Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      خبر نامہ

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      متفرقات

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      متفرقات

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      خبر نامہ

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      متفرقات

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      متفرقات

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
فکر و عملنوشاد منظر Naushad Manzar

شیر شاہ سوری کے انتظامی امور : ایک جائزہ – ڈاکٹر نوشاد منظر

by adbimiras اپریل 8, 2021
by adbimiras اپریل 8, 2021 0 comment

شیر شاہ سوری کا شمار ہندوستان کے عظیم بادشاہوں میں ہوتا ہے۔ گرچہ اس کی حکومت پورے ہندوستان میں نہ تھی مگر ایک وقت ایسا ضرور آیا جب  یہ محسوس کیا جانے لگا کہ وہ پورے ہندوستان پر قابض ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ ہمایوں نے شیر شاہ کی بڑھتی طاقت سے فکر مند ہوکر اس سے مقابلہ کرنے کا ارادہ بھی کیا بلکہ کنوج میں ایک جنگ بھی ہوئی جس میں ہمایوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، باوجود اس کے شیر شاہ کا ہندوستان پر حکومت کرنے کا خواب کبھی پورا نہ ہوسکا۔ شیر شاہ سوری کے زمانے کی کئی یادگار چیزیں ہیں، جس کا ذکر ہمارے مورخین نے کیا ہے۔ آج کے اس جلسے میں، میں شیر شاہ سوری کی زندگی پر گفتگو کرنے کے بجائے اس کے انتظامی امور کا مختصر جائزہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔

شیر شاہ سوری نے بہتر انتظامی امور اور قانونی نظام کو بہتر اور چاک چوبند بنانے پر کافی زور دیا۔ شیر شاہ سوری نے انتظامی امور کے لیے ایک ایسا نظام تیار کیا جو آج بھی رائج ہے بلکہ پسند کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شیر شاہ سوری نے اپنی حکومت کو ۶۳ پرگنوں میں تقسیم کیا تھا ۔ ہر پرگنے میں ایک شقدارِ شقداران(shikdar e shikdaran)، ایک خازن اور حساب و کتاب کے لیے ایک ہندو اور ایک فارسی مصنف ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ شیر شاہ نے پرگنہ کے لیے مقرر آفیسران کی ذمہ داری طے کرنے اور ان پر نظر رکھنے کی خاطر ایک بڑی کمیٹی بنائی تھی جو منصفِ منصفانہ کہلاتا تھا۔اس کمیٹی کی اہم ذمہ داری پرگنہ کے عہدیداران پر نظر رکھنا تھا تاکہ وہ اپنے کاموں میں کوتاہی نہ برتیں اور عوام کو بہتر سہولت فراہم کیا جاسکے۔شیر شاہ سوری نے بد عنوانی سے  سے بچنے کے لیے آفیسران کے تبادلے پر زور دیا۔ آفیسرز کا دو سے تین برس کی مدت میں تبادلہ کردیا جاتا تھا۔حالانکہ شیر شاہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکا، اس کی وجہ سسٹم کے نفاذ کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ شیر شاہ کو لمبی حکومت کرنے کو موقع نہیں ملا۔ان تمام انتظامی امور کی دیکھ بھال شیر شاہ خود کیا کرتا تھا۔شیر شاہ کی سرکار ریاستیں میں تقسیم تھی، شق دارِ کا عہدہ سب سے بڑا تھا، اس کے بعد زمین سے متعلق ٹیکس وصول کرنے والے آفیسران ہوتے تھے۔ ریاست کی عام دیکھ بھال شق دار نام کا عہدیدار کرتا تھا۔

شیر شاہ کی تاریخ کو پڑھتے ہوئے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے علاؤالدین سے متاثر ہوکر ریاست کو مستحکم اور مضبوط بنانے پر زور دیا، اسی حکومتی ماڈل کو بعد میں اکبر نے بھی اختیار کیا۔ شیر شاہ اور اس کے عہد کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اور انتظامی امور کو لے کر ان کا ذہن بالکل صاف اور واضح تھا۔ انہوں نے مندرجہ ذیل کچھ اہم شعبہ جات قائم کیے تھے۔

 

۱۔ دیوان وزارت:۔

شیر شاہ کی حکومت میں یہ ایک اہم وزارت تھی۔ اس وزارت کی اصل ذمی داری زمین کے ٹیکس اور اس کی وصولی تھا۔ شیر شاہ کے لیے یہ وزارت کتنی اہم رہی ہوگی اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خود شیر شاہ اس وزارت میں کافی دلچسپی لیتے تھے ۔زرعی محصول پر معمور شخص عامل یا منصف نامی عہدے دار کے زیر نگرانی کام کرتے تھے۔انتظامیہ کا سب سے چھوٹا عہدہ ڈیل یا موجہ ہوتا تھا، جو بنیادی طور پر ایسے گاؤں کو کہا جاتا تھا جہاں صرف زراعت کی زمینیں ہوتی تھیں۔ گاؤ ں کا سردار مکھیا یا پٹواری کہلاتا تھا۔

شیر شاہ نے زرعی محصول کی جو بنیاد ڈالی تھی اس کو بعد کے دنوں میں بھی پسند کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔ شیر شاہ نے زمینوں کی حد بندی قائم کرنے کا بھی نظام کیا۔ جہاں تک ٹیکس یعنی محصول زرعی کا تعلق ہے تو شیر شاہ کے عہد میں پیدا وار کی ایک تہائی یا ایک چوتھائی اناج بطور محصول دینے کا چلن تھا۔ یہ ٹیکس اناج یا نقد کی شکل میں دیا جاسکتا تھا، مگر بہتر طریقہ نقد کو مانا جاتا تھا۔نقد کو اکٹھا کرنے کی ذمہ داری امینوں ، مقدوموں، شق دار،  اور پٹواری جیسے عہدیداران پر معمور تھا۔

شیر شاہ سوری نے اپنے عہد میں زمینوں کی پیمائش کا کام بھی کیا ، اس کے لیے انہوں نے ہندو برہمنوں کی خاص طور پر مدد لی۔ شیر شاہ نے ہی زمین کی پیمائش کے لیے گزِ سکندری کا استعمال کیا جو ۳۲ انگل یا 3/4  ( تین چوتھائی)میٹر ہوتا تھا۔شیر شاہ سوری نے رعیت واڑی نظام کی بھی ابتدا کی ، اس کے تحت زمین کے مالکان یا کسان کو حکومت کی جانب سے ایک پٹاّدیا جاتا تھا جس میں زمین کی قسم (فصل کے لحاظ سے کتنی زرخیز ہے)، اس کے مالک کے نام کے علاوہ کسان کے لیے مقرر کردہ محصول بھی درج ہوتا تھا۔ شیر شاہ سوری نے اپنے عہدیداران کو قانون کے نفاذ میں سختی برتنے کا حکم بھی جاری کیا تھا۔

 

۲۔ دیوان عارض:

کسی بھی حکومت کو قائم رکھنے میں انتظامیہ کا جو رول ہے اس سے ہم سب واقف ہیں مگر دوسری طاقت سے مقابلہ آرائی کے وقت فوج کی اہمیت سے انکار نہیں جاسکتا ہے۔شیر شاہ فوج اور اس کی اہمیت سے واقف تھا یہی سبب ہے کہ اس نے اپنے فوج کی بحالی اور ان کی ٹریننگ کے لیے الگ سے ایک وزارت بنائی جسے ’دیوان عارض‘ کہا جاتا تھا۔ شیر شاہ سوری نے علاو الدین خلجی کے فوجی  نظام کو اختیار کیا ہے۔ شیر شاہ کے پاس ڈیڑھ لاکھ گھوڑ سوار، پچیس ہزار پیدل فوجی، تین سو ہاتھیوں اور توپوں سے لیس ایک فوج تھی۔اس کے علاوہ ریاست کے اہم مقامات کے تحفظ کے لیے پولیس کا دستہ بھی موجود ہوتا تھا۔ اسی زمانے میں گولے داغنے کا رواج شروع ہوا تھا۔ شیر شاہ سوری نے فوج میں بدعنوانی روکنے کی تدابیر بھی تیار کیے تھے۔ فوج کی سیلری ، بادشاہ خود طے کیا کرتے تھے۔

 

۳۔ دیوان انساں:۔

یہ خط و کتابت سے متعلق وزارت تھی۔ سرکاری فیصلے، حکم ناموں کے علاوہ سرکار کے ہر اہم فیصلے اور عہدیداران کے ساتھ کیے گئے خط و کتابت کی ذمہ داری اسی شعبے کے ذمے تھی۔

 

۴۔ دیوان رسالت:

میں نے اوپر کے حصے میں ذکر کیا ہے کہ شیر شاہ سوری نے ہر پرگنہ کے لیے ایک ہندو مصنف کو منتخب کیا تھا جس کی ذمہ داری حکومت کے اہم فیصلوں کی تفصیل رکھنا تھی۔ اس سے شیر شاہ سوری کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ وہ بلا کسی مذہبی تفریق کے حکومت کے اہم عہدوں پر ہندو وں کو بھی وہی مقام دیا جو دوسرے مذاہب خاص طور پر مسلمانوں کو دیے جاتے تھے۔جہاں تک دیوان رسالت کا تعلق ہے ، یہ شعبہ شیر شاہ کے عہد میں مذہب اور مذہبی امور سے متعلق ایک اہم شعبہ تھا۔

شیر شاہ مسلم بادشاہ ضرور تھا مگر ان کے دل میں غیر مسلموں کے لیے عزت تھی۔ تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ شیر شاہ کے عہد میں کئی اہم عہدوں پر ہندو مذہب کے لوگ فائز تھے۔یہاں تک کہ برہم جیت گوڑ، شیر شاہ کا سب سے لائق سپہ سالار تھا۔مشہور تاریخ دان کالکا رنجن قانون گو نے لکھا ہے کہ شیر شاہ کے عہد میں ہندوں کے ساتھ کسی قسم کا بھید بھاو نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی اس سے نفرت کی جاتی تھی، ان کو بھی وہی عزت حاصل تھی جو دیگر عوام یعنی مسلمانوں کو حاصل تھے۔

 

۵۔ دیوان قضا:۔

شیرشاہ سوری نے عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں انصاف دینے کا بھی ذمہ اٹھایا تھا۔ یہی سبب ہے کہ اس نے دیوان قضا کے نام سے ایک شعبے کو قائم کیا جس کا مقصد عوام کے مسائل کے ساتھ ان کو قانونی مدد فراہم کرنا تھا، تاکہ رعایا کے ساتھ انصاف کیا جاسکے۔شیر شاہ کا عدل و انصاف بھی کافی مشہور ہے۔ اس کے عہد میں امیر غریب اور بڑے چھوٹے میں کوئی فرق نہیں تھا، گنہگار خواہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو اس کو سزا ضرور ملتی تھی۔یہاں تک کہ بادشاہ سے قربت رکھنے والوں کے ساتھ بھی کسی قسم کی رعایت نہیںکی جاتی تھی۔پرگنہ میں دیوانی مقدمہ کی سماعت کی ذمہ داری امین پر عائد تھی جب کہ دیگر تمام معاملات کی سماعت قاضی یا میر عدل کرتے تھے۔دارالحکومت میں قاضی ریاستی صدر کا درجہ رکھتے تھے ، سب سے اوپر بادشاہہوتے تھے، جو ہر فیصلے میں سپریم پاور رکھتے تھے۔

۶۔ کرنسی اور سکہ کا استعمال:۔

شیر شاہ سوری نے محصول اور کرنسی میں سدھارنے کرنے پر بھی زور دیا ۔ اس نے سونے، چاندی اور تانبے کے سکّوں کی ایجاد کی ۔ ۱۶۷ گرام سونے کے سکّوں کو اشرفی کہا جاتا تھا، اور چاندی کا سکّہ  ۱۷۵ گرام کا ہوتا تھا اسے روپیہ کہا جاتا تھا۔یہی نہیں ۳۲۲ گرام کے تانبے کے سکّے بھی اسی زمانے میں شروع ہوا جسے دام کہا جاتا تھا۔شیر شاہ کے زمانے میں ایک روپیہ ۶۴ دام کے برابر ہوتا تھا۔شیر شاہ کے کرنسی نظام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ نظام ۱۸۳۵ تک رائج رہا۔ معروف تاریخ داں   Vincent A Smith  نے لکھا ہے کہ شیر شاہ نے جس کرنسی نظام کی ابتدا کی تھی،اسے نہ صرف مغل حکومت نے اختیار کیا  بلکہ برطانیہ حکومت نے بھی اس کو اپنی حکومت کے لیے  بنیاد بنایا۔ ہندوستان میں ۱۵؍ اگست ۱۹۵۰ کو نیا ’آنا سسٹم‘ نافذ ہوا۔ان سب کے باوجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ شیر شاہ سوری نے پہلے پہل ’روپیہ‘ لفظ کا استعمال کیا ، اور آج بھی ہندوستان، پاکستان، نیپال اور سری لنکا جیسے سات ملکوں میں یہ رائج ہے

 

۷۔ نظام محصول:۔

شیر شاہ نے اپنے عہد میں محصولی نظام کو بھی درست کرنے کی پہل کی، اس نے مختلف اور پریشان کُن محصولی نظام کو آسان بناتے ہوئے  کاروبار کے استعمال میں آنے والی اشیاء پر سرحد ٹیکس اور فروخت کرنے کے مقام پر محصول لینے کا فیصلہ کیا۔ اس سے جہاں کاروباریوں کو مختلف قسم کے محصول  دینے سے چھٹکارا ملا وہیںعوام کو یہ فائدہ ہوا کہ ضرورت کی چیزیں سستی ہو گئیں ، یہی نہیں کاروبار ی نظام کو بہتر بنانے میں بھی اس سے مدد ملی۔

 

۸۔ کسان کے لیے انتظام:۔

شیر شاہ سوری کسانوں کو پورا خیال رکھتے تھے، ان کا خیال تھا کہ کسان مظلوم ہوتے ہیں ، اور عموماً افسران  ان پر ظلم کرتے ہیں،اس لیے اگر بادشاہ وقت بھی کسانوں کے ساتھ ظلم کرتا ہے تو کسان اپنا شہر اپنا گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہوجائے گا، اور اگر ایسا ہوا تو کسانوں کے ساتھ ساتھ ملک کابھی بہت نقصان ہوگا۔ شیر شاہ سوری کے زمانے میں کاشت کاری کی زمینیں بہت تھیں۔ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ آفیسران ایک پٹے پر لکھ کر ٹیکس کی مقدار بتا دیا کرتے تھے۔ شیر شاہ نے قحط سالی جیسے قدرتی مصیبت سے مقابلہ کرنے کے کا ایک راستہ منتخب کیا تھا۔ وہ کسانوں سے ایک بیگھا زمین پر ڈھائی سیر اناج وصول کرتے تھے، تاکہ کسی بھی مصیبت سے بآسانی مقابلہ کیا جاسکے۔

 

۹۔ آمد ورفت کا نظامـ:۔

شیر شاہ سوری ایک ذہین حکمراں تھا ،اسے ان تمام عوامل سے واقفیت تھی جس سے عوام کو بہترزندگی دی جاسکتی تھی ، ساتھ ہی حکومت کو استحکام اور مضبوطی بھی مل سکتی ہے۔ اس نے ایک طرف جہاں محصولی نظام کو درست کیا وہیں مذہبی رواداری اور کرنسی نظام کو بھی بہتر بنانے کی پہل کی۔ شیر شاہ سوری نے گرینڈ ٹرنک روڈ بنایا، یہ اس زمانے کی ہی نہیں اب تک کی سب سے لمبی سڑک ہے۔ یہ سڑک پندرہ سو کوس لمبی ہے۔شیر شاہ سوری نے پکی سڑک کے دونوں کناروں پر پیڑ بھی لگائے تھے، تاکہ مسافر کو گرمی سے سکون مل سکے۔ یہی نہیں تھوڑی تھوڑی دور پر سرائے اور آرام گاہ بنائے گئے، جہاں مسلمانوں اور ہندوؤں کے لیے الگ الگ انتظام کیا گیا تھا۔ ان سرایوں کو ڈاک گھر کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ قانون گو نے لکھا ہے کہ شیر شاہ سوری نے تقریباً ۱۷۰۰ مسافر خانوں کی تعمیر کی تھی جس میں چند ایک آج بھی موجود ہیں۔ مسافر خانہ کے ارد گرد لوگوں کی آبادی بس گئی تھی، کسان اپنے اناج کو فروخت کرنے وہاں آیا کرتے تھے۔

 

۱۰۔ مسافر اور کاروباریوں کو دی جانی والی سہولیات:۔

شیر شاہ سوری نے اپنے گورنرز کو یہ حکم دیا تھا کہ مسافر اور کاروباریوں کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہ ہو، بلکہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ اس کے علاوہ شیر شاہ نے اس بات کا بھی حکم دیا کہ اگر کسی کاروباری یا مسافر کی موت ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں اس کے اشیا کو لاوارث نہیں کہا جاسکتا، شیر شاہ سوری اس عمل کو مسافر اور کاروباری کے ساتھ دغا اور دھوکا تصور کرتا تھا۔اس کا خیال تھا کہ سفر کے دوران موت کا شکار ہونے والے کاروباری یا مسافر کے سامان کو ان کے وارثین کو ایمانداری کے ساتھ پہنچا دیا جائے۔ کسی مسافر یا کاروباری کا سامان ضائع یا چوری ہونے کی صورت میںمقدمہ درج کیا جاتا تھا ساتھ ہی مکھیا اور زمیندار کو چور کے پکڑنے کی ذمہ داری تھی، ایسا نہ کرنے کی صورت میںزمیندار اور مکھیا جواب دہ ہوا کرتے تھے۔اور انہیں چور یا راہزن کو ملنے والی سزا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ شیر شاہ سوری کے اس سخت اصول کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عباس خان شیروانی نے لکھا ہے کہ’’ایک بوڑھی اور ناتواں عورت بھی اپنے سر پر زیوارت کی توکری رکھ کر سفر کرسکتی تھی، اور شیر شاہ کی سزا کے ڈر سے کوئی چور یا لٹیرا اس کے نزدیک نہیں آسکتا تھا۔‘‘

 

۱۱۔ پولیس اور خفیہ نظام:۔

شیر شاہ سوری نے ریاست میں امن و امان قائم رکھنے کی غرض سے پولیس کا محکمہ بھی قائم کیا۔پولیس کی ذمہ داری امن و امان قائم رکھنا اور گنہگاروںکو سزا دلوانا تھا۔ جہاں تک سزاکا تعلق ہے تو شیر شاہ کی تاریخ کو پڑھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سزا کے تعین کے لیے مقامی قانون کا خیال رکھا۔ دیہی علاقوں کے مجرموں کی دھڑ پکڑ کی ذمہ داری گاؤں کے مکھیا پر عائد تھی، ساتھ ہی گاؤں کی فضا کو پر امن بنانے کی ذمہ داری بھی مکھیا پر عائد تھی۔شیر شاہ  کے عہد میں امن کا جو حال تھا اسے بیان کرتے ہوئے نظام الدین نے لکھا ہے کہ اگر رات کے وقت کوئی شخص سونے سے بھرا تھیلا لے کر کسی سنسان مقام پر سو بھی جاتا تو اسے اپنے سامان کے تحفظ کے  لیے اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔ شیر شاہ نے خفیہ پولیس کا بھی انتظام کیا تھا جو سرائے  وغیرہ میں رہا کرتے تھے۔

 

۱۲۔ تعمیرات:۔

شیر شاہ سوری کے عہد میںتعمیرات پر بھی توجہ دی گئی۔اُس نے اس دور میں دہلی کے قریب ایک شہر بسایا تھا جس کا ایک حصہ جسے ہم پرانا قلعہ کے نام سے جانتے ہیں وہ اور اس میں موجود ایک مسجد ہی باقی بچی ہے۔اس کے علاوہ سہسرام میں موجود شیر شاہ کا مقبرہ، جو اس نے اپنی زندگی میں ہی تیار کروایا تھا، وہ کئی لحاظ سے قابل ذکر ہے۔گرانڈ ٹرنک روڈ جسے اس زمانے میں سڑک اعظم کہا جاتا تھا وہ بھی شیر شاہ سوری کے تعمیراتی ذہن کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

شیر شاہ سوری ادیبوں اور دانشوروں کی عزت کرتا تھا، ملِک محمد جائسی کی مشہور زمانہ کتاب ’پدماوت‘  اسی زمانے میں منظر عام پر آئی، اس کے علاوہ بھی کئی اہم کتابیں اس دور میں شائع ہوئیں۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو شیر شاہ سوری ایک انصاف اور امن پسند حکمراں تھا، جس نے حکومت کے کئی نئے ضابطے بنائے، ساتھ ہی عدل، و انصاف کے ساتھ ٹیکس اور عوامی سہولت وغیرہ بھی دھیان میں رکھا، یہی نہیںپکی سڑکوں کو بنانے اور کرنسی جاری کرنے پر بھی توجہ کی۔ شیر شاہ نے تکنیک کا بھی بہترین استعمال کیا تھا، اس نے زمین اور اس سے متعلق انتظامیہ کو تکنیک کے ذریعے بہتر کرنے کی کوشش کی۔

شیر شاہ کے کارناموں کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اگر اس کی حکومت کی مدت اور طویل ہوتی تو یقینا کچھ اورد بھی اچھے فیصلے اور اس کے نتائج سامنے آتے۔ میں نے اپنے س مختصر سے مضمون میں شیر شاہ کے چند اہم انتظامی نکات پراپنی توجہ مرکوز کی۔

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

شیر شاہ سورینوشاد منظر
0 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
اردو رباعی کا نصف النہار جوش ملیح آبادی – امیر حمزہ
اگلی پوسٹ

یہ بھی پڑھیں

جولائی 12, 2025

جولائی 12, 2025

حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –...

جنوری 20, 2025

کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

اکتوبر 8, 2024

حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی...

اکتوبر 7, 2024

نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام...

جولائی 23, 2024

مفتی عزیز الرحمن شاہدؔ چمپارنیؒ (یادوں کے چراغ)...

مئی 30, 2024

توقیتِ  علامہ محمد اقبال – پروفیسر محسن خالد...

مئی 29, 2024

رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

دسمبر 30, 2023

تو نے اے خیر البشرؐ انساں کو انساں...

ستمبر 26, 2023

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (593)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (201)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,041)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (534)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (204)
      • مثنوی کی تفہیم (8)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (402)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (214)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (474)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,130)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (33)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (896)
    • خصوصی مضامین (126)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (68)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں