شعبۂ اردو متھلایونیورسٹی، دربھنگہ میں تعزیتی نشست منعقد
دربھنگہ: ۱۱؍ جون بروز سنیچر شعبۂ اردو للت نرائن متھلایونیورسٹی، دربھنگہ میں پروفیسر اسلم آزاد کے سانحۂ ارتحال پر خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے تعزیتی پروگرام کا اہتمام کیا گیا ۔ جس کی صدارت مولانا ابوالکلام آزاد کے ڈائریکٹر و صدر شعبۂ اردو پروفیسر محمد آفتاب اشرف نے فرمائی۔ اپنے صدارتی خطاب میں تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’موت سے کس کو رستگار ی ہے ٭ آج وہ کل ہماری باری ہے‘‘ یہ قانون قدرت ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے ، اور دنیائے فانی میں چند دن کی عارضی زندگی گذارنے کے بعد توشۂ آخرت کے ساتھ ابدی دنیا کی جانب کوچ کرنا ہے۔ لیکن اس دنیا میں کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی زندگی قوم و ملت کی امانت ہوجاتی ہے۔ ان کی رحلت پرملال پر سماجی ، معاشرتی اور ادبی دنیا میں ایک خلا پیدا ہوجاتا ہے اور زمانہ مدتوں ان کی سخت کمی کو محسوس کرتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک ایسی ہی مایۂ ناز شخصیت ، ممتاز ادیب و ناقد ، عظیم قومی و ملی رہنما او رمخلص و شفیق استاد پروفیسر اسلم آزاد ہم سب کو داغ مفارقت دے کر اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ ان کی رحلت سے ایسا لگتا ہے جیسے ہماری قومی و ملی اور ادبی زندگی میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ ساتھ ہی ان کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا جانا ہمارا ذاتی نقصان بھی ہے۔ وہ میرے رشتہ داروں میں سے تھے ۔ مجھے بچپن سے ہی ان کی سرپرستی و شفقت حاصل رہی۔ پی ایچ۔ڈی کا مقالہ ان کی زیر نگرانی میں بعنوان ’’اردو زبان و اد ب کے ارتقا ء میں صوفیائے بہار کی کاوشیں‘‘لکھا اور ۱۹۹۵ء میں پی ایچ۔ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ اس موقع کو یاد کرتے ہوئے المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے سکریٹری ڈاکٹرمنصور خوشتر نے کہا کہ پروفیسر مرحوم نہایت ہی ملنسار ، خوددار و خود نواز تھے ۔ ان کا جب بھی دربھنگہ سفر ہوتا تو ملاقات کا موقع ضرور عنایت کرتے اور اپنی شفقت اور بہترین مشورہ سے نوازتے۔ ڈاکٹر عبدالرافع اپنے طالب علمی کے زمانے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ہم شاگردوں نے ایک مخلص و مشفق استاذ کو کھودیا ہے۔ جس کی تلافی ناممکن نظر آتی ہے۔ طالب علمی کے زمانے کی بے شمار یادیں ان سے وابستہ ہیں حتی کہ میر جے این یو جانا بھی اصل میں ان کی ہی تحریک کا نتیجہ تھی۔ ڈاکٹر احسان عالم نے ان کے بارے میں دعائیہ الفاظ کے ساتھ یہ فرمایا کہ ان سے براہ راست ملاقات تو نہیں لیکن بذریعہ موبائل ان سے گفتگو ہوا کرتی تھی۔ وہ میری تحریروں کو پڑھ کر خوش ہوتے اور اپنی قیمتی رائے سے نوازتے تھے۔ مجھے طویل مضامین لکھنے کا درس دیا کرتے جس کے نتیجے میں میری کتاب ’’آئینۂ تنقید‘‘ منظر عام پر آئی۔ شعبۂ اردو کے استاد ڈاکٹر مطیع الرحمن نے اپنے تاثراتی جملے میں اضافہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ ان کی تحریر میں ایک خاص قسم کی تفصیلی صلاحیت و سلاست اورکوشش ہوتی تھی وہ کسی بھی موضوع پر لکھتے توکوئی گوشہ اس کا خالی نہ چھوڑتے کہ قاری کے اندر تشنگی باقی نہ رہ جائے۔ وہیں حسان جاذب نے اپنے تاثر کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا کہ مرحوم کی تحریر میں نئے لکھنے والوں کے لیے ایک خاص طریقے کا مواد موجود ہوتا تھا جس کی وجہ سے لکھنے کا جذبہ اور شوق ہوتا تھا۔ شعبۂ ارد کے استاد ڈاکٹر وصی احمد شمشاد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم کے کارنامے کو چند جملے میں احاطہ کرنا ناممکن ہے ۔ وہ ذاتی صفاتی ادبی سماجی ، سیاسی ساری چیزوں میں مثالی کردار رکھتے تھے۔ اس تعزیتی نشست میں موجود ڈاکٹر ریحان احمد قادری ، ڈاکٹر اعجاز احمداور ڈاکٹر محمد سجاد خاں کے دعائیہ کلمات کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد شعبہ کے صدر پروفیسر محمد آفتاب اشرف نے اپنے دعائیہ کلمات پر مجلس کے اختتام کا اعلان کیا۔
٭٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page

