بر مصرع اقبال عظیم
کٹ گئی راہ تیری یاد میں چلتے چلتے
’’عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے‘‘
نام محبوب کا لیتے رہے مرتے مرتے
’’عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے‘‘
پیٹ کی آگ سے ہم کو نہ ڈرائے کوئی
’’عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے‘‘
جادٔ عشق میں جلنے سے ملی ہے منزل
’’عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے‘‘
عشق میں خوب جلا ، خوب بھنا فرقت میں
’’عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے‘‘
ہجر کے درد فقط ہجر کے عاشق بولے!
’’عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے‘‘
بے وطن ہونے کی بیتا ہی ہے بے وطنو! کو
’’عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے‘‘
عشق کا روگ فقط میرؔ میں دیکھا ہم نے
’’عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے‘‘
صرف شاہدؔ ہی نہیں دل جلے بھی کہتے ہیں
’’عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے‘‘
آنچ فرقت کی جلائے گی مجھے کیا شاہدؔ؟
’’عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے‘‘
٭٭٭٭٭٭٭٭
علی شاہد ؔ دلکش،
پورباشا، کانکی نارہ، مغربی بنگال
asd.resident.editor@gmail.com
موبائیل:8820239345
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page