Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 18, 2025

      کتاب کی بات

      دسمبر 29, 2024

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کا زاویۂ تنقید – محمد اکرام

      نومبر 3, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو –…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      اردو کا پہلا عوامی اور ترقی پسند شاعر…

      نومبر 2, 2022

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی: ایک فکشن –…

      اکتوبر 5, 2022

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 18, 2025

      کتاب کی بات

      دسمبر 29, 2024

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کا زاویۂ تنقید – محمد اکرام

      نومبر 3, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو –…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      اردو کا پہلا عوامی اور ترقی پسند شاعر…

      نومبر 2, 2022

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی: ایک فکشن –…

      اکتوبر 5, 2022

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
فکشن کے رنگ

پریم چند کی فکری اور تخلیقی روایت – پروفیسر شمیم حنفی

by adbimiras اپریل 12, 2025
by adbimiras اپریل 12, 2025 0 comment

اردو افسانے نے اپنی عمرکے سو برس پورے کر لیے ہیں۔ پریم چند کے جنم (۱۸۸۰ء) پر ایک سو پچیس برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو پریم چند اور افسانے کی روایت کا سفر تقریبا ًساتھ ساتھ جاری ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے سائے میں سانس لیتے ہیں اور ایک کے معنی کا تعین دوسرے کے حوالے سے ہوتاہے۔ پریم چند کی فکری اور تخلیقی روایت کے ساتھ ساتھ اردو افسانے کی فکری اور تخلیقی روایت کاسلسلہ بڑی حد تک ایک سی سمت اور رفتار سے جڑا ہوا ہے۔

اب روایت کے سلسلے میں سب سے پہلے جو بات میرے ذہن میں آتی ہے، یہ ہے کہ ہر زندہ روایت کی طرح اردو فکشن کی روایت بھی اپنے ارتقا کے کسی موڑ پر، کبھی ٹھہری نہیں۔ اس سفر کے دوران سکوت یا انجماد کا لمحہ کبھی نہیں آیا۔ روایت کے ساتھ سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ وہ کبھی، کہیں بھی رکتی نہیں۔ رک جائے تو سمجھئے کہ اس کے انجام یا ہلاکت آفریں اضمحلال کی گھڑی بھی آگئی اور اب اس کی توانائی کا ذخیرہ بس ختم ہوا چاہتا ہے۔ اب وہ منزل دور نہیں جب زندگی سے چھلکتی ہوئی یہ روایت تاریخ کے تکیے پر سر رکھ دےگی اور سو جائےگی۔ کسی بھی روایت کا صرف تاریخ میں محصور ہوکر رہ جانا اس کی تکمیل یا تدفین کا اعلان ہے۔

پریم چند کا امتیازیہ ہے کہ انہوں نے تو اپنی آنکھیں تقریبا ًستر برس پہلے بند کر لیں، مگران کی پرچھائیں ابھی جاگ رہی ہے اور متحرک ہے۔ وہ اپنے اصل روپ رنگ کے ساتھ ہمیں چاہے دھندلے نظر آنے لگے ہوں اور ہماری تخلیقی ترجیحات میں، معیاروں میں، مطالبات میں گزرتے ہوئے زمانے کے ساتھ چاہے جیسا انقلاب آچکا ہو، پریم چند کی پرچھائیں سے ہمارا مکالمہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ پریم چند کے ’ہوری‘ نے اردو کے نئے افسانے میں چاہے جتنا بدلا ہوا قالب اختیار کر لیا ہو (بحوالہ سریندر پرکاش)، پریم چند ہمارے لئے ابھی تک نہ تو نامانوس ہوئے، نہ صرف تاریخ کا حصہ بن کر ہمارے عہدسے لا تعلق ہو گئے۔ جس طرح ہماری اجتماعی زندگی کے بہت سے عناصر، اس کی پہچان کے بہت سے نشانات مستقل ہیں، اسی طرح پریم چند کی معنویت بھی مستقل ہے۔

 

پیٹربروکس نے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران یہ بات کہی تھی کہ ہمارے عہدمیں یہ جو وسطیت زدہ یا میڈیوکریٹی کی مار ی ہوئی ادبی تخلیقات کی باڑھ سی آئی ہوئی ہے، تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہم عصر لکھنے والوں کی اکثریت اپنی روایت کے امکانات اور اس کی اندرونی طاقت سے کام لینے کا ہنر کھو بیٹھی ہے۔ نت نئے نظریوں اور فارمولوں میں ہمارے ادیب بہت جلد بہہ نکلتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت جلد بے دست و پا ہو جاتے ہیں۔ نئی روایت قائم کرنا تو بہت بڑی بات ہے، اپنی رہی سہی روایت کو سنبھالنے کا سلیقہ بھی نیا فکشن لکھنے والوں کی اکثریت کے حصے میں نہیں آیا۔

پریم چند کی تخلیقی اور فکری روایات کے سیاق میں ایک ساتھ دو باتیں عام طور پر کہی گئی ہیں۔ بعد کے لکھنے والوں کا ایک حلقہ تو یہ سمجھتا ہے کہ پریم چندکی جدوجہد آج ایک نیامفہوم پانے لگی ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ دنیا بے شک آج پہلی جیسی نہیں رہی لیکن ہمارے گردوپیش کی زندگی آج بھی ان مسئلوں کے بوجھ سے رہا نہیں ہو سکی ہے جن کا ادراک پریم چند نے کیا تھا۔ ہماری حسیت کا حوالہ بننے والے ماحول میں ایک ساتھ دو دنیائیں سانس لیتی ہیں۔ ان میں ایک نئی ہے، دوسری پرانی اور نئے پرانے کی یہ کشمکش ہماری زندگیوں پرآج بھی اثرانداز ہو رہی ہے۔ اس لحاظ سے پریم چندکی فکری اور تخلیقی وراثت کو تاریخ کے ایک نئے شعور کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ابھی ختم نہیں ہوئی۔

دوسری طرف لکھنے والوں کاوہ گروہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وقت کے ساتھ پرانے تجربوں اور پرانے کرداروں کی دنیانئے لکھنے والوں کے لئے لائق تقلید نہیں رہ جاتی۔ یہاں میرا اشارہ اس گروہ کی طرف ہے جو ماضی کو اپنے عہد کی حقیقت کے حوالے سے ازسرنو سمجھنا چاہتا ہے۔ یہ گروہ ماضی کے بوجھ سے یاہمارے حال میں ماضی کی حیثیت کے وجود سے انکار نہیں کرتا۔ یہ بات بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کے وسط میں فکشن پر برپا ہونے والے ایک سمینار کے دوران (کلکتے میں) راجندر یادو نے کہی تھی۔ اس لحاظ سے یہ بیان لگ بھگ چالیس برس پرانا ہے۔ مگر پچھلے چالیس پچاس برسوں میں ہماری اجتماعی زندگی نت نئے سوالوں سے دوچار ہونے کے بعد بھی بہت سے پرانے مسئلوں میں الجھی ہوئی ہے۔

عورتوں کے استحصال کا مسئلہ، چھوا چھوت کا مسئلہ، طبقاتی کشمکش اور تصادم کا مسئلہ، گاؤں بنام شہر کے فرق اور فاصلے کا مسئلہ، فرقہ واریت کا مسئلہ۔ یہ تمام مسئلے برصغیر کی اجتماعی زندگی یا اردو دنیا کی جیتی جاگتی صورت حال میں پیوست ہیں اور پریم چند کے بعد کی نسل کے لکھنے والوں نے اپنے طور پر ان مسائل کی تخلیقی تعبیر سے برابر سروکار رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ پریم چند نے حقیقت کو اسی حد تک سمجھنے اور سمجھانے کی جستجو اپنے فکشن کے واسطے سے کی تھی جہاں تک وہ اسے برداشت کر سکتے تھے۔ ایلیٹ نے کہا تھا کہ حقیقت کو ہم ’’اتنا ہی دیکھنا چاہتے ہیں جتنی کہ وہ ہماری برداشت کی حد کے اندر ہو۔‘‘

پریم چند کی حقیقت پسندی میں، ان کے آدرش وادیا گاندھی واد سے ان کے شغف کا جائزہ، اسی حوالے سے لیا جانا چاہئے۔ اس لحاظ سے پریم چند ہمیں اپنی دہشت زدگی اور بےچینی کے باوجود بہت نرم خواور سنبھلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اپنے اظہار و ادراک دونوں کی سطح پر۔ لیکن انہیں پڑھنا آج بھی حقیقت کی ایک سطح پر اپنے باطن میں سفر کرنا ہے۔ اپنی اجتماعی زندگی سے ہمارا رابطہ اور مکالمہ پریم چند کے واسطے سے، اسی لئے آج بھی قائم اور مستحکم ہے۔ ایک نئے افسانہ نگار جنہوں نے کہانی لکھنے کی کوشش میں ایک عمر گزار دی اور جو زندہ کہانی لکھنے کے تجربے سے تاحال نہیں گزرے، ان کے اس بیان کو سن کر میں کانپ اٹھا تھاکہ ’’نئے لکھنے والوں کو منٹو کے ’سیاہ حاشیے‘ والے چنگلوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘

گویا کہ ان عزیز کوزندہ تخلیقی اظہار سے تو خیر دور کی نسبت بھی نہ تھی، حقیقی زندگی کے آشوب اور جیتی جاگتی حقیقتوں سے بھی ان کا واسطہ نہیں اور وہ اس ’’ماضی‘‘ تک کو مسترد کرنے کے زعم میں مبتلا ہیں جو ہمارے ’’حال‘‘ کی پہچان بنا ہوا ہے اور جس کے بغیر ہم اپنی انسانیت تک کا تصور نہیں کر سکتے۔ پریم چند بھی منٹو کی طرح ہماری اجتماعی یادداشت کا ایک اٹوٹ حصہ، ہمارا ’’ماضی‘‘ ہی نہیں ہیں، ہمارا ’’حال‘‘ بھی ہیں اور ایسا اس حقیقت کے باوجود کہ پریم چند کے ادراک کی کچھ اپنی معذوریاں بھی تھیں اور ان کی بصیرت اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود ہمارے لئے رول ماڈل کی حیثیت نہیں رکھتی۔

 

امرت رائے کی کتاب ’’قلم کا سپاہی‘‘ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے نامور سنگھ نے کہا تھا کہ، ’’پریم چند کا گاؤوں سے اور کسانوں سے کوئی زندہ تعلق نہیں تھا۔‘‘ یعنی یہ کہ پریم چند نے اپنے تخلیقی شعور اور اپنی فکری ترجیحات کا تعین کرنے والے انسانی تجربوں کوسمجھنے اور دیکھنے کے عمل میں، ان تجربوں سے ایک فنکارانہ فاصلہ بھی قائم رکھا۔ لیکن کسانوں، مزدوروں، سماج کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں، محروم و مجبور اور مسلسل زیادتی اور ظلم کا شکار ہونے ولے لوگوں کی دنیا پریم چندکے لئے، بہرحال اجنبی اور نامانوس نہیں تھی۔

’منٹو‘ کی طرح پریم چند نے بھی حقیر ترین انسانوں کے مقابلے میں بھی اپنے تخلیقی شعور کو اور اپنی بصیرت کوہمیشہ کم تر جانا۔ ہمدردی، ترحم آمیزی اور اپنے فکشن کا موضوع بننے والی انسانی صورت حال میں تبدیلی کی خواہش کے باوجود ہر طرح کے انقلابی دعوے یا اعلانیے سے پریم چند محفوظ جو رہے تو اسی لئے کہ وہ اپنے کرداروں کا احترام کرتے تھے۔ اپنی انسانیت کو بچائے رکھنا چاہتے تھے۔ ان کے تجربوں کو وقیع سمجھتے تھے۔ ان پر ترس کھانے یا اپنے احساسات پر اترانے کی علت سے آزاد تھے۔

 

پریم چند نے ایک شائستہ اور رچی ہوئی فنکارانہ دیانت داری کے ساتھ وہ کچھ لکھنا چاہا، جوفطرت ان کے باطن کی تختی پر پہلے ہی نقش کر چکی تھی۔ اسی لئے پریم چند اپنی تحریر میں ہمیں ناگزیر طور پر دیانت دار اور سچے دکھائی دیتے ہیں۔ پریم چند کی طاقت سب سے زیادہ ان کے سروکاروں میں ہے۔ اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ جب تک ہماری اجتماعی زندگی کا بنیادی منظرنامہ اور ماحول نہیں بدلتا، ہمارے شعور کے محور اور پریم چند کے سروکاروں کی معنویت میں بھی فرق نہیں آئےگا۔

انہوں نے اپنی چھپن برسوں کی آلام اور آزمائشوں سے بھری زندگی میں ایک ذمہ دار ادیب کی حیثیت سے اس محور کو تبدیل کرنے کی تخلیقی جدوجہد جاری رکھی۔ زندگی سے کبھی ہار نہیں مانی، کبھی مایوس نہیں ہوئے، کبھی اپنے خوابوں کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اسی لئے پریم چند کی جدوجہد آج ایک نیا مفہوم پانے لگی ہے۔ ہماری تخلیقی حسیت پریم چند کی ادبی وراثت سے دست کش ہو بھی جائے، تب بھی ان کی جدوجہد اور ان کے سروکاروں کی اہمیت برقرار رہےگی۔ ان سے منہ پھیر کر ہمارے ادیب نہ تو اپنی انسانیت کو بچا پائیں گے نہ اپنی تخلیقیت کو۔

اپنے سہج سبھاؤ، اپنی سادگی اور اپنے غم آلود ادراک کے باوجود پریم چند ہمارے شعور کی سطح میں ہلچل پیدا کرنے، ہمیں اکسانے اور اشتعال دلانے، ہماری بصیرتوں کو تیز کرنے، ہمارے درد اور اجتماعی ملال کو با معنی بنانے کی ایک انوکھی طاقت رکھتے تھے۔ ان کی حسیت ہمیشہ زمین سے لگ کر چلتی تھی۔ ان کا تخیل اپنی ارضی اور مادی بنیادوں سے کبھی بے تعلق نہیں ہوا۔ یہ ایک گہرا، گھنا، حقیقت پسندانہ Engagement ہے۔ اس دیس کی دھرتی اور دھرتی پربسنے والوں سے پریم چند کی وابستگی یا ان کے جذباتی، ذہنی، حسی کمٹ مٹ (Commitment) میں جو مقامی رنگ ملتے ہیں وہ جس دیسی توانائی (Native Vigour) کے ساتھ اپنی زندگی کے دکھ اور زمانے کے دکھ کا سامنا کرتے ہیں، ا س کی کوئی مثال ہمیں پریم چند سے پہلے کے اردو فکشن میں نہیں ملتی، اتنے کھرے پن، سچائی اور سادگی کے ساتھ ان کے بعد کے فکشن میں بھی نہیں ملتی۔

وہ غیر دلچسپ ہو جانے یا معنی کے اکہرے پن کا بوجھ اٹھانے سے کبھی گھبراتے نہیں۔ میں اس حقیقت کے اسباب پر غور کرتا ہوں تو اس نتیجے تک پہنچتا ہوں کہ لکھنا پریم چند کے لئے سانس لینے جیسا تھا۔ ان کے تخلیقی تجربے کی شروعات زمین سے ہوتی ہے۔ اس کا خاتمہ بھی زمین ہی کی سطح پر ہوتا ہے۔ سماجی انصاف (Social Justice) کا مسئلہ پریم چند کے فکری سروکار کی بنیاد کہا جا سکتا ہے۔ بہ حیثیت ادیب پریم چند نے ہمیشہ اپنے تجربوں کے بیان سے سروکار رکھا، کبھی ہماری اجتماعی زندگی کے لینڈ اسکیپ میں، چاہے جتنے الجھاوے ہوں اورہماری اقتصادی، تہذیبی، سماجی، سیاسی اور قومی زندگی میں چاہے جتنے پیچ ہوں، پریم چند کی کہانی کبھی پیچیدہ نہیں ہوتی۔ کبھی ترسیل کا مسئلہ پیدا نہیں کرتی۔ قاری کے فہم و ادراک کاکبھی امتحان نہیں لیتی، سپاٹ اور سہل البیان ہونے سے کبھی نہیں ڈرتی۔

پریم چند انسان اور انسان کے رشتے، فرد اور سماج کے رشتے، انسان اور فطرت کے رشتے کو سمجھنے کی کوشش میں بہت دور تک جاتے ہیں، سماجی اسٹرکچر کے بہت سے بھیدوں کی چھان بین کرتے ہیں۔ اپنے کرداروں کے انفرادی ردعمل کی حقیقت سمجھنا چاہتے ہیں، بالعموم واقعات اور تجربوں کی اکہری سطح پر، لیکن زندگی کی مانوس سچائیوں کا، ایک گہری، رچی ہوئی انسان دوستی کا سرا، پریم چند کے ہاتھ سے کبھی چھوٹتا نہیں۔ وہ سامنے کی چیزوں اور جذبوں اور احساسات کے حوالے سے اپنی بات کہتے ہیں۔ ان کا ڈھیلا ڈھالا، کہیں کہیں اکتا دینے والا اور بےرنگی کی حد تک سادہ اور پھیکا اسلوب ہمیں ایک ایسے ذمہ دار، دانش مند اور حساس، کھرے اورسچے قصہ گو تک لے جاتا ہے جس نے اپنے عہد کی زندگی کو کہانی کا قائم مقام بنانے کی جستجو کی۔

پریم چند ایک سادھک کی طرح اپنی دنیا اور اپنی ہستی کا بوجھ اٹھائے اپنی تخلیقی مشقت میں مگن رہے۔ اسی لئے اپنے جانے پہچانے منظر نامے کے ساتھ بھی پریم چند کی بصیرت صرف اپنی تاریخ اور اپنی زمینی یا زمانی صداقتوں کی پابند نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جس طرح ہم بالزاک اور فلابیئر کو صرف فرانسیسی سمجھ کر، ٹالسٹا ئے کوصرف روسی سمجھ کر نہیں پڑھتے، اسی طرح پریم چند بھی اپنی اتھاہ ہندوستانیت کے باوجود صرف ہندوستانی نہیں رہ جاتے۔

یہاں ہمیں ایک اورحقیقت سمجھ لینی چاہئے کہ واقعات یا سماجی صورت حال کی عمر سے، کسی لکھنے والے کی بصیرت اورمعنویت Relevance کو نہیں پایا جا سکتا۔ ادب کو تاریخ یا سماجیات کی سطح پر رکھ کرسمجھنا ادب، تاریخ اور سماجیات سب کے ساتھ نانصافی کرنا ہے۔ کہانی چاہے جتنے روایتی سانچے کے ساتھ آئے، ضروری نہیں کہ خود بھی روایتی ہو۔ ہمارے دیس کی علاقائی زبانوں میں کچھ لوگوں نے پریم چند کے بیانیہ اسلوب سے بھی زیادہ پرانے اسلوب میں ’’نئی کہانی‘‘ لکھی ہے۔ نئے اور پرانے کا، یانئی معنویت اور روایتی معنویت کافیصلہ، دراصل لکھنے والے کی مجموعی حسیت کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے۔ فنی حکمت عملی کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے۔ اس رمز کو سمجھنے کی ایک بہت سامنے کی مثال پریم چند کی کہانی’نجات‘ اور اسی کہانی کی بنیاد پر بنائی جانے والی ستیہ جیت رے کی فلم سدگتی ہے۔

فنی برتاؤ کے مضمرات میں بس ذرا ذرا سے فرق نے کہانی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ اس برتاؤ (Treatment) یافنی ادراک، یاحسیت کی بنیاد صرف واقعات یا صرف سماجی حقیقتیں نہیں ہوتیں۔ صرف زبان یا اظہار کے سادھن بھی نہیں ہوتے۔ کہانی کی ساخت یا اس کا اسٹرکچر بھی نہیں ہوتا۔ اس حسیت کی اساس ایک طرح کی ہمہ گیریت، ایک کلیت (Totality) پر استوار اور قائم ہوتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے لکھنے والے کی بصیرت اور اس کی معاشرتی حقیقت میں تال میل ہو، مناسبت اور توازن ہو اور دونوں کا احاطہ ایک ساتھ کیا جا سکے۔ پریم چند نے کہا تھا، ’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو۔ تعمیر کی روح ہو۔ زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو۔ جو ہم میں حرکت، ہنگامہ اور بےچینی پیدا کرے۔۔۔ سلائے نہیں، کیوں کہ اب زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی۔‘‘ (۱۹۳۶)

بدقسمتی سے ہماری اجتماعی زندگی میں ایک حلقہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جواجتماعی بیداری سے، ایک مثبت اور صحت مند سماجی بےچینی سے ڈرتے ہیں۔ اس لئے وہ پریم چند سے بھی ڈرتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو مرلی منوہر جوشی صاحب یا ان کے حاشیہ نشینوں سے پوچھ لیجئے۔ سابقہ حکومت (NDA) کے دوران پریم چند کی جگہ اسکول کے نصاب میں بی جے پی کی ایک معمولی کارکن کی کتاب کو مروج کرنے کی کوشش کا مقصد کیا تھا؟

پریم چند کے احساسات اور ان کی سدھی ہوئی سہل اور سادہ زبان کے پیچھے صدیوں کی تاریخ ہے۔ وہ تاریخ جس کی ترجمانی میرامن اور غالب اور اشرف صبوحی اور خواجہ حسن نظامی کرتے ہیں۔ دنیا کی دوبڑی تہذیبوں کا ورثہ ہے۔۔۔ انڈو مسلم ثقافت کا ورثہ۔

اس ورثے کا سب سے قیمتی نشان اردو زبان ہے اور اس زبا ن کا بھی وہ روپ جسے پریم چند نے اپنایا اور ترقی دی۔ محمد حسن عسکری نے کہا تھا کہ ہمار ی اجتماعی تاریخ اور مشترکہ روایت کے سیاق میں اردو زبان تاج محل سے بھی زیادہ بڑ ا اور قیمتی تہذیبی تجربہ ہے۔ بہ قول ہربرٹ اسپنسر اس سے پہلے کہ ہم معاشرے کی تشکیل کا بیڑا اٹھائیں، ضروری ہے کہ معاشرہ ہماری تشکیل کر چکا ہو۔ پریم چند اس مرحلے سے گزر چکے تھے۔ اسی لئے ان کی زبان، ان کا اسلوب، ان کا تخلیقی رویہ، ان کے تجربے اور سروکار۔۔ سب کے سب اپنی دنیا کے اندر رہتے ہوئے بھی ایک نئی دنیا کی تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ پریم چند اس سچائی کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ جدید کاری اور گلوبلائزیشن کے اس تیز رفتار، پرتشدد، دہشت ناک دور میں اپنی اصلیت کو بچائے رکھنا ضروری ہے۔ سو اسی اصلیت (Originality) کی حفاظت پر انہوں نے اپنے آپ کو مامور کر لیا تھا۔

وہ ہمارے لئے ایک Icon بن چکے ہیں۔ اب اس Icon کی مدد سے ہم اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہےگا۔ یہ پریم چند کی تخلیقی طاقت اور ان کی عنصری سادگی کے ساتھ ساتھ ان کے گہرے انسانی جذبوں کے جادو، دونو ں کا اثر ہے۔ پریم چند کی فکری اور تخلیقی روایت ان دونو ں کی دین ہے۔ پریم چند صرف ایک شخص نہ تھے، خیال کا ایک موسم تھے۔ یہ موسم ابھی گزرا نہیں ہے اور ابھی اس کا سایہ ہمارے سروں پر قائم ہے۔ ایک پرانی رت کی سرگوشی ہم آج بھی سن رہے ہیں۔ شاید اس وقت تک سنتے رہیں گے جب تک کہ ہماری اجتماعی زندگی کا نقشہ تبدیل نہیں ہو جاتا۔ بہ قول احمد مشتاق،

موسموں کا کوئی محرم ہو تو اس سے پوچھوں

کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں

 

 

(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں    https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos

 

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

Home Page

 

 

adabi meerasadabi miraasadabi mirasادبی میراثپریم چندشمیم حنفی
0 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
عزیز احمد کی افسانہ نگاری! وارث علوی
اگلی پوسٹ
پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک روشن تدریسی باب کی تھی: پروفیسر کوثر مظہری

یہ بھی پڑھیں

داستان کی روایت : ایک مجمل جائزہ –...

اکتوبر 15, 2022

داستان کی اسطوری فضا اورتخلیقی عمل – ڈاکٹر...

اکتوبر 11, 2022

اردو داستانوں کی عصری معنویت – پروفیسر عبدُ...

جون 7, 2022

اردو میں افسانچہ نگاری کا تحقیقی و تنقیدی...

مارچ 25, 2022

قرۃ العین حیدر اور عبد اللہ حسین: ایک...

فروری 16, 2022

1960کے بعد مغربی بنگال میں اردو فکشن –...

جنوری 14, 2022

اردو داستانوں کی حمایت میں کلیم الدین احمد...

نومبر 10, 2021

باغ و بہار میں اساطیری اور دیومالائی عناصر...

اکتوبر 11, 2021

بلراج مین را : افسردگی کا راز –...

اکتوبر 8, 2021

منٹو وارث علوی کی نظر میں – امتیاز...

جولائی 24, 2021

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (116)
  • تخلیقی ادب (592)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (200)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,037)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (531)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (203)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (401)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (213)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (471)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,124)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (32)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (894)
    • خصوصی مضامین (125)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (66)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں