی ہوئیں،بس گنتی کی دو یا تین،شاید چار،وہ بھی مختصر سی۔اتنے برسوں تک کچھ پوچھنے یا جاننے کے لیے میں اس کا تعاقب کرتا رہا لیکن کبھی اس کے قریب نہیں پہنچ پایا۔جب بھی اس سے ملنے کا لمحہ آیا،وہ چکمہ دے کر دور نکل گیا۔اس کا اصل نام کچھ اور رہا ہوگا لیکن وہ مجھے یاد نہیں۔میرے ذہن میں اس کا یہی نام درج ہے۔۔۔لفاظ۔اور اس کہانی میں میں اسے یہی کہوں گا۔وہ خود اپنا تعارف یہی کہہ کر پیش کرتا تھا کہ میں لفاظ ہوں ۔ایک بہت چوڑی۔۔۔دیر تک برقرار رہنے والی مسکراہٹ کے ساتھ لپک کر ہاتھ ملاتے ہوئے۔۔۔جی،میں لفاظ اور آپ؟وہ چشمے کے پیچھے سے یا چشمے کو ناک کے کنارے ٹکا کر اس کے اوپر سے یا چشمہ اتار کر اس کی کمانی چباتے ہوئے ،کچھ دیر یا کافی دیرتک آپ کو غور سے دیکھتاتھا۔اس کے چہرے پر مسکراہٹ یکلخت آتی تھی،یکلخت جاتی تھی۔کھٹاک سے مسکرانا کھٹاک سے سیریس۔وہ اتنا ڈراؤنا لگتا تھا کہ کوئی بھی کانپ جائے۔اس کے پاس بے شمار لفظ تھے۔لفظ ہی لفظ،جو صاف تلفظ اور مناسب لب و لہجہ میں حسب ضرورت اسی ڈراؤنی مسکراہٹ یا متکبرانہ غصہ کے ساتھ اس کے منہ سے اس طرح نکلتے تھے جیسے سانپوں کی قطار۔وہ بالکل مناسب جگہوں پر زور دیتے اور صحیح جگہوں پر خاموشی اختیار کرتے۔وہ لگاتار بولتا جاتا تھا۔۔۔۔گھنٹوں۔۔۔دن بھر۔تو کیا ہوا،تم کہو گے۔بھلا لفظوں کو کون نہیں برتتا اور اس دنیا کا کام لفظوں سے ہی تو چلتا ہے۔ہاں،بہت سے لوگ باتونی ہوتے ہیں، اپنی ہی آواز کی گونج پر فدا،نہ بولیں تو مر جائیں۔مگر یہ صرف ان کا مزاج ہوتا ہے،کسی طرح کی خامی نہیں بلکہ اس کے برعکس اکثر تو وہ ایسا شفاف پیالہ ہوتے ہیں جن سے انسانیت کا عرق چھلکتا ہے۔اجنبیوں کے سامنے بھی ایک کھلی ہوئی کتاب،ہر ایک کے ہمیشہ مددگار۔نہیں یار،لفاظ کے معنی اگر تم نے صرف یہی سمجھے تو تم نے اسے سمجھا ہی نہیں۔لفاظ اور باتونی،دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔لفاظ کا ہمیشہ،ہر جگہ باتونی ہونا ضروری نہیں ہوتا۔بیشک وہ بہت بولتا ہے لیکن بعض دفعہ لمبی مدت تک وہ خاموشی کے غار میں پڑا رہ سکتا ہے،اس طرح جیسے کہیں ہو ہی نہیں۔اس دوران وہ کچھ سوچتا،حساب یا انداز ہ لگاتا،اپنے لفظوں کو چمک دار بناتا ،من کے تھیٹر میں کچھ ریہرسل کرتا،کچھ جملوں کو بار بار دوہراتا،اپنی ادائیگی کو بے نقص کرتا ہے۔اور اپنا لفاظ تو باقاعدہ نوٹس بنایا کرتا تھا،کتابیں پڑھتا تھا،دراصل۔۔۔۔
چھوڑو یہ سب۔سیدھے کہانی پر آتا ہوں۔
وہ چھوٹا سا شہر تھا۔ایک نہیں بلکہ دو شہر،آس پاس،ایک دوسرے سے متصل۔ایک شہر سریو ندی کے کنارے تھاجہاں ایک پرانی مسجد تھی جو بعد میں توڑ دی گئی۔دوسرے شہر میں بینک کی ایک چھوٹی برانچ میں میری پہلی پوسٹنگ تھی۔ایک بھیگتی رات میں،چاقو کی طرح کاٹتی ٹھنڈی ہوائوں کے بیچ،ایک ٹپ ٹپ ٹپکتی ٹرین میں اپنے شہر سے میرا سفر شروع ہوا۔اسٹیشن کی ڈبڈباتی روشنیاں،ان کے بیچ ہاتھ ہلاتے ہوئے دوست،ان سے کچھ ہٹ کر کھڑا میرا چھوٹا بھائی پیچھے چھوٹ گئے تو رونا آنے لگا۔وہ بہت لمبی کالی رات مشکل سے بیتی۔جب صبح آنکھ کھلی اس وقت موسم بدلا ہوا تھا۔ایک بے چین کرنے والی حبس زدہ گرمی تھی۔میں نے اٹھ کر پورے ڈبے میں ایک چکر لگایا۔دیکھا گنتی کے چند لوگ تھے،خاموش بتوں کی مانند کھڑکیوں کے پرے ناگ پھنی کے جھنڈوں اور ویران گاؤں کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہوئے۔کھڑک کھڑک کی آواز کے ساتھ گرمی بڑھتی جا رہی تھی۔میرا جی گھبرانے لگا۔ٹرین مجھے کہاں لے جا رہی تھی۔میرا شہر کہیں ہوا میں تحلیل ہو گیا تھا۔لوگ،دوست پیچھے چھوٹ گئے ۔پیڑ،مچھر،روحیں سب کچھ پیچھے۔سفر اتنا لمبا لگ رہا تھا جیسے ختم ہی نہیں ہوگا۔پھر اس چھوٹے سے شہر کا تپتا ہوا سٹیشن آیا جہاں مجھے اگلے کئی برس بسر کرنے تھے اور جہاں لفاظ سے میری ملاقات ہونی تھی۔اگست کی دوپہر میں اسٹیشن کا فرش دھوپ میں دہک رہا تھا۔میں نے ہولڈال نیچے پھینکا لیکن چمڑے کی اٹیچی پھینکتے ہوئے ٹھٹک گیا۔اس میں وید ناتھ کی آملے کے تیل کی ایک نئی شیشی تھی جو ٹوٹتی تو کپڑے خراب ہو جاتے۔میں احتیاط سے ایک ہاتھ سے ڈبے کا ہتھا اور دوسرے سے اٹیچی پکڑے ہوئے دھیرے دھیرے نیچے اترا۔فرش پر میرے پیر رکھنے سے پہلے ہی ریل گاڑی رینگنے لگی تھی۔ ( یہ بھی پڑھیں قیصر تمکین کا تنقیدی رجحان – احسن ایوبی )
لفاظ،یہ نام سب سے پہلے بینک میں ہی سنا۔اس نام کا ایک لون اکائونٹ تھا اور اس سے متعلق فائل جس میں سارے کاغذات اسی نام سے تھے۔ہائی اسکول اور انٹر کی مارک شیٹ،ہائی اسکول کی سند،بی اے پریویس کی مارک شیٹ، ایک مکان کی رجسٹری اور ایک اسکول کا نقشہ۔مسٹر لفاظ،بس اتنا ہی۔بی اے فائنل کی مارک شیٹ پتہ نہیں کیوں نہیں تھی۔وہ برانچ کا ایک ڈیفالٹر تھا،’ول فل ڈیفالٹر‘یعنی ان لوگوں میں سے ایک جو لون لینے کے بعد لاپتہ ہو جاتے ہیں۔نہ قسط ادا کرتے ہیں نہ شکل دکھاتے ہیں۔۔۔یہی نہیں بلکہ اس پتے سے بھی غائب ہو جاتے ہیں جو وہ بینک میں لکھواتے ہیں۔۔۔بغیر کوئی نشان چھوڑے ہوئے۔فائل میں جو فون نمبر ہوتا ہے،ظاہر ہے کہ وہ بھی فرضی نکلتا ہے۔منیجر کسی ماتحت کے ساتھ اس پتے پر پہنچتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ برسوں سے وہاں کوئی اور رہ رہا ہے اور لون لینے والے کا تو وہاں کسی نے نام بھی نہیں سنا۔لیکن لون دیتے وقت جب منیجر فیلڈ وزٹ پر گیا تھا تو وہ شخص اسے وہیں مسکراتا ہوا ملا تھا۔اسی گلی،اسی مکان،اسی بیٹھک،اسی صوفے،اسی کونے میں،دیوار پر ٹنگی انہیں سوامی وویکا نند کی تصویر کے پس منظر میں۔پاس کے اسی دروازہ سے تو اس کی موٹی،سرمست،خوش مزاج بیوی ایک چبھنے والے لباس میں اٹھلاتی ہوئی اندر آئی تھی۔اس کے پیچھے ایک نوکرانی تھی،خراماں خراماں ایک ٹرالی کھسکا کر اندر لاتی ہوئی،جس پر ایک رنگ برنگی ٹی کوزی میں لپٹی چائے تھے اور کچھ ناشتہ۔
–جی؟مکان کا مکین کہتا ہے۔۔جو ایک دکاندار ہے۔۔ٹی کوزی ہم کیا جانیں،نہ ہمارے گھر کوئی ٹرالی ہے۔ہاں چائے ضرور پلائیں گے۔بیٹھئے۔
–تو پھر وہ شخص؟منیجر کا سر چکرانے لگتا ہے۔
–کون؟دکاندار کہتا ہے۔۔۔یہ تو ہمارے باپ دادا کا مکان ہے جی۔
منیجر ایک ڈوبتی سوالیہ نگاہوں سے اپنے ماتحت کو دیکھتا ہے اورگھبرائی ہوئی آواز میں کچھ مبہم سا کہتا ہے۔وہ ساری چیزوں کے معنی جاننا چاہتا ہے۔لیکن ماتحت جو اس سے بیس سال چھوٹا ہے اور نوکری میں نیا،دنیا داری کے معاملہ میں صفر،اس سے کیا کہے۔وہ خود سناٹے میں ہے۔زندگی کے اس پہلے حملہ کو جذب کرنے میں اسے وقت لگے گا۔وہ صرف مڑ کر منیجر کو اس کی آنکھوں میں دیکھتاہے اور خاموش بجھی نگاہوں سے کہتا ہے۔۔۔ایلی منٹری،ڈاکٹر واٹسن،جو بھی تھا ،وہ ایک دھوکے باز تھا۔ایک امپوسٹر یا فراڈ یا کون مین۔یو ہیو بین ڈیوپڈ منیجر۔
وہ ماتحت جو متلاشی نگاہوں سے کمرے کو،دکاندار کو اور راکھ کی طرح سفید پڑ گئے منیجر کو دیکھ رہا تھااور جس نے خود کو شرلاک ہومزجیسا سمجھ لیا تھا،وہ میں ہی تھا یار،بینک کا اسسٹنٹ منیجر۔اور وہ ڈرا ہوا ڈاکٹر واٹسن؟وہ منیجر تھا،میرا باس جو راجستھان کا رہنے والا تھا لیکن دو تین سال سے اس برانچ میں کام کر رہا تھا۔اسی نے لفاظ کو لون دیا تھا جس میں ایک روپے کی بھی وصولیابی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہونی تھی۔یہ کتنا سنگین مسئلہ تھا۔نہیں،تم نہیں سمجھے، تم نہیں جانتے۔کوئی بینک منیجر۔۔۔وہ نہیں جو کرپٹ اور توندل ہوتا ہے اور نوٹ پر نوٹ چھاپے چلا جاتا ہے۔۔۔میرا مطلب ہے کوئی تم جیسا سیدھا سادہ اور ایمان دار۔۔۔تمہارا دوست ہوتو اس سے پوچھو کہ اس کے ذریعہ دیا گیا کوئی بڑا لون اس طرح ڈوب جانے کا اس کے لیے کیا مطلب ہوتا ہے۔۔۔اس کے کیریر کا کریا کرم،مستقبل کے سارے خواب غارت ہونا۔اس کی نوکری پر ایک نازک دھاگے سے بندھی تلوار لٹک جائے گی ۔بچی بھی رہے تو کہیں بہت دور تبادلہ کر دیا جائے گا،جہاں مچھر اور ملیریا ہوں گے۔اس کے گھر شمشان جیسی مردنی چھا جائے گی،چہرے پر ایک دائمی تکان ڈیرہ جما لے گی۔وہ چڑ چڑا ہو جائے گا،پینا شروع کر دے گا،آنکھوں میں گلابی ڈورے پڑنے لگیں گے،پپوٹے بھاری ہو جائیں گے۔وہ راتوں میں برے خواب دیکھے گااور ہر آہٹ پر چونک کر جاگے گا کہ آئی سی بی آئی۔جی،معاملہ سی بی آئی یا ڈی آر آئی یا ای ڈی تک بھی جا سکتا ہے ،جن کی جانچ اس نکتہ سے شروع ہوگی کہ وہ شخص جو اتنا بڑا لون لے کر کہیں ہوا میں تحلیل ہو گیا،کیا پتا منیجر کا ہی ساتھی رہا ہو،دونوں نے مل کر بینک کو چونا لگایا ہو۔کون کہہ سکتا ہے کہ یہ شاطر اور چالاک لوگوں کا کوئی انڈر گرائونڈ گینگ نہیںجو کہیں تہہ خانوں یا ویرانوں میں سیکریٹ میٹنگ کرتے ہیں اور اس طرح کے سفید پوش جرائم کے منصوبے بناتے ہیں۔کون کہہ سکتا ہے کہ کہ معصوم اور بے عیب نظر آنے والامنیجر۔۔یہی ا س گروہ کا سرغنہ نہیں۔کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ڈاکٹر جیکل اور مسٹر ہائڈوالا ایک اور معاملہ نہیں۔دنیا میں سب کچھ ممکن ہے اور سارے امکانات کی جانچ کرنی ہوتی ہے۔اس طرح کے خیالوں کے بوجھ تلے دبا ہوا منیجر ایک بار بار دوہرائے جانے والے خواب میں دیکھتا ہے ایک کالے اوور کوٹ اور ترچھے ہیٹ میں دھند کے بیچ دھیرے دھیرے بڑھ کر آتا ہوا کوئی پراسرار شخص اور اس کے پیچھے ایک کالا کتا۔وہ پاس آ کر اپنا آئی ڈی کارڈ دکھائے گا ،پھر اس پر جھپٹنے کے لیے بے چین کتے کی نگرانی میں اپنے ساتھ لے جائے گا۔پیچھے بیٹی چیختی رہے گی۔۔۔پاپا۔۔۔پاپا۔۔۔اور بیوی سسکتی رہے گی۔منیجر ایسے بھیانک خیالوں میں گم رہتا ہے اور اس کا بدلا ہوا مزاج دیکھ کر گھر والے بھی سہمے رہتے ہیں۔بس یہ سمجھ لو کہ اس کے ہنستے کھیلتے گھر کو گھن لگ جاتا ہے۔مگر یہ سب باتیں معمولی ہیں۔ایک ادنی سے بینک منیجر کی کسے پرواہ؟اصل بات یہ ہے کہ دھوکہ کھانے کے بعد ایک سادہ لوح انسان زندگی بھر سہما رہتا ہے۔دنیا اس کے لیے بیابان بن جاتی ہے،اس کی ہنسی منجمد ہو کرمکھوٹا بن جاتی ہی اور دل میں بچتی ہے بس ہر ایک کے لیے نفرت،کڑواہٹ اور بے یقینی۔یہ کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ کل انسانیت کا نقصان ہوتا ہے۔ہاں،سوچ کر دیکھو تو،ساری کی ساری بنی نوع انسان غریب ہوتی ہے۔
خاموشی سے چلتے ہوئے ہم وہ کچی اینٹوں کی لمبی گلی پار کرکے مین روڈ پر آئے جہاں منیجر کی پرانی،جگہ جگہ سے پچکی پریمیر پدمنی کھڑی تھی۔تنائو کی وجہ سے پھٹتی ہوئی نسوں کے ساتھ اس نے کس طرح کار چلائی،وہی جانتا ہوگا۔بھیڑ بھاڑ والی سڑکوں سے ہوتے ہوئے جب ہم واپس پہنچے تو بینک بند ہونے کا وقت تھا۔ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی ملازم جا چکے تھے۔چپراسی بھی تھوڑی دیر میں تالا لگا کر جانے والا تھامگر اس دن ہمارے لیے نہ چھٹی کا کوئی مطلب تھا،نہ بھوک پیاس یا رات اور نیند کا۔۔ ہمیں دیر رات تک وہیں رکنا تھا۔صبح بینک کھلتے ہی کوریر یا اسپیڈپوسٹ سے ریجنل آفس بھیجنے کے لیے اس اکاؤنٹ کے بارے میں احتیاط سے ایک لمبی رپورٹ بنانی تھی۔۔وہی رپورٹ انکوائری کی بنیاد بنے گی، پولیس کاروائی کی بھی اور معاملہ لون ٹرائبیونل میں گیا تو عدالتی فیصلے کی بھی۔اسے رپورٹ کے ہر حرف پر چیختے وکیلوں کا جواب دینا ہوگا،جج صاحب کی ٹٹولتی نگاہوں کا سامنا کرنا ہوگا،اس لیے ایک ایک لفظ سوچ کر لکھنا ہوگا۔۔دھیان رکھتے ہوئے کہ کوئی غلط بیانی نہ ہو،کوئی بات چھپائی نہ جائے اور بیانات میں کوئی تضاد نہ ہو۔منیجر سامنے دونوں ہاتھوں سے سر تھامے بیٹھا تھاجیسے اس کی کائنات لٹ گئی ہو۔وہ تباہ و برباد ہو چکا ہو۔وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا،بیچ بیچ میں زیر لب کچھ بڑبڑاتا بھی تھا۔چپراسی آیا،وہ گھر جانا چاہتا تھا۔منیجر نے اسے ڈوبتی آنکھوں سے دیکھا،راکھ کے رنگ کی آنکھیں جن کا سارا لہو نچڑ چکا تھا۔اشارہ سے ہی اسے جانے کی اجازت دی،حتی الامکان کوشش کی کہ کچھ بولنا نہ پڑے،اس لیے کہ کچھ کہا تو آواز کی کپکپاہٹ ظاہر ہو جائے گی۔اس کے جانے کے بعد اس نے اپنے گھر فون کیا کہ اس رات اس کی واپسی کا کوئی وقت متعین نہیں ۔کھانا؟دیکھا جائے گا۔ویسے اس رات کھانے کا خیال بھی کسے آئے گا۔دھیرے دھیرے بڑھتی ہوئی اس ٹھنڈی رات میں خالی بینک میں بس ہم دونوں تھے اور بیچ میں وہ نامراد فائل۔
میں نے فائل کھولی اور دیکھا پہلے ہی صفحہ پر درخواست فارم کے بالائی حصہ پر ان جناب یعنی مسٹر لفاظ کا فوٹو۔میں نے اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہا۔وہ تو ایک سنت جیسا معصوم بے عیب چہرہ تھا۔آنکھوں میں دیکھو تو وہاں فانی دنیا کی مخلوق کے دکھوں کے لیے درد نظر آتا تھااور ہونٹوں پر ایسی کومل مسکراہٹ جیسے اسے دائمی سکون حاصل ہو گیا ہویا کائنات کی کلیدیاکوئی آخری سچ جس کے لیے دنیا بھٹک رہی ہے۔میرے دھیان میں اس وقت خلل پڑا جب منیجر ،جو آنکھیں بند کیے کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا،بدبدایا،’اس ملک کا کیا ہوگا؟‘
–جی۔۔میں نے سر جھکائے ہوئے کہا،آپ صحیح کہتے ہیں۔
منیجر نے آنکھیں کھولیں۔مجھے عجیب نگاہوں سے دیکھتا رہا۔
–تم غلط سمجھ گئے یار۔اس نے کہا۔یہ میری بات نہیں ہے۔یہ تو وہ کہتا تھا بات بات میں۔دھیرے دھیرے سب یاد آ رہا ہے۔
–مطلب؟میں نے کہا۔
–یہ شخص،یہی جناب،جن کی یہ فائل ہے۔ہر دوسری سانس میں۔۔۔اس ملک کا کیا ہوگا،اس دیس کو کس کی بد دعا لگ گئی ہے،سب کچھ بگڑ گیا ہے۔
میں چپ چاپ منیجر کا چہرہ دیکھتا رہا۔وہ جیسے اپنے آپ سے ہی باتیں کر رہا تھا۔
–ہاں ۔۔اس طرح کی باتیں۔اس نے کہا۔اس کی معلومات زبردست تھیں۔ملک میں آزادی کے بعد جتنی سرکاریں ہوئی ہیں،ہر اسٹیٹ کی،سینٹر کی،الیکشن،اعدادو شمار۔۔۔آپ کو کچھ بھی جاننا ہو وہ بتا دیتا تھا۔ہر چیز کا تجزیہ کرتا تھا۔ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچتا تھا۔اس کے چہرہ پر گہری تکلیف ہوتی تھی۔تھنکر تھا یار وہ۔ایک فلاسفر۔
–فلاسفر؟
–ہاں یار۔اس نے کہا۔وہ کوئی معمولی شخص نہیں تھا۔باتیں کرتے ہوئے روہانسا ہو جاتا تھا،تقریریں کرنے لگتا تھا۔جو بھی اسے سنتا تھا،شرمندہ ہو جاتا تھا کہ ملک کیسی مصیبت میں ہے اور وہ۔۔۔۔وہ ہر وقت بے قرار نظر آتا تھا۔ہم نے غلط راستہ چن لیا ہے۔ہم جس طرف جا رہے ہیں وہاں صرف اور صرف بربادی ہے۔بس اتنا ہی کہتا تھا وہ۔کہاں کیا غلط ہوا اور کیسے ٹھیک کیا جائے،اس کے بارے میں کچھ نہیں۔ایک بار میرے کیبن میں کسی اور کسٹمر نے اس کی باتیں سن کر یونہی کہا کہ بھائی جی اتنی ٹینشن نہ لو۔کیا ہوگا فکر کرنے سے؟دیس بدلے گا مگر آپ کے فکر کرنے سے نہیںاور رات بھر میں نہیں۔کبھی اپنے کو ڈھیلا بھی چھوڑا کرو۔وہ آگ بگولا ہو گیا۔اس نے کہا،آپ جیسے متوسط طبقہ کی خود اطمینانی کی وجہ سے ہی یہ حالت ہے۔آپ نہیں جانتے آپ کتنے بڑے گناہ گار ہیں۔جس دن لون کے ڈاکیومنٹ سائن ہونے تھے،وہ بہت جوش میں تھا۔جیسے رات بھر سویا نہ ہو۔میرے سامنے اسی کرسی پر بیٹھا تھا،جہاں تم بیٹھے ہو۔دستخط کرنے کے ساتھ ہی وہ اونچی آواز میں تقریر کرنے لگا۔ہمیں نئے سرے سے شروعات کرنی ہوگی۔ایک چھوٹی سی،ننھی سی شروعات۔اندھیرا ہے لیکن کب تک اس کا سوگ منائیں گے۔بہتر ہے کہ ایک شمع خود جلائی جائے۔اس کی آواز دور تک جا رہی تھی۔سب لوگ متوجہ ہو گئے۔اسٹاف اس کی باتیں سننے میرے کمرے میں چلا آیا۔مجھے سختی سے ڈانٹ کر انہیں ان کی سیٹوں پر بھیجنا پڑا۔ (یہ بھی پڑھیں مرزا حامد بیگ کے افسانوں میں روایت کی بازیافت – ڈاکٹر شہناز رحمن )
–لیکن وہ؟
–اوہ۔۔۔اب سمجھ میں آ رہا ہے۔منیجر نے کہا۔یہ اس کی ایک سوچی سمجھی چال تھی۔سب کچھ منصوبہ بند تھا۔جسے ملک کے مستقبل کی ایسی فکر ہو،بھلا کس کے دل میں خیال آئے گاکہ اس کی مارک شیٹ اور کاغذات نقلی بھی ہو سکتے ہیں۔کس کے خیال میں آئے گا کہ وہ شخص کوئی ٹھگ یا دغا باز ہوگا؟
–جو کچھ یاد آئے،بتاتے جائیے۔میں نے کہا،رپورٹ میں ساری باتیں لکھنی ہوں گی۔
–جب پہلی بار آیا تو لنین کے صاف ستھرے سفید کرتے میں تھا۔منیجر نے یاد کرتے ہوئے کہا۔وہ لون اسکیموں کی جانکاری لینے آیا تھا۔اس دن وہ خاموش تھا۔مسلسل ٹکٹکی باندھ کر صرف مجھے دیکھے جا رہا تھا۔کبھی مسکراتاکبھی سیریس ہو جاتا۔میری باتیں سن کر کچھ سوچتا،حساب لگاتا۔اوہ۔۔اب سمجھ میں آ رہا ہے وہ مجھے اسٹڈی کر رہا تھا۔
منیجر نے آگے بتایا۔پھر وہ اکثر آنے لگا۔اس نے بتایا کہ اس کا ایک چھوٹا سا پرانا پشتینی اسکول تھا۔فیملی کے بٹوارے میں اس کے حصے میں آیا تھا۔وہ اسے رینوویٹ کرانا چاہتا تھا۔نئی کلاسیز کے لیے کمروں،لیبارٹری اور لائبریری کی تعمیر کرانی تھی۔سائنس کے آلات خریدنے تھے۔ایک ہال بنوانا تھا۔وہ جاننا چاہتا تھاکہ کیا اس کے لیے لون مل سکتا ہے۔اس کے چہرہ پر بے پناہ فکر مندی جھلکتی تھی کہ ملک کا مستقبل کیا ہے۔ملک کو بد دعا لگی ہے۔پھر وہ بچوں پر آ کر رکا۔بچے۔۔۔بچے۔۔۔ہمیں بچوں کو بچا لینا ہوگا۔وہ کہتا تھا پیشتر اس کہ ۔۔۔۔ہمیں نئے سرے سے شروعات کرنی ہوگی۔وہ کہتا تھا کہ میرا خواب ہے اپنے اسکول کو ایک ماڈل اور مثالی اسکول بنانے کا۔ایجوکیشن شاپ نہیں،ایک نیا انسان تعمیر کرنے والی ورکشاپ۔نئے خیال،نئے خواب،ایک نئی انسانی روح۔یہی پروجیکٹ تھا جس کے لیے اسے لون چاہئے تھا۔وہ مجھے اپنے ساتھ گھر بھی لے گیا۔وہی گھر تھا یار،جہاں ہم لوگ آج گئے تھے۔وہی بیٹھک۔اس کی بیوی بھی ملی تھی۔وہاں چائے بھی پی تھی۔ہم بہت دیر تک بیٹھے رہے تھے۔
–اور اسکول کا وزٹ۔۔۔؟جس کے لیے لون دیا تھا۔۔۔میں نے پوچھا۔
–وہ بھی کیا تھا۔منیجر نے بتایا۔وہی لے گیا تھا اپنے ساتھ اپنی کار میں۔ایسی چمک دار کار کہ اپنا چہرہ دیکھ لو۔سفید وردی میں شوفر چلا رہا تھا اور اپہولسٹری۔۔۔گلی در گلی پتہ نہیں کہاں۔شاید وہ جان بوجھ کر ٹیڑھے میڑھے راستوں سے لے گئے تھے،جنہیں یاد رکھنا ممکن نہ ہو۔ان دنوں چھٹیاں چل رہی تھیں۔لوہے کا کافی اونچا گیٹ تھا۔اوپر بورڈ لگا تھا۔اس نے چوکیدار کو آواز دی۔گیٹ کے بیچ ایک چھوٹا دروازہ چرررر کی آواز کے ساتھ کھلا۔سب کمرے بند تھے۔بیچ میں میدان تھا۔جہاں اونچی گھاس تھی۔پانی جما تھا۔وہ آگ بگولا ہو گیا۔چوکیدار کو جم کر پھٹکار لگائی کہ چھٹیاں ہیں تو اسے مستی سوجھ رہی ہے۔بیٹھے بیٹھے مفت کی کھا رہے ہو،شرم نہیں آتی۔۔۔سالے کام چور۔ہم نے اسکول کے سنسان گلیاروں کا چکر لگایا۔وہ معافی مانگتا رہا کہ اسکول بند ہونے کی وجہ سے وہ مجھے کہیں بٹھا نہیں سکتا،نہ چائے وغیرہ پلا سکتا ہے۔اس نے بتایا کہ پرنسپل کے کمرے کی چابی انہیں کے پاس رہتی تھی اور وہ چھٹیوں میں گائوں گئے ہوئے تھے۔وہ اتنا بڑا اسکول تھا کہ صرف وائٹ واش کرانے میں لاکھوں لگنے والے تھے۔چلتے چلتے رک کر ایک سنسان کونے میں میرے ہاتھوں کو تھام کر التجا کرنے لگا کہ بچوں کے معصوم دل ابھی بچے ہوئے ہیں۔بس یہی تنہا امید ہے۔مستقبل بچانا ہے تو یہیں سے شروعات کرنی ہوگی۔مگر وقت کم ہے۔ظالم لوگ،آدم خور جو بچوں کے معصوم میٹھے دلوں کے شوقین ہیں،کیا اپنی جگہوں پر مطمئن بے فکر بیٹھے ہوں گے؟کیا وہ اپنے ٹھکانوں سے زہر کی پڑیا لے کر چل نہ دیے ہوں گے؟Its a race against time manager.اس نے کہا۔مل جائے گا نا لون؟بچوں کو بچانا ہے۔بار بار یہی کہے جا رہا تھا۔اوہ۔۔۔وہ کس قدر فکر مند تھا۔میرا جی بھر آیا۔مجھے محسوس ہوا کہ میں ایک عظیم شخص کی صحبت میں تھااور وہ میری زندگی کا ایک غیر معمولی دن تھا جو روز روز نہیں آتے۔میں نے بھی کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کی ہتھیلیوں کو کس کر تھام لیا۔
وہ قیامت کی رات پلکوں میں بیت گئی۔شاید تین بجے ہوں گے جب رپورٹ مکمل ہوئی۔اس نے غور سے دو تین مرتبہ پڑھا۔اس کا ایک ایک لفظ۔پھر مردہ ہاتھوں سے اس طرح دستخط کیے جیسے اپنی ہی موت کا پروانہ لکھ رہا ہو۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند لمحوں میں ہی وہ اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے گہری نیند میں سو گیا۔اس کا سر آگے کی طرف لٹک گیا۔اس انداز میں جیسے پھانسی یافتہ مجرم جلاد کو اپنی گردن پیش کرتا ہوگا۔وہی گہری نیند جو دوستوئفسکی کے مطابق اس شخص کو آتی ہے جسے اگلی صبح چوراہے پر سر عام کوڑے لگائے جانے ہوں۔میںنے اس کے کیبن کی بتی بجھائی اور باہر کے حصے میں،کائونٹرس اور کیشئر کے کیبن کے بیچ دو میزیں جوڑ کر لیٹ گیا۔نیند کسے آنی تھی۔لفاظ کے بارے میں ہی خیالات آتے رہے۔پورا گینگ رہا ہوگا۔اس کی اصلی یا نقلی بیوی،نوکرانی،شوفر،چوکیدار۔اس منیجر کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے انہوں نے کتنی ریہرسل کی ہوں گی۔وہ اس وقت کہاں ہوں گے؟کیا کر رہے ہوں گے؟یہی سب سوچتا ہوا،منیجر کے پیچھے کی کھڑکی میں چاند کو۔۔ بلیوں کے رونے کے بیچ۔۔۔ رات کو دھیرے دھیرے کترتے دور سے دیکھتا رہا۔بہت دیر کے بعد پہاڑیوں کے پیچھے سے سورج ایک نئے دن کو پکڑ کر لایامگر یہ جھلسا ہوا اورکالا تھا۔
اس کھاتے کا کیا ہوا،یہ جاننے کی ضد میں نہ اپنا وقت برباد کرو نہ میرا۔کئی مہینوں بعد اس شخص،لفاظ سے جو پہلی ملاقات ہوئی،مجھے اس کے بارے میں بتانا ہے۔اس سے پہلے یہ جان لو کہ رپورٹ بھیجنے کے چوتھے دن منیجر کو معطل کرنے کا آرڈر لے کرریجنل آفس سے خود ایک افسر آیا۔کانپتے ہاتھو ں سے منیجر نے بند لفافہ کھولااور کرسی پر مٹی کے ڈھیر کی طرح ڈھہہ گیا۔پھر کسی طرح خود پر قابو پاکر،اسٹاف میں کسی سے ملے بغیر،کسی سے ہاتھ ملائے بغیرسب سے نظریں چراتا ہوا اپنا بریف کیس اٹھا کر چپ چاپ بینک سے باہر چلا گیا۔دو تین مہینے بعد اس کی معطلی منسوخ کر دی گئی لیکن تبادلہ بنگلہ دیش بارڈر پر مودنی پور کر دیا گیا۔اسٹیشن پر اسے چھوڑنے کے لیے صرف میں ہی گیا تھا۔وہ وہاں اکیلے ہی گیا۔فیملی کو اسے اپنے آبائی گھر راجستھان بھیج دینا پڑا۔ٹرین چلنے تک میں کہتا رہا،سب ٹھیک ہو جائے گا سر،صبر رکھیں۔وہ شخص جو بھی ہے،اسی شہر میں ہے۔میرا وعدہ ہے میں اس تک ضرور پہنچوں گا اور اس سے اس کھاتے کے بارے میں۔۔۔۔لیکن اس نے سنا ہی نہیں اور نہ ٹرین میں سوار ہوتے وقت مڑ کر دیکھا۔لون اکاؤنٹ کو اے آر ایم او ٹرانسفر کر دیا گیا۔اے آر ایم او۔۔۔سمجھ لو ایسے کھاتوں کے لیے ایک الگ خاص دفتر جہاں قانون کے ماہر ہوتے ہیں۔وہی پولیس یا سی بی آئی اور وکیل،عدالتوں وغیرہ سے نمٹتے ہیں۔ ( یہ بھی پڑھیں میر واہ کی مضطرب راتوں کا اسرار – ڈاکٹر شہناز رحمن )
چھ مہینے بعد۔۔۔چھ نہیں تو آٹھ مہینے سہی،بینک میں ہی میرے پرانے دوست راکیش کدیسیا کا دوپہر میں فون آیا،لیکن پرانے شہر سے نہیں۔اتنی دور سے تو ٹرنک کال آتی جو ایک دل دہلانے والی آواز میں بجا کرتی تھی۔وہ موبائل سے پہلے کا زمانہ تھا۔۔۔پی سی او کی آمد سے بھی پہلے کا۔وہ پڑوس کے شہر سے بول رہا تھا جہاں وہ اپنے ایک کزن کی شادی میں آیا ہوا تھا۔وہی شہر جہاں وہ مسجد۔۔۔لیکن یہ پہلے ہی بتا چکا ہوں۔’کتنا عرصہ ہو گیا ملے ہوئے اور صورت دیکھے،وہیں آ جاؤ نا۔۔۔‘اس نے کزن کے مکان کا پتہ نوٹ کرایا۔’کیوں نہیں آؤں گا دوست۔‘میں نے کہا۔میں بھی اس شہر میں اتنا اکیلا ہوں،تم سب سے اتنی دور۔یہ عجیب شہر ہے۔دیواروں پر دیکھو کیسے نعرے لکھے ہیں۔سڑکوں پر دھول کے بگولے اڑتے ہیں جن کے بیچ میں بھی ایک بگولے،ایک تنہا بگولے کی طرح ڈولتا رہتا ہوں۔کسی سے باتیں کرنے کو ترستا ہوں۔دوڑ کر آئوں گا بلکہ اڑ کر۔بہتر ہوتا کہ تم میرے پاس ہی آتے،میرے ساتھ ٹھہرتے۔ابھی کوئی ڈھنگ کا کمرہ نہیں ملا۔اسٹیشن کے پاس ایک سستے لاج کے ٹھنڈے کمرے میں رہتا ہوں۔۔تو کیا ہوا۔۔۔میں فرش پر سو جاتا۔تم آرام سے میرے پلنگ پر۔۔۔بشرطیکہ نیند آتی۔میں اس دن بینک سے جلدی ہی چل دیا۔کیشئرسے اس کا اسکوٹر عاریتاً لے لیا۔
وہ ڈھلتی سردیوں کی شام تھی۔جلتی بجھتی جھالروں سے سجے ایک سہ منزلہ مکان کی ہر منزل میں ،ہر کمرے میں عورتیں ہی عورتیں ہی تھیں۔۔۔جوان،ادھیڑ۔۔۔بوڑھیاں۔شادی میں شرکت کے لیے الگ الگ شہروں سے آئے مہمان اور رشتہ دار۔وہ بارات کے لیے خود کو سجا رہی تھیں۔مرد پہلی منزل کی کے آنگن میں جمع تھے۔۔۔یونہی کرسیوں پر بیٹھے۔۔۔کچھ چارپائیوں پر دراز۔یہ اپنے حسب و نسب کے دائرے میں ہو رہی ایک روایتی شادی تھی جس میں رسموں اور رواجوں کا ایک طے شدہ حساب ہوتا ہے۔ضروری ہوتا ہے کہ رسمیں صحیح وقت پر،صحیح طریقے سے ساری نزاکتوں کے ساتھ پوری ہوتی جائیں۔محبت کی گارنٹی نہیں ہوتی لیکن یہ طے ہو جاتا ہے کہ نوع انسانی کا تسلسل برقرار رہے گا۔باہر ایک اجڑے ہوئے پارک کے کونے میں بینڈ والے اپنی وردیوں میں سازوںاور ہنڈوں کے ساتھ زمین پر بیٹھے تھے۔پھولوں سے آراستہ ایک لمبی کار مکان کے سامنے کھڑی تھی۔سب کو بارات کے شروع ہونے کا انتظار تھا لیکن ابھی اس میں تاخیر تھی۔میں اور راکیش کدیسیا اسی اجڑے پارک میں بنچ پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے جب اس کے کزن یعنی دولہے نے ایک لڑکے کو بھیج کر ہمیں بلوایا۔
–ابھی کافی دیر لگے گی۔ہمارے پہنچنے پر اس نے کہا۔آپ لوگ اکتا رہے ہوں گے۔
–نہیں،ہم ٹھیک ہیں۔دوست نے جلدی سے کہا۔اکتانے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ہماری فکر نہ کرو ،بس اپنا خیال رکھو۔
–نہیں،آپ لوگ اتنی دور سے آئے ہیں،آپ کا وقت اچھا گزرے اس کا خیال کرنا بھی تو ہمارا فرض ہے۔یہ کہنے کے بعد وہ اسی لڑکے سے مخاطب ہوا،سنو،یہ میرے خاص مہمان ہیں،انہیں لفاظ کی محفل میں لے جاؤ۔
–کس کی محفل۔۔۔کون؟کچھ نہ سمجھتے ہوئے میں نے کہا۔
–لفاظ یار۔۔۔کزن دولہے نے کہا،تم نہیں جانتے۔۔۔ابھی جان جاؤ گے۔
–لفاظ؟میرے منہ سے اچانک نکلا۔
شاید میں قریب آ پہنچا ہوں،یہ سوچ کر میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔مکان سے باہر آ کر ہم تینوں پیچھے کی بھول بھلیاں جیسی اندھیری گلیوں میں چلنے لگے۔وہ بے شمارموڑوں اور مروڑوں والی بہت لمبی گلیاں تھیں۔کہیں اینٹوں کے ٹیلے تھے کہیں بالو کے۔بیچ میں کہیں کہیں ٹوٹے پھوٹے مکان بھی آئے۔کہیں سیمنٹ کی سیڑھیاں جن پر چڑھنے اور اترنے کے بعد دوسری گلی آ جاتی تھی۔کہیں کہیں وہ بالکل بند ہو جاتی تھی لیکن ساتھ کے تنگ دروازے میں سرجھکا کر داخل ہونے اور تھوڑا چلنے کے بعد پھر شروع ہو جاتی تھی۔یہ تو جیسے ایک سایہ کے پیچھے ایک خواب میں چلنا تھا،اتنی دیر تک کہ تکلیف سے میرے پیروں میں ٹیس اٹھنے لگی۔وہ لڑکا کافی آگے چلا گیا تھا۔
–رکو۔۔۔میں اس کے پیچھے چلایا۔
وہ نیم تاریک گلی میں ایک دو منزلہ مکان کے سامنے ٹھہر کرہمارا انتظار کر رہا تھا۔
–بس یہیں تک۔۔۔ اس نے کہا۔
اس نے مکان کے دروازے کو دھکا دیا جو اندھیرے میں خاموشی سے کھل گیا۔ایک چھوٹے،تاریک اور سنسان آنگن کو پار کرنے کے بعد لوہے کی گھمائو دارسیڑھیاںآئیں جن کی ٹھنڈی ریلنگس کو پکڑ کر احتیاط سے چڑھتے ہوئے ہم اوپر کی منزل پر پہنچے۔لڑکے نے ایک کمرے کے دروازہ پر دستک دی۔میں سانس روکے کھڑا تھا لیکن دھڑکن اور بھی تیز ہوئی جاتی تھی۔ دروازہ کھلتے ہی جیسے وہ خاموش،ٹھنڈا،سہما ہوا گھر تھر تھرا گیا ۔آپس میں گڈ مڈ،الجھی، ایک دوسرے کو چھیلتی آوازوں کا ایک ریلا باہر بہہ آیا۔اونچی آوازوں میں مکالمے،قہقہے۔اوہ،یہ معاملہ تھا۔میں سمجھا تھا کہ شاید وہ لفاظ کا خفیہ اڈہ تھا،سارے زمانہ سے چھپا ہوا اس کا ٹھکانہ جہاں وہ۔۔۔مگریہ تو رنگین محفل تھی۔وہ دوست کے ’کزن‘کے مقامی دوست تھے جواس کی شادی کی خوشی میں کھانے پینے اور گپ بازی کے لیے وہاں جمع تھے۔الگ الگ رنگوں کی تما م طرح کی شرابیں تھیں۔دس بارہ لوگ بستر اور کرسیوں پر بے ترتیب بیٹھے ہوئے تھے۔آناًفاناًبغیر کچھ کہے ہمیں بھی محفل کا حصہ بنا لیا گیا۔وہاں روشنی بہت کم تھی اور اس کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں تھی۔سب سے پیچھے،بستر کے ایک کنارے ہم لوگ بھی دھنس گئے۔فوری طور پر دوسرے کنارے سے ہاتھوں ہاتھ چلتے دو گلاس ہمارے پاس آئے اور اس کے ساتھ ہی کاغذ کی پلیٹ میں کچھ نمکین نما۔شرابیوں کی ایکتا زندہ باد۔مگر میری تمام تر دلچسپی لفاظ میں تھی،اس سے باتیں کرنے اور بہت کچھ جاننے پوچھنے میں تھی۔ایک دم بیچ میں ایک پینتیس سال کا شخص بیٹھا تھا۔’کیا وہی تھا وہ۔‘میں نے سوچا۔وہ کوئی قصہ سنا رہا تھا۔ہمارے پہنچنے سے لمحہ بھر کا خلل واقع ہوا ہوگا۔کمرے میں ایک بے قرار سی خاموشی تھی اور سب لوگ اتاؤلے پن سے ایک چھلکتے ہوئے تجسس کے ساتھ اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔’آگے کیاہوا؟‘کسی نے صبر کا دامن چھوڑتے ہوئے کہا اور اس اس شخص نے قصہ آگے سنانا شروع کیا،’۔۔۔ہاں تو ۔۔۔وہ سالی جو کھیلی کھائی تھی،وہاں پہنچ کر کہنے لگی کہ نہیں ،مجھے شرم آتی ہے۔۔۔‘
نہیں۔۔یہ وہ شخص نہیں۔میں نے سوچا۔یہ کوئی اور ہے۔اس کا وہ ہونا ناممکن ہے۔وہ جو بھی تھا اور جو بھی اس نے کیا تھا،اسے ملک کے مستقبل کی کچھ فکر تھی،بچوں کو بچانے کی فکر تھی۔یہ تو کوئی شہوت پرست لمپٹ تھاجوبہت پست سطح پر جیتا تھا۔یہ ثابت کرنے کے لیے کہ عورتوں کے معاملہ میں وہ کس درجہ استاد ہے،اس نے باضابطہ ایک محفل سجا رکھی تھی،یہ ان لوگوں میں سے تھاجن کے پاس ان گنت عورتوں سے تعلقات کے قصے ہوتے ہیں۔کسی محفل میں ذرا سا چھیڑو،وہ ایک شہوت انگیز آواز میں رک رک کر سنانے لگیں گے اور لوگ۔۔جوان، سن رسیدہ،بوڑھے،ایک بے لگام،بے قابوتجسس کے زیر اثر کھنچے چلے آئیں گے۔ان قصوں میں کتنا جھوٹ ہوتا ہے اور کتنا سچ،یہ تو بس وہی جانتے ہیں یا ان کا خدا۔وہ بتاتے ہیں کہ وہ کسی بھی حالت میں کسی بھی عورت سے ملیں(جھوٹ،خالص گپ)اور کسی بھی موضوع پر بات کریں،بس کچھ ہی لمحے لگیں گے، بات کو ’وہیں‘لے آنے میں۔صفحہ پلٹنے یاایک سوئچ آن کرنے میں جتنا وقت لگتا ہے بس اتنا۔اگلی ہی ملاقات میں وہ اپنا جلتا جسم ان کے حوالے کر دیتی ہے اور خوشی سے چلاتی ہے۔وہ ایسا ہی کوئی قصہ سنا رہا تھا اور سب سانس روکے،چمکتی آنکھوں کے ساتھ سن رہے تھے۔کسی دوسرے شہر میں کسی دوسری شام،وہ کسی کو،جسے اس نے’کھائی کھیلی‘کہا تھا،کسی نیچی چھت اور بد رنگ دیواروں والے کمرہ میں لے کر آیا تھا۔اس کے کسی دوست کا کرایہ کا کمرہ،جو اس نے دو تین گھنٹے کے لیے ادھار لیا تھا۔وہ جو بھی رہی ہو لیکن تھی بہت نفاست پسند ۔اس نے وہاں پہنچ کر پہلی ہی نظر میں کمرہ ریجیکٹ کر دیا۔وہ اسے مناتا رہا۔وہ ’نہیں،نہیں‘کہتے ہوئے سختی سے انکار کرتی رہی۔آخر اس شرط پر تیار ہوئی کہ وہاں مکمل اندھیرا رہے،روشنی کا دھندلا سا احساس بھی نہیں ہونا چاہئے۔لفاظ نے کمرے کی بتی بجھائی مگر کھڑکی بند کرنے پر بھی دور کے ایک لیمپ پوسٹ کی روشنی دراروں سے آتی رہی۔کسی طرح ہمارے لفاظ نے کھڑکی پر کپڑے لٹکا کر ایک تسلی بخش اندھیرا پیدا کیا۔اب اس کے صبرکا پیالہ چھلکنے والا ہی تھا کہ وہ معزز یا آرٹ کی دلدادہ عورت،خدا جانے کیا،ایک نئی فرمائش پیش کر دیتی ہے۔۔۔مدھم سروں میں میوزک چلانے کی۔اب میوزک وہاں کہاں رکھا تھا لیکن تلاش کرنے پر دوست کی الماری میں ایک پاکٹ ٹرانزسٹر نکل آیا۔اندھیرے میں وہ اس کی سوئیاں گھما کر موسیقی پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا۔مگر وہ کوئی معمولی عورت نہیں تھی۔ایسی نخریلی تھی کہ اس کے لیے مکیش،طلعت وغیرہ سبBelow Standardتھے۔اسے انگریزی گانے چاہئے تھے۔بالآخر وہ کسی غیر ملکی اسٹیشن سے نشر ہونے والے ایک میکسکن عوامی گیت پر مطمئن ہوئی۔
میں آگے بڑھ کر لفاظ کا چہرہ اور ہاؤ بھاؤ صاف صاف دیکھنا چاہتا تھا۔اس کا اس فوٹو سے موازنہ کرنا چاہتا تھا جو میں نے بینک کی فائل میں دیکھا تھا۔مگر وہاں بہت کم روشنی تھی۔۔۔محفل پر لٹکتے ایک مٹ میلے چیتھڑے جیسی۔محض تین گز کی دوری رہی ہوگی لیکن لوگوں کو پھلانگ کر آگے جانا ممکن نہیں تھا۔میں محفل میں سب سے پیچھے بیٹھا اس کی شہوت آلود آواز سنتا رہا۔دھیرے دھیرے نوٹس کرتے ہوئے کہ اس منحنی سے نظر آنے والے شخص میں کچھ خاص بات تھی۔قصہ کتنا ہی چھچھلا ہو،جو ظاہر ہے کہ جھوٹا بھی تھا۔۔۔۔معزز عورت،میکسکین عوامی گیت۔۔۔بھلا ایسا کہیں ہوتا ہے۔لیکن اس کا بیان اور انداز بیان بے حد پرکشش تھا۔وہ بلا شبہ ایک ماہرقصہ گو تھا۔سننے والوں پر کوئی سحر طاری کر دیتا اورانہیں اپنے ساتھ بہا لے جاتا تھا۔آواز کے زیروبم میں قصہ جیسے جیسے آگے بڑھتا تھا،سننے والوںکی دھڑکن بڑھتی جاتی تھی۔پھر ایک لمحہ آتا تھا کہ اندر شیشہ کی طرح کچھ ٹوٹتا تھا۔سننے والوں کے لیے ان کی دنیا اجنبی ہو جاتی تھی اور ایک نئی ،نامعلوم،نامانوس دنیا اپنی۔میں نے سوچا یہ شخص جو بھی ہے،ایک ماہر افسانہ نگار ہے اورپختہ ارادہ کیاکہ محفل کے بعد اس سے ملنا ہے۔بہت ساری باتیں کرنی ہوں گی۔اس کے اسرار کی تھاہ لینی ہوگی۔وہ آواز کے اتار چڑھاؤ سے محفل کی دھڑکنوں کو یوں کنٹرول کر رہا تھا جیسے ایک ماہر کنڈکٹر آرکسٹرا کا کرتا ہے۔۔۔ بیٹن کو کبھی ہلکی جنبش دے کر اور کبھی تلوار کی طرح نچاتے ہوئے ۔وہ دھڑکنوں کو پتنگ کی طرح اٹھاتا جاتا تھا۔۔۔اونچے،اونچے اور اونچے۔پھر کچھ پلوں کی ڈھیل،جس میں سننے والے دل تھامتے تھے۔پھر یکبارگی راکٹ کی طرح آسمان میں۔کلائمکس کا لمحہ قریب آتا ،پھر دور چلا جاتا تھا۔سننے والے اس کی یوں تقلید کرتے جیسے کسی ڈرگ کے زیر اثر ہوں۔بیچ بیچ میں وہ کوئی لطیفہ سنا دیتا تھا یا اردو کے شعر۔لیکن میں چونکا اس وقت جب اس نے ایک جگہ سنسکرت کا ایک ٹوٹا پھوٹا شلوک چپکا دیا۔ایک شہوانی شلوک۔۔۔کمینے قسم کا۔’رت رہسیہ‘جیسی کسی کتاب سے۔میں ایک ایک لفظ دھیان سے سنتا ہوا خاموش بیٹھا تھا۔ظاہر تھا کہ اس نے مسلسل مشق سے کافی لمبے عرصہ میں اپنے لفظوں کو چمک دار اورا دائیگی کو پرفیکٹ بنایا تھا۔اس نے شعروں،شلوکوں اور اقوال کے نوٹس لیے تھے۔بار بار دوہرا کر انہیں یاد کیا تھا۔اپنے بند کمرے میں یا من ہی من اس نے کتنی ریہرسل کی ہوں گی۔اس شخص کو پوری طرح جاننا میرے ضروری ہو چکا تھا۔ ( یہ بھی پڑھیں زندگی تیرے لبوں کا دل انگیز رقص ہے /سہراب سپہری – ترجمہ:نایاب حسن )
بہت دیر چلنے کے بعد قصہ وہیں تمام ہوا جہاں ہونا تھا۔ بے ترتیب سانسوں میں جسموں کا اس طرح انہدام ہوا جیسے زلزلہ میں کوئی مینار یا عمارت زمیں دوز ہو۔ایسے قصوں کے کوئی دو چار کلائمکس تو ہوتے نہیں ،اس لیے اسے یہیں چھوڑو۔مگر اس کی قصہ گوئی کا کمال تھا کہ لوگ ابھی تک دم بخود تھے۔جیسے کوئی تماشا یا ڈراما ختم ہوا ہو۔مست قصے کے بعد ایک پست خاموشی۔پھر وہ دھیرے دھیرے بادل نا خواستہ کھڑے ہوئے،جیسے اب یاد آیاہو کہ انہیں کسی شادی میں جانا تھا۔مگر مجھے اسے یعنی لفاظ کو قریب سے دیکھنا تھا۔میں آگے بڑھ کر اس کے پاس آیا،ہاتھ بڑھایا،جتنی بھی روشنی تھی،اسی میں اسے دھیان سے دیکھا۔
یہ وہی شخص تھا۔
ہاں یار،صاف وہی،بغیر کسی شک و شبہے کے۔مسٹر لفاظ۔بینک کا گم شدہ ڈیفالٹر۔جو نقلی کاغذات پر اتنا بڑا لون لے کر غائب ہو گیا تھا،جس کا نام چوک بزازہ کے پویس تھانے کی فائل میں تھا۔جس کی بدولت وہ بھولا بھالا منیجر پریوار سے اتنی دور مودنی پور پھینک دیا گیا تھا۔وہاں ٹرانسفر ہونے کے بعد اس سے بس ایک ہی ملاقات ہوئی تھی، جب وہ اس لون اکاؤنٹ کی محکمہ جاتی جانچ میں کوئی بیان دینے آیا تھا۔وہ بہت کمزور ہو گیا تھا،کندھے جھک گئے تھے اور اس کی آنکھیں۔۔۔۔
کھانا کھاتاہوں تو مچھر دال میں گرتے ہیں۔اس نے بتایا تھا۔یہ جگہ بے شک خوبصورت ہے۔بنگال کی سانولی سلونی ہری بھری دھرتی لیکن مجھے تو اپنی ریت کی ہی یاد آ تی ہے۔حرارت رہتی ہے،نیند نہیں آتی،سینہ میں درد رہتا ہے،آنکھوں سے شرارے پھوٹتے ہیں۔وہاں وہ صبح شام آلو ابال کر کھا رہا تھااور یہاں اس کا اصل مجرم قانون اور سارے زمانے سے چھپ کرشہوانی قصے سنا رہا تھا۔میرے اندر غصہ اور اداسی ایک ساتھ در آیا۔
میں نے اپنا تعارف پیش کیا،وہ یکلخت مسکرایا۔۔جیسے اس فوٹو میں تھی،بالکل ویسی ہی دھیمی،قاتل اور دل فریب مسکان۔
–آپ کہیں باہر سے آئے ہیں؟اس نے پوچھا۔
–ہاں۔میں نے کہا،زیادہ دور سے نہیں،پاس والے شہر سے۔
–آپ رمیش کے رشتہ دار ہیں؟اس نے پوچھا۔رمیش۔۔۔میرے دوست کا کزن۔
–نہیں ،وہ تو۔۔۔
راکیش کدیسیا پیچھے سے سامنے آیا،اس کا ہاتھ تھام کر کچھ دیر ہلایا۔صاف ظاہر تھا کہ وہ ابھی تک اس کے قصے کے اثر میں تھا۔ہم باقی لوگوں کے پیچھے پیچھے باہر کی طرف چلنے لگے۔
–آپ کیا کرتے ہیں؟اس نے چلتے ہوئے پوچھا۔
–میں۔۔میں ایک بینک میں۔۔۔میں نے بہت دھیمی آواز میں رک رک کر کہا،اس طرح جیسے یہ کسی راز کا انکشاف ہو۔
–بینک؟کون سا بینک؟
میں نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے ،ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بینک کا نام بتایا،برانچ کا بھی۔میں نے سوچا تھا کہ اس کے چہرے پر کچھ ابھرے گا،پریشانی یا بے چینی کی کوئی لکیر،تھوڑی گھبراہٹ،ڈر یا شرم۔یہ سب نہیں تو کم از کم کسی بھولی ہوئی یاد کا سایہ۔لیکن وہ تو الٹا بینکوں کی تنقید کرنے لگا۔ملازمین کوئی کام نہیں کرتے،کسٹمرز کو پریشان کرنے کے نئے نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں۔میں اس کی باتیں چپ چاپ سنتا رہا۔ میں کہنا چاہتا تھایہ سب باتیں اپنی جگہ جناب،،لیکن اس لون کا کیامعاملہ رہا۔کیا اسے یاد نہیں کہ اس نے بینک سے کوئی لون لیا تھا؟وہ بھی جعلی کاغذوں کی بنیا دپر۔اس کے لیے اس نے ایک سیدھے سادے منیجر کو نشانہ بنا کر پہلے اسٹڈی کیا تھااور اس پر نفسیاتی حربے آزمائے تھے۔اسے لفظوں کی شراب پلا کر بیہوش کیا تھا۔دراصل یہی نہیں،میں اس سے اور بھی کچھ،بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔کیا اسے ذرا بھی احساس تھا کہ وہ پیسہ کن لوگوں کا تھا؟درزیوں کا،بھشتیوں کا،پہلوانوں کا،ڈاکیوں،ڈرائیوروں کا، خانساموں اور چوکیداروں کا۔بھٹیوں میں کام کرنے والے ،ٹیوشن پڑھا کر گزارہ کرنے والے،سائیکلوں پر تیزی سے اپنے دفتر یا کارخانے جانے والے لوگ۔انہوں نے سوئیاں چلا کر ،پانی کا چھڑکائو کرکے،کھانا پکا کر،کشتیاںلڑ کر،نہ جانے کیا کیا کرکے تھوڑے پیسے کمائے تھے۔ان کے چہرے جھلس گئے تھے،گالوں سے خون نکل آیا تھا۔آپ آئے اور کچھ لفظ پھینک کر۔۔۔وہ بھی جھوٹے،نقلی،جعلی۔۔۔سارے پیسے سمیٹ کر چلتے بنے۔کیا آپ میں تھوڑی سی بھی اخلاقی۔۔۔۔
–آپ کیا کام کرتے ہیں؟خاموشی ناقابل برداشت ہو جانے پر میں نے پوچھا۔
–کچھ نہیں،بس یہی۔اس نے کہا۔
–یہی؟میں سمجھا نہیں۔
–لفظوں کا کام۔اس نے کہا۔
–لفظوں کا؟میں اب بھی نہیں سمجھا۔میں نے کہا۔شاید آپ نظمیں یا شاعری یا۔۔۔۔
–نہیں نہیں۔اس نے جلدی سے کہا۔
–اور یہ نام۔۔۔لفاظ۔۔۔یہ تخلص ہوگا۔اردو میں ایسے نام رکھنے کا رواج ہے۔
–نہیں ،نام ہی ہے۔میں کوئی مصنف یا شاعر نہیں۔
ہم لوگ چلتے چلتے لوہے کی گول،برف جیسی ٹھنڈی سیڑھیاں اتر کر نیچے تاریک گلی میں پہنچ چکے تھے۔جہاں باقی لوگ انتظار کر رہے تھے۔ہم ایک گروپ میں شادی والی جگہ کی طرف چلنے لگے۔لوگ اونچی آواز میں باتیں کرتے ہوئے چل رہے تھے۔میں جاننا چاہتا تھا کہ لفظوں کے کام سے اس کی کیا مراد ہے اور اس کے عجیب نام کا کیا مطلب ہے۔مصنف نہیں تو کیا وہ صحافی ہے یا ماسٹر،پروفیسر،پروف ریڈر۔یا یہ نہیں تو وکیل،نوٹری،نقل نویس،اور یہ بھی نہیں تو کوئی کیلی گرافر؟قبروں کے کتبے بنانے والا؟ٹرکوں کے آگے پیچھے شعر لکھنے کا کام کرنے والا؟شعر نہیں تو 13میرا 7رہے جیسی عبارتیں۔’لفظوں کا کام۔‘اور اس لون کا کیا ہوا ؟اس اسکول کا کیا ہوا؟اصل سے بھی زیادہ اصل نظر آنے والے جعلی کاغذات کہاں سے لایا؟گروہ کے باقی لوگ کون ہیں؟وہ منیجر کو اس دکاندار کے گھر میں کیسے لے گیا؟اس شور میں کچھ پوچھنا نا ممکن تھا۔تنہائی ملنے کے انتظار میں میں خاموش چلتا رہا،اس کے بالکل قریب،تقریباً چپک کر۔اندھیری گلیوں میں ایک پان والے کا کھوکھا آیا جہاںAcetylene Lampکی چمک دار،دھویں دار روشنی تھی۔ ( یہ بھی پڑھیں صرف تخلیق کاروں کی خوشی کے لیے / پروفیسر سدھیش پچوری – محمد ریحان )
گھپ اندھیرے کے بیچ ایک جلتی،تیکھی روشنی کا گھیرا جیسے اچانک اجاگر ہوا ۔لفاظ نے پہلی بار مجھے دھیان سے دیکھا اور نہ معلوم کیا دیکھا کہ دیکھتا ہی رہا۔کوئی عام سا دیکھنا نہیں،مستقل ٹکٹکی باندھ کر،سانپ جیسی نکیلی نگاہ جو مجھے اندر تک آر پار دیکھ رہی تھی۔وہ اس طرح کیوں دیکھ رہا تھا؟جیسے کچھ اندازہ لگا رہا ہو،من ہی من کچھ الٹ پلٹ رہا ہو۔اس کی مسکراہٹ اس کے چہرے پر منجمد ہو گئی۔اس کے چہرے کی چمک بھی بجھ گئی،جیسے کوئی جلتا چراغ یکا یک دم توڑ دے یا سوئچ آف ہو جائے۔
–کیا آپ را۔۔را۔۔۔؟اس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
–جی؟میں نے کہا۔
–نہیں،کچھ نہیں۔اس نے کہا۔لیکن کچھ دیر بعد پھر پوچھا،کیا آپ۔۔۔؟
وہ کیا جاننا چاہتا تھا؟ہم پھر اندھیرے میں چلنے لگے تھے اور ہمارا شور بھی ہمارے ساتھ ساتھ۔۔۔ لیکن لفاظ۔۔۔۔وہ اپنے آپ میں گم تھا۔جو تھوڑی دیر پہلے ایک لہکتا ہوا قصہ سنا رہا تھا،اب ایک بند گٹھری تھا،کس کر گانٹھ لگی ہوئی۔میں چاہتا تھا کہ وہ خاموش نہ رہے،کچھ نہ کچھ کہتا رہے۔کوئی راز افشاں ہو،کچھ اجاگر ہو۔وہ جو اتنا بڑا لون لیا تھا،اس کا کیا کیا؟اس کی چمکتی کالی کار کہاں ہے اور وہ سفید وردی والا شوفر؟اس کی موٹی بیوی،نوکرانی،چوکیدار؟اس اسکول کا کیا ہوا؟کب سے اس کا گروہ کام کر رہا ہے؟وہ میٹنگ کہاں کرتے ہیں؟مجھے مودنی پور کے منیجر کا خیال آیااور اس کی طرف سے نیز درزیوں،کلرکوں،لکڑہاروں،پہلوانوں اور نائیوں اور نان بائیوں کی طرف سے بھی،اس شخص سے انتقام لینے کی خواہش بھڑک اٹھی۔مگر ان سارے سوالوں سے الگ،میری شدید خواہش ،اصل تجسس کچھ اور تھا۔
میں اس بہت عجیب شخص کے وجود کی حقیقت کو ادھیڑنا چاہتا تھا۔جاننا چاہتا تھا کہ وہ اصل میں کون تھا؟ملک کے مستقبل کا خیر خواہ یا رال ٹپکاتا لمپٹ،جو تھوڑی دیر پہلے پھٹے ہوئے گلے سے چہک رہا تھا،یا دونوں ایک ساتھ،یا دونوں ہی نہیں ،بس ایک مجرم،دھوکے باز؟میں چاہتا تھا کہ اس کی پوری کہانی جان سکوں،اس کی اصلی سچی کہانی۔اس کی شروعات،اس کی فکری دنیا،اس کی تاریخ،اس کے دل کی گرہیں،اس کے اندرون کا ہر ذرہ،ذہن کا ایک ایک کونا۔ایک لفظ میں کہوں تو اس شخص کا’سچ‘۔بیشک وہ مجرم تھا اور اسے قانون کے حوالے کرنامیرا فرض تھا ،مگر اس سے پہلے۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد جب روشنیوں کا علاقہ آیا تو وہ شخص ہمارے ساتھ نہیں تھا۔وہ جیسے اندھیرے میں ہی تحلیل ہو گیا تھا،اسی اندھیرے میں جہاں سے نکل کر آیا تھا۔وہ پوری شادی کے دوران کہیں نظر نہیں آیا۔وہاں ناچ گانے تھے،آتش بازی ،روشنیاں اورایک مدہوش کن شورو غل۔۔۔مگر میں صرف اسے ہی تلاش کرتا رہا۔وہ کہیں نہیں تھا۔میں نے شادی کی بھیڑ میں ایک ایک شخص کا چہرہ غور سے دیکھا،منڈپ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چکر لگائے،وہ سب لوگ نظر آئے جو کچھ دیر پہلے اس محفل کا حصہ تھے،بس وہی نہیں تھا۔میں نے ان میں سے ایک جانکارنظر آنے والے شخص کو روک کر ایک کنارے لے جا کر اس کے بارے میں پوچھا۔اس نے بتایا کہ وہ اسی طرح آتا تھا،اسی طرح جاتا تھا۔
اس کا کچھ پتا ٹھکانا؟میں نے پوچھا،جس کے جواب میں اس نے مایوسی سے سر ہلا یا۔
اس برس کے ان دنوں میں راتیں بہت لمبی تھیں اور گرد آلود تیز ہوائیں چلتی تھیں،جن کی آواز کھڑکی کے پٹوں کے آپس میں ٹکرانے کی آواز سے مل کر بہت ڈراؤنی لگتی تھی۔
ہن وا۔۔۔۔۔۔وا۔۔۔۔۔ٹھک ٹھک۔۔۔ٹھک۔۔۔ٹھک ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔واااااٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔۔ٹھک ٹھک۔۔۔وا۔۔۔۔
دیر رات تک نیند نہیں آتی تھی۔آ بھی جائے تو وہ آواز خواب میں سنائی دیتی رہتی تھی۔رات بھر خواب میں ہی ٹرینوں کے آنے کی آوازیں اور انجن کی سیٹیاں سنائی دیتی تھیں۔کچھ دیر بعد مسافروں کا شورو غل۔ٹرین آ کر خاموش کھڑی ہوتی تھی اور تقریباً چالیس سکینڈ کے بعد رات کے سناٹوں کو چیرتا ہوامسافروں کا ریلا باہر آتا تھا۔وہ لاج جہاں پچاس روپے یومیہ کرایہ پر رہتا تھا،اسٹیشن کے سامنے ہی تو تھا۔ان دنوں ساری ٹرینیں ٹھنسی ہوئی آ رہی تھیں،چھتوں تک بھری ہوئی۔لاکھوں کی تعداد میں’مار تمام لوگ‘۔ نہ جانے کہاں کہاں سے۔۔۔ودربھ،چکمگلور،پھا پھا مئو،نجیب آباد۔لاج کے پیچھے ایک انٹر کالج کے میدان میں ان دنوں چپے چپے پر چولہے ہی چولہے تھے۔۔۔آگ ہی آگ۔۔۔آنچ ہی آنچ۔روٹیاں اور باٹیاں۔ان چولہوں کا ملا جلادھواں لاج میں میرے کمرے تک آتا تھا۔ہنسی کی آوازیں سنائی پڑتی تھیں ،کبھی سرگوشیاں اور کبھی اونچی آواز میں تلخ بحثیں،نعرے وغیرہ۔قسم رام کی۔۔۔لاج کا کچن گرائونڈ فلور پر تھا،جہاں سے دیر رات تک کھٹ کھٹ کی آوازیں آتی تھیں۔ان دنوں صبح اور شام وہیں کھاتا تھا اور دن میں بینک کی کینٹین میں۔کچن میں بھی کھانے کا انتظام تھا لیکن شام کا ایک ایک پل قیمتی ہوتا ہے اس لیے کھانا اپنے کمرے میں ہی منگواتا تھا۔چپکے سے ننھے،جسے ننھا فرشتہ کہتا تھا،دروازہ کھولتا تھا اور کم سے کم آواز کرتے ہوئے ٹفن اس کرسی پر رکھ جاتا تھاجس کی پشت پر اگلے دن پہنی جانے والی قمیص لٹکی ہوتی تھی۔دال،سبزی،چاول اور روٹیاں صرف بیس روپے میں۔میں ان دنوں ساری شام’ لکھتا ‘تھا،ورنہ چٹھیاں لکھتا تھا۔گھر والوں کو لکھتا تھا کہ یہاں جی نہیں لگتا۔یہ عجیب شہر ہے۔ہوا میں ہر وقت نا دیدہ چاقوؤں جیسی کوئی پھسپھساہٹ رہتی ہے،مگر صاف سمجھ میں نہیں آتی۔ہر وقت گھر کی ، پرانے شہر کی اور وہاں کے دوستوں کی یاد آتی ہے۔مگر ٹرانسفر ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔چھوٹے بھائی کو لکھتا تھا کہ اپنا خیال رکھے ، بہن کا بھی اور ماں کا بھی،اس لیے کہ گھر میں اب وہی ذمہ دار مرد ہے۔پتا جی تو۔۔۔۔
سارے دوستوں کوخط لکھتا تھا،مودنی پور کے اس معصوم منیجر کو بھی۔سر،پولیس تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ قانون کے حساب سے تو یہ ایک سول معاملہ بنتا ہے،نہ کہ کرمنل اور ان کے پاس فرصت بھی کہاں ہے۔ساری پولیس فورس تو وہاں اس علاقہ میں تعینات رہتی ہے جہاں رام للا۔۔۔۔لیکن سر،صبر کیجئے اور مجھ پر بھروسہ رکھئے۔میرا وعدہ ہے میں اس شخص تک ضرور پہنچوں گا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔اس سے جواب طلب کروں گا۔ایک ایک پیسہ مع سود وصول ہوگا سر۔وہ شخص،لفاظ،اسی شہر میں،انہیں دونوں شہروں میں کہیں ہے،کہیں آس پاس۔ایک بار نظر بھی آیا تھا لیکن چکمہ دے کر نکل گیا۔ریکوری ہو جائے تو شاید آپ کا واپس ٹرانسفر آسان ہوگا۔ایک بہت بڑا گلدستہ ہاتھ میں لیے میں اسٹیشن پر ہی موجود ملوں گا۔بس انہیں کاموں اور خیالوں میں ٹرینوں اور ہواؤں کی آوازیں سنتا ہواجاگتا رہتا تھا،دیر رات اس گھڑی تک جب سب کچھ دھندلا ہو جاتا تھا اور نیند کی ندی میں دھپ سے میری لاش گرتی تھی۔
اس دن کی بات بتاتا ہوں جب مسجد گرائی گئی۔صبح کھڑکی سے آتی ہوئی چیختے کوؤں کی آوازوں نے مجھے جگایا تھا۔وہ بد حواس ہو کرہوا میں گول گول منڈلا رہے تھے ۔اٹھنے کی کوشش کی تو سر چکرا گیا۔اس کرسی کا سہارا لینا پڑا جس پر میری قمیص لٹکی رہتی تھی۔ماتھا تپتا ہوا محسوس ہوا۔کھڑکی سے پرے آسمان پیلا تھا اورنیچے سڑک کا منظر اور بھی پیلا۔ سب کچھ ایک پیلی پنی میں لپٹا ہوا،جو شاید تیز بخار کا اثر تھا۔سڑکیں کھچا کھچ بھری تھیں۔۔۔پیلی سڑکیں،پیلے لوگ،پیلے سادھو،ان کے پیلے جھنڈے۔وہ پیلے پیروں اورجوتوں کو پیلی سڑکوں پر گھسیٹتے دھیمے دھیمے پڑوس کے شہر کی سمت چل رہے تھے۔ایک عجیب سی خاموشی تھی۔تلواروں کے کھٹ سے کھلنے،خون بکھرنے سے پہلے کی گہری شانتی۔ ( یہ بھی پڑھیں نا معلوم لاش/نجیب محفوظ – ترجمہ: فیصل نذیر )
ننھے۔۔۔میں نے آواز دی۔لیکن میری آواز بہ مشکل گلیارے تک گئی ہوگی۔تھوڑی دیر کے بعد وہ حسب معمول چائے لے کر آیا۔میرے چہرے پرضرور کچھ رہا ہوگا کہ چائے کی پیالی میز پر رکھ کر وہ سیدھے میرے پاس چلا آیا۔
–بخار۔میں نے کمزور آواز میں اتنا ہی کہا۔
اس نے میری پیشانی چھوئی۔
–ہاں سر جی،آپ کی تو طبیعت خراب ہے۔
–آس پاس کوئی ڈاکٹر ہے؟
–ڈاکٹر؟اس نے کہا۔آج اتوار ہے،پھر شہر کا ماحول۔۔۔
–کوئی بات نہیں۔میں نے کہا۔معمولی بخار ہی ہے،شام تک ٹھیک ہو جائے گا۔
–نہیں سر جی،لاپروائی ٹھیک نہیں۔اس نے کہا۔کلینک بند ہوں گے تو کیا ہوا،سرکاری اسپتال تو ہے۔تھوڑی دور ہے۔پیدل چل سکیں گے؟کوئی سواری ملنا آج مشکل ہے۔
کچھ دیر بعد کسی طرح کپڑے بدل کر لاج کی اونچی سیڑھیاں احتیاط سے اتر کر میں نیچے پہنچا، جہاں ننھے میرا انتظار کر رہا تھا۔سڑک پر اجنبی سروں اور پگڑیوں کی ایک بے قابو ندی تھی۔بیچ بیچ میں جھنڈے،بینر،لاؤڈ اسپیکر اور کانوں کے پردے پھاڑ دینے والا ایک ناقابل برداشت شور۔ایک پیلا بیمار منظر۔سڑک پر پاؤں رکھنا مشکل تھا۔ہم کچل جاتے یا پھربھیڑ کے ساتھ بہتا ہوا ننھا کہیں اورجا نکلتا ، میں کہیں اور۔وہ عام طور پر بند رہنے والے پیچھے کے دروازے سے مجھے بغل کی گلی میں لے آیا۔ہمیں مین روڈ سے نہیں،پیچھے کی گلیوں کی بھول بھلیاں سے گزرتے ہوئے ضلع اسپتال جانا تھا۔راستے ننھے کو ہی معلوم تھے،میں صرف ڈھیلے جوتے گھسیٹتے ہو ئے اس کی تقلید کر رہا تھا۔اس دن شہر کی ساری اہم شاہراہوں پر جیسے کھدائی میں نکلے ہوئے کنکال چل رہے تھے،کسی جادو سے دوبارہ زندہ ہو جانے والے۔اوہ ہ ہ۔۔۔ان کی مردہ اور ٹھنڈی آنکھیں۔۔۔شہر کے باشندے اپنے گھروں میں قید تھے یا اندر کی گلیوں میں۔ایک گلی سے دوسری گلی ہم کیچڑ، سوکھتے کپڑوں کی بو،پرانے مکانوں اور زنگ آلود دروازوں کے بیچ سے گزرتے رہے۔جگہ جگہ لوگ گروہ کی شکل میں جمع تھے۔سرگوشیاں تیرتی ہوئی آتی تھیں اور ہوا میں بکھر جاتی تھیں۔تازہ جلد والے کمسن اور کھردری کھال والے،دنیا دیکھ چکے بوڑھے،جن کی جھریوں میں وقت جم چکا تھا،سب کی آنکھوں میں ایک ہی سوال تھا کہ وہاں۔۔۔پڑوس کے شہر میں کیا ہو رہا ہوگا۔’ریپڈ ایکشن فورس‘کی گاڑیاں ہوٹرس بجاتے ہوئے تیز رفتار میں آگے بڑھیں لیکن آگے کہیں سڑک پر کھڑے کیے گئے بیریکیڈس کے بیچ پھنس گئیں۔خبر آئی کہ وہ اپنے اوزاروں سمیت چھت پر پہنچ گئے۔جگر میں اٹھتے ایک بے چین درد کو کسی طرح قابو میں رکھتے ہوئے میں اس ننھے فرشتے کے پیچھے چلتا رہا۔تبھی وہ آواز سنائی دی۔
ایک بہت پرانا تین چار منزلہ خستہ حال مکان تھا جو کسی زمانہ میں ایک عظیم الشان حویلی رہا ہوگا۔اس کے احاطہ سے باہر تک ایک بھیڑ جمع تھی۔اسی بھیڑ میں سے ایک آواز آئی۔۔۔یہ جو بہہ رہا ہے،تاریخ کا گندہ خون ہے،ہسٹری کا مواد۔اسے بہہ جانے دینا ہوگا۔ورنہ اس ملک کا مکمل جسم۔۔۔۔آواز دھیمی تھی مگر بہت جانی پہچانی تھی۔یہ تو وہی لگ رہا تھا۔وہی لہجہ،وہی آواز۔
وہی تھا یار۔جناب لفاظ عرف۔۔۔ننھا فرشتہ بہت آگے چلا گیا تھا مگر کمزوری کے باوجود میں اس کی فکر چھوڑ کر بھیڑ کو چیر کر اندر گھسا اور اسے اکساتے ہوئے سنا۔جائو کر ڈالو۔ہر ملک کی زندگی میں ایک گھڑی آتی ہے جب تم تماش بین نہیں رہ سکتے۔تمہیں شرکت کرنی ہوتی ہے،جب حصہ لینا ایک فرض ہوتا ہے۔وہ کسے اکسا رہا تھا اور کس بات کے لیے؟تو یہ تھے اس کے اصل خیالات۔۔میں نے سوچا۔۔اور وہ سب اس کے اپنے لوگ۔وہ وہی لنین کا سفید کرتا پہنے تھا جس میں پچھلی بار ملا تھا۔لیکن اس دن سر پر زعفرانی رنگ کی پگڑی بھی تھی۔بخار میں جلتی آنکھوں سے بھی میں نے اسے فوراً پہچان لیا ۔تاریخ۔۔۔انتقام۔۔۔پر افتخار۔۔۔ملک۔۔۔احیا۔۔ہنکار۔ایسا کچھ کہہ رہا تھا وہ۔اور ہاں محمد بن قاسم،ابدالی اور۔۔۔۔لنگڑا تیمور کہتے کہتے وہ چپ ہو گیا۔اس نے مجھے دیکھ لیا تھا۔
کچھ لمحے خاموشی طاری رہی۔
وہ اپنی تقریر روک کر بھیڑ کے پیچھے چھپنے کی کوشش میں تھا۔مجھے لگا کہ وہ پھر بھاگے گا اور نظروں سے اوجھل ہو جائے گا۔مگر کیوں؟مجھے دیکھ کر وہ کیوں بار بار بھاگ جانا ،کہیں چھپ جانا چاہتا ہے۔وہ مجھ سے دس بارہ برس بڑا ہوگا اور پھر وہ اسی شہر کا باشندہ ہے جبکہ میں۔۔۔اور اس وقت وہ لوگوں کے بیچ ہے۔اسے مجھ سے کیا خوف ہو سکتا ہے؟میر ے ذہن میں جیسے کوئی کان پھٹی ہو۔میں اس کا تعاقب کرنا چاہتا تھا۔اس کے ایک د م صاف و شفاف سفید لنین کرتے کو مٹھی میں پکڑ کر کھینچتے ہوئے کسی کونے میں لے جاکرکہنا چاہتا تھا کہ یہ لکا چھپی چھوڑو،نگاہیں ملا کر باتیں کرو۔صاف صاف بتائو کہ تم کون ہو اور تمہارے ارادے کیا ہیں؟ملک کے مستقبل کی باتیں کرتے ہوئے چپکے سے ملک کا خزانہ خالی کر دیتے ہو۔او ہ ہ۔۔شاید زیادہ کہہ گیا۔پوری طرح خالی نہیں،بس ذرا سی چوری،ایک مٹھی کے برابر۔اور یہاں تاریخ کی،کلچر کی،گزری صدیوں کی باتیں۔۔۔اب کیا چاہتے ہو؟تم اصل میں کون ہو؟تمہیں تھوڑا جاننے لگا ہوں۔۔۔ایک شخص جو نہیں جانتا کہ لفظوں کے کوئی معنی بھی ہوتے ہیں۔بے معنی لفظوں کا استادیعنی ایک لفاظ۔پھر بھی پوری طرح نہیں جانتا۔مجھے سب کچھ بتائو صاف صاف۔کیا تم جانتے ہو کہ تم جن راستوں سے گزرتے ہو،ایک تباہی تمہارے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔اور وہ لون۔۔۔۔؟میں اس شخص کو پکڑ کر ایک بوتل کی طرح الٹنا چاہتا تھا،یہ دیکھنے کے لیے کہ کچھ ٹپکتا ہے یا نہیں۔کوئی ایک بوند یا کوئی ایک معنی۔
میں نے چاروں طرف دیکھا۔ننھے بہت دور تک آگے جا کر واپس لوٹ آیا تھا۔وہ آواز دے رہا تھا بھائی صاحب ۔۔۔بھائی صاحب۔وہ خوف زدہ لگ رہا تھا۔کہاں رہ گئے تھے بھائی صاحب،چلیے واپس چلتے ہیں۔ماحول خراب ہے۔کرفیو لگ سکتا ہے۔بھیڑ منتشر ہونے لگی تھی۔میں نے سڑک کے بیچ بکھری ہوئی اینٹوں پر ایک ایک پیر رکھتے ہوئے کچھ لوگوں کو دوسرے شہر سے واپس آتے ہوئے دیکھا۔ان کے ہاتھوں میں ایک چار سو سال پرانی عمارت کے ٹکڑے تھے۔
وہ لاکھوں لوگ جو ملک کے الگ الگ علاقوں سے آئے تھے،جن کے دماغوں میں منجمد افکار تھے اور آنکھوں میں ایک جامد،ٹھہرا ہوا وقت،دونوں شہروں کی آبرو لوٹ کر،وہاں کے آسمانوں کو تھرا کر ،وہاں چمکنے والے سورج پر ایک بدنما داغ لگا کرواپس چلے گئے۔ہوا میں کچھ جلنے کی ایک کڑوی سی مہک اور دونوں شہروں کے مقامی باشندوں کے فق اور کمھلائے ہوئے چہرے باقی رہ گئے۔کوے بھی اسی طرح چیختے رہے۔
کچھ مہینوں بعد ایک رات بھر چلنے والا سنگیت کا پروگرام ہوا۔’نفرت کے خلاف‘یا اسی طرح کچھ نام تھا۔شاید Artist Against Communalism۔نہیں،یاد آیا’ایک دخل موسیقی کا‘یہ یاد نہیں کہ اس کے منتظمین کون تھے لیکن اس میں ملک کے مشہور و معروف شاستریہ وادک اور گایک آئے تھے۔زخم اتنے گہرے تھے کہ واقعی دونوں شہروں کو موسیقی کے مرہم کی ضرورت تھی۔پچھلے کچھ مہینوں میں وہاں اور پورے ملک میں ہزاروں لوگ کٹے، مرے،جلے،جھلسے،کچلے اور روئے تھے۔بہت سے لاپتا ہوئے تھے اور دھماکوں میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں دیواروں پر چپک گئے تھے۔ستار وادک ، سرود وادک،وائلن وادک، سارنگی نواز،طبلہ اور مردنگ وادک،پکھاوج وادک،دل ربا وادک،وچتر وینا وادک،بنسی اور جل ترنگ وادک،سنتور اور سر بہار وادک اور شاستریہ گایک آئے۔دونوں شہر امڈ پڑے۔ کھچا کھچ بھرے ٹاؤن ہال میں لوگوں کے نہ سمانے کی وجہ سے باہر کا احاطہ اورچھت تک جاتی سیڑھیاں،سب کچھ ٹھسا ٹھس بھرا رہا۔پروگرام نو بجے شروع ہوا اور صبح سورج اگنے تک چلتا رہا۔اس رات میوزک جیسے زار زار رویا،خوشی اور غم ددنوں سے پرے لہجے اوپر اٹھتے اور خلا میں گم ہوتے رہے۔شروعات میں منتظمین کی جانب سے فنکاروں کا استقبال کرنے اور پروگرام کا مقصد بتانے کی نیت سے ایک صاحب اسٹیج پر آئے۔’ایک عظیم ترین گناہ ہوا ہے۔‘انہوں نے ایک گہری ڈوبتی آواز میں رک رک رک کر کہا،’ایسا گناہ جس کی کوئی معافی ممکن نہیں۔وہ آئے اورمحض ہمارے دو شہروں کی نہیں بلکہ اس ملک کی روح میں ایک خنجر اتار گئے۔اس کالے دن کے بعد دوستو، جب تم تنہائی میں اپنے ملک کا نام لیتے ہو،کیا وہ پرایا ملک نہیں لگتا۔جب تم آئینے میں خود کو دیکھتے ہو،کیا اپنا سراپا اجنبی نہیں لگتا؟مگر۔۔۔۔‘ اپنا چشمہ اتار کر اس نے چمک دار سفید کرتے کے کنارے سے پونچھا،اسے دور سے آر پار دیکھا،’ہماری لڑائی جاری رہے گی۔نفرت کو فیصلہ کن شکست دینے اورنیست و نابود کر دینے تک ہماری لڑائی جاری رہے گی۔مگر ان کے جیسے ہتھیاروں سے نہیں۔ان کے چاقو،خنجر،استرے اور بلیڈ انہیں مبارک۔ہمارے پاس آرٹ ہے،ہماری مشترکہ تہذیب ہے،موسیقی ہے اور صدیوں میں قطرہ قطرہ جمع کیے گئے خوبصورت افکار ہیں۔‘میں اسٹیج سے بہت دور تھالیکن ان جناب کو پہچاننے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔اتنی دور سے آتا ان کا لہجہ رندھا ہوا لگتا تھا۔۔ابھی رویا۔۔ابھی رویا۔تم نے کیا پوچھا کہ کون صاحب تھے؟کتنا معصو م سوال ہے۔
لفاظ خوابوں میں آنے لگا تھا۔ اصل زندگی ہی کی طرح خوابوں میں بھی بس تھوڑی دیر کے لیے آتا تھااور اپنے پیچھے تباہی کی داستان چھوڑ کر گزر جاتا تھا۔اس نے میرے خواب اس طرح تہس نہس کر دیے جیسے پیڑوں کو اکھاڑتے ہوئے طوفان گزرتا ہے۔دنیا کے ہر موضوع پرتقریریں اور تقریریں۔ملک کا ماضی،مستقبل،جمہوریت،سماج واد،سیکولر ازم،مسلمان، امریکا، آدی واسی،نکسل واد۔۔۔کیاکچھ نہیں۔تم کہو گے کون نہیں کرتا اور بھلا ہم ہندوستانیوں سے زیادہ بحث باز قوم کون سی ہے؟ پرجوش بحث باز،The argumentive Indian.۔تم اب بھی نہیں سمجھے؟لفاظ کی خاصیت یہ تھی کہ وہ ’دونوں طرف‘ سے ایک جیسے جوش،ایک جیسے یقین اور ایک جیسے آنسوؤں کے ساتھ بحث کرتا تھااور دیکھتے ہی دیکھتے’طرف‘بدل سکتا تھا۔وہ دونوں طرف نظر آتا تھابلکہ ہر طرف۔چاروں طرف لفاظ ہی لفاظ۔ان دنوں شام میں جب لکھنے بیٹھتا تھا تو اسی کا چہرہ نظر آتا تھا۔جیسے وہ ایک جنگ تھی۔میں ایک طرف سے لفظوں میں معنی بھرنے کی کوشش کرتا تھا ،وہ دوسری طرف سے انہیں خالی کر دیتا تھا۔میرے لیے ضروری ہوگیا تھا کہ تحت الشعور کو اس کے خیالوں سے خالی کروں،جس کے لیے ضروری تھا کہ جلد سے جلد اس تک پہنچوں۔وہ جو بھی تھا،جہاں بھی تھا،اسے پوری طرح اندر باہر سے جانوں اور اپنے لیے اس کی ایک حتمی تعریف متعین کروں۔پھر مجھے مودنی پور پٹخ دیے گئے اس معصوم منیجر سے کیا ہوا وعدہ بھی نبھانا تھا۔
کچھ وقت کے بعد آخر ایک دن لفاظ پکڑا گیا۔ اس طرح۔۔۔
تم اس شہر میں جاؤ تو تمہیں اودھ کے نواب شجاع الدولہ کے مقبرہ پر ضرور لے جایا جائے گا،جس کا مقامی نام ہے گلاب باڑی۔اس کے ٹھیک سامنے کی سڑک پر تقریباًآدھا کلو میٹر چلنے پر داہنی طرف ایک پرانی دو منزلہ بلڈنگ آئے گی۔اس بلڈنگ میں ان دنوں دونوں شہروں کا ایک بینکرز کلب ہوا کرتا تھا۔دونوں شہروں کے سبھی بینکوں کے آفیسرز کے ملنے جلنے کی جگہ ۔جہاں بہت پرانا فرنیچر تھا اور سفیدی کے لیے ترستی دیواریںتھیں۔سگریٹ کے دھویں کے بیچ تاش یا جوا یا شطرنج چلتا تھا۔شراب لگاتار بہتی تھی۔ایک بلیرڈس ٹیبل بھی تھی۔اکثر نئے بھرتی ہوئے نوجوان بیچلرز آفیسر وہاں آتے تھے ،جولان میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی ہوڑ میں شبنم آلود لمبی راتوں کو گلاسوں میں نچوڑتے تھے۔نہیں نہیں۔۔۔وہاں میرے جانے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔مجھے تو شام کو لکھنا ہوتا تھا نا۔۔۔ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔پھر بھی کچھ مستثنی اور بے ترتیب دن یا کچھ خاص موقعے آتے تھے جب وہاں جانا پڑتا تھا۔یہ بس ایک اتفاق تھا جو بعد میں خدا کا کرم محسوس ہوا کہ ایک شام اس پارٹی میں چلا گیا جو پڑوس کے شہر کے ایک دوسرے بینک کے منیجر نے دی تھی۔اس کی بیٹی آل انڈیا پری میڈیکل ٹیسٹ میں اتنی اچھی رینک کے ساتھ کامیاب ہوئی تھی کہ صوبہ کے جس میڈیکل کالج پر انگلی رکھتی، وہیں پڑھنے جاتی۔منیجر سائوتھ انڈیا،شاید کیرل یا کرناٹک کا تھا۔اس کے رشتہ دار،بھائی بہن بہت دور تھے۔وہاں بینک کے کولیگس کے علاوہ کون تھا جن سے وہ اپنی خوشی شیئر کر سکتا؟دونوں شہروں کی ہر بینک کی ہر برانچ میں پارٹی کا دعوت نامہ گیا تھااور اس دن مقامی اخبار میںاس نے اس سلسلہ میں ایک ریلیز بھی چھپوائی تھی۔واقعی وہ ایک زبردست پارٹی تھی۔گرائونڈ فلور کے لان کو بھی شامیانے سے گھیر لیا گیا تھا۔وہاں جلتی بجھتی جھالروں کے بیچ،مدھم سنگیت اور تیز طرار ویٹرس تھے اور ہر قسم ہر رنگ کی شرابیں ہی شرابیں۔رحم دل چہرے والاعمر دراز منیجر اور اس کی بیوی اور بیٹی جو ڈاکٹر بننے جا رہی تھی،سب گرم جوشی سے ملے۔فطری طور پر وہ خوش تھے۔منیجر کی پیشانی پر چندن کی لکیروں کے نیچے آنکھوں میں نمی تھی،ایک ریتیلی نمی۔پہلے ریت رہی ہوگی جو ہمیشہ جدو جہد کرنے والے لوگوں کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔۔۔پھر نمی آئی لیکن اتنی نہیں کہ ساری ریت بہا لے جاتی،اس لیے ریتیلی نمی۔بات چیت کے دوران اسے پتا چلا کہ اس کی طرح میں بھی اس شہر کا باشندہ نہیں اور میرا اصل وطن۔۔۔ہے۔اس نے یونہی معمولی تجسس سے پوچھا کہ وہاں کا میڈیکل کالج کیسا ہے؟میڈیکل کالج۔۔۔؟میں نے یاد کرنے کی کوشش کی۔
لفاظ نے اس بار بھی بہت احتیاط اور دھیان سے جال بنا تھا لیکن یہیں مات کھا گیا۔
–کیا کہتے ہیں؟منیجر نے جنوبی لہجہ میں کہا۔یہ کیسے ممکن ہے؟
–وہ میرا شہر ہے۔میں وہیں پیدا ہوا۔میں نے کہا۔بھلا مجھ سے زیادہ اس شہر کو۔۔۔
–پھر بھی،شاید آپ پوری طرح نہیں جانتے۔اس نے کہا،کوئی بھی شخص جہاں رہتا ہے،وہاں کی ہر بات نہیں جان سکتا۔
میڈیکل کالج۔۔۔۔میں نے پھر یاد کرنے کی کوشش کی۔مجھے یاد نہیں آیا کہ میرے شہر میںکوئی میڈیکل کالج بھی ہے۔
شاید آپ سوچیں کہ مجھے کیسے۔۔۔۔بتا تا ہوں۔منیجر نے کہا۔ایک بڑے لون کا پروپوزل ابھی پچھلے ہفتہ ہی کلیر کیا ہے۔اس کا سناپسس یاد رہ گیا مجھے۔’جیون کلینک،پروپرائٹر ڈاکٹر لفاظ،ایم بی بی ایس،ایم ڈی،ایف آر سی ایس۔‘یہ ان ڈاکٹر صاحب کے بایو ڈاٹا میں تھا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایم بی بی ایس انہوں نے وہیں سے کیا تھا۔تمام فائلیں آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں۔کوئی بھی ایک ایک لفظ نہیں پڑھتا،نہ یاد رکھ سکتا ہے لیکن میری بیٹی نے بھی میڈیکل کا ٹیسٹ دیا تھا، اس لیے میرا دھیان اس بات پر چلا گیااور یاد بھی رہ گیا۔He is a renowned person.۔آپ کو ان سے ملنا چاہئے۔وہ ایک غیر معمولی شخص ہے۔آئی ووڈ سے اسینس آف۔۔۔۔
–لفاظ۔۔۔اوہ۔میرے منہ سے نکلا۔
–کیا ہوا؟آپ جانتے ہیں؟اس نے پوچھا۔
میں نے آس پاس دیکھا،وہاں پیکڑ چہرے تھے،خوشبوئیں تھیں،خوشیاں تھیں، دور سے آتی کھلکھلاہٹ کی آوازیں تھیں۔میں منیجر کے خوابوں میں،خوشیوں میں خراش نہیں لگا سکتا تھا۔اس کے خوابوں کی کرچیں بکھر جاتیں۔خوشی نالی کے راستے باہر بہہ جاتی۔
–نہیں۔میں نے کہا۔کتنا لون؟
اس نے بتایا،ایک بہت بڑا اماؤنٹ۔وہ دو قسطوں میں دیا جانا تھا۔ابھی پہلی قسط ہی دی گئی تھی۔
ہم کلب کے اندرونی حصہ میں ایک قیمتی صوفے پر بیٹھے تھے۔بلیرڈس ٹیبل پر لٹکتے بلب کی روشنی اس کے چہرے پر ترچھی گر رہی تھی۔چہرے کو جیسے روشنی کے ایک چاقو سے کاٹ دیا گیا ہو۔وہ اپنی رو میں کہے جا رہا تھا،اوہ۔۔۔کیا شخص ہے۔پہلے دن وہ کسی اور کسٹمر کے ساتھ آیا۔اس نے ڈاکٹر صاحب کہہ کر تعارف کرایا۔وہ سفید کرتا پہنے تھا وِد اے کالی بنڈی۔اس دن ہماری زیادہ باتیں نہیں ہوئیں۔وہ بس دھیان سے مجھے دیکھ رہا تھا،ہماری باتیں سن رہا تھا۔بیچ بیچ میں کچھ سوچ کر مسکراتا تھا بس۔کچھ دن بعدوہ پھر تنہا آیا۔اس دن میں نے پوچھا کہ وہ کس بیماری کے ڈاکٹر ہیں؟وہ کہتے ہیں،نہیں نہیں ،میں کوئی ڈاکٹر واکٹر نہیں۔تھا کبھی اب نہیں۔اب صرف منافع خور دوا کمپنیوں کا دلال ہوں۔ان کی ٹیون پر ناچتا ہوں۔منیجر ایک واضح مثبت لہجہ میں کہتا گیا۔انہوں نے کہا،ہیلتھ یا صحت کے کیا معنی ہیں؟بیماریوں کا علاج یا بچائو؟یہ تو صرف اس کا فزیکل ڈائمینشن ہے۔What about social dimention?what about spritual dimention?ہمارا ملک بیمار ہے،ہمارا سماج بیمار ہے ،ہماری روح بیمار ہے۔جب سب کچھ بیمار ہے تو ڈاکٹر کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ڈاکٹر بھی بیمار ہے۔یہ سب کچھ درست کرنا ایک اکیلے ڈاکٹر کے بس کی بات نہیں مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ ہو سکتا ہے۔ایک اکیلا شخص ایک چھوٹی سی شروعات تو کر سکتا ہے نا؟بیشک وہ سب کچھ ٹھیک نہیں کر سکتا لیکن شاید اپنی بیمار روح کا علاج کر سکے۔اس نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھ پکڑ لیے،جیسے ڈاکٹر وہ نہیں میں تھا اور وہ میرے سامنے کوئی مرتا ہوا مریض۔۔۔مجھے اچھا کر دو،مجھے بچا لو۔
تو اس دفعہ لفاظ نے یہ جال بنا ہے۔کتنا مہین اور کتنا مضبوط،کس چالاکی اور مہارت سے اور نہ معلوم کتنی تیاری کے ساتھ۔اس بار وہ چارہ گر کے بھیس میں آیا تھااور چارہ گر بھی وہ جو جسموں کا نہیں،روحوں کا علاج کرتا تھا۔واہ استاد۔۔جادوگر۔۔۔لفاظ۔میں نے من ہی من کہا۔کتنے چارہ گروں کے چہرے کوند گئے۔ڈاکٹر کوٹنیس یاد آئے اور وہ جو’دل اپنااور پریت پرائی‘میں تھا،اور وہ جو’دل ایک مندر‘میں تھا اور ہاں’انورادھا‘والاڈاکٹر بلراج ساہنی۔پھر’میلا آنچل‘کے ڈاکٹر پرشانت یاد آئے، کالی بیماری کے دشمن۔طریقہ اس بار بھی وہی تھا۔خوبصورت ترین اور انسانیت سے لبریزلفظوں کی شراب پلا کر یا کہہ لو لفظوں کا لخلخاسنگھا کر پہلے شکار کو بیہوش کرو،پھر کسی نازک جگہ ناخن گڑا کر دھیمی،بہت دھیمی رفتار میں جلد سے ہڈیوں تک کا سفر طے کرو۔جب تک شکار کو درد کا احساس ہو،دیر ہو چکی ہو۔یہ بھی شاید محض اتفاق نہیں تھا کہ دونوں بار اس کے شکار غیر مقامی شخص تھے۔جال واقعی باریک اور گنجلک تھا۔مگر غلطی سے اس بار وہ اس میں ایک سوراخ چھوڑ گیا تھا۔سناپسس میں ایم بی بی ایس کے سامنے اس شہر کا نام لکھ گیا تھاجہاں کوئی میڈیکل کالج تھا ہی نہیں۔اس سوراخ میں جو ایک ڈھیلا دھاگا لٹک رہا تھا،اسے پکڑ کر کھینچنے پر شاید۔۔۔
ّّ–انہیں اس پارٹی میں نہیں بلایا؟میں نے منیجر سے پوچھا۔
–کسے؟ڈاکٹر صاحب کو؟منیجر نے کہا۔بلایا تھا،but you know he remains so busy۔ان کے پاس وقت کہاں ہے؟پچیس سال کوcompensate کرنا ہے،وہ کہتے ہیں۔پچیس سال جو دلی میں فائیو اسٹار ہاسپٹل کی نوکری میں،ملٹی نیشنلز کی غلامی میں برباد کر دیے۔دن میں چوبیس گھنٹے ان کے لیے کم ہیں۔کام کا م کام،ہر وقت کام۔وہ ڈاکٹر نہیں ایک سنت ہیں،سینٹ رئیلی۔اس وقت بھی مائیکرو اسکوپ میں جھانک کر وہ نوٹس بنا رہے ہوں گے یا کسی گاؤں میں پانی کے سیمپل لے رہے ہوں گے یا کسی اینٹ کے بھٹے پر مزدوروں کے خون کے نمونے شیشیوں میں جمع کررہے ہوں گے یا پھردریوں کے کارخانے میں بچوں کے بیچ۔۔۔ ان کے پھیپھڑوں میں ریشے پھنس جاتے ہیں،سانسیں رک رک کر آتی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اب میں انہیں کے لیے جیوں گا ،انہیں کے لیے مروں گا۔یہی میرا کفارہ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ جو ہمارا میڈیکل کا نظام ہے،یہ فراڈ ہے ٹوٹل فراڈ۔یہ ایک طرف جراثیم مارتا ہے مگر دوسری طرف پیدا کرتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ میں جال کاٹ آیا۔اب آزاد پنچھی ہوں۔مریضوں کی ایکسرے پلیٹوں میں دیکھتا تھا تو سیاہ داغوں کے بیچ نظر آتے تھے اندھیرے پہاڑ، گھاٹیاں، کھائیاں،چٹانیں،جزیرے،جنگل اور آبشار۔۔۔ لیکن بہت دور۔اب ان پہاڑوں،گھاٹیوں،کھائیوں تک خود جائوں گا،سب جگہوں سے خون کے نمونے لاؤں گا۔۔۔ہر اس جگہ جہاں جراثیم پیدا ہوتے ہیں۔یہ جراثیم سے ایک جنگ ہے اور بیشک میں سب کو نہیں ختم کر سکتا مگر انہیں تو مار ہی سکوں گا جو اتنے برسوں سے دھیرے دھیرے میری آتما میں۔۔۔۔
–مگر انہیں لون لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟میں نے بیچ میں ہی کچھ سختی سے کہا۔ڈاکٹروں کے پاس تو بے شمارپیسے ہوتے ہیں،وہ بھی پچیس سال کی پریکٹس کے بعد دلی جیسے شہر میں۔۔۔۔
–وہی تو۔۔۔اس نے کہا۔پیسے بیشک ہیں مگروائف کے ساتھ جوائنٹ اکائونٹس میں۔His wife did not support his decision.۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ وہاں کی نوکری اور لائف چھوڑ کر اس چھوٹے شہر میں چلے آئیں جہاں۔۔۔She is not co opretanig.۔وہ بیوی سے بھی بغاوت کرکے واپس آئے ہیں۔وہ وہیں ہے۔بھلا جسے دلی کی رنگینیوں کی عادت ہو۔۔۔۔یہاں ان کا پرانا پشتینی مکان ہے جس کے احاطہ میں کافی خالی زمین ہے۔وہیں وہ کلینک اور ریسرچ سینٹر کنسٹرکٹ کرائیں گے۔اس کے ایک حصہ میں کلینک کا کام شروع بھی کر دیا ہے۔
–کیا وہ جگہ،مکان ۔۔۔کلینک آپ نے وزٹ کیا؟میں نے پوچھا۔
–اس مکان کے کاغذ ہمارے پاس ہیں۔مکان بینک میں مارٹ گیج ہے۔وزٹ۔۔۔ابھی تو کنسٹرکشن چل رہا ہے۔دھول اڑتی ہوگی۔ڈاکٹر صاحب کی خواہش ہے کہ پورا ہونے پر افتتاح میرے ہی ہاتھوں۔۔۔۔
میں اٹھ کھڑا ہوا۔یہ سادہ لوح نادان منیجر ابھی نشے میں چور ہے۔چور نہیں بلکہ کہنا چاہئے چور چور۔لفاظ کے لفظوں کے ایک بہت بڑے پیالے کے نشے میں جسے وہ کس طرح پورے یقین کے ساتھ پی گیا غٹ غٹ غٹ۔اسے کچھ کہنا یا بتانا فضول تھا۔ابھی وہ سمجھ نہیں سکے گا اور نہ ہی بتانا میرے لیے ممکن ہوگا۔لیکن جلد ہی اس کا نشہ ٹک کی آواز کے ساتھ ٹوٹے گا اور تب اسے لوگوں کے،ہمارے وقت کے اور سماج کی ایک نئی بنتی شکل کے بارے میں غیر متوقع علم حاصل ہوگا۔جس پر وہ غور کرے گا مودنی پور یا کسی اور دور دراز جانے والی لمبی ٹرین میں۔ابھی نہیں،اس وقت اس کے سینے میں ایک پوشیدہ چوٹ کی ٹیس ہوگی اور آنکھوں کے نیچے پر اسرار لال چکتے۔لیکن مجھے منیجر کی پہلی بات یاد آئی۔لفاظ نے ابھی لون کی پہلی قسط ہی لی ہے،دوسری باقی ہے۔ابھی وہ جلد سے ہڈیوں کے سفر کے بیچ میں ہے، اس لیے طے ہے کہ ابھی وہ اپنے ٹھکانے پر موجود ہوگا۔ابھی اس کے غائب ہونے میں کچھ وقت باقی ہے۔ابھی اسے پکڑا جا سکتا ہے۔کچھ دنوں کے بعد۔۔۔اپنے منتشر خیالوں کو سمیٹ کر میں نے وہاں کے شورو غل کے بیچ منیجر کے کان کے پاس چہرہ لا کر پوچھا،سریہ کلینک،’جیون کلینک ‘نا۔۔۔ان ڈاکٹر صاحب کا پورا پتا بتائیںگے پلیز؟
اس پارٹی کے بعد کا دن۔۔۔مجھے صبح سے ہی نشہ ہوتا رہابلکہ سرشاری ہوتی رہی۔نشہ اس خیال کا کہ اتنی لکا چھپی کے بعد وہ شخص لفاظ،آخر کار میرے سامنے ہوگا۔وہ بھی اپنی جگہ،اپنے ٹھکانے پر،اپنی ورک شاپ میں،جہاں چھپ کر وہ نئے نئے لفظوں کی پریکٹس اورجملوں کی ریہرسل کرتا تھا۔پھر انہیں آزمانے کے لیے دنیامیں الگ الگ جگہوں ،الگ الگ بھیسوں میں آتا تھا۔اور کام ہو نے کے بعد پھر وہیں واپس۔وہاں اسے گھیر کر وہ سارے سوال کروں گا جو میرے ذہن میں تھے۔ شاید اس کے اندرون میں جھانکنے کا موقع ملے،اس کے اسرار،فطرت،اس کے اندر کے غار اور ٹیلے،ہڈیاں،چیتھڑے اور آنتیں،اس کا ٹوٹا ہوا دل یا زخمی روح۔۔۔اگر ایسا کچھ ہے تو۔۔۔اور اس کے اندر کی آندھیاں،آگ اور شعلے۔میں جاننا چاہتا تھا کہ اپنے ایک طرف سے پھٹی ہوئی کھوپڑی کے اندر وہ عجیب و غریب شخص آ خر کون تھا؟کیا وہ جانتا تھا کہ جن جن لفظوں کو وہ یوں ہی بلبلوں کی طرح اڑاتا تھا،ان کے معنی بھی ہوتے ہیں۔کیا جھوٹ کے اس پلندے کے اندر کہیں کوئی سچ تھا؟سچ کا کوئی ایک دانہ یا ذرہ۔مت بھولو کہ میں ایک مصنف تھا،بھلے ہی ادھورے جملوں کا،نو آموز اور اس وقت تک غیر مطبوعہ۔۔۔جس کی خوشیاں اور غم الگ ہوتے ہیں۔یہ پودا زہر سے سینچا جاتا ہے،اسی سے خوراک پاتا ہے۔تمہارا زہر اس کا آب حیات ہے۔تمہارے سامنے ایسا کوئی موقع آئے جب تمہیں کسی لا ینحل اور پیچیدہ پر اسرار روح کے اندر اترنا ہو توایسا موقع شاید تمہیں ڈرائے مگر ایک رائٹر کو یہ ایک عجیب ناقابل بیان خوشی دے سکتا ہے،سرشاری بھی۔ ہر طرح کے انسان کو کتاب کی طرح پڑھنا،یہی تو اس کا کام ہے یا اس کے کام کا حصہ۔پھر میں بتا چکا ہوں کہ ان دنوں وہ میری پیٹھ پر سوار پریت تھااور میرے خیالات،تصورات اور خواب بھی اس میں الجھے ہوئے تھے۔انہیں آزاد کرنے کے لیے ضروری تھا کہ کسی ترکیب سے اس پریت کو پکڑ کر کسی بوتل یا مشک میں بند کروں،کسی کھنڈر میں پھینک دوں یا اس دنیا کے پانی میں تیرا دوں۔ہاں،میں بھولا نہیں تھا کہ وہ قانون کا،بینک کا اور مودنی پور میں آلوؤں پر گزارہ کر رہے منیجر کا مجرم تھا اورمجھے اس سے اس لون کے متعلق بھی کچھ سخت سوال کرنے تھے۔کاغذ کا وہ ٹکڑا جس پر پچھلی شام اس ملیالی یا کنڑ منیجر سے ملاہوا لفاظ کا پتا لکھا تھا،میری ٹکٹ پاکٹ میںتھا مگر پتا اچھی طرح یاد بھی کر لیا تھا۔۔۔۔جیون کلینک،انکر وِہار۔اس دن صبح جب ننھے عرف ننھا فرشتہ چائے لے کر آیا تواس سے کہا کہ وہ لاج کے کام سے آدھے دن کی چھٹی لے سکے تو۔۔۔
جیسے تیسے دن بیتتا رہا،دھڑکن بڑھتی گئی۔دوپہر میں طے شدہ وقت پر بوندا باندی بھی مجھے نہ روک سکی۔بینک میں منیجر سے صرف یہ کہہ کر کہ مجھے ضروری کام ہے،احتیاط سے گیلی سیڑھیاں اتر کر ،پھر دکانوں کے چھجوں کے نیچے چلتا ہوا بس اسٹینڈ پہنچا۔ننھے صاف دھلے ہوئے کپڑوں میں پہلے سے ہی انتظار کر رہا تھا۔کافی دیر بعد انکر وِہار جانے والی بہت پرانی اور زنگ آلود بس ملی۔وہ بہت دھیمی رفتار میں،ڈگمگاتے ہوئے اور رک رک کر چل رہی تھی۔لوگ آتے جاتے رہے۔کبھی بس بالکل بھر جاتی تھی کبھی لگ بھگ خالی۔شہر گزر گیا تو کھلے کھیت اور میدان آئے۔پھرپتلے راستوں اور تنگ گلیوں والا بھیڑ بھرا دوسرا شہر۔وہ بہت دیر میں پار ہوا۔پھر ندی آئی،بہت لمبا پل۔بس نے اسے بھی پار کر لیا تو مجھے تعجب ہوا۔آخرکتنی دور تھا لفاظ کا ٹھکانہ۔اس طویل سفر میں سارے نظارے آئے۔شہر،ندی،پانی،دلدل،کھیت،میدان،جنگل۔آخر بس جب ایک سنسان بس اڈے پر رکی تواس میں گنتی کے مسافر تھے۔کنڈکٹر سے ہم نے انکر وِہار کے راستے کے بارے میں معلوم کیا۔ٹپکتے آسمان کے نیچے ہم پیڑوں اور کھیتوں کے بیچ ایک کچی سڑک پر چلتے رہے۔پھر وہ سارے زمانے سے چھپی ہوئی بستی آئی جہاں بارش میں بھیگتی پرچون ،کپڑوں،دوائیوں،کھانے پینے کی چیزوں کی دکانیں تھیں اور ٹین کی چھتوں اور کچی اینٹوں کے فرش والے مکان۔وہ ایک غیر قانونی بے ترتیب بستی تھی جو شہر کی حدود سے پرے ،ٹائون پلانرس کے کاغذوں سے باہر،نگر پالیکا کی نگاہیں بچا کر اپنے آپ اگ آتی ہیں۔چائے کی دکانوں پر چھرے باز قسم کے لوگ تھے۔گلیوں میں گیلے کپڑوں کی بو اور ایک مستقل شور وغل جس میں سے کسی بھی لمحہ کسی کا رونا پھوٹ پڑے یا کوئی اداس گانا۔ڈھیلے جوتوں میں ننھے فرشتے کے پیچھے ایک بہت لمبی گلی میں چلتارہا جو پہلے دور تک سیدھی تھی،پھر تڑپتے سانپ کی کنڈلیوں کی طرح مروڑیں لیتی ہوئی۔وہیں رک کر کسی سے راستہ پوچھنا چاہتا تھا کہ کچھ دکھائی دیا۔
سامنے کی دیوار پر بے شمار بھیگے ہوئے اشتہار تھے۔ہاتھ سے لکھے اور چھپے ہوئے پوسٹر اور ٹین کے بورڈ۔ایک تانترک کا تھا جو پیار میں دھوکہ کھائے لوگوں سے متعلق تھا اور دعوی کیا گیا تھا کہ ہفتہ بھر میں معشوق یا عاشق قدموں میں تڑپتا نظر آئے گاورنہ پیسے واپس۔ایک بنگالی ڈاکٹرکا تھا اور ایک دانت کے ڈاکٹر کا ۔۔۔۔بڑے بڑے جبڑوں اور گلوں کے فوٹوز کے ساتھ۔کچھ سرکس کے اشتہار تھے۔انہی کے بیچ ایک بہت پرانا،بد رنگ،تقریبا ً مٹ چکا پوسٹر نظر آیا۔وہ’جیون کلینک‘کا اشتہار تھا۔
پوسٹر میں تین بار’مردانہ طاقت‘لکھا تھا،جس کے نیچے ایک کونے میں ایک آدمی کی مایوس تصویر تھی جیسے خودکشی سے ایک پل پہلے خلا میں گھور رہاہو۔دوسرے کونے میں علاج کے بعد اسی آدمی کی مسکراتی ہوئی تصویر۔’بچپن کی غلطیوں سے سب کچھ گنوا بیٹھے ہوں تو‘کے نیچے ایک ڈاکٹر کی دھندلی تصویر تھی جو ایک بڑی سی طرے دار پگڑی میں تھااور چہرے پر ایک پر اسرار مسکراہٹ۔کیا وہ ڈاکٹر لفاظ تھا۔میں نے سوچا۔کیا یہی اس کی اصلیت تھی،اس کا اصل پیشہ؟پوسٹر میں سب سے نیچے’آج ہی ملئے‘کے ساتھ سمت بتاتا ہوا تیر کا ایک نشان تھا۔اس نشان کی سمت میں چلتے ہوئے بس ایک آدھ منٹ میں ہم وہاں پہنچے جہاں گلی ختم ہو جاتی تھی۔
بارش کے بعد بھاپ اور امس تھی۔ایک بڑا سا پرانا مکان تھا جس کے دروازہ میں سر جھکا کر داخل ہونا پڑتا تھا۔ایک گلیارا تھا جس کے داہنی طرف پرچون،اسٹیشنری اور روز مرہ کے سامان کی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔وہاں پانچ چھ سال کی ایک بچی بیٹھی تھی۔برابر کی دوسری نسبتاً کچھ بڑی دکان پر ایک بھاری بھرکم چق لٹک رہی تھی۔کیا یہی ہے جیون کلینک۔۔۔سوچ کر میرا دل دھونکنی کی طرح چلنے لگا۔شاید میں آ پہنچا ہوں۔چق کے پیچھے ’لفاظ‘،نہیں ،’ڈاکٹر‘لفاظ طرے دار پگڑی اور بادشاہوں جیسی بیل بوٹے والی پوشاک میں ایک اونچی مسندپر بیٹھا ہوگا۔طاقت کا خزانہ۔۔۔چنگاریاں پھینکتا ہوا۔سامنے قطار میں اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے سر جھکائے ہوئے مریض ہوں گے۔۔۔غلطیوں کے پتلے اور اب بے چارے بے طاقت۔وہ انہیں سنہرے فریم والے چشمے کے پیچھے سے ایک تیکھی نگاہ سے دیکھتا ہوگا،کڑک آواز میں جھڑکتا ہوگا۔مگر آفٹر آل وہ ایک ڈاکٹر تھا کوئی جلاد نہیں۔مریضوں کو پدرانہ شفقت سے ڈانٹنے کے بعد وہ شاید ان سے حلف نامہ لکھواتا ہوگا کہ وہ آئندہ غلطیوں سے بچ کر رہیں گے اور پھرکوئی پڑیا،ڈبیا یا شیشی دیتا ہوگا جس سے مردوں میں جان آ جاتی ہوگی، مرجھائے چہروں پر رونق اوربجھی آنکھوں میں چمک۔ہاں۔۔۔ایسا ہی کچھ سوچا میں نے اورکیچڑ آلود جوتوں کو پایدان پر پونچھنے کے بعد چق اٹھا کر دھڑکتے دل سے۔۔۔
نہیں یار،وہاں میرے تخیل کے مطابق کچھ بھی نہیں تھا۔وہاں کلینک بھی نہیں تھا۔وہاں باسی ہوا تھی،سیلن کی بو تھی، نیم تاریکی تھی۔کچھ دیر آنکھوں کو گڑا کر دیکھا۔دیواروں پر آئینے تھے اورسامنے کرسیاں،کچھ بنچیں یا میزیں۔دیوار پر کچھ ہینگر ز اور کپڑے۔یہ تو کوئی بیوٹی پارلر یا بوٹیک جیسی جگہ تھی مگر سنسان۔میں نے ننھے کی طرف دیکھا۔ہماری آہٹ سن کر مکان کے اندر سے کوئی آیا اور سوئچ آن کر دیا۔روشنی میں وہ پارلر یا بوٹیک ،جو بھی تھا،اور بھی اجاڑ،سونا اور قدیم ترین معلوم ہونے لگا۔
سامنے کھلے ہوئے لہراتے بالوں میں،کالی شلوار قمیص میں تقریباً تیس برس کی عورت کھڑی تھی۔اس کے چہرے پر سوکھ کر پھیل چکا میک اپ تھا اور آنکھوں کے نیچے متورم پپوٹے۔خضاب کی قلعی کھولتے اس کے بال بے حد کالے تھے۔جادو گرنیوں اور دل فریب عورتوںکی طرح اس نے ڈھیر سارا کاجل لگا رکھا تھا۔
–یس۔اس نے اونچی آواز میں کہا۔اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں حیرت تھی۔
–کیا جیون کلینک یہی ہے؟میں نے کہا۔
–کلینک؟نہیں تو ۔اس نے کہا۔آپ کہاں سے آئے ہیں۔
–ساکیت کالونی سے۔جیون کلینک کہاں ہے؟
–ساکیت؟اس نے قریب آتے ہوئے کہا۔اس کی آواز خشک اور بوجھل تھی ۔۔۔کچھ کچھ مردانہ۔جب وہ پاس آئی تو میں یہ دیکھ سکا کہ وہ ان عورتوں میں سی تھی جو کبھی خوبصورت رہی ہوتی ہیں،پھر خوبصورتی کھو جاتی ہے اور وہ عمر بھر اسے ڈھونڈتی رہتی ہیں۔
–کیا کام ہے؟اس نے پھٹے ہونٹوں سے کہا۔
–ڈاکٹر صاحب سے ملنا ہے۔میں نے کہا۔
–یہاں تو کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔
–جیون کلینک کہاں ہے؟
–کلینک؟وہ تو بہت پہلے۔۔۔۔
–ڈاکٹر صاحب کہاں رہتے ہیں؟
–کون ڈاکٹر؟
–لفاظ۔
وہ ہم دونوں کے چہرے باری باری سے دیکھتی خاموش کھڑی رہی۔
–کیا کام ہے؟اس کا لہجہ اندیشوں میں ڈوبا ہوا تھا۔آپ کون ہیں؟
–مریض سمجھ لیجئے۔میں نے ننھے کے کندھوں کو دباتے ہوئے کہا۔ایک ڈاکٹر کے پاس اور کون آئے گا؟
–مریض؟اتنی دور سے؟اس نے کہا۔نہیں سچ بتائیے،کیا کیا اس نے؟
–کس نے؟
ہمیں پارلر یا بوٹیک،جو بھی تھا،کے اندر سے گھر کے اندرونی حصہ میں لے جایا گیا۔ایک کمرہ تھا جہاں ایک خستہ حال صوفہ تھااور ایک سینٹر ٹیبل۔کپڑے،کتابیں،ٹی وی کا ریموٹ اور کچھ اور سامان صوفے پر بے ترتیب بکھرے تھے۔ایک کونے میں کرسی میز پر ٹیبل لیمپ جلا کر ایک لڑکی،جس کی عمر دس یا بارہ سال رہی ہوگی،پڑھائی کر رہی تھی،وہ مڑ کرہمیں دیکھنے لگی۔عورت نے صوفے سے چیزیں ہٹاتے ہوئے ہمیں بیٹھنے کے لیے کہا۔پھر لڑکی سے کہا۔جا بلا کر لا،کہنا’مریض‘آئے ہیں۔
ہم بیٹھے انتظار کرتے رہے۔میں اور ننھے ایک صوفے پر اور اپنے بڑے بڑے وزنی جھمکوں میں وہ عورت ہمارے سامنے۔وہ کبھی ہمیں دیکھتی تھی اور کبھی مڑ کر دروازے کی طرف اور جھمکے جھولنے لگتے تھے۔میں نے اس کی طرف سے توجہ ہٹا کر پیچھے الماری میں بھری کتابوں کے نام پڑھنے کی کوشش کی۔کافی دیر بعد وہ دروازہ پر نظر آیا۔وہ اس قدر بوڑھا اور تھکان سے بوجھل ا لگ رہا تھا کہ پہلی نظر میں میں اسے پہچان نہ سکا۔اس کی میلی سی قمیص دیکھ مجھے دھکا لگا اور پگڑی کا نہ ہونا تو کسی وشواس گھات جیسا۔یہ تو وہ شخص نہیں تھا جس سے ملنے کی امید میں میں اتنا لمبا سفر طے کرکے آیا تھا۔مگر اس کا چہرہ۔۔۔۔
–آ بھئی۔۔عورت نے کہا،’مریض‘ آئے ہیں تیرے۔’مریض۔‘مبارکاں جی۔بڑی اچھی چل رہی ہے تیری ڈاکٹری۔بڑی دور دور سے ’مریض‘آنے لگ پڑے جی اب تو۔
اس کا ایک ایک لفظ زہر میں ڈوبا ہوا تھا۔وہ ہر لفظ پر زور دے رہی تھی اور ’مریض‘پر خاص طور سے۔لفاظ اپنی میلی نگاہوں سے اسے صرف دیکھے جا رہا تھا۔
–’مریض‘آئے ہیں جی مریض۔اس نے اسی انداز میں کہا،چل شروع کر نا علاج۔
–تم جاؤ۔لفاظ نے کمزور آواز میں کہا۔
–جاؤں؟کہاں جاؤں؟کیوں جاؤں؟میں نے بھی دیکھنا ہے تو کیسا ڈاکٹر ہے؟بھئی اتنی دور دور سے’ مریض ‘آنے لگ پڑے۔تو علاج شروع کر نا۔۔۔وہ ہم سے مخاطب ہوئی۔ہاں جی بتاؤ اپنا مرض۔
لفاظ جیسے زمین میں گڑجانایا کہیں روپوش ہوجانا چاہتا تھا۔وہ ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔جیسے روشنی میں چلا آیا کوئی رات کا کیڑا چھپنے کے لیے اینٹ یا جھاڑی تلاش کرتا ہے۔سر عام بے عزتی سے اس کا چہرہ چاک جیسا سفید تھا۔دل کش عورت اپنے زہر میں میں بجھے لفظوں سے اسے کچل رہی تھی،ریشے بکھیر رہی تھی۔مجھے لگا وہ ڈھہہ جائے گا۔ابھی اس کی جگہ ایک بھوسے کا ڈھیر نظر آئے گا۔
–شکُن پلیز۔۔۔اس نے ایک دھیمی کانپتی آواز میں پھر کہا۔
–میں تو یہیں بیٹھوں گی۔وہ عورت جس کا نام شکنتلا رہا ہوگا،صوفے میں اور دھنس کر بیٹھ گئی۔تو جو کرکے آتا ہے،بھگتنا کسے پڑتا ہے؟یہ لوگ اتنی دور سے آئے ہیں۔اب کیا کر آیا تو ؟پتا تو چلے۔
کچھ دیرخاموشی چھائی رہی۔
–یہ آدمی ۔۔یہ جو ہے نا۔۔۔۔۔ دل کش عورت نے لفاظ کی طرف انگلی اٹھا کر میری طرف مڑ کر اونچی آواز میں کہا(چ سے شروع ہونے والا ایک بھدا بازاری لفظ)بنانے میں استاد ہے۔اس کا تو کھیل ہی ہے جی(وہی بازاری لفظ)بنانے کا۔مجھے بھی اس نے وہی بنایا تھا۔آئے ہائے۔۔۔سنتے اس کی پیار محبت کی باتیں۔اردو کے ایک سے ایک شعر،کویتائیں۔کوئی بھی لڑکی(وہی)بن جائے۔یہ تو شادی کے بعد پتا چلا نا کہ یہ بس لفظوں کا ماسٹر ہے۔پوری دنیا کو(وہی)بنا دے،اتنا چالاک ہے۔یوں بناتا ہے،اس نے چٹکی بجا کر کہا،یوں۔پہلے یہیں بناتا تھا،باقاعدہ کلینک کھولا ہوا تھا جی۔پھر یہاں کے لوگ بننا بند ہو گئے تو دور جا کر بناتا ہے۔لوگوں کو بس(وہی)بنا بنا کر ادھار لیتا رہتا ہے،چکاتی میں ہوں۔ایک اسکول میں نوکری کرتی ہوں۔پارٹ ٹائم دکان چلاتی ہوں۔صبح سے شام مرتی ہوں،بچوں کے پیٹ کاٹ کاٹ کر اس کے ادھار چکاتی ہوں۔آپ سے بھی پیسے لیے ہیں؟
کس قدر بے رحمی سے وہ کالے لباس میں لپٹی دلکش عورت لفاظ کے لفظوں کا پیرہن ایک ایک کرکے اتار رہی تھی۔وہ گرج رہی تھی،برس رہی تھی۔وہ سر جھکائے بیٹھا تھا،اتنا خاموش جتنا سوکھا ہوا کنواں ہوتا ہے،یا دیمکوں کی بامبی،یا کھدائی میں نکلے کھنڈر۔کیا یہ وہی شخص تھا جس کے پا س ہر سچویشن کے مطابق بھاری بھرکم اور پر کشش لفظوں کا ایک ذخیرہ رہا کرتا تھا۔ملک کے لیے ،ماضی اور مستقبل کے بارے میں،لوگوں کی صحت کے،ملٹی نیشنلز کے بارے میں۔۔۔جیسی سچویشن ویسے ہی لفظ۔میرے لیے یہ بڑی مشکل تھی کہ اس وقت جو منظر سامنے تھا،اسے کیسے سمجھوں ،کس خانے میں رکھوں۔یہ ضرور سمجھ میں آیا کہ ان کی ازدواجی زندگی بس ایک رسہ کشی کا کھیل تھی۔بہت پہلے اس نے عاشقانہ شاعری سے اس تیز طرار عورت کا دل جیتا ہوگامگر شاعری کے پردے کے نیچے انسانی تعلقات اور نسائیت کے بارے میں اس کے اصل خیال پرانے تھے،اجارہ داری والے۔یہ قبضہ جمانا چاہتا ہوگا مگر دنیا میں کس کا قبضہ ہمیشہ قائم رہا ہے؟وہ لمحہ آتا ہی ہے جب غلام پلٹ کر۔۔۔
سامنے صوفے پر بیٹھا لفاظ ایک بھی لفظ کے بغیر تھا۔ایک چیتھڑا بھی نہیں،ایک چندی بھی نہیں۔ننگا،بھدا،بد صورت۔قمیص کی جیب سے چشمہ نکال کر اس نے آنکھوں پر لگایا،موٹے گول لینس والا چشمہ،جس کے پیچھے اس کی آنکھیں کنچوں کی طرح بڑی بڑی نظر آنے لگیں۔پگھلے ہوئے کنچے،کسی تازہ پینٹنگ کی طرح گیلے۔رقیق۔۔جیسے ابھی بہہ جائیں گے۔
اس نے ویران آنکھوں سے باری باری ہمیں دیکھا۔
–آپ کو یہاں کا پتا کیسے چلا؟اس نے کہا۔
–پتا؟اسی بینک سے جہاں سے آپ نے۔۔۔میں نے کہا۔
–بینک؟کیسا بینک؟دلکش عورت نے بیچ میں کہا۔
–تم چپ رہو۔لفاظ نے کہا۔تم جائو نا پلیز۔
–سن لو دھیان سے۔دل کش عورت نے پھر اونچی آواز میں کہا۔میں کہیں نہیں جانے والی۔میں یہیں رہوں گی۔ایک ایک بات سنوںگی۔پہلے ہی تمہاری حرکتوں سے ہم برباد ہو چکے ہیں۔ہمارا گھر۔۔۔بیٹیوں کی لائف۔۔۔تیرا کیا،تجھے تو لچھے دار باتوں کا شوق ہے۔مگر اس کا نتیجہ تو ہمیں بھگتنا ہوتا ہے نا۔تو اپنا کا م کر۔
اس کے بعد ایک کانپتا ہوا ویران وقفہ تھا۔۔۔۔سوئی کی نوک پر ٹکا ہوا۔
–یہ کو ن ہے؟لفاظ نے ننھے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
–مریض۔میں نے کہا۔
دل کش عورت پاس ہی بیٹھی رہی ۔لفاظ سے بس دو فٹ دوری پر۔۔۔اس کے چہرے کو شعلہ بارنگاہوں سے دیکھتی ہوئی۔وہ خاموش رہا تو اس نے کہا۔۔مریض! سنا نہیں۔
–کیا پرابلم ہے؟اس نے کہا۔
ننھے میری طرف دیکھنے لگا۔مجھے بھی اچانک کچھ نہیں سوجھا۔
–وہی پرابلم جو اس عمر میں ہوتی ہے۔میں نے کہا۔
–اوہ۔۔۔اور؟
–اور؟اس کا من بھٹکتا ہے۔
وہ بچی جو کچھ دیر پہلے پڑھائی کرتی نظر آئی تھی اور جسے دل کش عورت باہر کی دکان میں چھوڑ آئی تھی،اندر آئی۔
–ممی۔۔۔کسٹمر۔
–کسٹمر؟
دل کش عورت اٹھی اور یہ کہتے ہوئے کہ وہ ابھی آتی ہے،اپنی لہراتی ہوئی پوشاک میں جیسے بہتے ہوئے باہر چلی گئی۔لفاظ اٹھا اور جلدی سے دروازہ پر چٹخنی لگا دی۔
–معاف کیجئے گا۔میری بیوی کچھ۔۔۔اس نے کہا۔
لفاظ اب بالکل پر سکون اور نارمل حالت میں تھا۔یہاں تک کہ اس کے چہرے پر ایک بے حیا قسم کی مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔جیسے دلکش عورت کے ہٹتے ہی اس کے لفظ واپس لوٹ آئے ہوں۔وہ کہتا رہا اور میں ایک بھی لفظ کہے بغیر ،بس اس کا چہرہ دیکھتا اور بیٹھااس کی باتیں سنتا رہا۔مجھے ایک بے قابو تجسس نے،نہیں ۔۔۔تجسس سے بھی بڑی کسی طاقت نے جکڑ لیا تھا۔یہ یاد رکھو کہ ننھے محض سترہ اٹھارہ سال کا تھا اور میں خود پچیس سال کا اور وہ انٹرنیٹ سے بہت پہلے کا زمانہ تھا۔اس عمر میں ایک مسکراہٹ بھی مشتعل کر سکتی تھی۔کبھی کبھی کسی جھٹ پٹے سے کچھ ممنوع لفظ باہر آتے تھے ،شعور سے گولی کی طرح گزر جاتے تھے۔وہ ایک دھیمی،پر سکون اور مضبوط آواز میں رازوں سے پردہ اٹھاتا رہا اور میں ایک ایک لفظ پیتا رہا۔باہر اندھیرا ہو چکا تھا۔کونے کے ٹیبل لیمپ کی مدھم روشنی میں ہر لفظ پر زور دے کر بولتا ہوا وہ کتنا با علم لگ رہا تھا،جیسے دنیا میں کچھ بھی اس کے لیے نامعلوم نہیں۔ساری باتیں تو میں نہیں بتائوں گا۔وہ اس طرح کی تھیں ،جنہیں سن کر آج کے بچے بھی ہنس پڑیں گے۔لیکن کچھ ضروربتاؤں گا،جیسے ننھے سے اس نے کہا،بنداس کرو پیار،بغیر ڈر کے۔تمہاری عمر میں سب کرتے ہیں۔جو کہتا ہے کہ وہ نہیں کرتا،وہ جھوٹ بولتا ہے۔رات کی سنسان گھڑیوں میں تیز سانسیں،لت پت لمحے،یہ سب نیچرل ہے۔بس کسی افسوس کو قریب نہ آنے دو۔یہ افسوس ہی ہے جو ہر چیز کو زہریلا بنا دیتا ہے۔وہ اس سے مخاطب تھا لیکن بیچ بیچ میں نظر اٹھا کر مجھے دیکھتا تھا۔کبھی نہ کبھی ہمیں سیکس کی حدود کو جاننا ہوتا ہے۔اس نے کہا۔دنیا میں شہوانی دوائیوں کا ایک بہت بڑا بیوپار ہے،اربوں کھربوں ڈالر کا مگر وہ سب بکواس ہے۔بس ایک ہی شہوانی دوائی ہے اور وہ ہے اٹوٹ پیار۔یہ ہمارے ملک کی بد قسمتی ہے کہ۔۔۔۔۔
دروازے کے دونوں پٹ جھٹکے سے کھلے۔دل کش عورت بالوں کو لہراتے ہوئے کسی آندھی طوفان یا سیلاب کی طرح اندر داخل ہوئی۔کہہ لو ایک زلزلہ یادھماکا۔اس کے پیچھے چٹخنی دروازے سے ٹکرا کر بجتی رہی۔کھڑک کھڑک۔۔۔۔
–میں نے سب سن لیا ہے۔اس نے چیخ کر کہا۔
–کیا سن لیا ہے؟لفاظ نے کہا،چلو اندر چلو،تم یہاں کیوں آ گئیں؟
–وہی جو الٹی سیدھی باتیں انہیں سکھا رہے ہو۔سنو،اس نے مجھے مخاطب کرکے کہا،اس آدمی کو کچھ نہیں آتا ہے۔یہ کوئی ڈاکٹر نہیں ہے،بس لفاظ ہے،صرف لفاظ۔اس کے چکر میںمت پڑنااور پیسہ ایک مت دینا اگر مانگے۔
–اندر جائو۔لفاظ نے چلا کر کہا۔تم میرے اور مریضوں کے بیچ مت آؤ۔سمجھیں؟
–مریض؟کون مریض؟اور تو کہاں کا ڈاکٹر ہے؟بھیس بدل کر کبھی کچھ بن جاتا ہے کبھی کچھ۔بہروپیا سالے۔تجھے آتا کیا ہے سوائے لفظوں کے۔لفظ لفظ لفظ۔کچھ پتا بھی ہے گھر میں چولہا کیسے جلتا ہے؟اپنی لڑکیوں کے ساتھ صبح سے شام مرتی ہوں،تب چار پیسے آتے ہیں جن سے تیرا کنواں بھرتی ہوں۔اس کے اوپر تیرے ادھار۔سن لے دھیان سے اب اگر۔۔۔۔
–چپ مکار کہیں کی۔اپنے سینے کی ساری طاقت لگا کرلفاظ نے کہا۔اس کا چہرہ شکی اور بے رحم ہو گیا اور آنکھوں کے بڑے بڑے ڈھیلے انگاروں کی طرح دہکنے لگے۔ایک غراہٹ جیسی آواز میں اس نے کہا،چل اندر۔مجھے سب پتا ہے۔تجھے کمسن لڑکوں کا شوق ہے۔انہیں دیکھ کر تیری رال۔۔۔
عورت اس پر جھپٹ پڑنا چاہتی تھی۔وہ اٹھا اور تیز مگر ڈگمگاتے قدموں سے اس کی طرف گیا۔جب وہ اس کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا قد میں وہ اس سے چھوٹا تھا اور دبلا بھی۔اس کی کلائی پکڑ کر کھینچنے کے لیے اسے ساری طاقت مجتمع کرنی پڑی ہوگی۔وہ اسے اسی دروازہ تک لے گیا جہاں سے وہ اچانک اندر چلی آئی تھی۔وہ اس دوران چیختی رہی۔چھوڑو ۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔اور اس کے بازو کو دانت سے کاٹنے کی کوشش کرتی رہی۔اسے دروازے کے پیچھے دھکیل کر اس نے کنڈی لگا دی۔
ہانپتا ہوا وہ واپس آ کر فکر مند انداز میں صوفے پر بیٹھ گیا۔ اچانک جیسے اسے ہمارا دھیان آیا ہو۔آپ لوگ جائیے۔اس نے تیز سانسوں کے درمیان کہا۔
ہم باہر چلے آئے۔شام کی بتیوں میں گلی کی نم سڑک چمکنے لگی تھی۔گڈھوں میں پانی بھرا تھاجن کے بیچ احتیاط سے چلتا ہوا میں نہ جانے کیا کیا سوچتا رہا۔ابھی جو بدصورت منظر دیکھا تھا اس کے معنی کیا تھے؟اتنے وزنی جھوٹ کندھے پر لیے ہوئے،جن کے بوجھ سے آتما دوہری ہو جائے،وہ زمین پر کس طرح چلتا تھا۔وہ لڑکھڑا کر گر کیوں نہیں پڑتا؟اس نے کیسے عورت کو جانوروں کی طرح گھسیٹا تھا۔اس وقت دیوار پر اس کا سایہ کتنا طویل اور بھونڈا تھا۔بہر حال جو بھی ان کی زندگی تھی،وہ جانیں اور ان کا کام۔لیکن تھوڑی ہی دیر پہلے،کچھ لمحے قبل اس نے عورت مرد کی برابری کی،آپسی میل جول کی باتیں کی تھیں۔لیمپ کی ترچھی روشنی میں اس کی پیشانی کے خم کانپ رہے تھے،جب اس نے کہا تھا کہ ہمارے ملک کی بد قسمتی ہے کہ یہاں مرد اور عورت سب کچھ ہوتے ہیں مگر دوست نہیں۔یہی سارے مسائل کی جڑ ہے۔اس نے ہوا میں انگلی اٹھا کر کہا تھا۔اس نے برابری،بھروسے،باہمی عزت اور دوستی کے بارے میں بہت ساری باتیں کہی تھیں۔
لفاظ کہیں کا۔میں سڑک پر چلتے چلتے بدبدایا۔
وہ ساری باتیں رہ گئی تھیں جو کہنے اور پوچھنے کا ارادہ لے کر گیا تھا۔جانناتھاکہ اس لون کا کیا ہوا جو اس نے ایک Educationist بن کر میرے بینک سے لیا تھا۔اور وہ دوسرا لون جو اس نے باقاعدہ ایک سائکو لوجسٹ یا ڈاکٹر کوٹنیس بن کر دوسرے بینک سے لیا تھا۔وہ پیسے اس نے کہاں اڑا دیے۔اس کے گینگ کے لوگ کہاں ہیں؟کون ہیں؟اصل سے بھی زیادہ اصل نظر آنے والے کاغذوں کا راز؟اس کی پہلی لفاظی کی داستان،آج تک کا سب سے بڑا کارنامہ اور آگے کی اسکیمیں۔کیا اسے ڈر لگتا ہے؟کبھی شرم آتی ہے یا نہیں؟کوئی دل کو نوچنے والی کہانی؟کوئی پچھتاوا جو سینے میں کانٹے کی طرح چبھتا ہو؟سو سوالوں کا ایک سوال یہ کہ اتنے سارے جھوٹوں کے بیچ کیا اس کے پاس کوئی سچ بھی ہے؟کوئی ایک سچ۔ایک بار خیال آیا کہ مڑ کر اس کے پاس واپس چلا جائوں۔لیکن ننھا فرشتہ جو سارے نظارے دیکھ کر سہم گیا تھا،کافی آگے چلا گیا تھا اور اوپر آسمان کا مزاج۔۔۔۔لیکن میں نے طے کیا کہ جلد ہی ،اگلے ہی ہفتے اس کے پاس دوبارہ جانا ہوگا۔
لفاظ سے ملنے ایک بار،آخری بار ملنے جانا ہوا تو لیکن اگلے ہفتے نہیں،اگلی صدی میں۔ٹھیک ٹھیک کہوں تو ڈھائی زمانے گزرنے کے بعد۔مکتی بودھ جی کا جملہ ہے کہ اس ملک میں ہر د س برس میں زمانہ بدلتا ہے،جس کے معنی ہیں پچیس سال میں ڈھائی یا تین زمانے۔ہاں یار،پورے پچیس سال۔ہوا یہ کہ غیر متوقع طور پر میرے اپنے شہر کے لیے ٹرانسفر آرڈر آ گئے،جس کے لیے میں تمام کوششیں کر رہا تھا۔وہاں کی ذمہ داریوں سے نجات پا کر،کولیگس اور ننھے فرشتے سے رخصت ہو کر،اپنی اسی اٹیچی اور ہولڈال کے ساتھ میں واپس چلا آیا۔آنے سے پہلے منیجر کو لفاظ سے ہوئی اس ملاقات کے بارے میں ضرور بتا دیا تھا اور اس کے ٹھکانے کے بارے میں بھی۔یہاں گھر اور نئی برانچ کی ذمہ داریوں میں ایسا پھنسا کہ وہ لون اکائونٹس،مودنی پورمیں آلو کھاتا منیجراور دلکش عورت،سب میرے لیے لیے ایک دھندلی سی یاد بن کر رہ گئے۔راتوں کی نیند قربان کرکے لکھنا ضرور جاری رہالیکن لفاظ کی ادھوری،بے نتیجہ کہانی ہوا میں معلق رہی۔اس میں بھلا کہانی جیسا کیا تھا؟لیکن اس کی یاد کبھی ذہن سے محو نہیں ہوئی۔نیند یا بیداری کے کنارے اس کا چہرہ،خاص طور پر ڈرائونے طریقے سے یکلخت مسکرانا سامنے آتا رہا۔
پچیس برس کے بعد میں پھر اس کے سامنے تھا۔پہلے جیسے ہی چاقو کی طرح کاٹتی ٹھنڈی ہواؤں کے بیچ ٹپ ٹپ ٹپکتی ٹرین میں،ناگ پھنی کے جھنڈوں اور ویران گاؤں کے بیچ ایک مشکل،بے امید سفر کے بعد اس تک کیسے پہنچا،اسے رہنے دو۔ اس برس ملک کے جنوبی حصہ میں ستاروں سے محبت کرنے والے ایک نوجوان نے جب یہ لکھ کر خود کشی کر لی تھی کہ وہ اپنی روح اور جسم کے درمیان ایک بڑھتی ہوئی کھائی محسوس کرتا ہے۔وہ ایک عفریت بن گیا ہے۔اسے عفریت بن کر نہیں جینا تھا۔اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ ہمارے جذبات اور معتقدات جھوٹے ہیں،محبت بناوٹی اور آرٹ مصنوعی ہے۔اسے نقلی عشق اور نقلی آرٹ کے ساتھ نہیں جینا تھا۔اس سال جب ملک کے الگ الگ حصوں میں رائٹر قتل کیے گئے۔۔۔اس قدیم ترین ملک کی آج تک کی سب سے پہلی مصنف کشی۔۔۔مجھے اس لفظ باز کے پاس یہ کہنے کے لیے جانا تھا کہ وہ اپنا خطرناک کھیل بند کرے۔لوگ مرنے لگے ہیں۔پوچھنا تھا کہ کیا اس کے اندر بھی کوئی کھائی ہے؟کھائی نہ سہی کوئی نالی ،گڈھا یا سوراخ ہی۔وہ کس طرح جیے جاتا ہے؟ہاں اور وہ سوال بھی جو پچھلی بار ادھورے چھوٹ گئے تھے۔
پڑوس کے صوبہ کے دارالحکومت میں بینک کا ایک سمینار تھا۔وہاں جانے والی ٹرین ان جڑواں شہروں سے ہوتی ہوئی جاتی تھی۔مجھے محسوس ہوا کہ وہ لفاظ سے ملنے کا آخری موقع تھا ۔اس کے بعد۔۔۔واپسی کے سفر میں میں اس اسٹیشن پر اتر گیا۔اس بار اس کے گھر تک پہنچنے میں پچھلی بار جیسی پریشانی نہیں ہوئی۔’انکر وِہار‘نام کی بستی پہلے شہر سے باہر تھی لیکن اب شہر اس کے آگے بہت دور تک پھیل گیا تھا۔اسٹیشن پر ہی آٹو مل گیا اور اس سے پہلے کہ میں دونوں شہروں کی تبدیلیوں کو آنکھوں میں بھر پاتا،وہ بستی سامنے آ گئی۔پچھلی بار کھیتوں اور پیڑوں کے بیچ جس کچی سڑک پر چلنا پرا تھا،وہ تو اب تھی ہی نہیں۔اس کے گھر کا راستہ مجھے دھندلا سا یاد تھا۔کچھ بھٹکنا پڑا لیکن پہنچ ہی گیا۔
پہلے جو آس پاس لٹی پٹی دکانیں تھیں،انہیں ملا کر ایک کر دیا گیا تھا۔پچھلی بار وہ ایک غیر آباد،سنسان جگہ محسوس ہوئی تھی لیکن اب وہاں ہلچل اور گہما گہمی تھی۔وہ ایک کافی بڑا ڈیپارٹمنٹل اسٹور تھا۔سیڑھیاں چڑھ کر شیشے کے دروازے کو دھکیل کر اندر داخل ہوا اور کیشئر گرل سے دکان کے مالک کے بارے میں پوچھا۔اس نے خاموشی سے کونے میں ایک کیبن کی طرف اشارہ کیا جہاں’منیجر‘لکھا تھا۔میں نے اس کیبن کا دروازہ ہولے سے دھکیلااور وہاں کھلے بالوں والی ایک عورت کو میز پر جھکے،لیپ ٹاپ پر کچھ کام کرتے دیکھا۔اس کی پیٹھ دروازہ کی طرف تھی۔آہٹ سن کر اس نے مڑ کر مجھے دیکھا۔وہ وہی دل کش عورت تھی،ایک دم وہی۔ اس کی پیشانی پرویسی ہی بڑی بندی تھی اور اسی طرح جھولتے ہوئے جھمکے۔لیکن ساتھ کی دیوار پر دل کش عورت کی مالا پہنے ہوئے تصویر نے مجھے اپنی غلطی کا احساس کرایا۔وہ دل کش عورت نہیں بلکہ اس کی بڑی ہو چکی بیٹی تھی،شاید وہی جو پچھلی بار۔۔۔۔بیچ کے برسوں میں اس کی ماں کو موت جھپٹا مار کر لے گئی تھی۔
–مجھے لفاظ صاحب سے ملنا ہے۔میں نے کہا۔
–کون؟اس نے کہا۔
–مسٹر لفاظ۔
–وہ تو یہاں نہیں رہتے۔
–وہ کہاں رہتے ہیں؟
–آپ؟
اس نے مجھے بٹھایا،چائے بھی پلائی۔ہم باتیں کرتے رہے۔بات چیت کے دوران اس نے دل کش عورت کی طرح ہی خشک آواز میں زور دے کر کہا،ایک بار نہیں دو بار،ان لوگوں نے اخبار میں چھپوا رکھا ہے کہ ان کے والد سے کوئی کسی قسم کا لین دین کرتا ہے تو یہ اس کے اپنے رسک اور ذمہ داری پر ہوگا۔گھر والوں کا اس سے کوئی واسطہ نہیں اور انہیں بلا وجہ نہ پریشان کیا جائے۔وہ کہاں رہتے ہیں،یہ پوچھنے پر اس نے کہا کہ وہاں تک خود پہنچ پانا میرے لیے مشکل ہوگا۔اس نے موبائل پر کسی سے بات کی۔تھوڑی دیر میں اس کا بیٹا جو سترہ اٹھارہ سال کا شرمیلا نوجوان تھا،دکان میں آیا۔اس کے پاس موٹر سائیکل تھی۔ وہ کافی دیر تک مجھے بستی کی گول اور الجھی گلیوں میں گھماتا رہا۔تھوڑی دیر بعد اس نے ایک تنگ گلی کے سرے پر موٹر سائیکل کھڑی کی اور راستہ بتاتا ہوا پیدل آگے چلتا رہا۔ایک اونچی دیواروں والا گودام آیا۔اس نے اس کے بھاری بھرکم لوہے کے گیٹ کو طاقت لگا کراندر دھکیلا اور مڑ کر کہا،انکل جی،اس طرف۔
وہاں چھت کے سوراخوں سے چھن کر آنے والی روشنی سے کمرہ نیم روشن تھا۔فرش کچی اینٹوں کا تھااور دیواریں بغیر پلاسٹر کی۔دیواروں سے سٹے ہوئے بہت سارے گتے کے ڈبے اور بندھی ہوئی بوریاں تھیں۔کچھ کباڑ بھی یونہی بکھرا ہوا۔شاید وہ ان کی دکان کا گودام تھا اور لفاظ کا ٹھکانہ بھی۔ایک کونے میں ایک بستر تھا،جس کے پاس ایک چھوٹی سی میز پر پانی کا ایک جگ،گلاس اور کچھ چیزیں رکھی تھیں۔بستر خالی تھا۔میں نے نگاہ دوڑائی تو دوسرے کونے میں شیلفوں کے بیچ ایک میز کے گرد کچھ کرسیاں نظر آئیں ،جہاں کچھ لوگ بیٹھے ایک میٹنگ کر رہے تھے۔میز پر کچھ کاغذ اور کتابیں تھیں۔کیا اس نے باقاعدہ ایک دفتر کھول لیا ہے۔میں نے سوچاکیوں نہ ہوتا،دل کش عورت جا چکی تھی اور اب وہ آزاد تھا۔لفظوں کو آسمان میں پتنگ کی طرح اڑائے یا لفظوں کے آسمان میں پتنگ کی طرح خود اڑے۔سامنے کی کرسی پر جو ایک سفید داڑھی،دھنسی آنکھوں اور ہلکی جھریوں ولا شخص بیٹھا تھا،اسے میں اتنی دور سے نہ پہچان سکا۔لیکن قریب آنے پر جب اس نے چشمہ چڑھا کرچمکتے کنچوں سے مجھے اسی ناگ جیسی محویت سے دیکھا تو مجھے کوئی شک نہ رہا۔وہی تھا وہ،ہمارے خوبصورت لفظوں کا مذاق بنانے والا،جملوں کا اٹھائی گیر،ہماری لڑائیوں کو اندر سے کمزور کرنے والا،ابھی تک زندہ،ہمارے وقت پر ایک کلنک کی طرح۔
لفاظ کے نواسے نے اپنے نانا کی قدم بوسی کی ۔شاید مجھے پہچاننے میں اسے بھی کچھ وقت لگا۔اس نے وہاں بیٹھے لوگوں کو آنکھوں سے ہی جانے کا اشارہ کیا۔وہ اٹھ کر ہمارے بازو سے ہوتے ہوئے چپ چاپ گودام سے باہر چلے گئے۔مجھے لفاظ کے نواسے کے ساتھ واپس جانا تھا،اس لیے وہ وہیں بیٹھا رہا۔
–دیکھئے۔آپ کے بینک کے لون کا معاملہ تو عدالت میں ہے۔اس نے بہت دھیمی آواز میں کہا،اب جو بھی فیصلہ ہوگا۔۔۔
–نہیں،میں اس وقت بینک کی طرف سے نہیں آیا۔
–پھر؟اتنے سال بعد ؟کیا جاننے آئے ہیں؟
–بس یونہی کچھ۔۔۔آپ کے بارے میں۔میں نے کہا۔
–کیا آپ ایک را۔۔۔رائٹر بھی؟اس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
–جی۔۔۔میں نے کہا۔
–لیکن ہوں بھی تو کیا؟پہلے لگتا تھا ان سے ڈر۔۔۔لیکن اب۔۔۔
وہ بہت دھیمی آواز میں بول رہا تھا۔تھرتھراتے،بے سرے لفظ جو مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی ہوا میں گھل جاتے تھے۔تلفظ بھی صاف نہیں تھا۔آخر بڑھتی عمر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔وہ کچھ اونچا سننے بھی لگا تھا۔لفاظ کا نواسہ جو اس کے قریب بیٹھا تھا،اس کی بات کو دوہراتا۔میں نے سوچا کیسے پوچھوں۔وہ ایک اکیلی بات جو اس نے ہمیشہ اپنے دل میں چھپا رکھی ہو،کبھی کسی سے نہ کہی ہو۔اتنے سارے جھوٹے لفظوں کے بیچ سارے زمانے سے چھپا کر رکھا کوئی ایک اس کی آتما کا سچ۔لفاظ کے نواسے نے اس سے میری بات نقل کی۔اس نے جواب میں دھیمی آواز میں کچھ کہا جو نواسے نے مجھ سے دوہرایا،سچ جیسا میرے پاس کچھ نہیں ہے۔
–یہ کیسے ممکن ہے؟میں نے کہا۔
–یہ کیسے ممکن ہے؟نواسے نے اس سے دوہرا کر کہا۔
–میرے پاس ایسی کوئی بات نہیں۔اس نے پھر کہا۔
–کہہ رہے ہیں ان کے پاس ایسی کوئی بات نہیں۔نواسے نے دوہرایا۔
–سنئے۔میں نے سیدھے اس سے کہا،اس کے بعد شاید آپ سے ملاقات نہ ہو۔اگر اب بھی اپنا سچ چھپائیں گے تو مجھے یہ سوال تنگ کرتا رہے گا کہ آپ اصل میں کون تھے۔
–صرف ایک لفاظ۔اس نے کہا۔
–جی یہ کہہ رہے ہیں صرف ایک لفاظ۔نواسے نے مجھ سے کہا۔
–لیکن لفظوں کے معانی؟میں نے جیسے خود سے ہی کہا،بہت دھیمی آواز میں۔
وہ مسکرایا،وہی یکلخت مسکراہٹ لیکن کچھ کہا نہیں۔میں اپنے اندر کے سارے سوالوں کو روک کر چلنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔اس کے نواسے نے اپنی موٹر سائیکل پر وہاں چھوڑ دیا جہاں سے اسٹیشن جانے کے لیے آٹو ملتے تھے۔جب وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا تو مجھے خیال آیا کہ ممکن ہے اپنے نواسے کی موجودگی میں اس نے کچھ نہ کہنا چاہا ہو۔صرف ہم دونوں کی بات چیت میں وہ شاید۔۔۔
ہم جن راستوں سے واپس آئے تھے،انہیں یاد کرتا ہوا میں پیدل واپس چلنے لگا۔گودام وہاں سے کافی دور تھا۔راستہ ٹیڑھا میڑھا تھا۔پھر بھی کسی طرح گودام تک واپس پہنچ ہی گیا۔اس کے اونچے اور بھاری بھرکم گیٹ کو دھکیل کر اندر داخل ہوا۔
لفاظ ابھی تک اپنے’دفتر‘میں تھا۔وہاں کونے کی کرسی پر بیٹھا وہ کچھ پڑھ یا سوچ رہا تھا۔بیچ بیچ میں ایک کاغذ پر کچھ لکھتا تھا،شاید نئے نئے سیکھے کچھ پر کشش لفظ یا کسی نئے کارنامے کا پلان یا اس کا خاکہ۔اس نے دور سے اپنے چمکتے کنچوں سے مجھے دیکھا۔میں گودام کی لمبائی پار کرکے اس کے پاس پہنچ کرچپ چاپ کھڑا رہا۔میں نے مایوسی کے عالم میں بائیں ہاتھ سے ہوا میں ایک سوالیہ اشارہ کیا۔وہ فوراً تو نہیں لیکن جلد ہی سمجھ گیا کہ میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کون ہے،کیا ہے،اس کے وجود کی حقیقت،اس کی تعریف۔اس مشکل عقدہ کا کوئی حل جو وہ میرے لیے تھا۔
اس بار بغیر مسکرائے وہ چشمہ اتار کر اس کی کمانی چباتے ہوئے مجھے دیکھتا رہا۔اپنی کرسی سے اٹھ کر وہ بستر کے قریب ایک الماری کے پاس گیا،وہاں تھوڑی دیر کچھ تلاش کرتا رہا۔میں نے دیکھا کہ اس نے ایک ڈبے سے مصنوعی دانتوں کا سیٹ نکالا،احتیاط سے منہ میں فٹ کیا۔پھر اس نے ایک واضح،اونچی اور طاقت ور آواز میں کہا:
بس ایک لفاظ۔
ٌٔ٭٭٭٭٭٭