۱۵/ اگست ۲۰۱۲ ء کو ہم پورے تزک و احتشام کے ساتھ اپنے پیارے ملک ہندوستان کی آزادی کی ۶۵ ویںسال گرہ منا رہے ہیں، لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہماری آج کی مروجہ تاریخ میں تحریک آزادی کی جوداستان مرقوم ہے وہ ناقص اور ادھوری ہے۔ تاریخ کے ایسے بھی اوراق ہیں جنھیں تعصب کی چادر میں لپیٹ کر عمدا فراموش کر دیا گیا اور تاریخ ہند کی کتابوں سے حذف کر دیا گیا۔آزادی ہند کی جوداستان ہم آپ کو سنانے جا رہے ہیں وہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی ؒ (۱۸۵۲۔۱۹۲۰) کی حکیمانہ اور عظیم جد و جہد سے شروع ہوتی ہے۔ ویسے بھی یہ رمضان شیخ الہند کی تحریک ’ریشمی رومال‘ کی ۱۰۰ ویں سال گرہ ہے۔ تحریک ریشمی رومال آزادی ہند کی ایک منصوبہ بند خفیہ کوشش تھی جس کا راز بد قسمتی سے منصوبہ پورا ہونے سے قبل ہی افشا ہو گیا ،نتیجتا قائد تحریک سمیت سینکڑوں علماء اور مجاہدین آزادی کو قید کی مشقتیں جھیلنا پڑیں۔ ہزاروں افراد کو وحشتناک موت کی سزا دی گئی اور ان گنت لوگوں کو زندان مالٹا کی اسارت میں ڈال دیا گیا۔
دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم حضرت شیخ الہندؒ نے ۱۸۷۷ ء میں ’ثمرۃ التربیت‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی، جس کا مقصد حکومت برطانیہ کے خلاف ایک مسلح بغاوت کی تیاری کرنا تھی۔ یہ تنظیم ۳۰ /سالوں تک قائم رہی۔ (تحریک شیخ الہند ، ص ۶۱)لیکن ۱۸۸۰ ء میں حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی ؒ کی وفات سے تنظیمی ڈھانچہ میں ایسا خلا پیداہوا جس کی وجہ سے تنظیم کا منصوبہ فضا میں بکھرتا ہوا نظر آنے لگا۔ (اسیران مالٹا، ص ۲۳)چنانچہ ۱۹۰۹ ء میں حضرت شیخ الہند نے اپنے فدائیین کو جمعیۃ الانصار کے نئے بینر تلے جوڑا۔ اس نئی تنظیم کے انتظامی امور کو سنبھالنے کے لئے مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کو دیوبند طلب کیا گیا۔ (عبید اللہ سندھی کی ذاتی ڈائری، ص ۲۰)
پہلی مرتبہ جمعیۃ الانصار کا اعلان۱۹۱۱میں دارالعلوم دیوبند کے سالانہ اجلاس میں کیا گیااور غیر منقسم ہندوستان اور بیرون ہند کے تیس ہزارممتاز علماء کے سامنے اس کے اغراض و مقاصد کے علاوہ جنگ آزادی کی ضرورت کو پیش کیا گیا۔تنظیم کے کامیاب آغاز اور عوام الناس کی جانب سے مکمل حمایت کی یقین دہانی سے حوصلہ پاکر جمعیۃ الانصار نے اپریل، ۱۹۱۱میں پہلی حکومت مخالف ریلی مرادآباد میں نکالی۔ علیگڑھ، لکھنو اور دیوبند سے شرکاء کا ایک جم غفیر جمع ہو گیا۔۱۹۱۲ اور ۱۹۱۳ ء میں حکومت برطانیہ کے خلاف کامیاب عوامی شورش کے اظہارکے لئے اجلاس عام منعقد کیا گیا جس میں میرٹھ اور شملہ کے ہزاروں افراد نے پورے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔جمعیۃالانصار نے جس قدر عوامی قوت کا مظاہرہ کیا، اس نے حکومت برطانیہ کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا، چنانچہ ارباب حکومت نے اس قوت کے سر چشمہ دارالعلوم دیوبند کو ہی نشانہ بنا لیا جہاں سے اس طرح کی طاقتور تنظیم نے جنم لیاتھا اور ۱۹۱۳ میں جمعیۃ الانصار پر پابندی عائد کردی۔حضرت شیخ الہند کو اب دارالعلوم کی بقا اور اس کے تشخص کی فکر لاحق ہوئی چنانچہ انھوں نے تنظیم کے سر کردہ ممبران سے اپنی ممبرشپ کو ختم کرنے کی تلقین کی تاکہ دارالعلوم دیوبند پر کوئی آنچ نہ آئے۔ (علمائے حق، جلد۱، ص۱۳۱، یاد بیضاء ۱۰۷، مقام محمود ۴۔۲۰۳، نقش حیات ۲:۱۴۴)
۱۹۱۳ ء میں جمعیۃ الانصار پر پابندی کے فورا بعد آزادی ہند کے متوالے ایک نئے نام ’نظارۃ المعارف‘ کے ساتھ دہلی میں اکٹھا ہوئے۔ مولانا عبید اللہ سندھی اور حضرت شیخ الہند اس نئے بینر کے روح رواں تھے۔ اس نئی تنظیم کی روح اور اس کا مقصد صرف آزادی ہند تھی۔ مجاہدین نے جہاںاس تنظیم کو دہلی تک پہونچے کے لئے وسیلہ کے طور پر استعمال کیاوہیں یہ رابطہ عامہ اور مالیاتی اعتبار سے بھی کافی کار آمد رہی۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبید اللہ سندھی اور حضرت شیخ الہند اسی تنظیم میں خفیہ ملاقات کیا کرتے تھے۔ (اسیران مالٹا، ۲۷ اور علماء حق، جلد ۱، ص ۱۳۶)
جب ۱۹۴۱ میں جرمنی اور برطانیہ کے درمیان پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تو مجاہدین آزادی نے اپنا طریقہ کار تبدیل کر دیا۔انھوں نے اندرون ملک کی کارروائیوں سے توجہ ہٹا لی اور مکمل طور پر جرمنی کا ساتھ دینے لگے۔ (نقش حیات جلد ۲، ص۲۱۰)
شیخ الہند کا سفر حجاز
یہ عالمی جنگ مجاہدین آزادی کے لئے ایک سنہرا موقع تھا جب وہ برطانوی مفادات کی جڑوں کو کھوکھلی کر سکتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے حکومت برطانیہ کے خلاف مسلح بغاوت کا منصوبہ بنایا۔ حاجی صاحب ترنگ زئی اور مولانا سیف الرحمن کابلی حضرت شیخ الہند کے رضا کار جماعت کے ممبر تھے۔ یاغستان کے مرکز باجور میں واقع زائیگی میں ان دونوں حضرات کا انتخاب فیلڈ کمانڈر کی حیثیت سے ہوا۔ (الجمعیۃ، شمارہ ۶ جنوری، ۱۹۸۵)حضرت شیخ الہند نے اپنے نائب مولانا عبید اللہ سندھی کو کابل روانہ کر دیا اور خود سعودی عرب تشریف لے گئے۔ اس سفر کا مقصد مسلم ممالک سے تعاون طلب کرنا تھا، اس لئے کہ ہتھیار اور ان ممالک کے عملی تعاون کے بغیر آزادی ہند محض ایک خواب تھا۔ اور یہی سفر برطانوی استعمار کے خلاف تحریک آزادی کا سب سے پہلا کامیاب قدم تھا جو بعد میں تحریک ریشمی رومال کے نام سے مشہور ہوا۔
حضرت شیخ الہند ۹ ا/کتوبر ۱۹۱۵ کو مکہ پہونچے اور وہان ترک گورنر غالب پاشا سے ملاقات کی۔ حضرت شیخ الہند کی درخواست پر خلافت عثمانیہ کے گورنر نے حکومت برطانیہ کے خلاف تعاون کا وعدہ کیا۔ برصغیر ہند کے مسلمانوں کو اس تعاون کی جانکاری دینے کے لئے گورنر نے عوام الناس کے نام ایک طویل خط لکھا جس میں انھیں آزادی کی جد و جہد جاری رکھنے کی تلقین کی گئی اور اپنی طرف سے علانیہ تعاون کا یقین دلایا گیا۔ (یہ بھی پڑھیں مسلم تحریکات آزادی : ایک نظر میں – تسنیم فرزانہ )
یہ بات اس وقت کی ہے جب تک ریاستہائے متحدہ امریکا نے عالمی جنگ میں کسی بھی متحارب پارٹی کی حمایت کا اعلان نہیں کیا تھا۔ بعد میں جب امریکا نے روس، فرانس اور برطانیہ کی متحدہ افواج کی حمایت کی تو جنگ کا نقشہ ہی پلٹ گیا۔ ترکی اور جرمنی کو شکست ہوئی اور بد قسمتی سے خلافت عثمانیہ خود ہی زوال پذیر ہو گئی۔ اب سر زمین ہند سے انگریزی استعمار کے خاتمہ کا حضرت شیخ الہند کا خواب فضا میں بکھرتا ہوا نظر آنے لگا۔ (اسیران مالٹا ۳۴، نقش حیات جلد ۲، ۲۱۲، تحریک شیخ الہند ۷۲)
ہندوستان کی پہلی جلا وطن حکومت
جب مولانا سندھی کابل پہونچے تو انھوں نے وہاں ایک حکومت قائم کی جس میںمولانا سندھی خود اور مولانا برکت اللہ بھوپالی نے عہدہ وزارت سنبھالا، جب کہ مہاراجا پرتاپ سنگھ صدر مقرر ہوئے۔ نومبر، ۱۹۱۵ میں ’لشکر نجات دہندہ‘کے نام سے ایک فوجی جماعت کی تشکیل عمل میں آئی جس کا مرکز مدینہ منورہ بنا اور حضرت شیخ الہندؒ اس کے چیف کمانڈر مقرر ہوئے۔ اسی دوران ’جنود ربانیہ ‘ کے نام سے ایک بین الاقوامی جماعت کی تشکیل ہوئی۔ اس جماعت کا مقصد انگریزی استعمار کے خلاف آزادی کی تحریک کے سلسلے میں عالمی برادری سے تعاون طلب کرنا تھا۔ حضرت شیخ الہند اس جماعت کے قائد منتخب ہوئے۔ (تحریک شیخ الہند، ۲۷۱، ۲۸۱، ۲۸۲)
مولانا عبید اللہ سندھی نے سعودی عرب میں مقیم حضرت شیخ الہند کے نام ایک خط لکھا جس میں کابل میں جاری سرگرمیوں اور آزادی کی جد و جہد کے تفصیلی خاکہ کے علاوہ ان مقامات اور افراد کے نام بھی ذکر کئے جو ہندوستان میں حکومت بر طانیہ کے خلاف مسلح جد و جہد کی قیادت کرنے والے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ ملک کے ہر خطہ سے عوامی شورش کے ساتھ مسلح جد و جہد کی جائے۔ یہ خط ایک ریشمی رومال پر تحریر کیا گیا تھا، اس لئے اس تحریک کا نام ہی ’تحریک ریشمی رومال‘ پڑ گیا۔ اس خط کے ساتھ مولانا محمد میاں انصاری نے بھی ایک خط لگا دیا جس میں جلا وطن حکومت کے عہدیداروں کے نام کے ساتھ ساتھ جنود ربانیہ کے آئندہ منصوبوں کا ذکر تھا۔ یہ خطوط شیخ عبد الرحیم سندھی کی معرفت مدینہ منورہ روانہ کر دیے گئے۔
بد قسمتی سے یہ خطوط رب نواز نامی ایک نو مسلم کے ہاتھ لگ گئے جو در حقیقت شیخ الہند کے نو مسلم عقیدتمند کے روپ میں برطانوی حکومت کا جاسوس تھا۔ بعد ازاں یہ خطوط ملتان کے برطانوی کمشنر کے پاس بھیج دئے گئے۔ خط پر مندرجہ تاریخ ۸/، ۹ /رمضان المبارک ۱۳۳۴ ہجری مطابق ۹/، ۱۰ /جولائی ۱۹۱۶ ء ہے۔ یہ خط کمشنر کے ہاتھوں میں اگست، ۱۹۱۶ ء کے پہلے ہفتہ میں پہونچا۔ اب سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی غلطی کس سے اور کیسے ہوئی؟ اس کا جواب اب تک کوئی نہیں دے سکا۔ (نقش حیات، جلد ۲، ص ۲۱۳، تحریک شیخ الہند، ۲۲۸، ۲۲۹)۔ بہر کیف ہجری کیلنڈر کے مطابق رواں رمضان ۱۴۳۳ تحریک ریشمی رومال کی سویں سالگرہ ہے۔
ریشمی رومال پر مرقوم خط کے پکڑے جانے کے نتیجہ میں برطانوی رکارڈ کے مطابق برطانوی سلطنت کے خلاف بغاوت اور شورش کے جرم میں ملک بھر سے ۲۲۲/ قائد علماء گرفتار کئے گئے۔ (مقام محمود، ۲۹۷، ۲۹۸) حضرت شیخ الہند اور ان کے رفقامولانا وحید احمد فیض آبادی، مولانا عزیز گل، حکیم سید نصرت حسین اور مولانا حسین احمد مدنی ۲۳ /صفر ۱۳۳۵ کومکہ میںگرفتار ہوئے اور انھیں ۲۹ /ربیع الثانی ۱۳۳۵ ہجری مطابق ۱۲ /فروری ۱۹۱۷ کو قاہرہ کے راستے بذریعہ بحری جہاز مالٹا بھیج دیا گیا جہاں انھیں تین سال چار ماہ کے لئے قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں۔رہائی کے بعد وہ ۸ /جون ۱۹۲۰ کو ممبئی پہونچے۔ مگر مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا محمد میاں منصور انصاری کو کئی برسوں تک جلا وطن رہنا پڑا۔ (سفرنامہ مالٹا: ۱۱۸، ۱۲۷ ، اسیران مالٹا ۵۱، نقش حیات جلد ۲، ص ۱۳۵) (یہ بھی پڑھیں جنگ آزادیٔ ہند میں علمائے اہلحدیث کا کردار – امام الدین امامؔ )
جمعیۃ علماے ہند کا قیام
۱۸۸۵ میں انڈین نیشنل کانگریس کی تشکیل ہوئی، اس کا مقصد تحریک آزادی میں شرکت کرنے یا کم سے کم حکومت میں برابر کی حصہ داری کے لئے ہندو مسلم اتحاد پیدا کرنا تھا۔ تین سو سے زائد علماء نے تحریک آزادی کے لئے ہندو مسلم اتحاد کے حق میں فتوے دئے جو متعدد بار ’نصرۃ الابرار‘ نامی اخبار میں شائع ہوئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ہفتہ واری ’الہلال‘ جاری کیا جس کے ذریعہ انھوں نے تحریک آزادی کی تشہیر کی۔
ریشمی رومال کا پردو فاش ہوجانے اور شیخ الہند اور ان کے رفقا کی گرفتاری کے بعد مارچ، ۱۹۱۹ میں علمانے جمعیۃ علمائے ہند کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے پہلے صدر مولانا مفتی کفایت اللہؒ منتخب ہوئے۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام تک ہندستان میں مقیم مجاہدین آزادی نے مسلح جد و جہد کی راہ ہموار کی۔ انھوں نے حصول آزادی کے لئے ’عدم تشدد‘ کے طریقے کو اپنایا۔
’خلافت کانفرنس‘ منعقدہ ۱۳ /نومبر، ۱۹۱۹ ء زیر صدارت مولانا فضل حق خیرآبادیؒ نے حکومت برطانیہ کے ’جشن فتح‘ کا بائیکاٹ کیا۔ اس تجویز کو سیٹھ گوتانی اور مہاتما گاندھی کی حمایت حاصل ہوئی۔ اس کے بعد مفتی کفایت اللہؒ نے ایک فتوی جاری کیا جس پر ۲۰ /علماء نے دستخط کئے۔ فتوی یوں تھا: ’مسلمانوں کے لئے حکومت برطانیہ کی ’جشن فتح‘ میں شرکت کرنا نا جائزہے یہاں تک کہ ہزیمت خوردہ سلطنت عثمانیہ کے حکام کے ساتھ سمجھوتا شریعت اور مسلم عوام کے جذبات کے موافق نہ ہو۔‘(جمعیۃ علماء پر ایک تاریخی نظر، ۵۹)
تحریک عدم موالات
اس نئی جمعیۃ کی پہلی کانفرنس ۲۸ /دسمبر ۱۹۱۹ ء کو مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی صدارت میں امرتسر میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس نے حضرت شیخ الہند اور مولانا ابو الکلام آزاد کی عدم رہائی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا۔ (جمعیۃ علماء کیا ہے؟ جلد ۲: ۵ ، ۱۶)
خلافت کانفرنس منعقدہ الہ آباد، ۹ /جون، ۱۹۲۰ میں ’تحریک عدم موالات‘ کے اجرا کا فیصلہ لیا گیا۔ (تحریک خلافت، ۱۵۵، ۱۵۶) ۱۹/ جولائی، ۱۹۲۰ کو ایک بیان جاری کیا جس میں ’تحریک عدم موالات‘ کی حمایت کا اعلان کیاگیا تھا۔ رسمی طور پر اس تحریک کا آغاز ۳۱/ اگست، ۱۹۲۰ ء کو ہوا۔ (اسیران مالٹا، ۵۳) بعد میں ۲۹ /اکتوبر، ۱۹۲۰کو دوبارہ ایک مفصل فرمان جاری ہوا جس کو الجمعیۃ نے ۵۰۰ /علماء کے دستخط کے ساتھ شائع کیا۔ (جمعیۃ علماء کیا ہے؟ ۲: ۳۰)اس فتوی سے شہ پاکر خلافت کمیٹی اور انڈین نیشنل کانگریس کے قائدین و رضاکار نے برطانوی استعمار کے خلاف علانیہ بغاوت شروع کردی۔ کلکتہ میں۶/ ستمبر ۱۹۲۰ء کو مولانا تاج محمد سندھی کی صدارت میں جمعیۃ علماء ہند کی ایک خاص کانفرنس منعقد ہوئی جس میں عدم موالات کی تجویز پیش کی گئی اور یہ پاس ہوئی۔ اس تجویز میں یہ اعلان کیا گیا تھاکہ حکومت برطانیہ سے کسی بھی قسم کا تعلق اور تعاون حرام ہے۔ (جمعیۃ علما پر تاریخی تبصرہ: ۵۸)
غیر ملکی اشیاء کے بائیکاٹ کی تحریک
۸/ اگست ۱۹۲۱ کو برطانوی حکومت نے خلافت کمیٹی کے اس فتوے کو غیر قانونی قرار دیااور ۱۸ /ستمبر کو اس فتوی کی اشاعت اور تقسیم کے جرم میں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا نثار احمد کانپوری، پیر غلام مجددی اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو کو گرفتار کر لیا گیا۔ (Shaikhul Islam: a Political Analyses, 99) ۱۸، ۲۰ /نومبر، ۲۹۲۱ کو جمعیۃ کی تیسری کانفرنس میں غیر ملکی اشیاء کے بائیکاٹ کی تجویز پاس ہوئی۔ اس بائیکاٹ کی حمایت کے جرم میں تیس ہزار افراد کو قید میں ڈال دیا گیا۔ ان میں سے بیشتر علماء اور مسلم مجاہدین آزادی تھے۔ اس کے بعد ’چوری چورا‘ کا حادثہ پیش آیا جس میں برطانوی فوج نے تین مجاہدین کو قتل کر دیاتھا اور اس کے جواب میں علاقائی عوام نے ۲۳ /برطانوی پولس اہلکاروں کو جہنم رسید کیا۔ اس حادثہ کی وجہ سے مہاتما گاندھی نے ۵ /فروری، ۱۹۲۲ ء کو بائیکاٹ اٹھانے کا اعلان کیا۔ چونکہ برطانوی پولس اہلکاروں کا قتل تحریک آزادی کی ’عدم تشدد‘ پالیسی کے خلاف تھا، اس لئے مہاتما گاندھی نے تحریک عدم موالات اور سول نافرمانی پر روک لگادی۔ (تحریک خلافت: ۲۴۳، ۲۴۴)
شدھی کرن تحریک : فرقہ وارانہ منافرت کا پہلا بیج
تحریک عدم موالات اورسول نافرمانی کا آغاز مشترکہ طور پرہندو مسلم قائدین کے اتفاق سے ہوا تھا۔ ۱۸۵۷ کی متحدہ جنگ کے بعد اب دوسری مرتبہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی، مزید یہ کہ تحریک سول نا فرمانی کو عوام الناس کی طرف سے بے پناہ مقبولیت بھی مل رہی تھی، اس لئے برطانوی حکومت کو دوسری مرتبہ ایک غیر متوقع مگر زبردست چلینج کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے انگریزوں نے اپنے سنگھی ایجنٹوں کے ذریعہ ’شدھی کرن‘ (مسلمانوں کو ہندو بنانے) کا سلسلہ شروع کیا۔ ہندو انتہا پسند جماعتوں کے ذریعہ انگریزوں کی شدھی کرن پالیسی جمعیۃ علماء، انڈین نیشنل کانگریس اور تحریک آزادی کی راہ میں زبر دست رکاوٹ بن گئی۔
چونکہ ہزاروں غریب مسلم کنبے شدھی کرن کے نام پر ہندو مذہب میں داخل کر لئے گئے تھے، اس کی وجہ سے دونوں مضبوط طبقوں کے درمیان زبردست فرقہ وارانہ خلیج پیدا ہو گئی۔ اور جمعیۃ علماء تحریک آزادی کے اپنے حقیقی مشن کو انجام نہ دے سکی۔ جمعیۃ نے اس چلینج کو سنجیدگی کے ساتھ قبول کیا اور ان غریب مسلم کنبوں کو اپنے اصلی مذہب اسلام کی طرف واپس بلانا شروع کیا۔ (جمعیۃ علماء کیا ہے؟)مگر اس چیز نے پہلے ہی کچھ ہندو اور مسلم عوام کے ذہن میں تفریق اور عدم اعتمادی کا بیج بو دیا تھا۔ برطانوی سازش کاروں نے اپنے مقصد کو پا لیا تھا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا عظیم ملک ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا اور اس کے تلخ اثرات سے اب تک ہماری فضا مسموم ہے۔ فرقہ واریت اور تعصب ہمارے ملک کے طول وعرض میں پھیلا ہوا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ذرایاد کرو قربانی – مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی )
مکمل آزادی کا مطالبہ
دسمبر، ۱۹۲۲ میں مولانا حبیب الرحمن عثمانی کے زیر صدارت جمعیۃ علماء کا چوتھا اجلاس ہوا، جس میں اسمبلی کے بائیکاٹ کی تجویز پاس ہوئی۔ کاکیناڑا میں جنوری ۱۹۲۴ کو مولانا حسین احمد مدنیؒ کی صدارت میں جمعیۃ کا پانچواں اجلاس ہوا۔ اپنے خطبہ صدارت میں حضرت مدنیؒ نے مکمل آزادی کا مطالبہ کیا۔ (مسلم علماء کا کردار: ۳۳) جمعیۃ علماء کے ساتویں اجلاس منعقدہ۱۱ تا ۱۴ /مارچ، ۱۹۲۶ء بمقام کلکتہ، زیر صدارت علامہ سید سلیمان ندویؒ میں پہلی مرتبہ باضابطہ طور پرمکمل آزادی کی تجویز پاس ہوئی۔ (تجویز کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو، جمعیۃ علماء کیا ہے؟ جلد ۲: ۱۱۹ تا ۱۲۱) ۵، ۶ /دسمبر ۱۹۲۶ ء کو پیشاور میں جمعیۃ علماء کا آٹھواں اجلاس عام زیر صدارت حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں سائمن کمیشن کی مخالفت کی تجویز پیش کی گئی اور پھرزبردست حمایت کے ساتھ پاس ہوئی۔ اس تجویز میں ایک جملہ تھا ’آزادی طبق میں رکھ کر پیش نہیں کی جاتی، اسے چھیننا پڑتا ہے۔‘ یہ جملہ پوری وضاحت کے ساتھ ان مجاہدین آزادی کے مزاج اور طبیعت کی عکاسی کرتا ہے۔ (جمعیۃ علماء کیا ہے؟ ۲: ۱۴۵)
جب جمعیۃ علماء نے سائمن کمیشن کے خلاف تجویز پاس کردی تو انڈین نیشنل کانگریس کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ مدراس کنونشن منعقدہ ۲۶/دسمبر، ۱۹۲۷ ء میں کانگریس نے ایک تجویز پاس کی جس میں برطانوی حکومت سے سائمن کمیشن کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ سائمن ناکام و نامراد ۳۱/ مارچ، ۱۹۲۸ ء کو برطانیہ لوٹ گیا۔ (مولانا آزاد کی سیاسی ڈائری: ۲۱۳، ۲۱۴)
جمعیۃ اور کانگریس میں فرق
۱۹۲۸ میں لکھنؤ میں آل پارٹی کانفرنس منعقد ہوئی، جمعیۃ علماء اس کی اہم ممبر تھی۔ کانفرنس نے’ نہرو رپورٹ‘ پرسخت تنقید کی جس میں برطانوی حکومت کے تحت خود مختاری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کانگریس پارٹی کی یہ تجویز جمعیۃ کی پالیسی ’مکمل آزادی‘ کے بالکل خلاف تھی۔ نتیجتا جمعیۃ نے کانگریس کے ساتھ تعاون ختم کر دیا یہاں تک کہ کانگریس نے موتی لال نہرو کی رپورٹ سے رجوع کیا۔ کانگریس کے لاہور اجلاس منعقدہ ۳۱ /دسمبر، ۱۹۲۹ میں کانگریس نے پانچ سال کے بعد جمعیۃ کے ’مکمل آزادی‘ کے مطالبہ کے حق میں ووٹ دیا۔
۱۹۲۹ میں گاندھی جی کے ڈانڈی مارچ کے لئے مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا فخرالدین، مولانا سید محمد میاں اور مولانا بشیر احمد بھٹیا سمیت جمعیۃ کے متعدد قائدین گرفتار ہوئے۔ جمعیۃ علماء کے نویں اجلاس منعقدہ ۳ تا ۵ /مئی، ۱۹۳۰ زیر صدارت مولانا معین الدین اجمیری، میں ایک تازہ تجویز پاس ہوئی جس کی رو سے کانگریس کے ساتھ اتحاد اور مکمل تعاون کا معاملہ کرنا تھا۔ (تحریک آزادی ہند میں مسلم علماء اور عوام کا کردار: ۹۹)
سول نا فرمانی تحریک
۱۹۳۰ کی تحریک عوامی نا فرمانی کے زمانے میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مفتی کفایت اللہؒ اور جنرل سکریٹری مولانا احمدسعید دہلویؒ گرفتار ہوئے۔ ۱۹۳۲ کی دوسری تحریک’سول نا فرمانی‘ کے زمانے میں کانگریس کی طرح جمعیۃ نے بھی ایک ترجمان مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ ادارہ حربیہ کا قیام عمل میں آیا جس کی ذمہ داری مولانا ابوالمحاسن سجادؒ کو سونپی گئی۔ مفتی کفایت اللہؒ جمعیۃ کے سب سے پہلے ترجمان مقرر ہوئے۔ انھوں نے ۱۱ /مارچ ۱۹۳۲ ء کو ایک لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل ایک جلوس کی قیادت کی اور دہلی کے آزاد پارک میں گرفتاری درج کروائی۔ وہ جیل میں ۱۸ /ماہ تک رہے۔ (الجمعیۃ، مفتی اعظم نمبر: ۴۴، ۴۵)دوسرے ترجمان مولانا حسین احمد مدنیؒ دہلی سے دیوبند جاتے ہوئے راستے میں گرفتار کر لئے گئے۔پھر ایک کے بعد دوسرے ترجمان مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا سید محمد میاں دیوبندی، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی وغیرہ گرفتار ہوتے رہے۔ ان میں سے بیشتر حضرات نے ایک سے دو سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی گذاری۔ تقریبا نوے ہزار لوگ گرفتار ہوئے جن میں سے پینتالیس ہزار علماء اور مسلم تھے۔ (کاروان احرار: ۱، ۱۰۶)
فرقہ واریت کی بنیاد
تحریک آزادی آئے دن اپنی جڑ مضبوط تر کرتی جا رہی تھی۔ گرچہ برطانیہ نے خلافت عثمانیہ اور جرمنی کے مقابلے میں فتح حاصل کر لی تھی، لیکن وہ ہندوستان میں حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھی۔ قومی پیمانے پر شورش اور مجاہدین آزادی کی طرف سے سول نا فرمانی جیسے چلنج کا سامنا کرنے کے بعد برطانوی حکام کے پاس صرف ایک راستہ تھا کہ وہ ہندو مسلم کے درمیان فرقہ واریت کے بیج بو دے، کیونکہ ان دونوں کمیونٹی کے کار کنان متحد ہوکر برطانوی مفادات کی راہ مین سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے تھے۔ ۱۹۳۵ میں “Divide and Rule” کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے برطانوی حکومت نے مذہبی تناسب کی بنیاد پر نمائندگی کے لئے اسمبلی الیکشن کا اعلان کیا۔ ایک ہندو کو صرف ایک ہندو کے لئے اسی طرح ایک مسلم کو صرف ایک مسلم کے لئے ووٹ کرنے کی اجازت تھی۔ (تحریک آزادی ہند میں مسلم علماء اور عوام کا کردار: ۱۰۰) یہ الیکشن ہی شاید وہ زہریلا بیج تھا جس نے بعد میں ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرکے بڑی تعداد میں تلخ پھل دئے۔ ہندو اور مسلم مجاہدین آزادی جو اس ملک کی آزادی کے لئے دوش بدوش لڑ رہے تھے، اب ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے شکوک پیدا ہو گئے تھے۔ اس کا نتیجہ صرف خون ریزی اور فرقہ واریت پر مبنی سیاست ہی نہیں تھی، بلکہ یہی چیز بعد میں تقسیم ہند کا بھی اصل سبب بنی۔
مسلم لیگ کو پنپنے کا غیر متوقع موقع
مسلم لیگ کا وجود سیاسی جماعت کی حیثیت سے ۱۹۰۶ میں ہوا۔ مگر انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ کے اعلان سے قبل تک یہ لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول نہ کر سکی۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ عوامی حمایت اور مسلمانوں کے دلوں میں عزت حاصل کرنے میں بہت سست رفتار ثابت ہوئی۔ چونکہ انتخابات مذہب اورقومیت کی بنیاد پر ہونا تھے، اس لئے جمعیۃ قیادت کے سامنے کار کردگی کے کوئی واضح خطوط نظر نہیں آرہے تھے کہ اسے اس طرح کے سیاسی حالات میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور یہ بات تو یقینی ہے کہ جمعیۃ اس ان چاہے انتخاب میں بلاواسطہ شرکت ہی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
جمعیۃ نے مسلم لیگ کو انتخابات میں آگے بڑھاکر پس پشت اس کی مکمل حمایت کا فیصلہ کیا۔ جمعیۃ علماء کے پاس مستقبل کے لئے کوئی واضح سیاسی منشور نہیں تھا، مزید یہ کہ مسلم لیگ اور کانگریس کے کچھ ممبران انتہا پسندانہ موقف رکھتے تھے، اس لئے ان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان دوریاںبڑھتی چلی گئیں۔ حالات بد سے بد تر ہو گئے۔ اس لئے کہ دو سیاسی پارٹی (ہندو اور مسلم) کے نظریہ کے تحت دونوں میں سے ایک حکمراں ہوتی اور دوسری حزب اختلاف۔ اور دونوں قوموں کے درمیان جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور محبت کا جذبہ پایا جاتا تھا وہ ختم ہو جاتا۔ اور یہی ہوا بھی کہ دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو بدنام کرنے کے لئے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا، یہاں تک ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لئے مذہب کو بھی بنیاد بنایا۔ نتیجہ کے طور پر ایک جماعت کو دوسری جماعت کے ہاتھوں نقصان پہونچانے والے سازش گروںکو اپنا کھیل کھیلنے کا خوب موقع ملا۔ (یہ بھی پڑھیں تحریکِ آزادی اور اردو غزل – پروفیسر کوثر مظہری )
رفتہ رفتہ دونوں کمیونٹی نے اس جماعت کی علانیہ حمایت شروع کردی جس کے حق میں ا س نے ووٹ دیا تھا۔ اس طرح کے نازک سیاسی حالات میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی، سیاسی اتحاد اور ملک کی مکمل آزادی کے لئے جمعیۃ علماء ہند کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ مولانا مدنی، مولانا آزاد اور مہاتما گاندھی کو بڑی دیر ہو چکی تھی۔ناچار جمعیۃ علماء نے مسلم لیگ سے اتحاد ختم کر لیااور اس کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق نہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ مگر مسلم لیگ نے عوام الناس کی جانب سے مطلوبہ حمایت حاصل کر لی تھی تاکہ وہ حکومت برطانیہ پر یہ تاثر دے سکے کہ وہی مسلمانوں کی صحیح نمائندہ جماعت ہے۔ (تاریخ جمعیۃ علماء ہند: ۹۴) دوسری جانب حکومت برطانیہ نے “Divid and Rule” کا جو پود لگا یا تھااب وہ دو قوموں کو آپس میں تقسیم کر کے ایک تناور پھلدار درخت بن چکا تھا اور حکومت اس کا مزہ لے رہی تھی۔
دوسری عالمی جنگ میں جبری فوجی بھرتی کی مخالفت
دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں جمعیۃ علماء ہند نے فوج میں جبری بھرتی کی زبردست مخالفت کی۔ انھوں نے برطانوی جنگ میں مکمل عدم تعاون کا اعلان کیا۔ ’علماء ہند کا شاندار ماضی‘ کتاب پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور اس کے مصنف مولانا محمد میاںؒ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ۱۳، ۱۴ /جولائی، ۱۹۴۰ کو جمعیۃ علماء کی مجلس عاملہ نے کتاب پر پابندی اور مصنف کی گرفتاری کو ایک جابرانہ قدم قرار دیا۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا محمد قاسم شاہجہاں پوری، مولانا ابوالوفا شاہجہاں پوری، مولانا شاہد میاں فخری الہ آبادی، مولانا محمد اسمعیل سنبھلی، مولانا سید اختر الاسلام اور دوسرے قائدین جمعیۃ فوج میں جبری بھرتی اور برطانوی فوجی جد جہد کی مخالفت کے جرم میں گرفتار کر لئے گئے۔ (تاریخ جمعیۃ علماء ہند: ۱۰۳)
ہندوستان چھوڑو تحریک
جمعیۃ کے ایک نجی اجلاس منعقدہ ۲۳ تا ۲۵/ اپریل، ۱۹۴۰ ء بمقام بچھراؤں، میں مولانا حسین احمد مدنیؒ نے ہندوستان کی مکمل آزادی کے سوال کو دوبارہ اٹھایا۔ اس کی وجہ سے ۲۴ /جون کو اتحاد کانفرنس میں شرکت کے لئے جاتے ہوئے راستے میں ہی مولانا کو گرفتار کر لیا گیااور چھ ماہ قید کی سزا دی گئی۔ یہ چھ ماہ کی مدت پوری ہونے والی تھی کہ ۴ /جنوری ۱۹۴۳ کو محکمہ دفاع کی جانب سے دوسری نوٹس آئی اور انھیں ۲۲/ اگست، ۱۹۴۴ تک کے لئے نینی تال جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد ان کی غیر مشروط رہائی ہوئی۔ ۵ ا/گست، ۱۹۴۲ ء کو جمعیۃ علماء کی مجلس عاملہ نے ایک تجویز پاس کر کے انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے کا حکم دیا۔ اس تجویز پر مفتی کفایت اللہ، مولانا احمد سعید، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور مولانا عبد العلیم صدیقی کے دستخط تھے۔ جمعیۃ کے بعد کانگریس نے بھی ۹ /اگست کو اپنے اجلاس میں ’ہندوستان چھوڑو‘ تحریک کی تجویز پاس کی جس کے نتیجہ میں کانگریس اور جمعیۃ کے قائدین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔
عظیم ہندوستان کی آزادی کا جشن اور تقسیم کا ماتم
پھر ایک دن ایسا آیا کہ ہمارا ملک جو ایک ملک ہندوستان تھا، عظیم ہندوستان، وہ برطانیہ عظمی کے جابرانہ اور غاصبانہ پنجہ سے مکمل طور پر آزاد ہو گیا، لیکن سازشی ذہنیت رکھنے والے انگریز ہمیں ایک داغ دے گئے جو آج بھی نہ مٹ سکا ایک درد دے گئے جس کی ٹیس آج بھی محسوس ہوتی ہے، وہ تھا تقسیم ہند کا داغ۔ تقسیم ہند ایک ایسا نا خوشگوار حادثہ تھا جس نے ۱۴ /اگست ۱۹۴۷ ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ۱۵ /اگست ۱۹۴۷ ء کو ریپبلک آف انڈیا کو جنم دیا۔
مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |