مندر کے اوپر مسجد بنی تھی؟ مسجد کے اندر مندر ملا؟ مندر سے بنی مسجد؟ ایک مندر کو مسجد میں ڈھال لیا؟ اس طرح کے دعوے نئے نہیں ہیں لیکن حال کے دنوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے نام پر تناؤ ہمیں کینسر کی طرح کھانے لگا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت محمد (ص) کو بھی نہیں بخشا گیا جس کے نتیجے میں تشدد اور بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی ہوئی ہے۔ کئی نام نہاد ماہرین آثار قدیمہ اپنی ہو ہا کی جےکار کے ساتھ قوم کے ماضی کو کھود رہے ہیں، ایسے وقت میں سچ کو سچ کہنے کی جرآت درکار ہے۔
اس کام کو شروع کرنے کا ایک مناسب طریقہ یہ ہے کہ مسجد کو ایک قسم کے مندر کے طور پر سمجھا جائے۔ کیا عجب کہ اس بات کی سند ہمیں مغربی بھارت میں 12ویں صدی کے جیا-پرکشا اور 15ویں صدی کے وِرکش-ارنوا جیسے فن تعمیر کے مستند رسالوں (واستو شاستر) سے حاصل ہوتی ہے۔ ان مآخذ میں، مسجد کو ‘رحمٰن-پرسادا’ یا ‘رحمٰن-سورالیا’، یعنی رحمٰن کا مندر کہا گیا ہے۔
مسجد کو ایک نیا نام دئیے جانے کے لیے عربی اور سنسکرت کی یہ عمدہ ترکیب اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ ان واستو شاستروں کے برہمن مصنفین اور گجرات میں مقامی تعمیراتی برادریوں نے ماضی میں ہندو-مسلمان تعلقات کو کیسے سمجھا تھا۔ قرون وسطیٰ کے مغربی ہندوستانی مندروں اور مساجد کی مشترکہ تعمیراتی لغت اس طرح کے ہم آہنگی کے طریقوں کی بصری دستاویز ہے۔ مندر کے فن تعمیر کے جلیل القدر اسکالر، مدھوسودن ڈھاکی نے اس موضوع پر لکھ کر ہندوستانی اسلامی فن تعمیر اور کتبوں پر ضیاالدین دیسائی کے سیر حاصل کاموں پر مزید اضافہ کیا ہے۔
(احمد آباد کی 15ویں صدی کی جامع مسجد کی 1809 میں رابرٹ گرائنڈلے کی بنائی گئی ایک پینٹنگ، جب اس کے مینار
برقرار تھے۔ بشکریہ: برٹش لائبریری بذریعہ ویکیمیڈیا کامنز)۔
کچھ قدیم ترین ہندوستانی مساجد گجرات میں تعمیر کی گئی تھیں، جہاں عرب دنیا کے ساتھ تجارتی تعلقات ایک ابتدائی محرک تھا اور جہاں اسلام عیسوی الف اول کے بعد کی صدیوں میں پہنچا۔ تاریخی شواہد و نظائر کے طور پر قدیم ترین درگاہوں اور مساجد (سنسکرت: مسیتی)، جو بندرگاہی شہروں جیسے بھدریشور، کھمبھاٹ اور بھروچ میں بنی تھیں، کے بارے میں کچھ معلومات دستیاب تو ہیں لیکن زیادہ تر ابتدائی باقیات کا تعلق 12ویں اور 13ویں صدی سے ہے۔
لیکن مسیتیوں کا عرب اور جین تاجروں، ہندو راجاؤں اور دیگر اشراف کی سرپرستی اور دوبارہ تعمیر کیا جانا ایک معروف تاریخی حقیقت ہے۔ بھدریشور کے ایک جین تاجر جگدو سا اور وزیر واستوپال کے اقدامات مشہور ہیں۔ 14ویں صدی سے مزید نئی مساجد تعمیر ہوئیں۔ کچھ کو نئے سرے سے تعمیر کیا گیا تھاجبکہ کئی دیگر کو مسمار شدہ مندروں کے ملبے، دوبارہ تعمیر شدہ عمارتی پتھر کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا تھا۔
کھمبھاٹ میں قبل از سلطنت مسجد کے مینار کو ہندوؤں نے جلا دیا تھا، جب کہ 18ویں صدی میں مراٹھا قبضے کے دوران سلطنت دور کی کچھ مساجد کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے، انہدام اور تخصیص کی ایسی تاریخی مثالوں کو اب نہ صرف ان کے سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا جا رہا ہے، بلکہ پرتشدد واقعات کو ہوا دینے کے لیے ان کا غلط استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔
جیا-پرکشا کا ایک پورا حصہ رحمٰن-پرسادا بنانے کے لیے وقف ہے۔ اس کے منظوم سنسکرت متن میں الہی معمار وشوکرما اور اس کے دماغ سے پیدا ہونے والے بیٹے جیا کے درمیان مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مندر بنانے کے بارے میں مکالمہ پیش کیا گیا ہے:
’اے بیٹے، …اس مقدس مقام کا نام رحمٰن سورالیا ہے… وہاں خدائی بتوں کی ممانعت ہے۔ خیالی تہوں (مایا) کے بغیر اور تین خوبیوں (گنوں) سے پرے، صرف اس حیرت انگیز وحدت پر غور کیا جاتا ہے جسے روشن خیال مخلوق رحمٰن کہتے ہیں’۔
اس کے بعد مسجد کی تعمیر کے طریقہ کار کی وضاحت کی جاتی ہے۔اس کے مختلف عناصر جیسے محراب، ستون وغیرہ۔ اس طرح مندر کے فن تعمیر سے رخصت کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، مجسمہ سازی کی جگہ پھولوں کی سجاوٹ، محراب کی تعمیر، وغیرہ۔
قرون وسطیٰ کے گجرات کے ’مارو-گجر’ مندر کے فن تعمیر نے گجراتی مساجد کے سانچوں، دیواروں کی سطحوں، محرابوں، جالیوں اور دیگر عناصر پر اپنی چھاپ چھوڑی ہے۔ اگرچہ گجرات کی مسجد کا فن تعمیر مقامی ہندو-جین تعمیراتی طریقوں سے متاثر تھا، لیکن اس نے اپنی اسلامی روح اور وجود کو برقرار رکھا۔مقامی عناصر کو بازنطینی، مغربی ایشیا اور وسطی ایشیا کی مساجد کی روایات سے ہم آہنگ کیا۔
19ویں صدی کے اوائل میں رابرٹ گرائنڈلے کی ایک پینٹنگ عمارت سازی کی روایات کی اس قربت کو ظاہر کرتی ہے۔ احمد آباد کی جامع مسجد (1422 عیسوی) کے مینار، بلندی سے اٹھتے ہوئے، فخر کے ساتھ اپنے مخلوط ورثے کا اعلان کرتے ہیں۔
آج ہمیں اپنی مشترکہ تہذیب کے اثرات کو یاد کرنے اور ماضی کے مذہبی تشدد کو اس وقت کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جب مسجدوں کو مندروں کے لیے انتقام کے متلاشی اکثریتی ہجوم کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس اجتماعی وراثت کو بھی مٹانا ہے جو نہ صرف ہندو ہے اور نہ ہی مسلمان۔
رحمٰن-پرسادا: مسلمانوں کے لیے مندر کی تعمیر کا سلیقہ
پارل پنڈیا دھر (اکنامک ٹائمز)
اردو ترجمہ: رضی الدین عقیل
(یہ آرٹیکل اکنامک ٹائمز کے 19 جون کے شمارے میں ‘دی پاسٹ از اے فیمیلیر, کومپوزیٹ اسٹرکچر’ کے عنوان سے شایع ہوا ہے)-
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |