فیروز مرزا ھوڑہ میں غزل کے افق پر نئی تابناکی ہیں۔ اُنہیں نئے موسم کا پھول اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ادھر کئی دہائیوں سے اس جغرافیائی خطہ میں ، جس کے نمائندہ فیروز مرزا ہیں، کوئی نئی آواز کوئی نئی اُمید نہیں اُبھری جب کہ و ہاں کا ادبی سماج بہت سرگرم ہے۔ فیروز مرزا 35_40 سال سے غزل گوئی کی مشق پابندی سے کر رہے ہیں۔اتنے دنوں کا اُن کا مسلسل جمع ہوتا ہوا سرمایہ ” شبنم کی بوندیں” کے عنوان سے پہلے مجموعہ غزلیات کی صورت میں منظر _ عام پر آیا ہے اور بہت کم وقت میں اُنہیں پے در پے تین استقبالیہ دیے گئے۔ انکی شاعری اور شخصیت پر بات بھی ہوئی اور یادگاروں سے نوازا بھی گیا۔ شہر کی نوجوان نسل کی نمائندگی ابھی تک 50_50 سال کی عمر کوپہنچے ہوئے جو فنکار کر ر ہےہیں اُن میں فیروز مرزا اپنی خوش گوئی اور خوش گلوئی کے حوالے سے نمایاں ہیں۔ اُن کی غزل پڑھتے وقت یہ سوال اُبھرا کہ اس علاقہ میں اتنی سرگرمی نشست، مشاعرہ، استقبالیہ ، ایوارڈ فنکشن ادبی مذاکرات کے باوجود نئی نسل ادب کی طرف کیوں نہیں مائل ہو رہی ہے۔؟ فیروز مرزا اپنے پیچھے نہ آنے والوں کی وجہ سے نئی نسل کے نمائندہ اور اُن کی شاعری نئے موسم کا پھول ہے۔ فیروز مرزا کے موضوعات شہری زندگی کا تضاد، سماجی جبر ، شخصی کشمکش، زندگی کی شدت اور سب کا محبوب موضوع عشقِ ہیں مگر جو چیز موضوعات کی سطح پر نمایاں ہے وہ ہے کسی مورچہ پر شکست ماننے سے کھلا انکار کرتے ہوئے حالات کو موافق بنانے کی ضد۔ ٹھیک سے دیکھا جائے تو فیروز مشرقی ہند کے غیر اردو ماحول میں بہت اقلیت میں ہونے کے باوجود اردو کی تعلیم ، ترویج اور تبلیغ کے جاریہ سلسلہ کی کڑی ہیں۔ زبان بھی اعلیٰ اور تخلیقی نہیں ہے تو بھی اغلاط اور عیوب سے پاک ہے۔ لفظ کو غیر ضروری ٹوت پھوٹ سے گزا رنے یا اُس کا بے محل استعمال کرنے یا لفظ کی تہذیب کو جانے بغیر شعر میں بھرنے سے گریز اُنہیں غزل کی معتدل زبان کے قریب رکھے ہوئے ہے ۔ سیدھے سادے صاف ستھرے شعر نکا لتے ہیں جن سے قاری یا سامِع پر کوئی ناگوار اثر نہیں گذرتا اور اُن کا پورا مجموعہ ایک نشست میں مکمل ہو کر قاری کو مجموعی تاثر قائم کرنے کی سہولت دیتا ہے۔ اُن کے فرد فرد اشعار سے اُن کے ذہن کی پوری نقشِہ سازی نہیں ہو پاتی۔40 سال کے کلام میں ابتدائی عمر کا بھی بہت کچھ ہے جو مشق کے ابتدائی مرحلہ کے ارتقائی سفرکی پہچان کرنے میں معاون ہے۔ غزل میں مرزا نے آگے کا جو راستہ چنا یا طے کیا وہ بہت نمایاں نظر نہیں آتا۔ ایسے میں کمزور یہ ہلکے اشاروں سے ہی انکی فکر تک پہنچنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یہاں ان کا ایک شعر نقل ہونا چاہتا ہے۔
یہاں تلک تو میں آیا ہوں اپنی مرضی سے
یہاں سے اب تو بتا بے خبر کدھر جاؤں
ہے ناں ایک سیدھا سا شعر ۔ استفسار، بے سمتی، گم شدگی کے حوالے سے مگر سارا پیچ ایک لفظ ” بے خبر” میں ہے۔ شاعر اپنی عقل _ سلیم کی رہنمائی میں منزلوں اور مرحلوں سے گزر کے آنے کے بعد جہاں سمت کھو جانے کی اذیت سے دو چار ہوا وہاں اس کو رہبری کی اُمید میں بھی زیادہ بڑی اذیت ھے۔ کیوں کہ جس سے پوچھنے کی نوبت ہے شاعر اُسے پہلے سے جانتا ہے کہ بے خبر ہے۔ ندرت _ بیان کی ایک اور جھلک دیکھتے چلیں۔
چھپتا کیسے مرزا اس کی آنکھوں سے
کیا اک دائرہ میں بھی کونا ھو تا ہے
مرزا کے یہاں کم ہی سہی یہ کیفیت آتی ہے ۔ چار نمایاں موضوعات انکے یہاں گھوم پھر کے آتے رہتے ہیں۔ للک کے حوالہ سے اُن کا ایک شعر تھوڑا لطف دیتا ہے۔
تُم کو دیکھ کے پڑ جاتے ہیں دل میں بھنور
ایسا ہی کچھ تم بھی کہو نا ہوتا ہے
ایسے کئی شعر دوران _ مطالعہ آئے ہیں۔ کچھ سر سری طور سے گزرنے بھی دیتے ہیں کچھ روکتے بھی ہیں۔
چاند اترا تھا ٹھہرے پانی میں
ہم اسے چہرہ آپ کا سمجھے
لکھتے لکھتے خود مٹا ڈالا ھے میں نے تیرا نام
جانے کس کو والہانہ پن مرا جھوٹا لگے
یہ بہت نمایاں ہے مگر ادھر کی غزلوں میں کم اور پچھلے برسوں کی غزلوں میں زیادہ ۔ فیروز مرزا کی دوسری نمایاں خصوصیت طنز ہے یہ طنز چھوٹے سے ماحول میں تناؤ اور اس سے متعلق ذہنی دباؤ سے پھوٹتا نظر آتا ہے۔ گو کہ ان شعروں میں غزل واسطہ بن کر آئی ہی مگر اصل میں پہچان زندگی کی ہے۔ کچھ شعر کوٹ کیے جا سکتے ہیں۔
ہے جن کا اردو غزل سے تجارتی رشتہِ
وہ بولیں اور بھلا اس کی بے ردائی پر
پھول اشعار کے جو شخص کھلاتا ہی نہیں
بوئے شہرت وہ کسی حال میں پاتا ہی نہیں
زعم ہے توڑ کے لائے گا فلک سے تارے
آم کے پیڑ پہ چڑھنا جسے آتا ہی نہیں
رسم ہے ہاتھ ملانے کی ملا لیتے ہیں
ورنہ دل سے تو کوئی ہاتھ ملاتا ہی نہیں
مقام حکمت و دانش میں جس کاہو اول
ضروری یہ تو نہیں ہے کہ پا رسا بھی ہو
ایک غزل میں تو اسی زمرہ میں آنے والے کئی شعر آ گئے ہیں۔ دل چسپی کیلئے تین شعر نقل کیے جا سکتے ہیں۔
عقل کے اندھو غیر کی ضو سے روشن میری ذات نہیں
جو کچھ میرے پاس ھے میری پونجی ہے خیرات نہیں
روشن رہتی ہے اک دنیا میری فکر کے سورج سے
میں اورو ں سے مانگوں اجالا ایسے تو حالات نہیں
نظم، قصیدہ، گیت، رباعی،افسا نہ، مضمون، غزل صنف ہو کوئی
فضل خدا سے اس میں میری مات نہیں
شہری زندگی کا جبر بھی مرزا کو انگیز کرتا ہے۔اس حوالہ سے ایک شعر
مرزا کھڑے ہو کس لئے پیدل نکل چلو
کس نے کہا تھا شہر میں چلتی ہیں گاڑیاں
اُن کی نظر سماج کے بدلتے منظر نامہ پر بھی رہتی ھے۔ کھلونے والا اردو غزل میں کبھی کبھی اپنے محبوب اور متروک ہونے کے حوالہ سے جلوہ گر ھوتا رہا ہے۔ یہاں بھی اسی تسلسل کی ایک کڑی آ گئی۔
گاؤں کے بچوں نے بندوق سنبھالی جب سے
بیچنے کوئی کھلونا ادھر آتا ہی نہیں
لیکن ان سب سے زیادہ اہم وہ چیلنج ہے جس کا سامنا شاعر کرتا اور زندگی بھی کرتا ہے۔ شہر کی ایک گھنی بستی کے تناؤ اور تضاد سے گزرے بغیر یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اپنے ہر اعتبار سے منفرد وجود کی بنا پر ان آبادیوں میں زندگی گزارنا کتنا جوکھم بھرا کارنامہ ھے۔ درج _ ذیل اشعار فیروز مرزا کے زور اور زمین اور زمان کو سمجھنے میں بہت معاون ہے۔
اپنی محنت کی پونجی کا ہر حصہ
مزدوروں کا پکا سونا ہوتا ہے
یقین کیسے کروں اس کی رہنمائی پر
اٹھائے خود ہی جو تلوار اپنے بھائی پر
بے ہنر لوگ جہاں بستے ہیں مرزا صاحب
ایسی بستی میں مرا ذہن تو جاتا ہی نہیں
کوئی کانپ رہا تھا کمرہ کے اندر
بھیگ رہا تھا اوپر کمبل پانی میں
دیکھ کے میرے تیور آخر پھینک دیا
اس نے اپنے ہاتھ کا خنجر پانی میں
یوں تو قائم ہیں ابھی تک امن کے دیوار و در
پھر بھی ہر انسان کیوں اندر سے خائف سا لگے
یہاں کہنے کو یوں تو ثانی منصور لاکھوں ہیں
مگر حق بات کہنے کی جسارت کون کرتا ھے۔
******************
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page

