’ہر ادب پارہ ایک خاص فضا،ایک خاص اثر ،ایک خاص مقصد کے لیے پیدا ہوتا ہے۔اگر اس میں وہ خاص فضا ،وہ خاص اثر اور خاص مقصد محسوس نہ کیا جائے تو وہ ایک بے جان لاش رہ جائے گی۔‘‘ (کسوٹی از منٹو)
ٹوبہ ٹیک سنگھ نہ صرف سعادت حسن منٹو بلکہ اردو کا بھی شاہکار افسانہ ہے۔اس بات پر منٹو کے سب ناقدین متفق ہیں ۔ اس افسانے کے ذکر کے بغیر اردو افسانے کی تاریخ ادھوری رہے گی۔یہ افسانہ منٹو کی تخلیقی زندگی کے آخری برسوں کی یادگار ہے اور ان کے آخری افسانوں کےمجموعے ’پُھندنے‘ کا پہلا افسانہ ہے ۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ ایک کثیر الجہت اور کثیر الاسالیب افسانہ ہے ۔اس افسانے میں منٹو نے اسلوبی اور کرداری سطح پر بالکل منفرد تجربہ کیا ہے۔اس منفرد تجربہ کو انھوں نے اس خلاقی کے ساتھ افسانوی متن کے نامیاتی کل میں گوندھ دیا ہے کہ یہ ایک شاہ کار بن گیا ہے۔بلکہ یہ معنویت سے اس قدر لبریز اور پیچیدہ ،تہہ دار بیانیہ کا حامل ہے کہ اردو تنقید کے لیے اس کی قطعی تعبیر تک رسائی حاصل کرنا آسان نہیں۔اسی لیے منٹو کے کئی اہم ناقدین نے ان کے فکر اور فن کا تجزیہ کرتے ہوئے اس افسانے کو اپنے مطالعات کاحصہ نہیں بنایا ۔ تاہم منٹو کے جن ناقدین نے اس افسانے کی تفہیم کے لیے اسے موضوع بحث بنایا ان کو واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ اس افسانے کو سمجھنے کی پہلی قابل قدر سعی وارث علوی نے کی ۔وارث علوی نے اسے ثقافتی اور تہذیبی تناظر میں دیکھا ۔حالاں کہ اس افسانے کی اساسی جہت تہذیبی اور ثقافتیسے زیادہ سیاسی ہے اور اسی سیاسی جہت کے ساتھ ہی تہذیبی وثقافتی جہت جڑی ہے۔ ان کے بعد آنے والے بیشتر تجزیہ نگاروں نے وارث علوی کے متعین کردہ راستے پر چلنے میں عافیت جانی۔ ان کے مطابق اس افسانہ کا موضوع جڑوں کی شناخت اور تقسیم کی مخالفت ہے۔ وارث علوی نے افسانے کے مرکزی کردار بشن سنگھ کے حوالے سے لکھا:
’’وہ ایک پرانے درخت کی مانند تھا جس کی جڑیں اندر ہی اندر زمین میں گہری چلی گئی ہوں ۔ وہ محض ایک شئے نہیں تھا جس کی ہیرا پھیری کی جائے۔اسے دوسری طرف کھینچنے کے لیے یا تو جڑ سے اکھیڑنا پڑتا ہے یا کلہاڑی سے کاٹنا پڑتا ہے۔‘‘ (یہ بھی پڑھیں انتظار حسین کا افسانہ آخری آدمی – نثارانجم )
ان ناقدین کے برعکس فتح محمد ملک نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کو الگ تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے بھی افسانے کی فارم پر غور کرنے کے بجائے باہر سے افسانے میں معنی داخل کرنے کی کوشش کی۔ ان کے نزدیک اس افسانے کا بنیادی موضوع حافظے کی گمشدگی اور تخیل کی موت ہے اور یہ کہ پاکستان کا قیام پاگلوں کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ساتھ ہی انھوں نے یہ اصرار بھی کیا :
’’منٹو کی زیر نظر کہانی کی فقط ایک ہی تعبیر ممکن ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کا تصور، پاکستان کی تحریک اور پاکستان کا قیام بشن سنگھ جیسے پاگلوں کی سمجھ میں ہرگز نہیں آسکتا۔‘‘
ملک صاحب کا اس بات پر اصرار کہ ’منٹو کی زیر نظر کہانی کی فقط ایک ہی تعبیر ممکن ہے‘اردو کے اس شاہ کار افسانے کے معنوی ابعاد اور ،ادبی اہمیت اور افسانے کے کینوس کو محدود کرنے کے مترادف نہیں؟کیاٹوبہ ٹیک سنگھ ایسے افسانے کی تفہیم کے سلسلے میں کوئی حتمی اور قطعی حکم لگایا جا سکتا ہے؟ایسا اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے (لیکن اس صورت میں بھی قطعی حکم نہیں لگایا جاسکتا )جب ہم افسانے کے مرکزی کردار بشن سنگھ سے مکالمہ کریں۔ کیوں کہ افسانے کا بنیادی اسٹرکچر تو بشن سنگھ پر قائم کیا گیا ہے۔اگر بشن سنگھ کو اس افسانے سے نکال دیں تو افسانہ اپنا وجود قائم ہی نہیں رکھ پاتا لیکن اگر دیگر کرداروں کو افسانے کی دنیا سے نکال دیں تو پھر بھی افسانہ اپنے اسٹرکچر پر قائم رہتا ہے۔اصل میں یہ کہانی ہی بشن سنگھ کی ہے۔ باقی کرداراپنی کوئی الگ شناخت قائم نہیں کر پاتے۔وہ تو اس کی کہانی کو آگے بڑھانے میں معاونت کرتے ہیںاور معنویت اور تہہ داری میں اضافہ کرتے ہیں ۔ایک اور اہم بات یہ کہ افسانے کا مرکزی کردار بشن سنگھ پاگل کردار سہی لیکن اس کردار کو تخلیق کرنے والا تو اردو افسانے کا بڑا نام اور ہوش مند افسانہ نگار منٹو ہے۔ممکن ہے بشن سنگھ کوئی حقیقی کردار ہو لیکن بہر حال اسے فکشنائز تو منٹو نے کیا ہے۔یہ ایک طرف تکنیک کا معاملہ ہے تو دوسری طرف تخلیق کار کی تخلیقی آزادی کا معاملہ بھی ہے کہ وہ کرداروں کے ہجوم میں سے کسی خاص کردار کو ہی خاص کہانی بیان کرنے کے لیے کیوں منتخب کرتا ہے۔بشن سنگھ کی تخلیق کو بھی ہم اسی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔
جیسا کہ مضمون کے آغاز میں ہم نے ذکر کیا کہ یہ ایک کثیر الجہت اور معنویت سے بھرپور افسانہ ہے اس لیے اس کی ایک سے زائد تعبیریں ممکن ہیں ۔اسی لیے ہم اس افسانے کو آج بھی پڑھتے اور اس میں اپنے عہد کا پرتو دیکھتے ہیں۔ویسے بھی ہربڑا تخلیقی تجربہ ہمیشہ ابہام سے لبریز ہوتا ہے جو اس کی معنویت میں اضافے کا باعث ہوتا ہے اور ہر عہد کے قاری کے ساتھ اس کے پس منظر کے مطابق مکالمہ کرنے کا اہل ہوتا ہے۔اس افسانے کی اساسی خوبی بھی ’ابہام‘ ہے۔ واضح رہے کہ ابہام اور اشکال دو متضاد خصوصیات ہیں ۔ایک متن کی توسیع اور گہرائی کا باعث ہے تو دوسری محدودیت کا باعث بنتی ہے۔ ابہام بڑے ادب کی خصوصیت ہوتا ہے جو اسے مختلف معنوی جہات عطا کرتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ٹوبہ ٹیک سنگھ-سعادت حسن منٹو )
دراصل مذکورہ بالا ناقدین نے ایک طرف کہانی کے مجموعی تاثر سے اور آزادی کے بعد لکھی گئی منٹو کی بعض تحریروں ( دیکھ کبیرا رویا،کسوٹی اورباتیں) کی روشنی میں افسانے کو سمجھنے کی کوشش کی تو دوسری طرف ملک صاحب نے ایک خاص نظریہ کی روشنی میں افسانے سے خاص معنی اخذکرنے کی سعی کی۔اس افسانے کی قرات کے دوران جن بنیادی نوعیت کے سوالات (مثلاً منٹو نے ایک پاگل کو ہی افسانے کے مرکزی کردار کے طور پر منتخب کیوں کیا؟ (اس کے ایک ممکنہ جواب پر ہم نے سطور بالا میں غور کیا۔) ،مرکزی کردار کے طور پر ایک سکھ کو ہی کیوں منتخب کیا اور اس کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ساتھ کیوں جوڑا؟اورپھر اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہم آمیز کیوں کیا؟؟)سے واسطہ پڑتا ہے ، مذکورہ بالا ناقدین نے انھیں کوئی اہمیت نہیں دی۔آیئے ہم ان ہی سوالات کی روشنی میں منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ کو پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
منٹو کے اس افسانہ کا لوکیل لاہور کا ایک پاگل خانہ ہے جس میں برصغیر کے تینوں بڑے مذاہب (مسلمان،ہندو اور سکھ ) سے تعلق رکھنے والے پاگل موجود ہیں۔ ان ہی میں ایک پاگل بشن سنگھ بھی ہے جو افسانے کا مرکزی کردار ہے اور وہ افسانے میں اپنی مخصوص زبان میں جو گفتگو کرتا ہے اس کی قطعی تعبیر آسان نہیں۔لیکن جب ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ بشن سنگھ اور اس کا عجیب و غریب جملہ منٹو ایسے نابغہ روزگار ادیب کا تخلیقی شاہکار ہے تو اس جملے کی معنویت کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ بشن سنگھ کی یہ ’مخصوص زبان‘ ہی افسانے کو نئے فکری و معنوی ابعاد بخشتی ہے۔اس کے علاوہ منٹو نے نہایت فنکاری سے متن میں کئی gaps اور الجھاوے بھی رکھ دیئے ہیں جو متن کوپیچیدہ اور کثیر الجہات بناتے ہیں ۔
افسانے کی فکری اساس تک پہنچنے کے لیے ہم کہانی کے مجموعی تاثر اور پلاٹ پر توجہ صرف کرنے کے بجائے اسلوب ، تکنیک اور فارم پرغور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ افسانے کا نصف سے زائد حصہ تو صرف افسانے کے مرکزی کردار بشن سنگھ ،اس کے معمولات اور اسے درپیش سوالات اور الجھنوں کے گرد گھومتا ہے۔بشن سنگھ کا اولین تعارف افسانہ نگار نے یوں کرایا ہے:
’’ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چلے تھے۔ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب و غریب الفاظ سننے میں آتے تھے۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لالٹین۔‘‘
اس کے ساتھ ہی ذہن میںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ منٹو نے اس افسانے کے مرکزی کردار کے لیے ایک سکھ کردار کو ہی کیوں منتخب کیا؟؟؟ وہ پاکستان سے جانے والے کسی ہندو کرداریا انڈیا سے سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آنے والے مسلمان کردار کو منتخب کر کے بھی تقسیم کے المیہ ،جڑوں کی شناخت اور اپنی مٹی سے محبت و جڑت کو بیان کر سکتا تھا جبکہ وہ خود ہمیں افسانہ میں بتاتا ہے کہ:
’’جو مسلمان پاگل ،ہندو ستان کے پاگل خانوں میں ہیں انھیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انھیں ہندوستان کے حوالے کر دیا جائے۔‘‘
یعنی ہندواور سکھ پاگلوں کو ہندوستان کے حوالے کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔پاگل خانے میں موجود ہندو پاگل بھی تو اس دھرتی کے سپوت تھے۔ان کے اجداد بھی کئی پشتوں سے یہاں آباد ہوں گے۔ان ہندئووں کا بھی یہاں کی مٹی کے ساتھ ویسا ہی محبت کا رشتہ ہو گا۔( مٹی سے محبت کا رشتہ تو مذہب سے الگ نوعیت کا ہوتا ہے۔ )جو سکھ کردار بشن سنگھ کا تھا تو ایسے میں منٹو ایک سکھ کردار کو ہی مرکزی اہمیت کیوں دیتا ہے؟؟
دوسرا اہم نکتہ جو غور طلب ہے اور افسانے کی کلید بھی ،وہ یہ ہے کہ بشن سنگھ کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے۔منٹو نے آخر بشن سنگھ کی نسبت ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی کے ساتھ کیوں جوڑی ؟؟؟ وہ اس کا تعلق لاہور ،سیالکوٹ ،فیصل آباد یا پنجاب کے کسی اور شہر /قصبہ سے بھی دکھا سکتے تھے اور بطور تخلیق کار انھیں یہ مکمل آزادی بھی تھی کہ وہ مرکزی کردار کو کسی بھی شہر/ قصبے سے وابستہ کرتے۔ کمال یہ ہے کہ انھوں نے تو بشن سنگھ کو ہی ٹوبہ ٹیک سنگھ بھی قرار دیا ہے۔ان کے اپنے الفاظ میں:
’’اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر سب اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے۔‘‘
یوں انھوں نے بشن سنگھ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کو ہم آمیز کر دیا ہے یعنی ان دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہے۔بشن سنگھ ہی ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے اور ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی بشن سنگھ ہے۔ایک کا وجود دوسرے کا اثبات ہے اور ایک کا عدم وجود دوسرے کا بھی عدم وجود ہے۔ایک وجود سے انکا ردوسرے کے وجود سے انکار ہے ۔آخر منٹو نے ان دونوں کے ’ایک‘ وجود پر اصرار کیوں کیا ہے؟ بشن سنگھ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے انتخاب کے پیچھے کہیں اس افسانے کی تفہیم کی کلید تو موجود نہیں؟؟ وارث علوی اس حوالے سے اپنی الجھن کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بشن سنگھ ہی ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے ۔اب پتہ نہیں منٹو نے خواہ مخواہ کے لیے ناموں کا یہ گھپلا کیوں کھڑا کیا ہو گا۔اسے یوں سمجھئے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ایک جگہ کا بلکہ ایک گائوں کا نام ہے جہاں بشن سنگھ پیدا ہوا تھا۔‘‘ (یہ بھی پڑھیں ٹوبہ ٹیک سنگھ-سعادت حسن منٹو )
افسانے کے مرکزی کردار کے طور پر ایک سکھ کردار کا انتخاب اوراس کا ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق محض لاشعوری محرکات کا نتیجہ نہیں ہو سکتا بلکہ یہ شعوری کاوش معلوم ہوتی ہے۔اس رائے کی توثیق کے لیے آگے بڑھنے سے پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تاریخ پر ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ فیصل آباد کی ایک تحصیل تھا۔جسے ۱۹۸۲ء میں ضلع بنا دیا گیا۔ اس شہر کی آبادکار ی میں ایک سکھ کردار ٹیک سنگھ کی محبت گندھی ہوئی ہے۔ ان دنوں جس جگہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ریلوے اسٹیشن ہے اس کے قریب ہی پانی کا ایک ٹوبہ ہوتا تھا اور یہ ویران جگہ تھی۔کہ ایک درویش صفت بوڑھا ٹیک سنگھ یہاں سکونت پذیر ہوا۔ اس حوالے سے معلومات دستیاب نہیں کہ وہ کہاں سے آیا ۔تاہم یہاں اس نے سکونت اختیار کر لی اور بلا تفریق مذہب وملت ہر آنے جانے والے مسافر کو پانی پلایا کرتا تھا۔آہستہ آہستہ یہ جگہ آباد ہوتے ہوتے قصبے کی صورت اختیار کرگئی ۔چوں کہ اس جگہ کو آباد کرنے والا ایک سکھ ٹیک سنگھ تھا اور وہ ٹوبے کے قریب آباد ہوا تو اس جگہ کا نام آہستہ آہستہ ٹوبہ ٹیک سنگھ مشہور ہو گیا۔یعنی اس قصبے کی بنیاد ایک سکھ نے رکھی اور یہ قصبہ سکھ تشخص کا حامل ہے۔اور بشن سنگھ بھی ایک سکھ کردار ہے ۔اس کا ٹوبہ ٹیک سنگھ کا رہائشی ہونا لاشعوری نہیں بلکہ منٹو نے شعوری طور پر اس کا تعلق سکھ شناخت اور تشخص کے حامل قصبے کے ساتھ جوڑا اور ٹوبہ ٹیک سنگھ اور بشن سنگھ دونوں کو اسی لیے ہم آمیز کر دیا ۔ کیوں کہ دونوں سکھ تشخص(اقلیتوں کے تشخص) کی علامت ہیں۔دراصل منٹو اس افسانے کے ذریعے سکھ تشخص کو اجاگر کرنا چاہتے تھے۔
سکھ مذہب جو بر صغیر کے اہم مذاہب میں شامل ہے۔اس مذہب کے ماننے والوں نے بھی اس برصغیر کی مخلوط تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھانے میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔سکھ مذہب جو امن و آشتی کا مذہب تھا ،اپنی الگ مذہبی رسوم اور روایات کے باعث دیگر مذاہب سے الگ اپنی شناخت رکھتا ہے۔برصغیر کی تقسیم جو مذہبی بنیادوں پر ہو رہی تھی۔اور برصغیر میں دو بڑی مذہبی قوموں کا وجود تسلیم کر لیا گیا تھا۔یعنی ہندو اور مسلمان ۔مسلمانوں کے لیے الگ وطن پاکستان بن گیا تھا اور ہندوئوں کے لیے ہندوستان لیکن سکھ تشخص کو قبول نہیں کیا گیا۔جب مذہبی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم کی گئی تو دیگر مذاہب کے حامل لوگوں کو بھی الگ قطعہ زمین فراہم کیا جاتا جہاں وہ آزادانہ اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ (یہ بھی پڑھیں کچھ لوگ کبھی نہیں مرتے- ثمینہ سید )
منٹو نے بتایا ہے کہ بشن سنگھ کو پندرہ سال قبل پاگل خانے میں داخل کرایا گیا۔اس سے قبل وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک کھاتا پیتا زمیندار تھا یعنی کم و بیش وہ افسانے میں فراہم کردہ معلومات کے مطابق۱۹۳۰ء کے بعد ہی پاگل ہوا ۔ منٹو نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس سے قبل وہ بالکل ٹھیک تھا تو ایک دم وہ پاگل کیسے ہوا؟اس کے پاگل ہونے کے اسبا ب پر غور کرنے سے افسانے کی تفہیم کی گرہ ہمارے ہاتھ آسکتی ہے۔اُسے آخر ایسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑا جن کے باعث وہ فکر و احساس کی زیادتی سے مغلوب ہو کر ذہنی توازن کھو بیٹھا۔یہاں منٹو نے کچھ Gaps چھوڑ دیئے ہیں۔منٹو نے مختصر اًاس کا پس منظر بطور زمیندار تو بتادیا اور یہ بھی بتا دیا کہ وہ پاگل ہونے سے قبل ذہنی طور پر بالکل ٹھیک تھا ۔اس سے قبل اس میں ابنارملٹی کی کوئی علامات نہیں تھیں ۔آخر ایک دم اُسے ایسا کیا ہوا کہ وہ شدتِ احساس سے مغلوب ہو کرہوش وحواس کھو بیٹھا۔اسے کون سے ایسے سنجیدہ نوعیت کے سوالات درپیش تھے جن پر غور کرتے کرتے اور ان کا کوئی حل نہ پا کرمایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرا اور ذہنی توازن برقرار نہ رکھ سکا۔چوں کہ منٹو نے متن میں اس حوالے سے کوئی واضح اشارہ تک نہیں کیا تو متن کے اندر رہتے ہوئے کچھ قیاسات سے ہم اس پہلو کی تفہیم کرنے کی کوشش کرتے ہیںاور متن کی Close reading سے کڑی سے کڑی ملانے کی سعی کرتے ہیں۔لیکن اس سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی نارمل یا ذہنی طور پر صحت مند شخص پاگل پن کا شکار کیوں ہوتا ہے۔ نفسیاتی باریکیوں سے بچتے ہوئے سادہ الفاظ میں ہم اس معمے کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک نارمل فرد جس میں پیدائشی طور پر ابنارملٹی کے کوئی اثرات نہ ہوں ،اس کے ہوش و حواس کھونے کے سیاسی ،سماجی، مذہبی اور تہذیبی مسائل ہی ہو سکتے ہیں ۔اسے زندگی میں کچھ مسائل / سوالا ت/عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن جب وہ ان حالات کا مقابلہ نہیں کر پاتا /ان سے مطابقت قائم نہیں کرپاتا اور انھیں حل کرنے سے قاصر ہوتا ہے تو ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ایسے میں کوئی نہ کوئی گرہ اس کے دماغ میں پڑ جاتی ہے،کسی نکتے پر ذہن رک جاتا ہے اور وہی نکتہ اس کے لیے سب سے زیادہ اہم ہو جاتا ہے ، زندگی کے باقی معاملات ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔افسانے کے متن میں بشن سنگھ سے متعلق جو معلومات ہمیں دستیاب ہیں ان کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ اُسے ایک ہی مسلہ درپیش ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے ؟؟اس کے علاوہ باقی چیزیں اس کے لیے مطلق اہمیت نہیں رکھتیں ۔ٹوبہ ٹیک سنگھ کا وجود اس کے لیے زندگی موت کا مسلہ بن چکا ہے۔اس کی سوچ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے شروع ہو کر ٹوبہ ٹیک سنگھ پر ہی ختم ہوتی ہے۔ٹوبہ ٹیک سنگھ بھی سکھ تشخص کا حامل قصبہ ہے یا سکھ تشخص کی علامت ہے۔بشن سنگھ کا ٹوبہ ٹیک سنگھ کے وجود کے لیے اصرار دراصل الگ سکھ تشخص پر اصرار ہے۔اگر اس وقت کے سیاسی و تاریخی حالات پر نظر دوڑائیں تو بھی اس بات کی تو ثیق ہوتی ہے کہ برصغیر کی ملکی سیاست میں کہیں بھی سکھ کمیونٹی کے حقوق اور الگ تشخص کو اہمیت نہیں دی جا رہی تھی،دو قومی نظریہ پر بات ہو رہی ہے۔ مسلمانوں اورہندوؤں کے الگ وجود اور تشخص پر بات ہو رہی ہے بلکہ ان کے وجود کو تسلیم بھی کیا جا رہا ہے۔لیکن سکھوں کا کہیں کوئی ذکر تک نہیں۔نہرو رپورٹ ،قائد اعظم کے چودہ نکات میں اقلیتوں کا سرسری طور پر ذکر تو ہے لیکن بھر پور آواز نہیں اٹھائی جا رہی اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی کمٹمنٹ سامنے نہیں آرہی۔صرف مسلمانوں اور ہندوؤں کے حقوق کی بات ہو رہی ہے۔دوسری طرف ماسٹر تارا سنگھ جو سیاسی سطح پر سکھوں کا رہنما اور ترجمان ہے ،اس نے دوسرے سکھ رہنماوں کے ساتھ مل کر سکھ تشخص اور سکھوں کے لیے الگ وطن (سکھ ہوم لینڈ)کی آواز اٹھائی لیکن اس کی آواز کو دبا دیا گیا ۔کانگریسی لیڈروں نے ہوشیاری اور مکارانہ چالاکی سے اسے اپنے ساتھ ملا لیا اور الگ سکھ ہوم لینڈ کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ۔تقسیم کے بعد جب ماسٹر تارا سنگھ امرتسر میں مقیم ہو گئے اور ہندوستان میں سکھوں کو تقسیم کے فوراً بعد ہی جن تکلیف دہ حالات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا تو اس کے بعد ماسٹر تارا سنگھ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے ایک بار پھر سکھ ہوم لینڈ کے لیے آواز اٹھائی لیکن اس کی کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ سکھ فریڈم موومنٹ تب سے لے کر آج تک سرگرم عمل ہے اور بھارت میں نہ صرف سکھ بلکہ مسلمان ،عیسائی اور دلت اقلیت بھی شدید مسائل اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔اُس وقت منٹو نے ایک تخلیق کار کی نگاہ سے دیکھ لیا تھا کہ کل سکھوں (اور دیگر اقلیتوں)کو کن بھیانک مسائل کا سامنا ہو گا۔اس لیے انھوں نے ادبی سطح پر اس اہم ایشو کو اٹھایا۔ سکھ جو اس ملک کا حصہ تھے ،جنھوں نے اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالا۔تہذیب و ثقافت میں اپنا خون شامل کیا ۔استعمار کے خلاف اپنے ہم وطنوں کاساتھ دیا۔تقسیم کے ناخوش گوار عمل میں ان کے الگ تشخص کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کی مانند وہ بھی اپنی الگ مذہبی روایات، تہذیب و ثقافت اور رسوم و روایات کے حامل ہیں لیکن ان کو نظر انداز کر دیاگیا۔ (یہ بھی پڑھیں قومی یکجہتی اور اردو زبان- ڈاکٹر شیخ نگینوی )
بشن سنگھ جوپاگل ہونے سے قبل ہوش مند شخص تھا،ضرور اُس کے سامنے سکھ تشخص کا ایشو ہو گا جو اُسے سوچنے پر مجبور کرتا ہوگا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو ٹوبہ ٹیک سنگھ اس کے ہو ش وحواس پر اس قدر اثر انداز نہ ہوتا۔تاریخی شواہد بھی اس بات کی توثیق کرتے ہیںکہ سکھوں کی الگ شناخت اور ان کا الگ تشخص قومی سطح پر تسلیم نہیں کیا جا رہا تھا۔ ان حالات میں جب بشن سنگھ کو اپنا تشخص مٹتا ہوا نظر آیا تو وہ ذہنی توازن برقرار نہ رکھ سکااور ٹوبہ ٹیک سنگھ یعنی اس کا/سکھوں کا الگ تشخص کا مسئلہ اس کے ذہن کے ساتھ پوری شدت کے ساتھ چپک گیا ۔ٹوبہ ٹیک سنگھ کا وجود سکھوں کاوجود تھا ،ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سکھ تشخص کی علامت اور پہچان تھا ،اسی لیے منٹو نے بشن سنگھ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کو ہم آمیز کر دیا ۔اور اسی لیے افسانے کا عنوان بھی ٹوبہ ٹیک سنگھ رکھ دیا۔اس تناظر میں افسانے کا اختتام بھی کافی اہم اور غور طلب ہے۔بشن سنگھ اپنے لیے وہ قطعہ زمین منتخب کرتا ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان موجود ہے لیکن دونوں میں سے کسی ملک کا حصہ نہیں یعنی منٹو کے الفاظ میں ’نو مینز لینڈ‘ ۔جب بشن سنگھ نو مینز لینڈ پر گرکر مرتا ہے تو منٹو یہ نہیں کہتا کہ نو مینز لینڈ پر بشن سنگھ پڑا تھا بلکہ وہ کہتا ہے:
’’درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔‘‘
اس کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتاہے کہ بشن سنگھ نے ان دونوں ملکوں میں سے کسی ملک میں مرنا بھی قبول نہیں کیا۔ جنھوں نے اُسے الگ تشخص دینے سے انکار کر دیاتھا۔بلکہ اس نے مرنے کے لیے اس جگہ کا انتخاب کیاجس کا نہ کوئی نام تھا اور نہ ہی کسی ملک کی ملکیت۔اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ قطعہ زمین جس کا کوئی نام نہیں تھا اور جغرافیائی طور پر کسی ملک میں شامل نہیں تھا،یہ قطعہ ٹوبہ ٹیک سنگھ تھا۔ایک الگ قطعہ زمین جس کی اپنی الگ پہچان تھی،جو کسی ملک کا حصہ نہیں تھا بلکہ الگ ملک تھااور وہ تھاٹوبہ ٹیک سنگھ ۔اسی لیے منٹو نے اس قطعہ اراضی کو ٹوبہ ٹیک سنگھ کانام دیااور اس بات کو واضح کیا کہ سکھ دیگر اقوام کی مانندالگ تشخص کے حامل ہیں اور انھیں کسی صورت دوسری کسی اکثریت میں ضم کر کے ان کے الگ تشخص اور شناخت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔یہ ایک تخلیق کار کا مذہبی تقسیم کے منافقانہ عمل کے خلاف صدائے احتجاج بھی ہو سکتا ہے کہ جب ملک کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کیا گیاتو دوبڑی قوموں ( مسلمان اور ہندو)کے علاوہ دیگر اقوام کے الگ تشخص کو کیوں تسلیم نہ کیا گیا جبکہ سکھ تو سکھ ہوم لینڈکے لیے جدوجہد بھی کر رہے تھے۔تخلیق کار ہمیشہ مذہب و ملت سے بلند ہوتا ہے ۔اس کا مذہب انسانیت ہو تا ہے اور وہ انسانیت کے خلاف ہونے والے ظلم و ستم کو برداشت نہیں کر سکتا ۔وہ اس کے خلاف قلم /آواز اٹھاتا ہے۔منٹو بھی ایک بڑا اور سچا تخلیق کار تھا۔ وہ تقسیم کے اس غیر منصفانہ عمل کے خلاف کیسے چپ ہو سکتا تھا۔اسی لئے اس نے بشن سنگھ کے ذریعے اپنے ضمیر کی آواز اٹھا ئی۔
اس افسانے کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ منٹو نے اس میں اسلوبیاتی سطح پر بالکل منفرد تجربہ کیا ہے جیسے کہ ایک پاگل کو مرکزی کردار کے طور پر منتخب کیااور ایک حد تک یہ منفر د تجربہ بھی اس افسانے کی قطعی تفہیم میں ایک رکاوٹ ہے ۔یہ اسلوبیاتی تجربہ دراصل بشن سنگھ کا وہ عجیب وغریب جملہ ہے جوحالات اور سچوئیشنز کے مطابق ردوبدل کے ساتھ افسانے میں بشن سنگھ کے ردعمل اور موڈز میں آتے بدلاو کے طور پر کم و بیش چھ مرتبہ دہرایا گیا ہے۔یہ جملہ اس پاگل کے فکر و عمل کا ترجمان ہے اور اس کے ذہنی عمل کا عکاس بھی،جو ایک طرف یہ ثابت کرتا ہے کہ بشن سنگھ واقعی ذہنی عدم توازن کا شکار تھا۔یہ بات تو طے ہے کہ اس جملے کی قطعی تفہیم ممکن نہیں لیکن مختلف صورتوں میں اس میں ہونے والے ردو بدل کا تجزیہ و تحلیل کر کے کافی حد تک اسے سمجھا جا سکتا ہے اور جملے کی ساخت میں آنے والی یہی تبدیلی افسانے کی تفہیم میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دراصل افسانوی متن میں الفاظ کے لغوی مفاہیم سے زیادہ ان کی پیش کش،ان سے وابستہ ذہنی و جذباتی کیفیات، لرزشیں ،ان کے آہنگ اور ان سے جڑے محسوسات اہم ہوتے ہیں۔ افسانے میں پہلی بار یہ جملہ یوں بیان کیا گیا ہے۔
’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لالٹین۔‘‘
بشن سنگھ کم گو،کم آمیز اور بے ضررکردار ہے ۔وہ کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیتا لیکن جب پاگل خانے میں تقسیم اور پاگلوں کے تبادلے کے حوالے سے گفتگو ہوتی تو وہ غور سے سنتا ۔جب اس سے اس کی رائے طلب کی جاتی تو وہ بڑی سنجیدگی سے تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ یہی عجیب و غریب جملہ دہراتا ۔اس جملے میں آنے والی تبدیلی اور ساتھ ہی منٹو کی وضاحت انتہائی قابل غور ہے۔منٹو کے الفاظ میں:
’’ہندوستان ،پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی تو وہ غور سے سنتا تھا۔کوئی اس سے پوچھتا کہ اس کا کیا خیال ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا۔’’اوپڑدی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی پاکستان گورنمنٹ۔‘‘
لیکن بعد میں ’’آف دی پاکستان گورنمنٹ ‘‘ کی جگہ’’ آف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ ‘‘نے لے لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے ؟ جہاں کا وہ رہنے والاہے۔‘‘
آغاز میں وہ اس جملے کا اختتام ’’آف دی لالٹین ‘‘ پر کرتا ہے جس کا ایک ممکنہ مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ لالٹین روشنی کی علامت ہے ۔اس کی ہمیں رات کو یعنی تاریکی میں ضرورت ہوتی ہے ۔ سکھ تشخص کے تناظر میں اس کی دنیا جو تاریک ہوتی جارہی تھی،بلکہ امید مایوسی میں بدل گئی تھی،اسی لیے تو وہ پاگل ہوا تھا کہ اُسے کوئی امید نہیں رہی تھی۔تو اسے ہر سو اندھیر ا نظر آتا تھا۔ایسی تاریکی میں وہ لالٹین یعنی روشنی کے لیے اصرار کرتا۔اب جملہ کے اختتام پر ’’آف دی لالٹین ‘‘ کی جگہ ’’آف دی پاکستان گورنمنٹ ‘‘آیا ہے لیکن ساتھ ہی منٹو نے یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ ’’ آف دی پاکستان گورنمنٹ ‘‘ کی جگہ ’’آف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ‘‘ نے لے لی۔جملے میں یہ تبدیلی اور آف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ ،سکھ گورنمنٹ اور سکھ تشخص کی طرف واضح اشارہ ہے۔آف دی پاکستان گورنمنٹ نئی مملکت کی علامت بھی ہے اور تقسیم کی علامت بھی۔ ممکن ہے بشن سنگھ یہ کہنا چاہتا ہو کہ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی سکھ ہوم لینڈ یعنی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ کا قیام بھی عمل میں آنا تھا۔ جب پاکستان بن چکاہے تو ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے ؟یہ بات بھی یاد رہے کہ اس کا یہ ردعمل اس وقت سامنے آتا ہے جب تقسیم اور پاکستان کے قیام کی بات ہوتی ہے۔ جوں جوں پاکستان کے قیام کی بات میں شدت ہوتی ہے اس کے ردعمل میں شدت پیدا ہوتی جا تی ہے۔اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے وجود کااصر ار بڑھتا جاتا ہے۔
اب ایک اور پہلو پر غور کرتے ہیں ۔جب اس کا دوست اور پڑوسی فضل دین ( مسلمان کردار) اس سے ملنے آتا ہے تو پہلے تو وہ اسے دیکھ کر ایک طرف ہٹ جاتا ہے لیکن بعد میں پہرہ داروں کے کہنے پر وہ رک جاتا ہے۔اسی لمحے وہ فضل دین سے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے بارے میں پوچھتا ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟لیکن فضل دین تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے(اور یہ تذبذب بھی بڑا معنی خیزہے ) اور کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے پاتاتو اس جملے کے اختتام پر معنی خیز تبدیلی آجاتی ہے۔ اب یہ جملہ ’آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی دُرفٹے منہ !‘پر اختتام پذیر ہوتا ہے یعنی وہ دونوں نوزائید ہ مملکتوں کے وجود کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے ۔جب اس کا اپنا وجود تسلیم نہیں کیا جا رہا تو وہ بھی دوسروں کے وجود اور تشخص کو قبول کرنے کو تیار نہیں بلکہ ’دُرفٹے منہ ‘ کے الفاظ کے ذریعے شدید غم و غصے اور نفرت کا اظہار کرتا ہے۔
افسانے میں اس حوالے سے ایک اور بلیغ اشارہ بھی موجود ہے جسے نظر انداز کرنا آسان نہیں۔بشن سنگھ جب کسی نتیجے پر نہیں پہنچتا تو وہ ایک روز پاگل خانے میں موجود ایک اور پاگل ،جو خود کو خدا کہتا ہے،سے سوال کرتا ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ تو وہ پاگل حسب عادت قہقہہ لگاتے ہوئے کہتا ہے کہ’’ وہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں اس لیے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا ۔‘‘ (یہاں یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ منٹو ’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘ کو سکھ تشخص کی علامت کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اگر وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کو بشن سنگھ کی جائے پیدائش کے طور پرلیتا تو جغرافیائی طور پر تو ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں موجود تھا،لیکن سکھ تشخص کی علامت /سکھ ہوم لینڈکے طور پر وہ کہیں بھی موجود نہیں تھا۔فضل دین کے تذبذب کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔)لیکن بشن سنگھ بار بار اس سے اصرار اور منت سماجت کرتا ہے کہ وہ حکم دے دے تاکہ یہ الجھن ختم ہو لیکن چوں کہ خدا دیگر کاموں میں بہت مصروف تھا اور اسے اس الجھن کو دور کرنے کے لیے فرصت نہیں تھی تو ایک روز بشن سنگھ تنگ آکراس پاگل خدا پر برس پڑتا ہے اور جب اپنی ذہنی کیفیات اور ردعمل کا اظہار مخصوص انداز میں کرتا ہے تو پورے افسانے میں پہلی اور آخر ی بار افسانہ نگار نے اس جملے کے امکانی معنی بیان کرتاہے۔منٹو کے اپنے الفاظ میں:
’’اس کا شاید یہ مطلب تھا کہ تم مسلمانوں کے خدا ہو ۔سکھوں کے خدا ہوتے تو ضرور میری سنتے۔‘‘
یہاں بھی وہ سکھوں کے الگ تشخص کی بات کر رہا ہے کہ چوں کہ مسلمانوں کا خداتھا اس لیے انھیں الگ وطن ، آزادی اور الگ تشخص مل گیاجبکہ سکھوں کا خدا موجود نہیں اس لیے سکھ بے یار ومدد گار ہیں۔اسے یقین ہے کہ اگر سکھوں کا خدا ہوتا تو ضرور وہ سکھوں کی سنتا اور اسے قبول کرتا۔یہ الجھن ختم ہو جاتی ۔انھیں الگ وطن مل جاتا۔
اب ایک اور سکھ پاگل سے ملتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کیا چاہتا ہے۔
’’چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سرگرم کارکن رہ چکا تھا۔۔۔۔۔ اس کا نام محمد علی تھا۔چناں چہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کردیا کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح ہے۔اس کی دیکھا دیکھی ایک سکھ پاگل ماسٹر تارا سنگھ بن گیا۔‘‘
یہاں بھی سکھ کردار کا واضح جھکاؤ سکھوں کے سیاسی رہنما تارا سنگھ کی طرف ہے۔وہ اپنا تعلق قائداعظم سے بھی جوڑ سکتا تھاجو سکھوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے ۔اس کے علاوہ وہ اپنا تعلق کانگریسی رہنما جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی سے بھی جوڑ سکتا تھا۔لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔یہ بھی سکھوں کے الگ تشخص کی طرف واضح اشارہ ہے۔تو افسانے کے یہ تمام مذکورہ بالا اقتباسات بشن سنگھ /ٹوبہ ٹیک سنگھ یعنی سکھوں کے الگ تشخص کے حوالے سے بڑا بلیغ اشارہ ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
منٹو نے اس لیے ایک سکھ کردار کو افسانے کے مرکزی کردار کے طور پر منتخب کیا اور اس کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ساتھ ظاہر کیا اور پھر دونوں کو ہم آمیز کر دیا۔کیوں کہ وہ سکھ تشخص پر اصرار کرنا چاہتے تھے۔ یا یوں کہیے کہ مذہبی بنیادوں پر ہونے والی تقسیم میں اقلیتوں کو درپیش مسائل کا منٹو کو بھر پور ادراک تھا،اور اس کو پوری ادبیت کے ساتھ پیش کرنے کے لیے بشن سنگھ /ٹوبہ ٹیک سنگھ سے بہتر کردار شاید ممکن بھی نہیں تھا۔تقسیم کے بعد دونوں ملکوں میں اقلیتوں کو درپیش مسائل اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا اور بھیانک سلوک کی جھلک منٹو نے دیکھ لی تھی۔اور اس صورت حال نے اسے تڑپا دیا تھا ۔اس عمل نے اُسے جس جذباتی آشوب سے دوچار کیا،اُسے اُس نے تخلیقی کرب کے ساتھ بشن سنگھ (پاگل کردار ) کی صورت پیش کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
منٹو نے سکھ کردار کا انتخاب اس لیے بھی کیا ہو گا کہ سکھوں کی پنجاب کی مٹی کے ساتھ جو مذہبی اور جذباتی جڑت تھی وہ شاید کسی اور اقلیتی کردار میں ممکن نہ ہو پاتی ۔منٹو نے بتا یا ہے کہ بشن سنگھ ایک بے ضرر کردار ہے ۔وہ کسی اور موقع پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتا ،صرف تقسیم کے ایشو پر وہ گفتگو کو غور سے سنتا ہے اور اپنے ردعمل اور غم وغصے کا اظہار کرتا ہے ۔ (یہ بھی پڑھیں آخری پہر کی دستک :شمیم حنفی -ثاقب فریدی )
افسانے کے مرکزی کردار بشن سنگھ کے بارے میں جو معلومات فراہم کی گئی ہیں ۔ان میں بتا یا گیا ہے کہ جب ٹوبہ ٹیک سنگھ سے اس کے لیے ملاقات آنا ہوتی تو اسے خود بخود خبر ہو جاتی اور وہ ان کے آنے سے قبل نہاتا،نئے کپڑے پہنتا اور ملاقاتیوں کا انتظار کرتالیکن ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کی اکلوتی بیٹی روپ کور جو ان ملاقاتیوں کے ساتھ اسے ملنے آتی، باپ کو دیکھ کر روتی رہتی لیکن بشن سنگھ اُسے نہیں پہچانتا تھا ،قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا تو مشکل ہے لیکن متن کے تناظر میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے جب وہ اپنے الگ تشخص کے لیے مایوس ہو اتو اس دوران اُسے یہ سوال بھی دامن گیر ہو کہ اگر اُسے الگ وطن /تشخص (سکھ ہوم لینڈ) نہ ملا تو اُس کی اولاد (بیٹی ) کا کیا ہو گا۔اس کی عدم شناخت بھی اس کے لیے نفسیاتی الجھن کا باعث بنی ہو جس کے باعث وہ ذہنی توازن کھو بیٹھا ہو۔اسے غیر مرئی طور پر ملاقات کے آنے کی خبر ہو جاتی تھی تو بیٹی کو وہ کیوں نہیں پہچانتا تھا۔اس کی یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ بیٹی کے الگ تشخص اور مستقبل سے بالکل مایوس ہو چکا تھا۔
اب ایک اور پہلو پر غور کرتے ہیں۔سکھ مذہب کے ماننے والوں کی برصغیر میں زیادہ تر آبادی پنجاب کے مختلف شہروں /قصبوں میں تھی۔ان کے زیادہ تر مذہبی مقامات اور بابا گرونانک کا تعلق بھی پنجاب سے تھا۔تقسیم کے عمل میں بیشتر سکھ تو ہندوستان چلے گئے لیکن پاکستان میں شامل ہونے والے پنجاب میں ان کے بہت سارے مذہبی مقامات آج بھی موجود ہیں۔برصغیر میں لسانی تنازعات بھی مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان ہوئے ۔اردو کو مسلمانوں کی زبان اور ہندی /سنسکرت کو ہندوئوں کی زبان قرار دیا گیاجبکہ سکھوں کی الگ زبان تھی اور وہ تھی پنجابی زبان۔سکھوں کی مادری زبان پنجابی ہے تو اس حوالے سے بھی افسانے میں ایک بلیغ اشارہ موجود ہے جو ہمارے موقف کی حمایت کرتا ہے ۔اس حوالے سے دو سکھ پاگلوں کے درمیان ہونے والا مکالمہ دیکھیے:
’’اسی طرح ایک سکھ پاگل نے ایک دوسرے سکھ پاگل سے پو چھا۔’’ سردار جی ہمیں ہندوستان کیوں بھیجا جا رہا ہے ۔ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی۔‘‘
دوسرامسکرا یا۔’’ مجھے تو ہندوستوڑوں کی بولی آتی ہے۔ ہندوستانی بڑے شیطانی آکڑ آکڑ پھرتے ہیں۔‘‘
یہاں بھی منٹو نے کمال ہنر مندی سے زبان کے تخلیقی کردار سے بھر پور مدد لی ہے۔ایک طرف تو انھوں نے دوسرے سکھ کردار کے الفاظ میں معمولی ردوبدل سے اس کی ذہنی کیفیت (یعنی پاگل پن) کی عکاسی کرتے ہوئے حقیقت پسند اسلوب اختیار کیا ہے تو دوسری طرف لسانی تناظر میں بھی الگ سکھ تشخص کو ابھارا ہے۔پہلے کی تشویش پر دوسرے سکھ نے پاگلوں کے فطرتی اسلوب میں جواب دیا ہے لیکن ہندوؤں کے ساتھ لسانی یا جذباتی تعلق ظاہر کرنے کے بجائے ہندوؤں کی زبان اورخود ہندوؤں کا تمسخر اڑایا ہے یعنی ان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا،ان کے ساتھ اپنا کوئی جذباتی تعلق نہیں جوڑا ،کوئی یگانگت ظاہر نہیں کی نہ ہی کوئی ہمدردی ظاہر کی ہے۔یہاں بھی سکھوں کی انفرادیت اور الگ تشخص کو اہمیت دی گئی ہے۔
سکھ تشخص کے ساتھ ساتھ ایک اور اقلیت کے تشخص کا سوال بھی افسانے میں اٹھا یا گیا ہے۔وہ اقلیت جو تقسیم سے قبل حاکم تھی اور تقسیم ہوتے ہی اقلیت میں بدل گئی ۔یہ ہیں پاگل خانے میں موجود اینگلوانڈین ۔ اب انھیں بھی اپنے تشخص کے حوالے سے عدم تحفظ کا سامنا ہے کہ اب ان کی حیثیت پاگل خانے میں کیا ہوگی۔کیا انھیں پہلے والی مراعات حاصل ہوں گی یا نہیں:
’’یوروپین وارڈ میں دو اینگلوانڈین پاگل تھے۔ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کر کے انگر یز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں اب ان کی حیثیت کس قسم کی ہوگی۔یوروپین وارڈ رہے گا یا اڑا دیا جائے گا۔بریک فاسٹ ملا کرے گا یا نہیں ۔کیا انھیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاتی زہر مار نہیں کرنا پڑے گی۔‘‘
مجموعی طورپر افسانے کے تجزیے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ افسانہ بنیادی طور پر الگ سکھ تشخص کے سوال کو اٹھا تا ہے ۔اس کے ساتھ ہی مستقبل میں دیگر اقلیتوں کو پیش آنے والے مسائل کو بھی منٹو نے ہنر مندی سے نشان زد کیا ہے۔ منٹو گہرا سیاسی شعور رکھنے والا افسانہ نگار تھا ۔وہ بخوبی جانتا تھا کہ جو تقسیم مذہبی بنیادوں پر ہوئی ہے اس میں کیسے ممکن ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کاتحفظ ہو گا۔اس کی بنیاد میں ہی ایک صورت خرابی کی رکھ دی گئی ہے۔منٹو کی یہ پیش گوئی آج من وعن درست معلوم ہوتی ہے۔
اس افسانے میں کچھ سوانحی اشارے بھی موجود ہیں ،مثلاً اسی پہلو کو لیجیے کہ بشن سنگھ اپنی بیٹی کو نہیں پہچانتا تھا۔ خود منٹو کو پاکستان میں جس طرح کے سماجی و معاشی حالات اورافسانوں کے سلسلے میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ تجربات منٹو کے لیے بہت تلخ ثابت ہوئے۔تقسیم کے بعد ہر طرف جو لوٹ مار مچی ،منٹو اس کا عینی شاہد تھا،اوران حالات پر تڑپتا تھا۔ان کٹھن حالات میں اس نے شراب نوشی میں پناہ لینے کی کوشش کی جس کے باعث اس کی صحت روز بروز گرنے لگی۔اس دوران شراب نوشی کی عادت ترک کرنے کے لیے اسے دوبا ر پاگل خانے میں بھی داخل کرایا گیا۔
منٹو کی تین بیٹیاں تھیں ۔اس دوران منٹو کو جس ذہنی کرب اور عدم تحفظ کے شدید احساس سے گزرنا پڑا ،یقینا اُسے اپنی بیٹیوں کے روشن مستقبل کے حوالے سے بھی عدم تحفظ کا اندیشہ لاحق ہوا ہو گا۔ وہ ضرور پریشان رہا ہوگا کہ اس کے بعد اس کی بیٹیوں کوکن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ ان کا مقابلہ کیسے کر پائیں گی۔ تقسیم کے ہنگامے اور اس کے بعد بھی عورتوں کے ساتھ جو افسوس ناک سلوک روا رکھا گیا ،ان کے ساتھ جو ظلم وستم ہوئے،اس سارے عمل نے منٹو ایسے حساس تخلیق کار کے کرب میں اضافہ ہی کیا ہو گا جس کا اظہار ان کے کئی افسانوں میں بھی تخلیقی تنوع اور وفور کے ساتھ ہوا۔
تقسیم کے عمل میں جغرافیائی سطح پر جو تبدیلی ہوئی ،اس نے خود منٹو کو چکر اکر رکھ دیا ۔اس کے لیے اس سارے عمل کے ساتھ ذہنی مطابقت قائم رکھنا مشکل ہو گیا،اس دوران کی ذہنی کیفیات کا اظہار انھوں نے افسانوں کے علاوہ اس دور میں لکھے گئے اپنے مضامین میں بھی کیا۔اس سلسلے میں ان کے مضامین ’’دیکھ کبیرا رویا ‘‘، ’’ کسوٹی ‘‘ اور ’’باتیں‘‘خاصے اہم ہیں۔
اس افسانے کو اُس عہد کی سماجی دستاویز کے طور پر بھی پڑھ سکتے ہیں۔خود منٹو کو بھی اس بات کااحساس تھا اسی لیے اس نے اپنے مضمون ’کسوٹی‘ میں لکھا :
’’ادب درجہ حرارت ہے اپنے ملک کا،اپنی قوم کا۔۔۔۔۔ادب اپنے ملک ،اپنی قوم ،اس کی صحت اور علالت کی خبر دیتا رہتا ہے۔پرانی الماری کے کسی خانے سے ہاتھ بڑھا کو کوئی گرد آلود کتاب اٹھائیے ،بیتے ہوئے زمانے کی نبض آپ کی انگلیوں کے نیچے دھڑکنے لگے گی۔ ‘‘
منٹو کایہ افسانہ پڑھتے ہوئے ناصرف اُس عہد کی نبض ہماری انگلیوں کے نیچے دھڑکنے لگتی ہے بلکہ آج کا عہد بھی بھر پور سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔اور یہی منٹو کی سب سے بڑی کامیابی ہے جو اسے ہرعہد میں نئی زندگی عطا کرتی ہے۔ اسی لیے مضمون کے آغاز میں ہم نے اس افسانے کی ایک ہی قطعی اور حتمی تعبیر پر اصرار نہیں کیا۔ویسے تعبیر خود بھی ایک امکانی عمل ہے۔
منٹو ایسے نابغہ تخلیق کار کے شاہ کار افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے آغاز میں مطالعہ کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ منٹو نے یہ افسانہ آج کے مسائل کے حوالے سے لکھا تھا۔مثلاً اقلیتوں کے مسئلے کو ہی لیجیے۔منٹو جس نے نئی بننے والی مملکتوں میں اقلیتوں کے الگ تشخص کے لیے اس وقت آواز بلند کی۔ آج من و عن درست معلوم ہوتی ہے۔ بٹوارے کے بعد سے لے کر آج تک پاک وہند میں اقلیتوں کو مسائل کا سامنا رہا ہے۔ ان کے لیے اپنا الگ تشخص برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔انڈیا میں مسلمان،عیسائی ،دلت اور سکھ اکثر وبیشتر ہندو شدت پسندی کا شکار رہتے ہیں۔انھیں مکمل مذہبی اور شہری آزادی حاصل نہیں۔ انڈیا ایسے سیکولر ملک میں ان کا وجود مستقل خطرے میں ہے ۔ پاکستان کی نسبت انڈیا میں اس وقت اقلیتوں کو نوآبادیاتی دورسے بھی بدتر صورت حال کا سامنا ہے۔اقلیتوں کا الگ تشخص تو ایک طرف ،وہاں تو بنیادی انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کے حوالے سے صورت حال سنگین ہو چکی ہے۔منٹو کی تیز نگاہ نے آج سے ستر سال قبل ہی اس کی واضح تصویر دیکھ لی تھی ۔اس لئے اس نے ’بشن سنگھ ‘‘کے ذریعے اپنے بھرپور ردعمل کا اظہار کیا۔
روپ کور کی صورت منٹو نے افسانے میں جو بلیغ اشارے کیے آج بھی پاک و ہند میں عورتوں کو کم وبیش ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔عورتوں اور کم سن بچیوں کوگینگ ریپ ،عزت کے نام پر قتل اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانا معمول بن چکاہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قومیت (مذہب ) کی بنیاد پر الگ تشخص پر اصرار بڑھا ہے اور اس اصرار کے ساتھ شدت پسندی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
افسانے کے دو اینگلو انڈین کرداروں نے انڈینز کے لیے ’بلڈی انڈنیز‘ ایسی تضحیک آمیز اصطلاح اوررویے کا اظہار کیا ،اس میں بھی اضافہ ہوا ہے۔انگریز آج بھی نوآبادیاتی ممالک کے عوام کوکیڑوں مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ (مثلاًلاہور میں ریمنڈ ڈیوس کے واقعہ ہی کو لے لیجیے۔)
افسانے میں مولبی صاحب کے کردار اور اس کے پس منظر کے ذریعے افسانہ نگار نے اسلام کے نام پر نئی بننے والی مملکت میں مذہبی شدت پسندی کی طرف اشارہ کیا ہے۔مذہبی شدت پسندی کے اس عفریت نے پاکستان اور ہندوستان (ہندو انتہا پسند تنظیمیں) دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔افسانے سے اقتباس دیکھیے:
’’ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز باقاعدگی کے ساتھ ’’زمیندار‘‘ پڑھتا تھا اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا ۔’’مولبی صاحب ‘‘ یہ پاکستان کیا ہوتا ہے۔تو اس نے بڑے غور وفکر کے بعد جواب دیا۔’’ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں۔‘‘
اسی دور میں منٹو نے چچا سام کے نام خطوط قلم بند کیے جو اس کے گہرے سیاسی شعور کے عکاس ہیں اور عالمی سیاسی چال بازیو ں کو بے نقاب کرتے ہیں ۔ان خطوط میں بھی انھوں نے اس حوالے سے بلیغ اشارے کیے ہیں۔چچا سام کے نام تیسرے خط میں لکھتے ہیں:
’’آپ پاکستان سے فوجی امداد کا معاہدہ ضرور کریں گے،اس لیے کہ آپ کو اس دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے استحکام کی بہت زیادہ فکر ہے،اور کیوں نہ ہو، اس لیے کہ یہاں کا مسئلہ روس کے کمیونزم کا بہترین توڑ رہا ہے۔فوجی امداد کا سلسلہ شروع ہو گیا تو آپ سب سے پہلے ان ملاؤں کو مسلح کیجیے گا۔ان کے لیے خالص امریکی ڈھیلے ،خالص امریکی تسبیحیں اور خالص امریکی جائے نمازیں روانہ کیجیے گا،استروں اور قینچیوں کو سر فہرست رکھیے گا۔‘‘
منٹو نے ہمیں بتایا ہے کہ پاگل خانے میں پاگلوں کے علاو ہ قاتلوں کو بھی ان کے رشتہ داروں نے افسروں کو رشوت دے کر پاگل خانے میں اس لیے داخل کرا دیا تھا کہ وہ سزا سے بچ سکیں ۔اس وقت منٹو نے نئے بننے والے ملک میں رشوت اور ہوس دولت و اقتدار کی جس انداز میں نشان دہی کی ،اس میں روز بروز اضافہ ہوا ہے۔صرف پاکستان ہی نہیں،
ہندوستان (بلکہ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک) میں بھی رشوت ،اقربا پروری اور بدعنوانی عفریت کی صورت اختیار کر چکی ہے۔جس سے عدالتی نظام تک محفوظ نہیں۔ایک اور اہم پہلو جس کی طرف منٹو نے طنزسے بھر پور انداز میں اشارہ کیا ہے کہ تقسیم کے بعد دونوں مملکتوں میں کئی اہم مسائل تصفیہ طلب تھے ،جن میں اثاثوں کی تقسیم، حدبندی اور کشمیر ایشوبھی شامل تھا، ان کامستقل حل ڈھوندنے اور دونوں ملکوں کی عوام (ہوش مندوں ) کو درپیش سنجیدہ نوعیت کے مسائل حل کرنے کے بجائے معمولی نوعیت کے مسائل کو اہمیت دی جارہی تھی اور انھیں حل کرنے کے لیے فوراً اعلی سطح کی کانفرنسیں بھی ہو گئیں اور پاگلوں کے تبادلے کا فیصلہ بھی ہو گا اور اس پر عملدرآمد بھی کردیا گیا۔ شاید اسی لیے منٹو نے بشن سنگھ ایسے پاگل کو افسانے کے مرکزی کردار کے طور پر منتخب کیا کیوں کہ اُسے دانش مند سیاست دانوں کے مقابلے میں زیادہ سنجیدہ نوعیت کے سوالات کا سامنا تھا۔
خالد محمود سامٹیہ۔۔۔۔۔
لیہ (پنجاب۔ پاکستان)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |