ڈاکٹر صبیحہ انور کے افسانوی مجموعے ’’خواب در خواب‘‘ کا اہم ترین افسانہ ’’بند کھڑکی‘‘ ہے۔ اس افسانے کو صبیحہ انور نے علامتی افسانہ بناکر پیش کیا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی خیال دراصل سماج کے ایسے طبقے پر طنز ہے جہاں لوگ مختلف پریشانیوں اور خرابیوں کو چپ چاپ برداشت کرتے جاتے ہیں اور حالات کو اپنا معتدد سمجھ کر اسی پر اکتفا کرکے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ کہانی ایسے لوگوں کی کہانی ہے جو غلط اور صحیح کا فرق کرنا تو جانتے ہیں لیکن بھی غلط کی تردید کرنے کی ہمت نہیں رکھتے اور بڑی بے اعتنائی سے خود کو انہیں حالات میں ڈھال لینے کے عادی بھی ہو جاتے ہیں۔ ’’بند کھڑکی‘‘ ایسے ہی لوگوں کی ذہنیت کی علامت ہے۔
کہانی کے آغاز میں راوی اپنے کمرے کی منظر کشی بیان کررہا ہے، جہاں تاریکی سے بھرا ہوا ایک کمرہ ہے، کمرے میں کہیں سے بھی روشنی نہیں آتی، کمرے کے بیچ میں ایک بلب ٹنگا ہے اور ایک چھوٹی سی کھڑکی ہے جو کمرے کی روشنی کا ذریعہ ہیں، کمرہ اتنا چھوٹا ہے کہ سامان کی وجہ سے اس کھڑکی کا بھی بس ایک ہی پٹ کھلتا ہے۔ کھڑکی کے باہر اشوک کے ہرے بھرے پیڑکا ذکر کیا ہے جس کی ہری ہری پتیاں اور ٹہنیاں راوی کی کھڑکی کی زینت ہیں۔
یہ تمام شئے افسانے میں کسی نہ کسی علامت کے طور پر استعمال کی گئیں ہیں۔ کمرے کی تاریکی عام انسان کی وہ زندگی ہے جو مختلف پریشانیوں اور مصائب کے باعث آندھیری ہے۔ کھڑکی کا کھلا ایک دروازہ جہاں سے تاریک کمرے میں روشنی آتی ہے امید اور خوشحالی کی علامت کے طور پر لی جاسکتی ہے۔ یہ واحد ذریعہ ہے یہ واحد ذریعہ ہے۔ جہاں سے انسان کی مشکلات سے بھری دنیا میں کامیابی کی امید داخل ہوسکتی ہے۔ کھڑکی کے بارہ اشوک کا ہرا بھرا پیڑ کامیابی اور خوشحالی سے بھری زندگی ہے جہاں پہنچنے کے لیے انسان کو امید کا دامن تھامے رکھنا ہوگا۔ (یہ بھی پڑھیں اقبال حسن آزاد کا افسانہ ‘رکشہ والا’ – ڈاکٹر افشاں ملک )
لیکن اب حالات ایسے نہیں ہیں لوگ اپنی پریشانیوں سے لڑنے اور اپنی اندھیری زندگی کو روشن کرنے کی جگہ اپنی صنعت کو سارا الزام دے کر انہیں حالات پر اکتفا کرلیتے ہیں۔ افسانے کا ایک اقتباس دیکھئے جہاں صبیحہ انور نے اپنے خیالات کو قاری تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
’’اپنے اندھیرے کمرے کی گرد آلود کرسیوں، پرانی کتابوں سے بھری الماری اور بے ترتیبی سے رکھی چیزوں سے اکتاہٹ کے باوجود میں اب ایک لگائو اور اپناپن محسوس کرتا ہوں۔میری موجودہ حالت اب میری عادت سی بن گئی ہے۔ صفائی باقاعدہ اب میرے لیے اجنبی ہے۔ میلے کپڑوں اور کیچڑ سے سنے جوتے مجھے برے تو لگتے ہیں مگر گندگی کو دور کرنے کے لیے میں مشقت کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لیے دل تیار نہیں بلکہ اس صورت حال سے رفتہ رفتہ مجھے اطمینان ہونے لگا ہے۔‘‘
(افسانہ ’بند کھڑکی‘ صفحہ34-35)
افسانے کا راوی صبیحہ انور نے اپنے ہی لوگوں کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے جو اپنے مقدر کو روشن کرنے کی جگہ اپنی بے حسی اور کاہلی کے باعث اسے تاریک بنادیتے ہیں، اور اپنے مصائب وپریشانیوں کا حل تلاش کرنے کی جگہ اسی حالت میں بے حسی کی زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ کمرے میں پھیلی بے ترتیبی کے باوجود راوی کا ان سے لگائو پیدا ہو جانا اسی بے حسی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
راوی کا مکان جس عمارت میں ہے اس کی نچلی منزل کی کھڑکی ہمیشہ بند رہتی ہے۔ اس کے ذہن میں یہ سوال ہمیشہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر روشنی کے اس واحد ذریعے کو بند کرکے کوئی اندر کیسے رہ سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب راوی کو آخر میں خود مل جاتا ہے۔
کہانی آگے بڑھتی ہے راوی کا ایک دوست کچھ دنوں کے لیے اس کے گھر اپنا سامان لاکر رکھتا ہے جس میں ایک ٹی وی بھی ہے۔ راوی اسے اپنی کتابوں کی میز پر رکھ دیتا ہے۔ ٹی وی کے آتے ہی وہ اپنی دنیا سے بالکل بے خبر ہو جاتا ہے اور ٹی وی دنیا میں کھوتا جاتا ہے۔ ٹی وی حالانکہ اپنے اندر معلومات کا سمندر رکھتا ہے اور دنیا بھر کی خبروں سے اسے باخر بھی کرتا ہے لیکن اسے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ دھیرے دھیرے اپنے گردوپیش سے اپنے پڑوس سے دور ہوتا جارہا ہے۔
ٹی وی کے آنے کے بعد راوی اشوک کے پیڑ کو دیکھ کر مخصوص ہونا بھی چھوڑدیتا ہے اور اس طرح رفتہ رفتہ وہ روشنی اور امید کی کرن سے دور ہوتا گیا۔ اتنے دنوں بعد کھڑکی پر نگاہ ڈالنے کے بعد اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اشوک کے اس خوبصورت پیڑ پر لاکھوں مکھیوں اور بھونروں نے قبضہ کرلیا ہے اور اپنا چھتا لگا دیا ہے۔ کھڑکی کے باہر کا منظر جو پہلے خوبصورت لگتا تھا اب خوفناک معلوم ہورہا تھا۔ بھونروں اور مکھیوں کا چھتا ڈالنا بھی ایک علامت ہے جس کے باعث امید کی اس کرنے کے دروازے بند ہونے لگتے ہیں۔ مکھیوں کا یہ چھتا ڈالنا امید کے سارے دراوزے بند کرنے کے لیے کافی تھے۔اشوک کا پیڑ جو اس کے لیے راحت وسکون کا ذریعہ تھا اب وقت گنوادینے کے باعث اس کے لیے مصیبت بن گیا۔ وقت گزرجانے کے بعد جب اسے بند کھڑکی کھولنے کا خیال آیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اب کھڑکی سے باہر کا منظر بالکل مختلف ہوگیا تھا۔ اب وقت گزرچکا تھا اب چاہ کر بھی روشنی کے اس واحد ذریعے سے کبھی بھی لطف اندوز نہیں ہوسکتا تھا۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’بوکھلاکر میں نے جلدی سے کھڑکی کا پٹ بند کرنا چاہا مگر اس سے پہلے کے میں کھڑکی کا پٹ بند کرتا، مکھیوں نے مجھ پر حملہ کردیا۔ مکھیوں کا جھنڈ اتنی تیزی سے حملہ آور ہوا کہ میں بچ نہ سکا۔ ذرا سی دیر میں میری ناک سوج گئی۔ میری دو انگلیاں اور گردن درد سے چٹخ رہی ہیں۔ کئی مکھیاں ٹی وی کے سامنے مری پڑی ہیں۔ میرے کمرے کی بے ترتیبی میں اور اضافہ ہوگیا۔‘‘
(افسانہ ’بند کھڑکی‘ صفحہ38)
شہد کی مکھیوں کا کاٹ لینا ان لوگوں کے لیے سبق آموز ہے جو حالات کو بدلنے سے ڈرتے ہیں لیکن وقت گزر جانے کے بعد انہیں اس کا پچھتاوا بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ افسانے کا آخری اقتباس دیکھئے۔
’’کھڑکی کی چٹخنی بند کرکے میں نے اس پر پردہ تان دیا ہے تاکہ مکھیوں کی بھنبھناہٹ کا کریہہ منظر مجھے نہ دکھائی دے…دھیرے دھیرے میری سمجھ میں آتا جارہا ہے کہ میری نچلی منزل والوں نے اپنی کھڑکیاں بند کررکھی ہیں۔‘‘
(افسانہ ’بند کھڑکی‘ صفحہ38)
اس طرح رفتہ رفتہ کھلی کھڑکی بند کھڑکی میں تبدیل ہوگئی اور راوی کو اس کا احساس وقت گزرنے کے بعد ہوا جس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
صبیحہ انور کی یہ فنکارانہ صلاحیت ہی ہے کہ جس کے ذریعے انہوں نے افسانے کے موضوع اور اسلوب بیان میں نیاپن پیدا کردیا ہے اور افسانے میں شامل ہرشئے کو طنز کا ہدف بناکر پیش کیا ہے۔
افسانہ ’’کمینہ‘‘ اپنے عنوان سے ہی بہت دلچسپ معلوم ہوتا ہے اور قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ یہ انسانی نفسیات کی ایک ایسی کہانی ہے جہاں انسان ذاتی کشمکش میں پھنس کر جذباتی ہو جاتا ہے اور رشتوں کی اصل شناخت کھودیتا ہے۔ صبیحہ انور اس افسانے کے ذریعے اس پہلو پر روشنی ڈالنا چاہتی ہیںجہاں انسان اپنی ذاتی پسند وناپسند کی بنیاد پر مختلف رشتوں کو معنویت دیتا ہے۔
اس کہانی کے مرکزی کردار ’’رحموچچا‘‘ اور ’’دادی اماں‘‘ ہیں۔ انہیں دونوں کرداروں کے درمیان پوری کہانی گردش کرتی ہے۔ اور انہیں دو کرداروں کی نفسیات کو بنیاد بناکر افسانہ نگار نے یہ کہانی پیش کی۔ (یہ بھی پڑھیں سچ اور جھوٹ کااعمال نامہ ـ:دَخمہ – ڈاکٹر ابراہیم افسر )
دادی اماں کا کردار بہت بارعب ہے وہ اور ان کا مخلوط کنبہ ایک بڑی حویلی میں رہتے ہیں۔ جہاں آرام وآسائش کی ہر شئے موجود ہے۔ ہزاروں نوکر چاکر ہیں۔ زمینداری اور نوابی چونکہ ان کی نس نس میں بسی تھی اس لیے نوابی ختم ہو جانے کے بعد بھی پورے گھر پر ان کا راج تھا اور گھر کے ہر کام میں انہیں کا حکم صادر کیا جاتا۔ اس حویلی میں ایک کردار ’’رحمو چچا‘‘ کا بھی ہے ان کی شخصیت نہایت پراصرار ہے۔ گھر کا ہر کام چھوٹا ہو یا بڑا انہیں کے ذمہ تھا۔ دادی اماں کے بھی مشکل سے مشکل کاموں کو بھی وہ بڑی پھرتی سے کردیا کرتے لیکن تعجب یہ تھا کہ گھر کے ہر فرد کے حکم پر بڑے سے بڑے کام کو چٹکی میں کردینے کے باوجود رحمو چچا کو نوکروں سے بھی گئی گزری حیثیت حاصل تھی ہر شخص ان کی باتوں کا مذاق بناتا حتیٰ کہ گھر کے نوکبر بھی ان سے سیدھے منہ بات نہ کرتے۔ لیکن پورے گھر میں دادی اماں رحمو چچا کے نام سے بھی سب سے زیادہ خار کھاتی تھیں۔ ان کی نفرت کا یہ عالم تھا کہ نماز قرآن کے بعد جو وقت بھی بچتا اسے وہ رحمو چچا کو کھری کھوٹی سنانے میں نکال دیتی۔
صبیحہ انور نے افسانے میں دادی اماں کے کردار کی خصوصیات ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے دادی اماں کا بارعب وجود خود قاری کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ چند سطریں ملاحظہ ہوں۔
’’ان کی بادامی بڑی بڑی آنکھوں میں غضب کی چمک تھی اور وہ کسی کی آنکھ کی طرف نظر بھر کر دیکھ لیتیں تو وہ اپنی آنکھیں جھپکانے پر مجبور ہو جاتا۔ ان کی دھیمی کھنک دار آواز میں حکومت اور طنطنے کی گھنٹیاں سی بجتیں… پورے گھر میں صرف دادی اماں ہی کا حکم چلتا اور گھر کے ہرفرد کے لیے ان کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ ایک فرمان کی حیثیت رکھتا اور چونکہ وہ رحمو چچا کی ذات سے حددرجہ متنفر اور بیزار تھیں لہٰذا سارا گھر ان سے نفرت اور بیزارگی کا اظہار کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا…‘‘ (افسانہ ’بند کھڑکی‘ صفحہ34-35)
افسانہ آگے بڑھتا ہے لیکن قاری کے ذہن میں یہ سوال اٹھنے لگتے ہیں کہ دادی اماں سے رحموچچا کی اس حد تک نفرت کی کیا وجہ ہے اور رحمو چچا کی ذات کیسی ہے جو ہر فرد کے ہر ہرحکم کی تعمیل کرنے کے بعد بھی سب کی ذلتوں کو بھی برداشت کرتے ہیں، آخر کیا وجہ ہے کہ وہ خود کو گھر کے ہر فرد کے لیے ہر وقت نچھاور کرتے رہتے ہیں؟ اس کا جواب بھی افسانے میں آگے موجود ہے۔ دادی اماں جب شادی کرکے حویلی میں آئیں تو بہت سے جہیز کے ساتھ خادمائیں بھی لائیں جن میں ایک ’’حمیدہ‘‘ تھی جو انہیں بہت عزیز تھی، ہم عمر ہونے کے باعث دونوں آپس میں سہیلیوں کی طرح تھیں۔ نواب صاحب بھی اس مناسبت سے حمیدہ سے بے تکلف ہوتے گئے اور بہت جلد حمیدہ کی طرف زیادہ متوجہ ہونے لگے۔ دادی اماں جو حمیدہ پر جان چھڑکتی تھیں جب انہیں خود حمیدہ نے اس بات سے آگاہ کیا اور نواب صاحب سے متعلق باتیں بتائیں اور روکنے کے لیے کہا تو دادی اماں کے دل میں ایک ڈر بیٹھ گیا، حمیدہ کے لیے جو محبت ان کے دل میں تھی یکایک ایک لمحے میں شدید نفرت میں تبدیل ہوگئی اور غصے اور خوف کے عالم میں انہوں نے حمیدہ کا نکاح حویلی کے ایک کام چور ملازم سے طے کردی۔ حمیدہ رحم کی بھیک مانگتی ہے لیکن وہ یہ کہہ کر اسے دھتکار دیتیں ہیں کہ …
’’دور ہو کم بخت۔ تجھی نے نواب صاحب کو دعوت دی ہوگی اور اب آئی ہے ٹسوے بہانے اس حویلی میں صرف میرا حکم چلے گا۔ تیرا نکاح سہراب کے ساتھ ہوگا اور آج ہی۔‘‘ (افسانہ ’کمینہ‘ صفحہ110-)
اس اقتباس میں غور طلب بات یہ بھی ہے کہ صبیحہ انور نے ایک ایسی عورت کی نفسیات کو پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جو نہ صرف یہ کہ ایک بارعب شخصیت کی مالک ہے ساتھ ہی ایک ایسی خوفزدہ اور لاچار عورت بھی ہے جسے اپنے شوہر کو کھو دینے کا خوف ہے۔ یہ دادی اماں کا یہی خوف ہے جس کے باعث وہ اپنی عزیز سہلی سے سارے رشتوں کو توڑ کر اس کی شادی جلد سے جلد کسی کے بھی ساتھ کروا دینا چاہتی ہیں تاکہ ان کا یہ ڈر ختم ہوسکے اور حمیدہ نواب صاحب کی نظروں سے دور ہو جائے۔
نکاح کی ساری تیاریاں کرائی جائیں ہیں لیکن موقع پر پہنچ کر نواب صاحب خود حمیدہ سے نکاح کرلیتے ہیں۔ یہ بات دادی اماں کو سخت ناگوار گزری اور حمیدہ کے لیے نفرت کا جذبہ اور زیادہ بھڑک گیا۔ اب یہ نفرت ایک ایسی عورت کی نفرت بن گئی جسے اپنے شوہر کو نہ چاہتے ہوئے بھی باٹنا پڑا۔ دادی اماں کی یہ نفرت فطری اور لازمی تھی۔ یہ انسانی نفسیات کا ایک حصہ ہے جس پر انسان کا بس نہیں۔
حمیدہ بیگم سے حویلی میں ایک بیٹا ہوا جس کا نام نواب صاحب نے عبدالرحمن رکھا لیکن دادی اماں کی یہ نفرت ہی تھی کہ جس نے حویلی میں اس بچے کا نام اور حیثیت ’’رحمو‘‘ سے زیادہ کچھ نہ ہونے دی۔ کچھ عرصے بعد حمیدہ اور نواب صاحب دونوں کا انتقال ہوگیا اور ’’رحمو‘‘ اب مکمل طور پر دادی اماں کی دسترس میں آگیا۔
دادی اماں نے اپنے اوپر ہوئی زیادتی اور نفرت کا بدلہ ’’رحمو‘‘ سے نکال لیا یہ وہی رحمو تھا جس کی حیثیت حویلی میں ایک نوکر سے بھی بدتر تھی۔ دادی اماں اور گھر کے دوسرے افراد سے رحموچچا کا رشتہ تو کچھ اور تھا لیکن دادی اماں کے جذبات اور غصے نے اس رشتے کو فراموش کردیا حتیٰ کہ گھر میں ابا جان اور پھوپھی کے علاوہ کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ رحمو چچا سے ان کا کیا رشتہ ہے۔
آخر میں رحمو چچا کی اچانک موت ہو جاتی ہے لیکن سوائے ابا کے گھر کے کسی فرد پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ابا کو اس وقت بہت دکھ ہوتا ہے جب رحمو چچا کے بیوی بچوں کو حویلی سے باہر کرنے کی بات سامنے آتی ہے۔ ابا جو دادی اماں کے سامنے زبان تک نہیں کھولتے تھے۔ دادی اماں کو حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں کہ نواب صاحب نے تو حویلی کا بڑا حصہ اور زمین جائداد کا زیادہ حصہ حمیدہ اور اس کی اولاد رحمو کے لیے وقف کردی تھی لیکن رحمو اور اس کی ماں نے کبھی اس پر اپنا حق نہیں جتایا اور خود نوکروں کی سی زندگی گزاری اور نہ ہی کبھی اپنا حصہ لینے کی فرمائش ظاہر کی۔ افسانے کا آخری اقتباس کا یہ جملہ کہ…
’’ابا چپ ہوگئے اور بے اختیار روتے ہوئے بولے۔’’مرحوم ہمارا نہیں بلکہ درحقیقت ہم سب اس کے نمک خوار تھے۔‘‘ (افسانہ ’کمینہ‘ صفحہ116-)
رحمو چچا کے پورے کردار کو اور ان کے رتبے کو بہت بلند کردیتا ہے۔ بالآخر دادی اماں کی آنکھوں میں بھی آنسو آجاتے ہیں یہ آنسو دراصل ندامت کے آنسو تھے۔ انسان کا دل کتنا ہی سخت اور نفرت سے بھرا ہوا کیوں نہ ہو لیکن اچھے اخلاق اور محبت سے اسے بھی نرم کیا جاسکتا ہے۔
اس افسانے میں رحمو کا کردار بہت اہم ہے جو ہر مصیبت اور ظلم وزیادتی کو محض اس لیے برداشت کرتا جاتا ہے کہ دادی اماں اس کی ماں کی حیثیت رکھتی تھیں اور اپنی ماں کی توہین کرنا نہایت غلط امر ہے۔ دوسری طرف دادی اماں کی نفرت کی کوئی انتہا نہیں ہے لیکن انہیں بھی اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ افسانہ انسانی رشتوں کی اسی اتار چڑھائو کی داستان ہے۔
صبیحہ انور اسی حقیقت کو سامنے لانا چاہتی ہیںجہاں جذبات اور انسان کی نفسیات حقائق پر حاوی ہو جاتے ہیں اور کوئی غلط راستہ چن لیتے ہیں۔ افسانے کا عنوان ’’کمینہ‘‘ دراصل قاری سے سوال ہے کہ اس نام کا انتخاب افسانہ نگار نے کس کے لیے کیا۔ رحمو چچا جیسے لوگوں کے لیے، یا پھر دادی اماں کے لیے یا ان لوگوں کے لیے جو صحیح اور غلط کی تمیز کرنے کے باوجود غلط کا ساتھ دیتے ہیں اور اسے بڑھاوا بھی دیتے ہیں۔ حویلی کے لوگ اور دادی اماں تو رحمو چچا کو ’’کمینہ‘‘ کے لیے مناسب سمجھتی ہیں لیکن ’قاری سے یہ سوال ہے کہ کیا رحمو چچا کو کمینہ کہنا جائز ہوگا۔
افسانہ ’’گومتی، چاندنی اور روٹی‘‘ سرمایا دارانہ نظام کی بدامنیوں کی کہانی ہے، جس کا شکار برسوں سے محنت کش غریب طبقہ ہوتا چلا آرہا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی خیال اسی سرمایا دارانہ نظام کی خلاف ورزی ہے۔
افسانے میں ایک گائوں جس کا نام ’’لال گڑھ‘‘ ہے ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ایک نہایت پچھڑا ہوا گائوں ہے جہاں تقریباً پانچ سو (۵۰۰) افراد پر مشتمل آبادی ہے۔ گائوں کی غریبی کا یہ عالم ہے کہ گائوں کے ہر مرد، بچے، بوڑھے جوان سب کچھ نہ کچھ کام کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود زیادہ تر گھروں میں ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے ملتی ہے۔
لال گڑھ کی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ اسپتال، اسکول، ڈاک گھر وغیرہ جیسی سہولیات بھی گائوں سے تقریباً دس دس کوس دور ہے۔ گائوں کی غریب عوام کے لیے محض اتنی پریشانیاں ہی کافی نہیں ہیں بلکہ گائوں کے عہدیدار غریب کسانوں سے فصل کے وقت دوسیر اناج جبراً اپنا حق جتاکر ان سے لے لیا کرتے۔ان غریبوں کے پاس پہلے ہی بہت کم فصل تیار ہو پائی تھی اور جو ہوتی بھی تھی اسے یہ ساہوکار اور زمیندار لوگ جبراً چھین لیا کرتے۔
گائوں میں یہ اس وقت کا درد ہے جب ملک بھر میں آزادی کے لیے لڑائیاں لڑی جارہی ہیں۔ ملک آزاد بھی ہوتا ہے لیکن لال گڑھ کے لوگوں پر نہ آزادی کی جدوجہد کا اثر پڑتا ہے اور نہ ہی آزادی کا۔
اس کہانی کے پس منظر میں ایک ایسے گائوں کا ذکر کیا گیا ہے جو آزادی کے مفہوم سے بھی واقف نہیں ہے اور اس کی وجہ وہ ساہوکار ہیں جو آزادی ملنے کے بعد بھی ان پسماندہ گائوں کو آزاد نہیں ہونے دیتے اور جبراً فصل کا بڑا حصہ چھین لیتے ہیں۔ صبیحہ انور کی اس تخلیق کو وسیع پیمانے پر دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آج بھی بہت سے علاقے ہیں جہاں غریبی، بھوک، مفلسی، عدم مساوات اور امیر اور سرمایا دار طبقے کے ذریعے ہورہے ظلم جاری ہیں۔ اگر آج ہم ان علاقوں کی عوام سے آزادی سے متعلق کچھ دریافت کرنا چاہیں تو شاید ان کا جواب بھی وہی ہوگا جو اس افسانے میں موجود لال گڑھ کے لوگوں کا ہوتا۔
ہمارے رہنمائوں نے آزادی کا جو خواب ہمیں دکھایا تھا اور جس مساوات کی بات بار بار دہرائی گئی تھی، وہ آزادی ہی نہیں ملی۔ ’’لال گڑھ‘‘ کی عوام یہ سن کر خوش تو بہت ہوتے تھے کہ کوئی گاندھی بابا ہیں جو کسانوں کے لیے ستیہ گرہ کرتے ہیں اور آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ آزادی کی لڑائی ان کے لیے نہیں لڑی جارہی تھی۔ آزادی کے بعد بھی ’’لال گڑھ‘‘ کی عوام کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ حالت دراصل ہندوستان کے بہت سے پسماندہ گائوں کی حالت تھی اور آج بھی ایسے بہت سے علاقے ہیں جہاں آج آزادی کے اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی آزادی نہیں پہنچ سکی ہے۔
آزادی ملنے کے بعد جب ’’لال گڑھ‘‘ کے لوگوں کو منتری جی کے آنے کی خبر ملتی ہے تو مانو انہیں ایسا لگتا ہے جیسے اب ان کی آزٓدی منتری جی کے ساتھ ہی ان کے گائوں آرہی ہو۔ پورا گائوں اپنی بساط سے بڑھ کر منتری جی کا سواگت کرتا ہے پورا گائوں منتری جی کی تقریر سننے کے لیے اپنے کپڑوں میں سب سے اچھا کپڑا پہن کر کھڑا ہو جاتا ہے کیونکہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ اب ان کے برے وقت گزر گئے، ان کی مفلسی سے انہیں نجات مل جائے گی، مگر منتری جی کی تقریر سب کی امیدوں پر پانی پھیر دیتی ہے اقتباس دیکھئے…
’’دیش کے لیے غلہ پیدا کرو۔‘‘، ’’آرام حرام ہے۔‘‘، ’’سرکار سے زیادہ امید نہ رکھو‘‘، ’’خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھو‘‘، ’’چھوٹی بچت میں روپیہ لگائو۔‘‘
(افسانہ ’گومتی، چاندنی اور وٹی‘ صفحہ122-)
منتری جی نے جب اپنی تقریر میں اپنا دامن جھار لیا تو ان غریبوں کو بہت مایوسی ہوئی۔ ’’لال گڑھ‘‘ کے لوگوں نے منتری جی کو دیکھنے کے لیے اور ان کے لیے بہت سے انتظامات کرنے میں کئی دن بھی ضائع کردیے تھے اور اپنی پونجی بھی اس کے عوض منتری جی کا یہ قول سب کو بہت مایوس کردیتا ہے۔
یہاں صبیحہ انور نے سماج میں پھیلی اس تلخ حقیقت کو کھول کر رکھ دیا ہے جسے لوگ جانتے ہوئے بھی انجان بنادیتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی آزاد ہندوستان میں بڑے بڑے منتریوں کے جھوٹے دلاسے کبھی پورے نہیں ہوتے بلکہ عوام سے ان کی توقع بڑھتی جاتی ہے۔
یہی حال لال گڑھ کا بھی تھا منتری جی کے جانے کے بعد دوبارہ وہی سناٹگی گائوں میں پھیل گئی۔ آخری اقتباس میں منتری جی کے جانے کے بعد گائوں کی کیا حالت تھی اس کی طرف توجہ مرکوز کرانے کے لیے افسانہ نگار نے ایک جھونپڑی کی حالت کا بیان کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو…
’’رامو دو روز مزدوری تلاش کرنے کے بعد جب ایک گھڑی رات گئے گھر پہنچا تو اس کی جھونپڑی میں چراغ نہیں جل رہا تھا۔ اسے بڑے زور کی بھوک لگی تھی۔ لیکن کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ اس نے بیوی اور لڑکی سے ڈپٹ کر پوچھا۔ کیا آج لکڑیاں چننے نہیں گئیں تھیں؟ بیوی نے سسکی لیتے ہوئے جواب دیا۔ ’’آج تو گائوں میں منتری جی آئے تھے آج کیسے جاتی؟‘‘ رامو نے چڑھ کر کہا۔ ’’تو کیا دے گئے منتری جی؟‘‘ بیوی اور لڑکی رونے لگیں۔ رامو کچھ دیر خاموش رہا اور کہا۔ ’’چلو، آج منتری جی کا نام لے کر بھوکے ہی پڑ رہیں گے۔‘‘
(افسانہ ’گومتی، چاندنی اور وٹی‘ صفحہ123-)
صبیحہ انور کے افسانے ’’رشتہ‘‘ کے عنوان پر نظر پڑتے ہی قاری کے ذہن میں بے شمار مختلف رشتوں کے نام گردش کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اس کے برخلاف یہ افسانہ ایسے رشتوں کی کہانی ہے جہاں باقاعدہ یا باضابطہ ایک دوسرے سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا جسے ہم کوئی نام دے سکیں لیکن جذبات کا رشتہ ضرور ہوتا ہے۔ جسے کوئی نام تو نہیں دیا جاسکتا ہاں مگر محسوس ضرور کیا جاسکتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں تخلیقی تجربوں کا عہد – مشرف عالم ذوقی )
یہ کہانی ایک ایسی عورت اور اس کے گھر کی کہانی ہے جہاں وہ اور اس کا پورا گھر ایک ایسے شخص کی موت سے افسردہ ہو جاتے ہیں جسے وہ جانتے بھی نہیں تھے۔ افسانے کا مرکزی کردار وہ عورت ہے جو اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ اپنی زندگی میں گم تھی۔ لیکن ایک دن اچانک اس کی بیٹی ’’مہر‘‘ جب میلے جانے کی خبر سن کر خوش نہیں ہوتی اور جانے سے انکار کردیتی ہے تو وہ عورت اپنی بیٹی سے اس کی وجہ دریافت کرتی ہے تو ہر اسے بتاتی ہے کہ آج اس کی ایک سہیلی کے چچا کی اسی میلے کے سامنے اکسیڈنٹ میں موت ہوگئی۔ مہر جیسی چھوٹی معصوم بچی کے دل پر بھی اس کی سہیلی کے چچا کی موت کے اثرات نمایاں تھے اس کا افسردہ اور مرجھایا ہوا معصوم چہرا اس عورت کو بھی غمگین کردیتا ہے۔ مہر اپنی ماں یعنی راوی کو بتاتی ہے کہ وہ اس کے چچا سے مل چکیں ہیں لیکن لاکھ کوشش کے باوجود اسے یاد نہیں آتا کہ اس کی بیٹی کس کا ذکر کررہی ہے۔
بالآخر راوی اپنے ذہن میں اس شخص کی ایک تصویر بنالیتی ہے اور یہ یقین کرلیتی ہے کہ مرنے والا شخص وہی ہے جسے وہ سمجھ رہی ہے۔ ایک ایک کرکے اس انجان شخص سے ہوئی ساری ملاقاتیں اسے یاد آتیں ہیں حالانکہ راوی سے اس شخص کی باضابطہ کوئی بات چیت کبھی نہیں ہوئی تھی لیکن پھر بھی دونوں کے درمیان جان پہچان موجود تھی دونوں کے درمیان احساسات وجذبات کا رشتہ تھا۔ صبیحہ انور افسانے میں اس کا ذکر اس طرح کرتی ہیں…
’’میں نے ابھی تھوڑے ہی دن پہلے اسے ڈرائی کلینر کی دکان پر زور زور سے باتیں کرتے دیکھا تھا… پتہ نہیں اس نے ہم لوگوں کو دیکھا تھا یا نہیں۔ وہ مجھے پہچانتا تھا یا نہیں مگر ایک خاموش سا رشتہ جو ایک ہی کلاس میں پڑھنے والے بچوں کے والدین اور بھائی بہنوں سے خودبخود استوار ہو جاتا ہے، ہمارے بیچ کا بھی تھا۔‘‘ (افسانہ رشتہ‘ صفحہ153-)
سڑک حادثے میں اس شخص کی موت سے اسے بہت دکھ ہوتا ہے اور اب راوی کے دل کو یہ حادثہ بہت افسردہ کردیتا ہے۔ راوی سے حادثے کا شکار ہوئے شخص کا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن پھر بھی اس کی موت پر اس لیے منہ نکلے یہ جملے اس بات کو واضح کردیتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ ہر رشتے کا کوئی نام ہوں، کچھ رشتے بلا عنوان بھی ہوتے ہیں۔ اس کے دل پر اس شخص کی موت کا اتنا گہرہ اثر ہوا کہ وہ رات بھر اس کے اور اس کے عزیزوں کے بارے میں سوچتی رہی اور غمگین ہوتی رہی۔ اس کی موت کے ایک ایک لمحے کو سوچ کر اس کا دل افسردہ ہوگیا تھا۔ اقتباس دیکھئے…
’’میرا سویا ہوا ذہن ایک بار پھر موت کے تصور سے جاگ اٹھا۔ کیسے اسے موت آئی ہوگی، کس کا خیال آیا ہوگا اسے؟ اپنے ماں باپ کا یا بیوی کا؟ رات کی ڈیوٹی سے واپس آنے والے شوہر کی بیوی کیسی بے چین ہوتی ہوگی؟ اور جب یہ انتظار کسی نئی دلہن کا ہو؟ یہ انتظار ہمیشہ کے لیے اب اس کا مقدر بن گیا! اس کی ماں کو کیسا لگا ہوگا؟ کیسا تڑپی ہوگی؟‘‘ (افسانہ ’رشتہ‘ صفحہ153-)
یہ تمام سوالات اور خیالات جو اسے پریشان کررہے تھے اس کا سبب وہی رشتہ تھا جو ایک انجان شخص سے تھا۔ مرنے والے کی پسندناپسند، رشتے دار، ماں باپ اور بیوی کا خیال آنا اسی بے چینی کی علامت تھے۔ مرنے والا کون تھا کیا کرتا تھا اور یہاں تک کہ اس شخص کے نام تک سے واقف نہ ہونے کے باوجود اس کی موت پر درد کا احساس اور پورے گھر پر ماتم کی سی کیفیت کا طاری ہو جانا اس بات کی علامت ہے کہ اکثر ہمارے درمیان کچھ رشتے خودبخود بھی بن جاتے ہیں جس کا علم ہمیں خود بھی نہیں ہوتا۔
غم اور درد کی کیفیت سے پورا گھر اسے اتھل پتھل لگتا ہے لیکن کہانی میں ایک نیا رنگ اس وقت پیدا ہوجاتا ہے جب راوی مرنے والے شخص کو بالکل صحیح سلامت اسی چستی اور پھرتی کے ساتھ ٹرین کے پھاٹک کے برابر سے اپنا اسکوٹر نکالتے دیکھتی ہے۔ حیرت اور خوشی کے مارے اس کی چیخ نکل پڑتی ہے اس کے جسم میں کھوئی ہوئی ساری توانائی واپس آجاتی ہے۔ اس شخص کو زندہ دیکھ کر اسے اتنی خوشی کا احساس ہوتا ہے کہ جیسے اسے زندگی کا کوئی سب سے انمول تحفہ مل گیا ہو۔ وہ بے اختیار خوشی سے سب کو بتاتی ہے…
’’وہ زندہ ہے مرا نہیں، ارے مہر وہ تو زندہ ہے مرا نہیں ہے۔ مجھے ابھی راستے میں ملا تھا ابھی نشاط گنج ریلوے کراسنگ کے پاس۔ تم بے کار میں پریشان ہورہی تھیں…‘‘ (افسانہ ’رشتہ‘ صفحہ155-)
یہ الفاظ جو راوی کے منہ سے بے اختیار نکلنے جارہے تھے وہ اسی انجان اور خاموش رشتے کا اثر تھا جو اس اجنبی شخص سے تھا۔ اس رشتے کی اہمیت کو اور زیادہ مضبوطی اس وقت مل جاتی ہے جب راوی خدا کا شکر ادا کرتی ہے کہ وہ جیسے سمجھ رہی تھی وہ شخص زندہ ہے مرنے والا کوئی اور تھا۔
افسانے کی ابتداء میں راوی کا ایک انجان شخص کی موت سے اس قدر پریشان ہوجانا اور غمگین ہونا اور پھر اسے زندہ دیکھ کر خدا کا شکر ادا کرنا اور پھر نمائش دیکھنے میلے جانے کی بات رکھنا دراصل اس اخلاقی اقدار کی نشانی ہے جو انسانیت کے تئیں ہم میں آج بھی موجود ہے۔
صبیحہ انور کا افسانہ ’’یوز اینڈ تھرو‘‘ نئی تہذیب اور نئی سوچ رکھنے والوں کی ایسی کہانی ہے جہاں جذبات واحساسات کو کوئی معنیٰ نہیں دیے جاتے بلکہ ضرورت کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اس افسانے کا مرکزی خیال بنیادی طور پر بدلتی ہوئی تہذیب اور گھٹتے ہوئے انسانی اقدار کی کہانی ہے۔
افسانہ ’’یوز اینڈ تھرو‘‘ اپنے عنوان سے ہی اپنی طرف کھینچتا ہے، افسانے کے عنوان سے ہی قاری کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ کوئی ایسی شئے ہے جسے محض استعمال کرنے کے لیے حاصل کیا گیا ہو اور کام نکلنے کے بعد کسی بے کار شئے کی طرح دور پھینک دیا گیا ہو۔ یہ کہانی دراصل ایک نوجوان لڑکی ’صبا‘ کی کہانی ہے جو اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ کہانی کا آغاز ’’ناصر‘‘ جو کہ ’’صبا‘‘ کا دوست اور کلاس میٹ ہے، کے فون سے ہوتا ہے۔
صبا کی والدہ نہایت باشعور اور سنجیدہ خاتون ہیں اپنے ماضی میں گزرے کچھ حالات کے باعث انہیں زندگی کی حقیقت کا اندازہ بہت گہرائی شئے حاصل تھا۔اپنی نوجوانی میں جب وہ بھی صبا کی طرح تھیں وقت کا صحیح استعمال نہ کرنے کا احساس اور افسوس انہںی اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی محسوس ہورہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صبا کی والدہ صبا سے بات کرنے
کے بارے میں سوچتی ہیں۔
صبیحہ انور کے فن کی یہ خوبی ہے کہ وہ جس کردار کو اپنے افسانے میں استعمال کرتی ہیں اس کردار کی تمام خصوصیات قاری کے سامنے عیاں ہوجاتی ہیں۔ اس افسانے میں بھی صبا کی والدہ کی پریشانی کو ظاہر کرنے کے لیے جن جملوں کا استعمال انہوں نے کیا ہے اس سے نہ صرف یہ کہ ایک پختہ شعور اور سنجیدہ خاتون کا کردار سامنے آتا ہے بلکہ ایک فکر مند ماں کے دل کے حالات بھی عیاں ہو جاتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو…
’’یہ مجھے معلوم ہے کہ جو وہ ٹھان لیتی ہے پھر وہ کرکے ہی دم لیتی ہے۔ اس لیے میں نے بھی سوچا کہ جو کچھ آج کرنا ہے ابھی کرو۔ اگر میں نے صبا کو اس وقت خبردار نہیں کیا تو پھر میری بیٹی کبھی اس مصیبت سے اپنے کو نکال نہیں سکے گی۔ کام مشکل ہے، ہوسکتا ہے بات بگڑ جائے مگر میں اپنے دل کا حال آج صبا سے ضرور کہوں گی۔ وہ گرہ جو میرے دل میں ہے شاید صبا کو آزاد کرانے میں مددگارہو۔‘‘ (افسانہ ’یوز اینڈ تھرو‘ صفحہ170-)
صبا کی والدہ کو اسی دن صبا پر شک ہوجاتا ہے جب اس کی سب سے اچھی سہیلی ’’رعنا‘‘ فون پر صبا کی خیریت پوچھتی ہے کیونکہ صبا کی والدہ کو یہ یقین تھا کہ رعنا اور صبا کالج میں روز ملتی ہوں گی۔ آخر وہ کس کام میں مصروف تھی کہ رعنا سے ملنے کا وقت بھی اس کے پاس نہیں تھا اور جب اس دن صبا کو فون کا انتظار بے چینی سے کرتے دیکھتی ہیں تو ان کا شک یقین میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ صبا کی والدہ کو اپنی بیٹی کی فکر ستانے لگتی ہے اور وہ فیصلہ کرتی ہیں کہ صبا سے بات کریں گی اور اس سے سچائی جاننے کی کوشش کریں گی۔ وہ اسے وقت کی کمی کا احساس دلاتے ہوئے اس کے فرائض بھی یاد دلاتی ہیں اور کہتی ہیں…
’’پڑھائی کے کیا حال ہیں؟ یاد رکھنا، پوزیشن لانی ہے۔ پاپا کو تم سے بڑی امید یں ہیں ایک چند ہی روز رہ گئے ہیں۔ فضول باتوں میں وقت ضائع نہ کرو۔ تم جانتی ہو۔ وقت زندگی کی سب سے قیمتی شئے ہے۔ کس کا فون تھا
یہ؟ اور یہ ناصر کون ہے؟‘‘ (افسانہ ’یوز اینڈ تھرو‘ صفحہ170-)
صبا کی والدہ کو ڈر تھا کہ کہیں اس کی معصوم بیٹی صبا جذبات کی رو میں بہہ کر کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے چونکہ اس کی والدہ خود بھی اپنی زندگی کے بیش قیمتی وقت کو انہیں چکروں میں برباد کرچکی تھی اسی لیے وہ نہیں چاہتی تھیں کہ اس کی بیٹی بھی اس کرب کا شکار ہو اور وقت کو گنوا دینے کا دکھ اسے بھی ساری زندگی رہے۔ لیکن صبا کی والدہ کو اس کا انداز اس وقت چونکا دیتا ہے جب وہ بہت سکون اور اطمینان سے کہتی ہے…
’’ناصر؟ اچھا جس کا ابھی فون آیا تھا۔ ارے اماں یہ روز فون کرتا ہے۔ ہماری کلاس کا سب سے تیز اور ذہین لڑکا ہے۔ ہمیشہ سب سے آگے رہتا ہے۔ بس اسی سے تو خطرہ ہے۔ سارے پروفیسر، اس کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ امتحان سے متعلق تازہ ترین اطلاع اس کے پاس رہتی ہے۔ بہت صحیح خبریں دیتا ہے۔ میں نے اپنی باتوں کے چکر میں اس کو ایسا چکرا دیا ہے کہ اب اپنی پڑھائی وڑھائی بھو کر میرے لیے کتابیں لانے میں جٹا ہے۔‘‘
(افسانہ ’یوز اینڈ تھرو‘ صفحہ170-171-)
صبا لڑکی ہونے کے باوجود ایک نہایت مختلف سوچ کی لڑکی تھی جس کے نزدیک رشتوں سے زیادہ مقاصد کی اہمیت تھی اور وہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھی۔ یہ افسانہ دراصل اس سماج پہ طنز ہے جہاں لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے استحصال کے لیے لڑکوں کو ہی مجرم ٹھہراتے ہیں۔ صبیحہ انور اس افسانے میں اس سچائی کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ضروری نہیں کہ استحصال کرنے والا لڑکا ہی ہو بلکہ ممکن ہے کہ اس استحصال کے پیچھے یا اس استحصال کے لیے لڑکے کے ساتھ لڑکی بھی برابر کی شریک ہو۔ لہٰذا سماج میں ہونے والے اکثر جرائم کو لڑکوں سے منسوب کرکے دیکھنے کے بجائے اس کی تہہ تک جانا ضروری ہے۔ (یہ بھی پڑھیں نئے افسانہ نگار سے دو باتیں – مرزا حامد بیگ )
دراصل صبیحہ انور نے اس افسانے کے ذریعے سماج پر بہت بڑا طنز کیا ہے افسانے کا مرکزی خیال افسانے کے آخری حصے میں موجود ہے۔ صبیحہ انور نے افسانے کردار صبا کی زبانی اپنی بات قاری کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے اور بلاشبہ وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو…
’’آج دنیا میں صرف اپنا فائدہ اور اپنا کام دیکھا جاتاہے۔ اماں ’’Use &throw‘‘ کا زمانہ ہے۔ اب دادی اماں کے وقتوں کے ٹی سیٹ، ڈینر سیٹ سنبھال سنبھال کر رکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ بلکہDisposbleکا زمانہ ہے۔ کام ہونا چاہئے کام۔‘‘
(افسانہ ’یوز اینڈ تھرو‘ صفحہ171-172-)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |