عجب عجب سے مناظر ابھرتے پردے پر
عجب عجب سے تماشے دکھائی دیتے ہیں
کوئی کتاب ملی ہے کسی کو تحفے میں
بڑے ہی فخر سے لا کر اسے بھی رکھ دیتا
کوئی تو بیگ جو بنٹتے ہیں سے می ناروں میں
انھیں بھی لا کے کبھی سامنے سجا دیتا
کوئی بنا تھا کبھی صدر،یہ خبر دیتا
کوئی بتاتا کہ کی تھی نظامت اس نے بھی
زباں کا زور دکھایا تھا اس نے محفل میں
کوئی کسی کا کوئی شعر نقل کرتا ہے
کہ لوگ جانیں کہ وہ بھی ادب کا حصہ ہے
کوئی سنا کے لطیفہ بھی یہ جتاتا ہے
کہ وہ بھی صاحبِ ذوقِ جمال ہے صاحب
کوئی جوانی کی تصویر پیش کرتا ہے
کوئی تو گھر کا بھی فوٹو اتار لاتا ہے
کوئی کسی کی کوئی پوسٹ پیش کرتا ہے
کوئی دکھاتا ہے کس کس سے اس کا رشتہ ہے
گروپ فوٹو میں کس شخصیت کے ساتھ ہے وہ
کوئی جہاز کا فوٹو دکھا کہ کہتا ہے
روانہ ہو رہا ہوں دہلی سے
پہنچ کے چنّئی پھر آپ کو بتاتا ہوں
کہ یہ ہوائی سفر کس لیے کیا میں نے
کوئی تو روپ علالت کا پیش کرتا ہے
بندھی ہیں پیر میں جو پٹّیاں ،دکھاتا ہے
کوئی نماز کی تصویر کھینچ لاتا ہے
جو گول ٹوپی ہے سر پر اسے دکھاتا ہے
کچن کی ہانڈی بھی اپنی کوئی سجاتا ہے
مٹن پلاؤ ،چکن قورما دکھاتا ہے
کوئی تو گود میں بچّے کو اپنے لاتا ہے
مگر گروپ سے بیوی کو کاٹ دیتا ہے
بڑے سلیقے سے کوئی بدن دکھاتا ہے
جنھیں چھپانا ہےان کو ہی وہ دکھاتا ہے
چھپا ہے خط کوئی اخبار میں تو اس کا بھی
تراشا نوٹ کے ہمراہ پیش کرتا ہے
اسی کے ساتھ سجا دیتا ہے’بلاوے ‘ بھی
جو اس کے پاس پہنچتے ہیں ویب ناروں سے
کوئی لباس خریدا ہے اپنے بچّے کا
تو وہ بھی رکھتا ہے احباب کی نگاہوں میں
کبھی کبھی تو نظر آتا ہے وہ ڈبّا بھی
کہ جس پہ کمپنی کا نام درج ہوتا ہے
کوئی تو اتنی کتابوں کا عکس رکھتا ہے
کہ جیسے گھر میں کوئی اس کے لائیبریری ہے
یہ سارے روپ ، یہ سارے نظارے کہتے ہیں
کہ جس کو سادہ سا ہم آدمی سمجھتے ہیں
جو ہم میں ،آپ میں، سب میں دکھائی دیتا ہے
اس آدمی کی نظر پیچ دار کتنی ہے
دل و دماغ میں کیسی ہیں گتھیّاں اس کے
پڑی ہیں گانٹھیں کئی اس کے ذہن و دل میں بھی
قدم قدم پہ کھڑی راہ میں جو گرہیں ہیں
کسی بھی آن اگر کھل گئیں تو دیکھو گے
جسے سمجھتے تھے سادہ وہ کتنا گہرا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غضنفر