شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں پریم چند کے یوم پیدائش پر آن لائن مذاکرہ
پٹنہ۔31 جولائی 2021
ُُ”پریم چند اردو کے ایسے ادیب ہیں جن کی مقبولیت میں ہر روز اضافہ ہورہاہے۔ان کی تحریریں زندگی،سماج، انسان اور ہمارے روزمرہ کے مسائل سے جڑی ہوئی ہیں اس لئے جب بھی پڑھی جاتی ہیں دل پر اثر کرتی ہیں۔انہوں نے جن موضوعات و مسائل پر قلم اٹھایا وہ مسائل آج کہیں زیادہ بڑی صورت میں ہمارے معاشرے کو متاثر کررہے ہیں اس لئے پریم چند کی معنویت اُن کے عہد سے زیادہ آج محسوس کی جاتی ہے۔“ ان خیالات کا اظہار صدر شعبہ اردو ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے آج پریم چند کے یوم پیدائش پر ایک مذاکرے کے درمیان کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ پریم چند نے پہلی بار کہانی کو آسمان سے اتار کر زمین پر بٹھایا،ہیرو،ہیروئن کے تصور کو بدلا اور ایسی کہانیوں کی بنیاد رکھی جو قاری کے دل،دماغ اور انداز فکر سے بے حد قریب تھی۔اس لئے پریم چند کی کہانیوں نے نہ صرف اُن کے عہد کو متاثر کیا بلکہ اردو فکشن کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھی۔
واضح ہو کہ 31 جولائی کو پریم چند کے یوم پیدائش پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے شعبۂ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں ایک آن لائن مذاکرے کا اہتمام کیاگیاتھی جس میں شعبے کے طلبہ،طالبات،ریسرچ اسکالرز اور اساتذہ نے حصہ لیا۔ مذاکرے کا عنوان تھا”ہم آج پریم چند کو کیوں پڑھیں؟“۔مذاکرے میں اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر جاوید حیات نے کہا کہ پریم چند کا ادب زندگی آمیز ہے۔ان کے موضوعات زندہ ہیں اور شکل بدل بدل کر ہمارے معاشرے کا حصہ رہے ہیں۔انہوں نے پریم چند کی کہانیوں کفن،شکوہ شکایت،حج اکبر وغیرہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ افسانے احتساب معاشرہ کے ساتھ خود احتسابی کی دعوت بھی دیتے ہیں۔ شعبہئ عربی کے استاد ڈاکٹر سرورعالم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پریم چند صرف اردو ہندی کے ادیب نہیں بلکہ پوری انسانیت کے ادیب ہیں اس لیے بلا تفریق مذہب وملت ہر جگہ ان کو پڑھا جاتاہے اور ان کی کہانیا ں سب کو متاث کرتے ہوئے دعوت فکر وعمل دیتی ہیں۔ڈاکٹر مسرت جہاں،استاد بہار یونیورسٹی نے کہا کہ اخلاقی اور مذہبی رواداری پریم چند کے اہم موضوعات ہیں۔انہوں نے سماجی رواداری،اعتدال فکر اور معیار فن کا خیال رکھا اور سماج کو بھی اعتدال و رواداری کا پیغام دیا۔انہوں نے ان کی کہانی منتر کے حوالے سے انسانی ہمدردی اور محبت ورواداری کی مثال پیش کی جس کی آج کے معاشرے کو بھی ضرورت ہے۔شعبے کے ریسرچ اسکالرز شاہد وصی،فیضان حیدر،محمد عطاء اللہ اورعارف حسین نے بھی اظہا رخیال کرتے ہوئے پریم چند کی کہانیوں میں حقیقت پسندی،انسان دوستی اور عدم تشدد کے فلسفے پر روشنی ڈالی اور کہا کہ پریم چند ایک آفاقی ادیب تھے اسلئے ان کا ادب ہمیشہ بامعنی رہے گا۔انہوں نے جس سلیس زبان،عام جمہوری اسلوب اور زندگی سے وابستہ موضوعات کو کہانی کا حصہ بنایا وہ اردو فکشن کے لئے نیک فال ثابت ہوا۔پریم چند نہ ہوتے تو شاید اردو فکشن اس منزل تک بہ آسانی نہیں پہنچ سکتا جہاں آج موجود ہے۔مذاکرے میں شعبے کے جن طلبہ و طالبات نے بڑ ے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا اور اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا ان میں کہکشاں جبیں، ساجد انور،فوزیہ فرحین،عبیداللہ عطاء اللہ،محمد صلاح الدین،شیریں آفرین،معصوم علی،سید حسام الدین،امان احمد، خضر خان اور ندیم نسیم کے نام قابل ذکر ہیں۔صدر شعبہ کے صدارتی خطبے پر مذاکرہ اختتام پذیر ہوا۔

