اسی کشمکش میں گزری میری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی
(اقبال )
خدا کی طرف سے دنیا میں یہ کسی بھی انسان کی نیک بختی اور سعادت مندی بلکہ بڑے نصیبے کی بات ہے کہ اسے ز ندگی میں نیک اور اچھے لوگوں کی صحبت میسر ہوجائے ۔با اخلاق ،با ضمیر ، پاک روحیں اور نفیس طبیعتیں اس کی نشاط خاطر کا حصہ اور علامت ہوں۔لا ریب شاہ عباد الر حمٰن نشاط صاحب ان تمام خوبیوں اور اچھائیوں کی جا مع صفات شخصیت تھی ۔ تہذ یب ، شائشتگی شرافت، سادگی ،وقار اور اعتبار ، خلوص اور محبت ، بے نفسی ، خوش اخلاقی اور خوش ذوقی ، متانت اور سنجیدگی کا ایسے حسین عناصر پیکر جمال ہیو لے سے بن کر ان کی زندگی کا خمیرتیار ہوا ۔
حضرت شاہ عباد الرحمٰن نشاط صا حب سے با ضابطہ ملاقات کا شرف تین چار سا ل قبل دہلی میںجناب احمد عبد اللہ عثمانی صا حب کے دولت کدے پر ہوا ۔در اصل احمد عبد اللہ عثمانی صا حب کے یہاں ہفتے میں حضرت شاہ صا حب کی اصلاحی اور تربیتی مجلس لگتی تھی اسی میں شرکت کی غر ض سے حا ضری ہوئی ۔ مجلس کے اختتام پر حضرت سے تعارف ہوا ۔ اس پہلے حصول نیاز کے بعد آپ کی شخصیت ہماری امیدوں اور تمنا ؤ کا مر کز بن گئی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلقات میں اضا فہ ہو تا گیا بلکہ حالات یہاں تک پہنچے کہ ہم ان کے خا ص نیاز مندوں میں شامل ہوگئے۔ ان کی بے پناہ شفقتیں ، دعا ئیں اور عنا یتیں ہر وقت شامل حال رہنے لگیں۔ ہر وقت وہ میرا خیال کرتے تھے ۔ در اصل آپ کی معصوم آنکھیں اور شرافت کا مجسم پیکر چہرہ جس پر ہرقت مسکراہت کے پھول اپنی طرف کھینچنے میں بلاکی کی تاثیر اور کشش کا کا م کرتے ۔ ویسے آپ کی ہر ادا اپنے محبین اور متوسلین کو متا ثر کرنے میں بڑی زود اثر تھی ۔جو بھی آپ سے ملا وہ آپ کے لہجے کی شیرینی اور آپ کی بے ریا گفتگو اور جذبے کی صدا قت اس کو پھڑکا دیتی تھی ۔ وہ سچ مچ آپ کا سچا عا شق اور جا ںنثار ہوجا تا ۔ یہ سب آپ کی باغ و بہار شخصیت کی کرامت تھی۔ بقول اقبال جس شخص کے پاس نگاہ میں شوخی اور شان دلبری نہ ہو وہ لوگوں کے دلوں پر حکو مت نہیں کر سکتا ۔
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
(اقبال )
مجھے اپنی زندگی میں اس بات کا شدت سے احسا س تھا کہ میں حضرت مفکر اسلا م مولانا علی میاں ندوی ؒ کی زیارت اور دید کا شرف حاصل نہ کر سکا تا ہم شاہ عباد الر حمٰن صا حب سے تعلق اور صحبت نے کسی حد تک حضرت مولانا علی میاں ندویؒ سے حصول نیاز کا خلا پر کر دیا ۔ مولانا علی میاں ندویؒ کا جو سراپا اور جمالی پیکروسعت اخلاق اور کردار و عمل کی بلندی کے حوالے سے سنا اور کتابوں میںاس کا عملی نمونہ اور مکمل پیکر تراشی شاہ عباد الرحمٰن صا حب کی زندگی میں دیکھی۔ بلا مبالغہ شاہ عباد الر حمٰن صا حب علی میاں کے عکس جمیل اور آپ کے افکار و خیالات کے قابل تحسین نمونہ تھے ۔
شاہ عباد الر حمٰن صا حب کا تولد سر ز مین بہار لکھمنیاں میں ہوا ۔ آپ کے والد محترم شاہ افضال الرحمٰن صا حب ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ساتھ ہی ایک اسکول میں ٹیچر تھے ۔ شاہ عباد الرحمٰن نشاط صا حب تقریبا چھے سا ل کے رہے ہوں گے والد کا سا یا سر سے اٹھ گیا پھر دس سال کی عمر میں والدہ بھی داغ مفارقت دے گئی۔ بچپن سے آپ کی مکمل تعلیم انگریزی علوم میں ہوئی ۔۱۹۷۰ میں آپ نے انگریزی زبان میں ایم اے( M A )کیا اور کسی کالج میں لکچرار کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دینے لگے ۔علم وکتاب سے گہری وابستگی اور گھر کے دینی ماحول کی وجہ سے اپنے اکابر اور صلحاء سے محبت اور قلبی تعلق تھا ۔ خود بھی آپ کا خاندان اولیاء اللہ کا مسکن تھا ۔ اس نورانی اور روح پر ور ماحول کے زیر اثر بزرگان دین کی سیرت و سوانح آپ کے مطالعہ میں رہتی تھی ، ایک روز سوانح شاہ عبد القادر رائپوریؒ مصنفہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی ؒزیر مطامعہ تھی اس سے متاثر ہوکر حضرت مفکر اسلام کو خط لکھا ، جس میں اپنے اور مفکر اسلام کے خاندانی بزرگوں کی روحانی نسبتوں کا ذکر بھی کیا یعنی حضرت شاہ عباد الر حمٰن نشاط صا حب کے جد امجد حضرت شیخ سلطان مجددیؒ اور مفکر اسلام کے امجد حضرت شاہ علم اللہؒ حضرت آدم بنوریؒ (خلیفہ حضرت مجد الف ثانی) کے حلقہ بیعت و ارادت میں شامل تھے ۔بہر حال اہم رحانی رشتے کی بنیاد پر حضرت مفکر اسلا م سے آپ کے گہرے مراسم ہوگئے بلکہ حضرت شاہ عباد الر حمن نشاط صا حب نے آپ سے اپنا اصلاحی تعلق بھی قائم کرلیا پھر علی میاںؒ ندوی کے دا من شفقت میں کچھ سلوک کی منزلیں طے کر نے کے بعد جلد ہی آپ کو مفکر اسلام نے اپنے سلسلوں میں اجازت بیعت مرحمت فرماکر مصلح ہونے کی سند اور جواز عطاء فرمایا دیا تھا ۔ (یہ بھی پڑھیں مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صا حب : دیوبند کی تخلیقی عظمتوں کا روشن حوالہ – فتح محمد ندوی)
شاہ عباد الرحمٰن نشاط صاحب کی روحانی تربیت حضرت مفکر اسلام کی توجہ اور چشم عنایت میں ہوئی ۔ آپ نے عرفانی صہبائے طہور کے جام مفکر اسلام کے کشکول معرفت سے نوش فرمائے ۔ پھر شاہ عباد الرحمٰن صا حب حضرت مفکر اسلام کے حکم سے امریکہ مزید تعلیم حاصل کر نے کے لئے تشریف لے گئے جہاں آپ نے یونیورسٹی آف الی نوائے شگا گو سے ایم اے ۔ اور پی ایچ ڈی ناردن الی نوائے یونیورسٹی سے اور ڈی کیلب امریکہ سے مکمل کی ۔ حصول تعلیم کے بعد آپ ناردن الی نوائے یونیورسٹی امریکہ میں اور پھر ام القرایٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ اور کنگ خالد یو نیور سٹی میں درس و دتریس کی خدمات انجام دیں ۔
حضرت مفکر اسلام کے مشور ے اور رہنمائی سے آپ تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ ہوئے ۔ آپ چونکہ عصری علوم سے وابستہ تھے اس لئے حضرت مفکر اسلام جو بلا کہ مردم شناس اور رجال ساز تھے آپ سے اسی میدان میں کا م لیا ، میر ے ایک سوال کے جوا ب میں انہوں نے اس پر گفتگو کرتے ہوئے فرما یا کہ’’ حضرت کا یہ ذوق تھا کہ بامقصد مسلم نوجوان مغرب کے اداروں میں تعلیم حاصل کرکے اپنے اندر یہ استعدادپیدا کریں کہ وہ اسلام کے خلاف مغرب کی فکری یور ش کا مقابلہ کرسکیں اور مغرب زدہ مسلمانوں کی ذہنی بے چینی کوبھی دورکرسکیں، انہوں نے امریکہ جاکر تعلیم حاصل کرنے کے سلسلہ میں میری بڑی ہمت افزائی کی اورمجھ سے فرمایا کہ میں اس کے لئے اسلام کی خدمت کی نیت کرلوں، انہوںنے مجھے لکھا تھا کہ آج جو ناموس رسالت پر دست درازیاں ہورہی ہیں، ان کا مقابلہ کرنانہ صرف جہاد بلکہ افضل عبادت ہے ، خدا کرے تمہیں اس کا شرح صدر ہوجائے، اس بات سے حضرت کی فکر کوسمجھنے میں مدد مل سکتی ہے، وہ امت مسلمہ کے ہر فرد کو اللہ کاسچا بندہ او راسلام کابامقصد سپاہی بنانا چاہتے تھے اور ہر محاذ پر مسلمانوں کی نمائندگی کوضروری سمجھتے تھے۔( مفکر اسلام حضرت مولانا ابوا لحسن علی حسنی ندوی ؒکے افکار کی عصری معنویت ص /۲ )
حضرت شاہ عباد الرحمٰن نشاط صا حب نے اپنے مرشد حضرت مفکر اسلام کے تجربات اور بصیرتوں کی مدد اور مشوروں سے مغرب کے اس طوفان میں امرت کے ذرے دکھائے ۔ در اصل آپ نے مشتشرقین اور مغربی مفکرین کی قرآن و حدیث، اسلام اور پیغمبر اسلام کے صاف شفاف کردار اور سیرت کو داغدار اور مسخ کرنے کی مذموم اور ناپاک کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے صالح افراد کی ایک جما عت میدان عمل میں کام کرتی رہی ہے ۔ بلکہ اس جماعت کے افراد انہیں کی زبان میں ان کا رد اور انکار ایسے مدلل اور علمی پختگی کے ساتھ دیتی رہی جس سے اسلام کی حقانیت دنیا پر وا ضح ہوگئی ۔ گزشتہ صدیوں میں علامہ شبلی ،مولانا محمد علی مونگیری، علامہ اقبال اور سرسید احمد خاں( ان کے خیالات سے اختلاف کے ساتھ ) وغیرہ نے علمی بنیادوں پر ان معاند ین اسلام کے جوابات دئے ہیں ۔اسی سلسلے کی اہم شخصیت شاہ عباد الرحمٰن صا حب مرحوم ہیں ،آپ نے درجنوں کتابیں اردو اور نگریزی میں مشتشرقین اور یورپین متعصب مصنفین کی تر دید میں لکھیں ۔ان کا ایک اعتراض پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے حوالے سے تعدد دازواج کو لیکر تھا۔ اس موضوع پر آپ کی شاہکار کتاب’’ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیاں : عورت پر احسان عظیم ‘‘۔ اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے ۔ اس پر آپ کی کتاب ’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگیں‘‘ ۔ اسی طرح ان کا اسلام پر یہ بھی اعتراض ہے کہ اسلام تشدد پسند مذہب ہے ۔ آپ کی کتاب :’’کیا اسلام ایک تشدد پسند مذہب ہے‘‘ ؟ غرض آپ کا مکمل تصنیفی کام اور کتابیں اسلام کے دفاع میں اس کی روشن تاریخ اور حقا نیت کا وا ضح ثبوت ہیں۔
سچ بات یہ ہے کہ حضرت شاہ عباد الرحمٰن صا حب اپنے صالح افکار و خیالات ،طبیعت کی نرمی، گدازدل ، انسانی قدروں کا امین اور محافظ بلکہ انسانی اقدار کا حددرجہ ا حترام کرنے والا ۔ مخلوق خدا کا یہ غمخوار، رحم دل ، اور فیاض حقیقت میں اقبال کے مرد مومن کی زندہ اور جاوید مثال اور نظیر تھا ۔ آپ کی شخصیت کی ہمہ جہتی اور آفاقیت اور ذہن و دماغ کی کشادگی، قلب و نظر کی وسعت اور گہرائی، ارادوں کی پختگی ، زندگی حرکت اور تحرک کی بنیاد پر جہد مسلسل کا استعارہ اور عنوان تھا ، فکر و خیال اور جذبے میں وہ فولا دی ہمت اور صداقت جس سے تاریخ کے دھاروںکو اپنی مرضی کا پابند بنا یا جا سکے ،جنبش نگاہ کا یہ کمال کہ کائینات کے رازوں کا زیر و بم دیکھ سکیں ، ایسا پختہ ایمان و یقین کہ اس کی بدولت تبلیغ کے فرائض بہ حسن خوبی انجا م دیے جا سکیں ۔ بقول اقبا ل
امین راز ہے مردان حر کی درویشی
کہ جبرئیل سے اس کو نسبت خویشی
(اقبال )
مجھے شاہ عباد الر حمٰن صا حب کی صحبت اور مجلسوں میں حا ضری کی بارہا سعادت نصیب ہوئی ۔ لیکن کبھی آپ کی مجلس میں آپ کو بے مقصد گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ ہر وقت اور ہر مجلس میں آپ با مقصد گفتگو فرماتے ۔اسلام کی دعوت اور تبلیغ ہی آپ کی زندگی کا مقصد حیات تھا ۔ آپ کی عادت عام طور پر یہ تھی کہ مجلس میں شامل لوگوں کے مزاج ،حال اور احوال، علمی شعور اور شان کے مطا بق بات کرتے تھے ۔ (یہ بھی پڑھیں شاہ ولی اللہؒ کا رسالہ ’’غایۃ الانصاف ‘‘ تالیف ، تاریخ اور تکمیل : پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی)
غر ض جو جس مرتبہ کا آدمی ہوتا اس کے مطابق اس کو دوائے دل بانٹتے ۔ اگر مجلس اہل علم ، علماء اور صلحاء کی ہوتی ان کا حد درجہ احترام ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت ہی قدر دانی کے ساتھ اپنے تجربات ان کو سناتے، موجودہ حالات میں وہ کیسے دین کی سربلندی اور اسلام کا دفاع اور حفا طت کرسکتے ہیں ۔ اسلام دشمن عناصر عالمی سطح پر اس وقت اسلام کے خلاف کس طر ح کے پر و پیگنڈے کر رہے ۔ کیا ان کے عزائم اور ارادے ہیں ۔ہمیں کس طر ح ان کا جواب دینا چاہئے ۔ آپ کے یہاں ان سوالوں کا حل تیغ و تفنگ میں نہیں بلکہ حسن عمل اور اخلاق و کردار کی بلندی اور بلند پروازی میں تھا ۔
شاہ عبا د الرحمٰٰن نشاط صا حب اپنی نیکی ، صلا ح اور صلا حیت ، قلب و نظر کی پاکیز گی کی بنیاد پر اہل نظر اور اہل دل لوگو ں میں شمار تھے۔ بلکہ یہ فقیر منش اور درویش صفت بلاشبہ فرشتوں کی انجمن اور صفا ت کا انسان تھا ،حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کی تربیت اور نظر کرم سے ان کے افکار و خیالات میںآ فاقیت اور ذہن و دماغ میں وسعت اور فہم و شعورمستقبل کے ادا شناس ہوگئے تھے۔ آپ مفکر اسلام کے جس طرح علوم و افکار اور رحانی وراث تھے اسی طرح آپ ان کے حسن عمل اور حسن کرادار و اخلاق کے سچے پیکر اور خوبصور ت عنوان تھے۔آپ نے تمام عمر اپنے مرشد کی فکروں کی مشعل لئے ہوئے اسلام کی سربلند اور سرفرازی میں صرف کی۔غرض آپ کا وجود اس وقت اہل ہند کے لئے بڑی نعمت تھا ۔ آپ اس چمن کے رازداں تھے ۔ہزار حسر ت و افسوس کے ساتھ قلم آپ کی جدائی اور یاد میں ماتم کناں ہے۔ اور ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اب نالہ و بلبل راز کو ن سمجھے گا ۔سب اس چمن چھوڑ کر جارہیں ۔بقول احسان دابش
با غباں بے دست و پاٹھہرا بہاریں بے اثر
ایک جھونکا چمن کے رازداں کو لے گیا
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |