Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      خبر نامہ

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      متفرقات

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      متفرقات

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      خبر نامہ

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      متفرقات

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      متفرقات

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
تحقیق و تنقید

نقد غزل اور ابوالکلام قاسمی – پروفیسر کوثر مظہری

by adbimiras جون 26, 2021
by adbimiras جون 26, 2021 4 comments

غیرضروری تمہیدی جملوں سے اعراض کرتے ہوئے یہاں سب سے پہلے میں ابوالکلام قاسمی کی تنقیدی آرا سے تین اقتباسات پیش کرنا چاہتا ہوں:

.1       میری بیش تر تنقیدی رائیں متن کی متنوع قرأت کے بعد مناسب اور موزوں تنقیدی تصورات سے اس کی ہم آہنگی کی صورت میں بنی اور بگڑی ہیں۔

.2  تنقید میرے لیے فیصلے صادر کرنے سے کہیں زیادہ افہام و تفہیم کا عمل ہے۔

.3  .کوئی تنقیدی رویہ میرے لیے اس وقت تک قابل قبول نہیں بن پایا، جب تک شعری متن کے براہِ راست مطالعہ نے اس کی توثیق نہ کردی ہو، چنانچہ میرے لیے تنقید نگار کا منصب بنیادی طور پر ایک ایسے باذوق قاری کا منصب ہے جو شاعرانہ تدبیر کاری سے باخبر ہونے کے باوجود شاعری کی بھرپور تفہیم ، تحسین اور جمالیاتی قدر کے تعین کے عمل سے سب سے پہلے گزرنا چاہتا ہے۔

مذکورہ بالا اقتباسات ’میرا تنقیدی موقف‘ سے ماخوذ ہیں جو کہ ان کی کتاب ’شاعری کی تنقید‘ میں مضامین شروع ہونے سے پہلے بطور پیش لفظ یا حرف آغاز کے (حالاں کہ ایک پیش لفظ قومی کونسل کے اس زمانے کے ڈائرکٹر ڈاکٹر حمیداللہ بھٹ کا بھی ہے) شامل ہے۔ اقتباس نمبر1 میں قاسمی صاحب نے ایک اہم نکتہ بیان کیا ہے: ’متن کی متنوع قرأت‘۔ متن جامد وجود کا حامل ہوتا ہے، جب تک اس کی قرأت نہ کی جائے۔ متن سے معنی یابی کے لیے قرأت  اور باز قرأت کے عمل سے گزرنا ہوتا ہے۔ متنوع قرأت سے قاسمی صاحب کی مراد ہے متن کی قرأت بار بار کرنا اور مختلف زاویے سے اور مختلف تناظر میں قرأت کرنا۔ ظاہر ہے کہ متن سے انصاف کرنے کے لیے اس عمل سے گزرے بغیر تنقیدی تصورات سے ہم آہنگی مشکل ہوگی۔ دوسرے اقتباس میں انھوں نے بہت ہی واضح اندازمیں کہا ہے کہ وہ تنقید سے ادب کے افہام و تفہیم کا کام لیتے ہیں، فیصلے صادر نہیں کرتے۔ تیسرے اقتباس میں بھی شاعری کی بھرپور تفہیم، تحسین اور جمالیاتی قدر کے تعین کے عمل کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ وہ کسی بھی تنقیدی رویے کو اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک کہ شعری متن سے اس کی توثیق نہ ہوتی ہو۔ پہلے اقتباس میں بھی قاسمی صاحب نے تنقیدی رائے، متن کی متنوع قرأت اور تنقیدی (موزوں، مناسب) تصورات کی ہم آہنگی کی بات کی ہے— یہاں، اس مضمون میں قاسمی صاحب کی شعری متون کی تفہیم و تعبیر کے طریقے سے بحث کی جائے گی۔ چوں کہ قاسمی صاحب نے تمام اہم اصناف شاعری پر لکھا ہے، اس لیے سب کا جائزہ قدرے مشکل ہے، لہٰذا میں اپنا دائرہ کم کرتے ہوئے اردو غزل اور غزل گویوں کے مطالعے تک اس بحث کو مرکوز رکھنے کی کوشش کروں گا۔ اردو غزل کے باوا آدم کہے جانے والے شاعر ولی دکنی سے لے کر خواجہ میر درد، غالب، ذوق، اقبال، شاد عظیم آبادی، فراق گورکھپوری کی غزلیہ شاعری پر ابوالکلام قاسمی نے اہم مضامین لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ غزل کی روایت میں بعض اہم فکری و فنی انحرافات، اردو غزل کا جدید اور مابعد جدید منظرنامہ اور ’جدید تر غزل کی صورت حال‘ کے عنوان سے بھی مضامین تحریر کیے ہیں۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ قاسمی صاحب کو صنف غزل اور اس کے لوازم اور مسائل و امکانات سے خاص دل چسپی رہی ہے۔ جہاں انھوں نے شعرا میںا میر خسرو، خواجہ میر درد، ذوق، غالب، اقبال، شاد عظیم آبادی اور فراق وغیرہ کے غزلیہ متون کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ وہیں غالب، فیض، شہریار، زیب غوری اور عرفان صدیقی کی غزلوں کے تجزیے بھی کیے ہیں۔ ( یہ بھی پڑھیں آل احمد سرور کی اقبال فہمی – پروفیسر کوثر مظہری )

ابوالکلام قاسمی جب شعری متون کو پرکھتے ہیں تو ان کے سامنے پورا لسانی و معنیاتی نظام ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ صنائع بدائع کے استعمال سے شاعری میں پیدا ہونے والی خوبصورتی اور اس کی مختلف جہتوں میں پھیلنے والی شعاعوں پر بھی ان کی نظر ہوتی ہے۔ استعارے اور تشبیہوں کے یا پھر مناسبات لفظی یا مراعات النظیر سے غزل کے فنی طریق کار میں کیسے جان سی پڑجاتی ہے، قاسمی صاحب ان نکات کو اپنی تحریر میں پیش کرتے ہیں۔ ولی کی غزلیہ شاعری کا احاطہ کرتے ہوئے وہ شاعری میں مضمون کی ندرت کے ساتھ ساتھ اسلوب اور فن شعر سے ولی کی رغبت پر بھی اظہار خیال کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:

’’ولی کے جن بعض اشعار سے ان کے تصور شعر کا پتہ لگایا جاسکتا ہے ان میں لذت معنی اور لذت صورت کو یکساں اور متوازن اہمیت دینے کا اندازہ ہوتا ہے: لذت صورت نہیں ہے لذت معنی سے کم، جب وہ کہتے ہیں کہ:

جلوہ پیرا ہو شاہد معنی

جب زباں سے اٹھے نقاب سخن

تو وہ شاہد معنی کے ساتھ نقاب سخن کو بھی متوازی قدر و قیمت کا حامل بتانا چاہتے ہیں۔‘‘ (متن کی تنقید، ص 16)

اس طرزِ نقد سے اس بات کا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ قاسمی صاحب فنی ہنرمندی اور کاری گری کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہی وہ فنی ہنرمندی ہے جو بعد میں میر اور ان کے معاصرین کے عہد میں نقطۂ عروج تک جاپہنچی، اور یہی اردو کے تمام اصناف میں غزل کا طرۂ امتیاز قرار پائی۔‘‘ (ایضاً، ص16)

ولی کی غزلیہ شاعری کا مطالعہ پیش کرتے ہوئے قاسمی صاحب نے ایہام، مراعات النظیر، تشبیہ، رعایت لفظی، تلازمات، معنی آفرینی، مضمون آفرینی، حسن تعلیل، تمثیل، استعارہ، تلمیح، علامت وغیرہ لوازم شعری کا شرح و بسط کے ساتھ محض ذکر ہی نہیں کیا ہے،  بلکہ ان میں سے بیشتر کی تعبیر و تفسیر کے ذیل میں اشعار بھی پیش کردیے ہیں تاکہ ان کی اطلاقی صورت حال بھی کھُل کر سامنے آسکے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ان کے تنقیدی طریق کار میں محض تنقیدی پیمانوں کی کھتونی کے بجائے متون کی قرأت اور تنقیدی تصورات (Theories) میں ہم آہنگی کی اہمیت زیادہ رہی ہے۔

صورت حال کی تشبیہ کے ذیل میں قاسمی صاحب دو شعر پیش کرنے کے بعد ان کی تعبیر پیش کرتے ہیں۔ اس تنقیدی اقتباس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ جملہ بہت طویل اور مرکب ہے، اس کے باوجود التباس اور ژولیدگی کے بجائے ترسیل میں کسی طرح کی رکاوٹ نہیں۔ پہلے وہ اشعار ملاحظہ کیجیے پھر ان کی تنقیدی رائے:

مرے دل کو کیا بے خود تری انکھیاں نے آخر کوں

کہ جیوں بے ہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ

ولی مجھ دل میں آتا ہے خیال یار بے پروا

کہ جیوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ

’’ان اشعار میں صرف آنکھ کی تشبیہ کے لیے شراب کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے، یا محض خیال یار کو خواب کے مشابہ قرار دیا گیا ہے بلکہ محبوب کی آنکھوں سے طاری ہونے والی بے خودی کی کیفیت کو شراب پینے کے بعد بے ہوش ہونے کی کیفیت سے اور دل میں محبوب کا خیال آنے کو نیند کی پُراسرار کیفیت سے تشبیہ دی گئی ہے، جو راست اندازمیں دی جانے والی سہل الحصول تشبیہ سے یکسر مختلف بھی ہے اور تشبیہ کے ذریعہ ایک خاص طرح کی صورت حال کی تخلیق بھی کرتی ہے۔‘‘                                                    (شاعری کی تنقید، ص 18)

آپ اگر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ ابوالکلام قاسمی کے تنقیدی طریق کار میں فنی طریق کار یا تخلیقی ہنرمندی کی چھان پھٹک پر توجہ زیادہ ہے۔ اسی لیے جب وہ خواجہ میر درد کی غزل گوئی پر اظہار خیال کرتے ہیں تو ان کے متصوفانہ رنگ شعر کے سبب داد دیے جانے کو یکسر خارج کردیتے ہیں۔ وہ درد کی شناخت کے لیے ان کے اسلوب اظہار اور فنی وسائل کو سلیقہ مندی کے ساتھ استعمال کرنے کو اہم تصور کرتے ہیں۔ شعریت کے عناصر پر گفتگو کے بغیر شاعری کی تعیین قدر کو وہ نامناسب تصور کرتے ہیں۔ اس لیے وہ درد کے حوالے سے تنقیدی رائے کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں:

’’…اس نوع کا خلط مبحث اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم فنّی طریق کار اور اسلوب اظہار پر تھیم یا شاعر کی ذاتی واردات کو ترجیح دیتے ہیں اور شاعری کی صحیح تعیین قدر سے کئی درجے دور جاپڑتے ہیں۔‘‘                  (ایضاً، ص 30)

کچھ اشعار پیش کرنے کے بعد وہ یہ بھی لکھتے ہیں:

’’…تاہم متذکرہ بالا اشعار تو تصوف سے ماورا سلیقۂ اظہار اور بالواسطہ طرز کلام کے باعث شاعرانہ تدبیر کاری کے عمدہ نمونے بن گئے ہیں۔‘‘

(ایضاً، ص 31)

مغربی جدید نقادوں میں Terry Eagleton نے لکھا ہے کہ The text is a tissue of meanings ۔اسی طرح ہیرالڈ بلوم (Herald Bloome) کی Tropology کو اور Staneley Fish اور Wolfgang Iser وغیرہ کے طرزِ قرأت اور متن سے معنی یابی کے حوالے سے پیش کردہ مضامین کو بھی سامنے رکھا جاسکتا ہے۔ Iser، قاری اور متن کے رشتے کی بنیاد تین باتو ںپر رکھتا ہے: The Process of antiquation & retrospection، The consequent unfolding the text as a living event اور Result impression of Lifelikeness لیکن اس پر یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں۔

موضوع اور مواد کی اہمیت اپنی جگہ لیکن قاسمی صاحب شاعری میں شاعرانہ تدبیر کاری اور فنی ہنرمندی اور بُنت یعنی Craftmanship پر زور دیتے ہیں۔ اسی لیے ان کے مضامین میں اکثر آپ کو صنائع بدائع کی اصطلاحات کی روشنی میں شعری فن پارے (خواہ نظمیہ فن پارہ ہو کہ غزلیہ) کا تجزیاتی مطالعہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ محض فیصلے صادر نہیں کرتے اور ان کا تنقیدی مسلک ایسا ہے بھی نہیں۔ غزل اور اس کے رموز و نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے قاسمی صاحب غزل گویوں اور غزل کے افہام و تفہیم کے لیے راستے ہموار کرتے ہیں۔ زبان، رمز و ایما یا علامتوں کے استعمال پر بھی ان کی نظر ہوتی ہے۔ زبان کا کھیل کس قدر اہم ہوتا ہے، اس پر غور کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ جتنی بھی صنعتیں اور علامتیں ہیں وہ الفاظ و تراکیب کی شکل میں ہی استعمال ہوتی ہیں۔(یہ بھی پڑھیں خدا سے اقبال کی ہم کلامی – پروفیسر کوثر مظہری)

قاسمی صاحب کی تنقیدی بصیرت اور اس کی تفہیم کے لیے یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ انھوں نے شعری متن کے تجزیے کے لیے تناقض اور قول محال یعنی Paradox کو کس طرح تنقیدی Tool کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بیشتر مضامین میں وہ اس لفظ Paradox کا استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے بجا طور پر ایک جگہ لکھا ہے کہ قول محال (Paradox)کا تصور اجتماع نقیضین کے تصور سے کوئی مختلف جز نہیں۔ یہ اجتماع نقیضین وہی ہے جسے ہم اجتماع ضدین یعنی Binary Opposition بھی کہتے ہیں۔ دو متضاد اشیاء کے  اجتماع سے معنی یابی میں ہمیشہ آسانی ہوتی ہے۔ قاسمی صاحب نے اس تناقض اور قول محال کو مختلف مضامین میں اس طرح برتا ہے:

’’…ان کی غزل اپنے پیرایۂ اظہار کے اعتبار سے فعالیت، حرکت اور محرک قوتوں کی کش مکش کا ایسا تاثر قائم کرتی ہے جس کی تشکیل میں استعارہ سازی، پیکر تراشی اور قول محال (Paradox) کی موجودگی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔‘‘ (مضمون: خسرو کی غزلیہ شاعری کی حرکیات، ماخوذ: شاعری کی تنقید، ص 5)

…تلازمات برتنے کا رویہ بھی ہے، تجنیس پیدا کرنے کی کوشش بھی ہے اور تقابل و تضاد کی صنعت کے ذریعے قول محال یا  پیراڈوکس (Paradox) کی بنیاد پر بنیادی استعارے کو ایک نظام میں ڈھالنے کی کوشش بھی نمایاں ہے۔‘‘

’’…مگر حواس کو متحرک کرنے کی وہ مثالیں جو درج ذیل شعروں میں ملتی ہیں ان میں تناقض اور تضا دکی صنعت، قول محال کی کیفیت اور امیجری کی بہتات سے ان کی انفرادیت کا نقش زیادہ اجاگر ہوتا ہے۔‘‘

(مضمون: خواجہ میر درد: ماورائے تصوف، ایضاً، ص 35)

’’…روز مرہ اور محاورے کے ظاہری تضاد نے معنی کی ایک تیسری سطح کو نمایاں کیا ہے جسے Paradox کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔‘‘

(مضمون: غالب کا شعری لہجہ، ایضاً، ص 38)

متذکرہ مثالوں میں لغوی اور محاوراتی معنوں کے تصادم سے قول محال یا پیراڈوکس (Paradox) کی تخلیق کی جو کیفیت ملتی ہے اس کا سلسلہ عام انسانی تجربات سے لے کر روحانی یا متصوفانہ تصور کائنات تک جاتا ہے۔‘‘

(ایضاً، ص 45)

’’…نئی تنقید کے مطلوبہ عناصر کے طور پر غالب کے کلام کو تناؤ، طنزیہ عناصر اور پیراڈوکس (Paradox) کی تلاش و جستجو سے بھی گزارا گیا ہے….. اس عمل میں قول محال کے ساتھ تضاد کی صنعت، نقیضین کااجتماع Poetic Phalacy یا شعری مغالطہ اور ایک ہی لفظ کے بنیادی مادے سے مثبت اور منفی، دونوں پہلوؤں کو آمنے سامنے لاکھڑا کرنا، سبھی طریق کار شامل ہوتے ہیں۔‘‘

(مضمون: تفہیم غالب کی بعض امکانی جہات، کثرت تعبیر، ص 146)

ان پیش کردہ اقتباسات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ اشعار کی تعبیر و تشریح کے لیے یا معنوی جہات کھولنے کے لیے یا شعری متون میں  اتر کر ان میں پنہاں معانی و اسرار تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اپنے تمام تر تنقیدی طریقوں یا  Critical Devices میں وہ قول محال یا Paradox کو کس درجہ اہمیت دیتے ہیں۔ ممکن ہے ان اقتباسات  سے کہیں کہیں مفاہیم کی ترسیل میں رکاوٹ بھی ہورہی ہو، لیکن یہاں اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ قاسمی صاحب اس قول محال یا اجتماع نقیضین کو کتنا اہم جانتے ہیں۔ ان اقتباسات کو ان کے سیاق و سباق میں پڑھ کر آپ مطمئن ہوسکتے ہیں۔ دوسرے بہت سے نقادوں نے باتیں اجتماع نقیضین کی کہی ہیں، لیکن ذکر اس شد و مد کے ساتھ نہیں کیا ہے، جس طرح قاسمی صاحب نے کیا ہے۔  اس کا ذکر تو شبلی نے بھی کیا ہے۔ یعنی، شبلی سے لے کر قاسمی اور پھر آج تک اس کے آس پاس تنقیدی عمل جاری ہے۔ (یہ بھی پڑھیں جامعہ کے شعبۂ اردو کی شعری کائنات – پروفیسر کوثر مظہری )

قاسمی صاحب متن کے معنی یا اس میں پیش کیے گئے مواد سے زیادہ ڈکشن اور اس کی قرأت کے دوران پیدا ہونے والے صوت و صدا پر زیادہ ہوتی ہے جس کا سرا اسلوبِ پیش کش سے جاملتا ہے۔ حالاں کہ وہ فکر و فن دونوں کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ شاد کے حوالے سے دبستانی وابستگی کی نفی کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

’’اس پس منظر میں شاد عظیم آبادی کی غزل اگر آج تک اپنے آپ کو مقبول، بامعنی اور غیرزمانی بنائے ہوئے ہے تو اس کی وجہ ان کی غزل کی فکری و فنی توانائی کے سوا اور کچھ نہیں… شاد کی غزل کم و بیش ڈیڑھ سو سال کے بعد آج بھی اگر زندہ ہے تو محض اپنے ڈکشن کے بل بوتے پر زندہ ہے۔‘‘

——

’’شاد کی شاعری کا بالاستیعاب مطالعہ کرتے ہوئے جو چیز سب سے پہلے قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہے وہ ان کی کثیرالاصواتی اور لہجے کا تنوع ہے۔‘‘                                                            (کثرت تعبیر، ص 55-56)

پہلے اقتباس میں فکری و فنی توانائی کے بعد شاد کی غزل کے زندہ رہنے کی اصلی وجہ ان کے ڈکشن کو قرار دیا گیاہے اور دوسرے اقتباس میں بھی ان کے لہجے اور غزل/ شاعری کے کثیرالاصوات ہونے کو اہمیت دی گئی ہے۔ ہر حال میں، متن بنانے کے عمل پر ان کی توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ ڈکشن ہی سے لہجے کا اور متن کے کثیرالاصوات ہونے کا تعین ہوتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ سرسری طور پر شاد کے مطالعے سے ان کی شعری صنعت یا فنی تدبیر کاری (Poetic Devices) کا پتہ نہیں چل پاتا۔ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ شاد شعر کے تاثر یا مضمون کی ندرت کو شعری صناعی پر قربان نہیں کرتے۔ لیکن اگر تاثر اور مضمون کی ترسیل میں کسی طرح کی رکاوٹ نہیں تو بقول قاسمی شاد صنعتوں کا استعمال بھی ضرور کرتے ہیں۔ میرے خیال سے ہر بڑا فنکار یہی کرتا ہے، لیکن اس عمل میں اگر ناتجربہ کاری ہے تو کچے پن کی قلعی بھی کھل جاتی ہے۔ اس شعری و تخلیقی عمل اور ڈکشن کے حوالے سے وہ کہتے ہیں:

’’…یعنی شعر سازی یا متن بنانے کا عمل ان کے یہاں شعوری تو ضرور ہے مگر وہ فنی تدبیر کو زبان و بیان، فصاحت، صوتی آہنگ یا معنوی امکانات کے تابع رکھتے ہیں۔‘‘                  (شاد عظیم آبادی کی غزل، کثرت تعبیر، ص 63)

یہاں قدرے توقف کی ضرورت ہے۔ فنی تدبیر کو وہ زبان و بیان اور فصاحت کے تابع کس طرح رکھتے ہیں، بہت واضح نہیں۔ اس لیے کہ زبان و بیان کو انھوں نے خود بھی ڈکشن یعنی لفظیات سے موسوم کیا ہے، فصاحت کا رشتہ بھی زبان و بیان سے ہے اور زبان و بیان ہی کے استعمال پر صوتی آہنگ کاانحصار ہے۔ ہاں معنوی امکانات کے فنی تدبیر (Poetic Device) کے تابع رکھے جانے والی بات مناسب بھی ہے اور التباس سے پاک بھی۔ تمام تر صنعتیں Poetic Device کے زمرے میں آتی ہیں۔ شاعری/ غزل کی تفہیم و تعبیر کے ذیل میں قاسمی صاحب کی تنقید اور اس کے طریق کار کو مزید واضح کرنے کے لیے یہاں ایک اور اقتباس پیش کرنا چاہوں گا تاکہ اوپر والے اقتباس میں جو التباس پیدا ہوا ہے، وہ دور ہوسکے:

’’شاید ہی کسی شعری نظریہ ساز (؟) کو اختلاف ہو کہ دوررس اور غیرمعمولی شاعری میںمعنوی اور تعبیری امکانات کا خمیر، تخلیقی عمل کی سطح پر تخیل کی کارکردگی اور اظہار کی سطح پر لفظوں کے تخلیقی استعمال میں مضمر ہوتا ہے۔ خواہ وہ تخلیقی استعمال الفاظ کو استعارہ، علامت اور تمثیل کی سطح پر برتنے سے عبارت ہو یا حقائق کی وسعت اورپیچیدگی کو ڈکشن کی جامعیت میں سمیٹنے سے۔‘‘

(کثرتِ تعبیر، 2012، ص 42)

یعنی یہ کہ الفاظ ہی کو استعارہ، علامت اور تمثیل میں مبدّل کرنا تخلیقی یا فنی ہنرمندی یا صنّاعی ہے۔ اگر علامت کی بات کریں تو اس میں یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ تخلیقی فن پارے میں استعمال ہونے والی علامت خارجی یا من مانی یعنی Extrinsic or Arbitrary، داخلی یا توصیفی یعنی Intrinsic or Descriptive ہے یا پھر بصیرتی یا کشفی یعنی Insight Symbol۔ یہ تینوں قسمیں H. Flanders Dunbar نے تفصیل سے بتائی ہیں۔ دیکھنا چاہیے کہ علامت محض پیوند کاری کا کردار ادا کررہی ہے یا پھر اس میں بصیرت افروزی کا سامان بھی ہے اور نفس مضمون تک پہنچنے میں معاون ثابت ہوتی ہے کہ نہیں۔ دراصل استعارہ اور علامت کا کام معانی کو اپنی سطح سے مزید بلند کردینا ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کی اہمیت تخلیقی عمل میں بڑھ جاتی ہے۔

اب یہ بات تقریباً کھل کر سامنے آگئی کہ قاسمی صاحب موضوع اور مواد سے الفاظ و تراکیب کے ہم آہنگ ہونے کو ضروری تصور کرتے ہیں۔ جب وہ اقبال کی غزل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے نظامِ فکر، تاریخی و ثقافتی مناظر کے ساتھ ساتھ لفظیات کی فنی ہنرمندی کی بات بھی کرتے ہیں۔ چوں کہ اقبال بالکل ہی نئے افکار و مسائل لے کر آئے تھے، لہٰذا ان کا لفظی نظام دوسرے ماقبل روایتی غزل گو شعرا سے یکسر مختلف تھا، جسے کہ فطری کہا جانا چاہیے۔ شاید اسی کو قاسمی صاحب نے ایک بڑے نظام فکر، سے موسوم کیا ہے:

’’اقبال نے غزل کی کلاسیکیت کو اپنے موضوعات اور لفظیات کی سطح پر قبول کیا اور بعض مضامین کی تکرار اور تسلسل کا الزام قبول کرنے کے باوجود اپنی غزل کے ڈکشن کو ایک بڑے نظام فکر سے مربوط رکھا۔‘‘

(مضمون: غزل کی روایت میں بعض اہم فکری و فنی انحرافات، ایضاً، ص 20)

اس نظام فکر کو اسلامی فکر و فلسفہ سے موسوم کرنے میں کسی طرح کی قباحت نہیں، لیکن ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی افکار کو پیش کرنے والے (خواہ کم کم ہی کیوں نہ ہو) دوسرے شعرا کے کلام کا ڈکشن وہ کیوں نہیں جو کہ علامہ اقبال کی غزل کا ہے؟ قاسمی صاحب نے صراحت کی ہے کہ اس رویے (یعنی بڑے نظام فکر سے ڈکشن کا ہم آمیز ہونا) سے روایتی لفظیات کے انسلاکات اور تلازمے پوری طرح تبدیل ہوگئے۔ اقبال کی غزل کے لسانی نظام کو دیکھتے ہوئے قاسمی نے اسے نئے انداز کی مرصّع کاری کہا ہے۔ یہ بھی لکھتے ہیں:

’’اس تبدیل شدہ لسانی منظرنامے میں، تلمیحات، استعاروں، تمثیلوں اور حسن تعلیل اور پیکر تراشی نے نوکلاسکی کردار ادا کیا اور اسلوبیاتی اور موضوعاتی سطحوں پر اقبال کی غزل کو بڑی حد تک تبدیل کرکے رکھ دیا۔‘‘ (ایضاً، ص 20)

قاسمی کے بقول اقبال کی غزل کا لفظی نظام ہمیں ایک بدلی ہوئی نئی کلاسیکیت سے آشنا بھی کرتا ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قاسمی غزلوں کو پرکھتے ہوئے صنائع و بدائع اور الفاظ و تراکیب کے تفحص اور ان کے در و بست پر نظر رکھتے ہیں۔

فراق ایک اہم غزل گو کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ فراق کی غزلوں میں معنی آفرینی کا ذکر کرتے ہوئے وہ نیاز فتح پوری کی رائے کا اثبات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ فراق کے یہاں معنی آفرینی بھی ملتی ہے اور کیفیت بھی۔ لیکن ان کا یہ ماننا بھی ہے کہ فراق کے یہاں کیفیت کے اشعار زیادہ ہیں اور معنی آفرینی کے کم۔ لکھتے ہیں:

’’فراق کی دوسری تمام شاعرانہ صفات کے مقابلے میں ان کی کیفیت کے اشعار نے ان کو غیرمعمولی مقبولیت بخشی اور شاید یہ بات بھی زیادہ غلط نہیں کہ ان کے بعض لفظی حشو و زوائد اور زبان یا وزن کی ناہمواری کی طرف کیفیت کے غلبے نے قاری کے ذہن کو بالعموم متوجہ ہونے نہیں دیا۔‘‘

(مضمون: فراق کی غزل کے امتیازات، شاعری کی تنقید، ص 91)

میرا تو ماننا ہے کہ کبھی کبھی شعر میں کیفیت پہلے سے موجود ہوتی ہے اور کبھی کبھی معنی آفرینی والے شعر سن کر قاری کسی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے (یا ہوسکتا ہے)۔ اتنی بات ضرور ہے کہ کیفیت کے اشعار میں اثرانگیزی کی صلاحیت قدرے زیادہ ہوتی ہے۔ قاسمی صاحب فراق کی غزل کو رس اور دھونی کے نظریات کی روشنی میں پڑھنے اور پرکھنے کی سفارش کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فراق صاحب عظیم شاعر نہیں لیکن ایک اہم اور رجحان ساز شاعر ضرور ہیں۔ ان کی تھیسس یہ بھی ہے کہ غزل میں عرصۂ دراز سے عظیم شاعر پیدا ہونے بند ہوگئے اس حقیقت کو ہمیں جی کڑا کرکے تسلیم کرلینا چاہیے۔ (شاعری کی تنقید، ص 97)

اردو غزل کے سفر میں ولی دکنی سے لے کر مابعد جدید غزل گو شعرا میں جمال اویسی اور عالم خورشید تک غزلیہ متون کی کمی نہیں۔ قاسمی صاحب نے کلاسیکیت اور ترقی پسند شاعری کے بعد پیدا ہونے والی تبدیلی اور اس تبدیلی کے زیراثر ہونے والی غزلیہ شاعری پر غور و فکر کے بعد روشنی ڈالی ہے۔ جدیدیت نے وجودی اور انفرادی تصور حیات کو مرکزی حوالے کے طور پر برتا اور اردو غز۔ل گو شعرا نے خوف و ہراس، تنہائی، تشکیک، بے یقینی اور اداسی جیسے موضوعات کو شعری وظیفہ بنا لیا۔ اس طرح شاعری میں موضوع اور اسلوب، دونوں سطحوں پر بہت ہی واضح تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ چونکہ یہ زمانہ 1947 یعنی تقسیم ہند کے بعد کا بھی تھا اور ترقی پسندی کے بعد کا بھی اس لیے وہ لکھتے ہیں:

’’اس دور کی غزل میں ایک طرف انسانی رشتوں پر نئے سرے سے غور و خوض کا رجحان نمایاں ہوکر سامنے آیااور دوسری طرف ترقی پسند شاعری کے برخلاف براہِ راست بات کہنے کے ردعمل میں استعاراتی اور علامتی اظہار کو اہمیت حاصل ہوئی۔‘‘                                                                         (ص 103)

اس کے بعد انھوں نے ناصرکاظمی کا یہ شعر پیش کیا ہے:

کیا قیامت ہے کہ بے ایام گل

ٹہنیوں کے ہاتھ پیلے ہوگئے

اس عہد میں جدید فکر کو جدید اسلوب میں پیش کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ غزل جیسی نازک صنف سخن کو خاردار اور پتھریلی راہوں پر گھسیٹا گیا۔ لفظی بازی گری، فیشن پرستی اور ابہام اور علامت کی دبیز پرتوں نے یا تو معانی کو تقریباً عنقا کردیا یا متن کو چیستاں بنا دیا۔ لیکن اسی علامت نگاری اور ابہام یا نئے تلازمات کے استعمال سے جدید غزل کی پہچان بھی ہوتی ہے۔ اگر اعتدال پسندی کی بات کی جائے تو اس راہ پر چلنے والے شاعروں کی غزلیں مرکز توجہ بنی رہیں جبکہ اینٹی غزل (Anti Ghazal) والے اسلوب بہت جلد پردۂ خفا میں چلے گئے جس کی طرف قاسمی صاحب نے اشارہ بھی کیا ہے:

’’اینٹی غزل کے تجربے یا تمسخر آمیز غیرسنجیدہ لب و لہجے جیسے عناصر اس روایت کا حصہ نہ بن سکے۔ چنانچہ جدید تر غزل میں اس قسم کی کسی بھی افراط و تفریط کا سلسلہ قائم نہ رہ سکا۔‘‘

(مضمون: جدید تر غزل کی صورت حال، شاعری کی تنقید، ص 111)

جدید تر غزل یعنی 1950 کے بعد یا یوں کہہ لیں کہ ترقی پسندی سے متاثرہ غزل کے بعد کی غزل، جس کے حوالے سے قاسمی صاحب کے مضمون کا ذکر ہورہا ہے، اسی حوالے سے خلیل الرحمن اعظمی نے ’جدید تر غزل‘ کے عنوان سے ایک طویل مضمون تحریر کیا تھا جو ان کے مجموعۂ مضامین ’مضامین نو‘ (مطبوعہ 1977 ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ) میں شامل ہے۔ یہ مضمون ممکن ہے کتاب کی اشاعت سے ایک دو برس پہلے لکھا گیا ہو۔ اس مضمو ن میں وہ لکھتے ہیں:

’’اس غزل میں پرانی علامتوں کی تکرار اور گھسے پٹے تلازموں کے بجائے تازہ تر علامتیں اور الفاظ کے نئے تلازمے ملتے ہیں۔‘‘

(مضمون: جدید تر غزل، مضامین نو، ص 77)

وہ محض سگریٹ، سگنل، ریل، بس، ٹیلی فون جیسے لفظوں کے غزل میں در آنے کو جدت تصور نہیں کرتے۔

اینٹی غزل کے حوالے سے خلیل الرحمن اعظمی کا خیال کچھ یوں ہے:

’’منفی غزل (Anti Ghazal) میرے نزدیک وہ غزل ہے جو غزل کے اندرونی اور باطنی آہنگ اور اس کے مخصوص رمزیاتی اور ایمائی طریق کار کو چھوڑ کر خارجی اور غیررمزیاتی انداز بلکہ ایک نوع کی برہنہ گفتاری کی طرف مائل  ہوجاتی ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 78)

اس برہنہ گفتاری اور فیشن پرستی سے اور زبان اور مضامین کے برتے جانے کی سطح پر جو افراط و تفریط کی فضا بنی، اس سے تنوع کا بھی ایک رنگ ابھرا۔ نئے اسالیب اور اس تنوع کو قاسمی صاحب نے لائق اعتنا قرار دیتے ہوئے اس کے بیچ سے کھوئے ہوئے عقیدے کی بازیافت کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کا سرا ظفر اقبال، سلیم احمد، شہزاد احمد، شہریار وغیرہ سے آگے بڑھ کر عرفان صدیقی، اسعدبدایونی،فرحت احساس اور مہتاب حیدر نقوی سے جوڑ دیا ہے۔ ظاہر ہے، اب زمانہ بدل رہا ہے اور اس بدلے ہوئے زمانے میں نئے فکری رجحان نے شعر کو متاثر کیا ہے۔ محض عقیدے کی ہی واپسی نہیں، بلکہ بے یقینی سے یقین اور بے اعتمادی سے اعتماد کی طرف کا سفر نظر آتاہے۔ قاسمی صاحب کے بقول:

’’گذشتہ برسوں میں تشکیک کے بجائے ایقان، خوف کے بجائے اعتماد اور مادی صداقتوں کے بجائے روحانی سہاروں کی تلاش و جستجو کے موضوعات نے بھی معاصر غزل کے لہجے اور آہنگ میں ایک قسم کا ٹھہراؤ اور استحکام پیدا کیا۔‘‘

(مضمون: جدید تر غزل کی صورت حال، شاعری کی تنقید، ص 111)

آگے چل کر وہ مذہبی استعاروں کی بات کرتے ہیں اور اس کی توثیق کے لیے اشعار بھی پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ یہ بھی لکھتے ہیں:

’’یہ عقیدے کی ضرورت کا وہی احساس ہے جس سے محرومی نے جدید غزل میں مادّی رشتوں سے اکتاہٹ اور قدروں کے انتشار کی کیفیت پیدا کی تھی… لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے کہ مذہبی حسّیت کے نتیجے میں ابھرنے والا صوفیانہ آہنگ آج کی غزل میں غالب ترین رجحان بن کر نمودار ہوا ہے۔‘‘     (مضمون، جدید تر غزل کی صورت حال، ایضاً، ص  112)

جدیدیت نے جس طرح استعارہ سازی اور زبان کے امکانات پر زور دیا اس سے بقول قاسمی صاحب ’’غزل کے مزاج میں پہلے سے شامل تہہ دار لب و لہجہ اور رمزیت کی بدلی ہوئی صورتوں کو مزید فروغ ملا۔‘‘ (کثرتِ تعبیر، ص 100)

کبھی بھی موضوعات یا اسالیب کی سطح پر جب محض چونکانے والے شعری نمونے سامنے آتے ہیں تو اس کی اہمیت دھیرے دھیرے ماند پڑجاتی ہے۔ ظفر اقبال یا عادل منصوری چاہے لسانی اور موضوعاتی سطح پر کتنی ہی توڑ پھوڑ مچا لیں، معاملہ کہیں کہیں قواعد اور اصول شعر کے حصار میںا ٓتا ہی ہے۔ ظفر اقبال کا  ایک اقتباس اُن کے مجموعے سے قاسمی صاحب نے پیش کیا ہے،ملاحظہ کیجیے:

پنکچویشن اڑا دی ہے کہ معنی کو محدود کرتی ہے۔ اضافت سے حتی الامکان گریزکیا ہے۔ گرائمری گھٹن بھی اب ویسی نہیں رہی۔ میں اب سانس لے سکتا ہوں۔‘‘

(کثرتِ تعبیر، ص 100)

تو کیا گریمر (Grammar) کے رموز کی پاس داری عمل تنفّس میں کسی طرح کی رکاوٹ کا سبب ہوتی ہے؟میرے خیال میں اسے اجتہادی اقدام قطعی نہیں کہا جاسکتا۔ پنکچویشن میں یوں بھی اردو میں ختمہ یعنی فُل اسٹاف اور استفہامیہ نشان کے علاوہ کسی دوسرے کی پاسداری کم ہی ہوتی ہے۔ کبھی کوما اور کبھی کولن۔ خیر اس بحث کو چھوڑیے۔ اضافت کے حوالے سے مجھے کچھ نہیں کہنا کہ خوف طوالت بھی ہے اور موضوع  سے بھٹک جانے کا امکان بھی۔

فیشن تو فیشن ہوتا ہے۔ قاسمی صاحب بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ:

’’غزل کی تاریخ میں جب کبھی چونکانے والے موضوعات، جدید حسّیت اور نئے مدنی مسائل کا شمار کرنے کی کوشش کی گئی تو بہت جلد یہ اور اس طرح کی تمام شماریات صنف غزل کی مخصوص شعریات کی تلچھٹ بن کر ناقابل قبول قرار دے دی گئیں۔‘‘

(مضمون: اردو غزل کا جدید اور مابعد جدید منظرنامہ، کثرتِ تعبیر، ص 106)

اردو غزل کی تاریخ و تہذیب سے لے کر اس کے تصورات و رجحانات اور غزل گوئی کے رموز و علائم اور غزل گویوں کے فنی رویوں سے جس شرح و بسط کے ساتھ اور جس سہل انداز میں افہام و تفہیم کی راہیں قاسمی صاحب نے کھولنے کی کوشش کی ہے، اس کی مثال خال خال ہی ملتی ہے۔ ایسا اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ قاسمی صاحب تھیوری کو خود پر نہ حاوی ہونے دیتے ہیں اور نہ اس سے مرعوب ہوتے ہیں اور پھر یہ بھی کہ ان کے پاس اپنا مشرقی علمیاتی تناظر بھی ہے۔

 

 

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

ابو الکلام قاسمیکوثر مظہری
4 comments
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
باصرسلطان کاظمی کی غزلیں [حصّہ دوم] – ڈاکٹر صفدر امام قادری
اگلی پوسٹ
والدین کی یاد نے مجھے دوران سفر قلم اٹھانے پر مجبور کردیا  – محمد عامل ذاکر مفتاحی

یہ بھی پڑھیں

دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –...

جولائی 10, 2025

جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

جون 20, 2025

شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

دسمبر 5, 2024

کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –...

نومبر 19, 2024

کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر...

نومبر 17, 2024

کوثرمظہری کا زاویۂ تنقید – محمد اکرام

نومبر 3, 2024

علامت کی پہچان – شمس الرحمن فاروقی

مئی 27, 2024

رولاں بارتھ،غالب  اور شمس الرحمان فاروقی – ڈاکٹر...

فروری 25, 2024

مابعد جدیدیت، اردو کے تناظر میں – پروفیسر...

نومبر 19, 2023

اقبالیاتی تنقید کے رجحانات – عمیر یاسر شاہین

نومبر 4, 2023

4 comments

JAMAL OWAISI جون 27, 2021 - 6:21 صبح

آپ کا تجزیاتی مضمون اچھا ھے۔ غزل کے تعلق سے قرار واقعی تنقید ذرا مشکل ہے۔ اس لئے نو کمنٹ۔
7352284181
7654677464

Reply
سید محمد اشرف کی باد بہاری - امتیاز رومی - Adbi Miras جون 28, 2021 - 1:21 شام

[…] تحقیق و تنقید […]

Reply
ماہر غالبیات مالک رام اور تلامذئہ غالب - محمد شاداب شمیم - Adbi Miras جولائی 1, 2021 - 10:38 صبح

[…] تحقیق و تنقید […]

Reply
میں اور میرے رفیق حیات - پروفیسر دردانہ قاسمی - Adbi Miras جولائی 8, 2021 - 4:10 شام

[…] تحقیق و تنقید […]

Reply

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (593)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (201)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,041)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (534)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (204)
      • مثنوی کی تفہیم (8)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (402)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (214)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (474)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,130)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (33)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (896)
    • خصوصی مضامین (126)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (68)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں