اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کے عظیم المرتبت درجہ سے سرفراز کرکے زمین پربھیج دیا۔اس شرف و تکریم میں یہ راز پوشیدہ ہے کہ انسان حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی پاسداررہے۔بندہ خدا کی حیثیت سے خدمتِ خلق یعنی خدا کے بندوں کی خدمت کو اپنا شعار بنالیں اخوت،ہمدردی،محبت، رواداری،نیکی،خلوص کا مجسمہ بن کر انسانوں کے دکھ و درد،رنج و الم ،خوشی وغمی میں اپنا بھر پورتعاون شاملِ حال رکھے تاکہ دنیا میں امن و امان،سچائی اور خوشحالی کا بول بالا رہےنیز انسانوں میں یہ شعور برقرار رہے کہ وہ ایک ہی خاندان کے افراد ہیں۔جس کی طرف قرآن میں واضح اشارہ ہے کہ "اے لوگو ڈرو اپنے رب سے جس نے پیدا کیا تمہیں ایک ہی جان سے اور پیدا کیااس سے جوڑا اس کا اور پیداکیا ان دونوں میں سے بہت سے مرد اور عورتیں۔”(سورہ نساء ،رکوع ١)۔یعنی بنی نوع انسان کو کسی بھی طرح کے تفرق سے باز رہ کرآپس میں مل جل کر رہنا چاہیے۔اس سے پہلے کہ انسان کی نوعیت اور شعر وادب میں اخذ و استفادہ کی روایت سے بحث کی جائےمناسب معلوم ہوتا ہے کہ آغاز میں ہی اس امر کا تعین کرلیا جائے کہ لغات میں انسان دوستی کا کیا مفہوم ہے نیز اصطلاحاً "انسان دوستی” سے شعر وادب میں کیا مراد ہے؟
اردو لغات میں انسان دوستی کے معانی اس طرح ملتے ہیں:
"بنی نوع انسان سے محبت کی تعلیم،انسان نوازی،انسانیت پرستی,انسانیت پسندی،مذہبِ انسانیت، مسلک انسانیت؛وہ نظام یا فکرو عمل ہے "جس میں انسانی مفادات حاوی ہوتے ہیں”(1)”ہیومنزم مسلک انسانیت یا فلسفہ انسانیت جس کی رو سے انسان کی ذات کائنات کا مرکز ہے۔اس لئے بجائے عالمِ آخرت یا عالم طبیعی کے مجموعی انسانی زندگی کا مطالعہ اور اس کی ترقی کی کوشش کرنا چاہیے۔”(2)
انگریزی زبان میں انسان دوستی /انسان پرستی کے لیے "Humanism”کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
"انسائیکلو پیڈیا آف رلیجن اینڈ ایتھکس” میں انسان پرستی (Humanism)کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔
"Humanism designates the philosophic attitude which regards the interpretation of human experience as primary concern of all philosophizing ,and asserts the adequacy of human knowledge for this purpose .By thus putting man into the centre of intellectual universe and giving to all science and literature as reference to human life and its purposes”
ترجمہ)انسان پرستی فلسفیانہ رویہ کی صراحت کرتی ہے جو کہ تمام فلسفیانہ علوم میں بنیادی تعلق کی حیثیت سے انسانی تجربے کی خیر سگالی کرتی ہے۔اور اس مقصد کیلئے(انسان دوستی)انسانی علوم کے موزوں ہونے پر اصرار کرتی ہے۔اس کے ذریعے ذہنی اور عقلی اعتبار سے انسان کائنات کے مرکز میں پہنچ جاتا ہے اورتمام ادب سائنس کا انسانی زندگی اور اس کے مقاصد سے تعلق پیدا ہوتا ہے۔”(3)
ہومنزم یا انسان پرستی کی فکر کااصلی سرچشمہ یونانی فکر اور اس کے ماتحت علوم انسانی(Studia Humanitatis)سے نکلتا ہے۔پانچویں صدی قبل مسیح کا یونانی مفکر "پروتاغورث” کہتا ہے کہ
Man is the measure of all things
"انسان کائنات کی تمام اشیاء کا پیمانہ ہے ۔”
یعنی انسان تمام کائنات کی پہچان ہے۔ہر فکرو عمل کا معیار انسان ہی سے طے پائے گا۔مغرب میں انسانیت پرستی کی اس تحریک کا براہِ راست تعلق نشاة ثانیہ (Renaissance ) سے وابستہ ہےجو بعد میں جدیدیت کی تشکیل و تعمیر میں بنیادی محرک ثابت ہوئی۔نشاةثانیہ کی تحریک چودہویں صدی عیسوی کو اٹلی سےشروع ہوکر سترھویں صدی عیسوی تک سارے یورپ میں پھیل جاتی ہے۔اس تحریک میں ان قدیم یونانی اوررومی علوم پر زور دیا گیا تھا،جن میں انسان کا مطالعہ ہی مقدم تھا کہ وہ اپنی عقل، سمجھ، صلاحیت اورتجربے کی بنیادپر اپنے اچھے برے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔اسی لیے اسے انسان پرستی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے نیز یہ علوم وافکارعقلیت(Rationality) پر مبنی تھے جو وحی کے انکاری بھی تھے۔ پہلے فطرت ایک مقدس شئے سمجھی جاتی تھی لیکن اب مکانیت ہی کا بار ہر جگہ ہوگیا۔ یوں یورپ کاوہ روایتی معاشرہ تغیر و تبدل سے متصادم ہوتا ہے جس میں مذہب،عقیدہ اور کلیسائی استبداد کا دوردورہ تھا۔خدایان ِ کلیسا جو بزعم حق و باطل ،حلال و حرام اور جائز وناجائز کے اجارہ دار بنے تھےاپنی مرضی کے خلاف کوئی اقدام کسی بھی طرف سے برداشت نہیں کرتے۔نتیجتاً انسان کی فطری امنگوں اور صلاحیتوں کے خلاف کلیسا کی مصنوعی رکاوٹیں خود کلیسا کے حق میں مضر ثابت ہوئیں۔ردعمل کے طور پر ایک ایسا نیا طبقہ بارز ہوا جو اپنی تمام تر اکملیت آزادی، عقلیت اورمادیت میں ظاہر کرتا تھا۔اس آزادی سے "مغربی ذہن ممنوعات کے در پر دستک دینے،نامعلوم کی تاریکیوں میں اترنے،اجنبی منطقوں کو دریافت کرنے نکل کھڑا ہوا۔ "(4)
چنانچہ مادی ترقیات اور علم وتمدن کی زد سے مذہبی تعمیرات یکے بعد دیگرے گرتی گئیں۔عقائد بھی بدلتے گئے،رسم ورواج اور معاشرتی قوانین میں بھی ترمیم ہوگئی۔اس تناظر میں اشفاق حسین لکھتے ہیں:
"نشاة ثانیہ نے ان عقائد کے بتوں کو توڑ کر انسان اور انسانی زیست کو آزادی فکر وعمل سے آشنا کیا۔ماضی کی دریافت نے انسانوں میں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد پیداکیا اور تاریخی تسلسل کا انکشاف کیا۔مختلف و متصادم رسوم و مسلکوں کے باجود انسانی فطرت کی شناخت کی راہ کھولی۔ادب،فلسفہ اور آرٹ کی قدر سکھائی ۔تجسس کو اکسایا،تنقید کی ہمت افزائی کی اور قرون وسطی نے جو تنگ ذہنی رکاوٹیں کھڑی کردیں تھیں ان کو ردکیا۔”(5)
ان علوم و افکار کےزیرِسایہ ہی اہلِ یورپ نے وہ سیکولر قسم کے اصول و ضوابط وضع کیے جو انہیں نئے دریافت شدہ علاقوں یا نوآبادیات جن میں ایشیاء،امریکہ اور افریقہ کے ممالک شامل تھے، میں ان کی سیاسی اور کاروباری عمل داری کو مستحکم بنیادیں فراہم کرسکتے تھے۔ایک طرف جہاں ان کو مذہب کے روایتی حصاراورجاگیردارانہ طبقہ سے نجات نصیب ہوئی وہیں دوسری جانب آزادی اور انتخاب نے ان کو روشن خیالی،لبرل ازم،سرمایہ داری،مساوات ،قوم پرستی اور جمہوریت پسند بنادیا۔اس سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ خدا کے بجائے انسان اس نئے تشکیل شدہ معاشرہ کا مطلق قدربن گیا۔ جہاں علم وادراک کا بنیادی ذریعہ عقل سمجھی جاتی ہے اورمادی ترقی اور انسانی آزادی کو بھی ضروری گردانا جاتا ہے،وہیں دوسری طرف یہ ان نوآبادیاتی ملکوں میں اپنی چیرہ دستی سے اپنے پنجوں کو غلام ومظلوم رگ و ریشہ میں اور گہرا گاڑھ دیتے ہیں۔یعنی اپنے گھرکے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے یہ دوسروں کے گھروں کو اجاڑنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے۔دراصل اس نئے نظامِ حیات کی نیو مادہ پرستی پر کھڑی ہے جو روحانیت سے خداواسطے کا بیر رکھتی ہے۔انسان کو مرکزِ نگاہ بنا کر اب اس پر یہ ذمہ داری آن پڑی کہ وہ ادب،سائنس اور معیشت کے میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کے بھرپورمظاہرہ سے فوق البشر (Superman ) بن کرتسخیرِ کائنات کرے تاکہ انسانی زندگی بہتر سے بہتر بن سکے۔
"اس تحریک کا مقصد انسانی وقار کی بحالی اورعہدِوسطیٰ کے ظلمت کدے سے انسانی شرف اور فضیلت کے تصور کو نجات دلانا بھی تھا،علاوہ ازیں اس تحریک کا ایک اور مقصد کشف اور وجدان پر تعقل کی برتری کا اثبات، پرانے متون کی بحالی اور ایک نئے لسانی معیار کی تلاش بھی تھا۔شاید اسی لیے ادب اور آرٹ کی دنیا میں کوری تعقل پسندی کے خلاف ردعمل کی صورتیں بھی بہت جلد نمودار ہوئیں اور انسان دوستی کے تصور کو ایک وسیع تر اور پیچیدہ ترسیاق میں دیکھا جانے لگا۔”(6)
انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب نے انسان کو افادیت پرست بنادیا،ہرچیز کو افادی نقطہ نظر سے دیکھا جانے لگا۔جس سے نہ صرف صدیوں کی انسانی اقدار روبہء زوال ہونا شروع ہوئیں بلکہ انسان مشینوں کی دوڑ میں جذبات سے عاری خود ایک مشین بن گیاچنانچہ مشینی معاشرہ اور میکانکی سماج میں انسانی زندگی ضروریاتِ انسانی تک محدود ہوگئی جس سے اسکی شخصیت عدم توازن کی شکار ہوگئی،ساتھ ہی عالمی جنگوں کی یلغارنے انسان کو سیاسی،سماجی،معاشی،نفسیاتی طور پر بھی بُری طرح مجروح کیا کہ انسانی برتری وعظمت کے احساسات رفتہ رفتہ فنا ہوتے جارہے تھے۔مادی نظامِ حیات کی ساری آزاد خیالی،فیشن ایبل عقلیت پرستی انسان کو مطمئن کرنے میں قطعی ناکام ہوگئی۔یہی وجہ ہے کہ ہیومنزم کے فلسفے کی اہمیت از حد بڑھ گئی کہ ایک ایسا قانون ہونا چاہیے جس کے ذریعے اس جنگ وجدل کو روک کر انسانی دنیا کی بقا،تحفظ اورامن و امانی کو یقینی بنایا جاسکے۔بنابریں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا،جوگوکہ اس غرض سے بنایا گیا کہ آئندہ کےلئے جنگوں کوروکا جاسکے اورامن مذاکرات کے ذریعے سے آپسی مسائل کا حل تلاش کیا جائے گا۔لیکن وقت کے تقاضوں کےساتھ ہی اس کا دائرہ کار بھی بڑھتا چلا گیا۔جہاں دیگر شعبئہ حیات اقتصادیات،تعلیم،ثقافت،
صحت،معاشرت اس کے حلقئہ دام میں شامل ہوگئے وہیں انسانی حقوق کی پاسداری کا منصوبہ بھی منظور ہوا۔اس طرح 1948ءمیں عالمی منشور برائے انسانی حقوق کا چارٹربنادیا گیا،جس میں انسان دوستی کے معیارات طے کرکے انہیں مختلف دفعات کی شکل دے کر بنیادی اصول وضع کیے گئے ۔
غرض ہیومنزم وہ فلسفیانہ تصور ہے جس کی رو سے ادب میں نئے علوم و افکار کا مطالعہ انسان دوستی کے حوالے سے کیا جانا چاہیے،تمام علوم کا مقصد انسان کی فلاح وبہبود ہونا چاہیے تاکہ کرہء ارض انسانوں کی سکونت کے لیے وہ جنت نشان ثابت ہوجائے، جہاں چہاردانگ انصاف، امن وآشتی، خوشحالی،محبت اورترقی بسیارہو نیز بلاامتیاز مذہب،وطن،رنگ و نسل،ذات،
جغرافیہ اور مال وغیرہ کےتمام انسانوں کےبرابر حقوق کی حفاظت ہو۔
ادب میں انسان ذات کومرکزیت کی یہ روایت اس سے قبل کاسیکی یورپی لٹریچر میں شاید موجود نہ رہی ہو ۔لیکن برصغیر کے کلاسیکی شعروادب میں اس کے متنوع رنگ بہ آسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔گوکہ اس کا نام ہیومنزم نہیں تھااور یہ تصورمذہبی رنگ وبو سے ملبوس مختلف اشکال میں نظر آتا ہے۔لیکن یہ کیا کم ہے کہ انسان دوستی و انسان آزادی کےوہ تمام تر تصوارت موجود تھے جن کا ڈھنڈورا مغربی دنیا اپنے نام پیٹتے نہیں تھکتی۔انسان دوستی,رواداری،عشق و محبت،وسیع المشربی وغیرہ ایسے اخلاقی اقدار تھے جن کے سہارے انسان،انسان سے جڑنے اور ان کے سائےمیں اپنی عافیت محسوس کرتا تھا۔
انسان دوستی کی یہ روایت مذاہبِ عالم میں روزِاول سے رہی ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب انسانوں کو آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتا ہے۔یہ انسان کی اپنی خودغرضیاں،فکری رہزنی،جہالت اور رنگ ورس کی ہوس ہے جس کی وجہ سے وہ انسان دشمنی، انتشار، بدامنی ،جنگ وجدل،نراج،دہشت گردی،فرقہ واریت،فسادات،ظلم وجبر،عصبیت جیسے مہلک اور شر پسند عناصرکو پسند کرتا ہے۔ ایک باشعوراورباضمیر انسان کبھی بھی انسانی معاشرہ میں افراتفری کو پسند نہیں کرتا ہے بلکہ وہ صحت مند،خوشحال امن پسند،اورانصاف پسندمعاشرہ کا خواہش مند ہوتا ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ وہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا پرچار کرنا چاہتا ہے تاکہ عالمگیر سطح پر بھی شر پسند عناصر کی بیخ کنی ہواورپوری دنیا امن آشتی کا مسکن بن جائے۔ ہماری شعری روایت میں اس کی واضح مثال تصوف اور بھگتی تحریک ہے کہ ان سے وابستہ بزرگوں نےاپنے کرم اور کلام سے انسان دوستی کا درس دے کر انسان کو نہ صرف خدا سے محبت کرنا سکھایا بلکہ انسانوں سے بھی لو لگانے کی تلقین کی۔نیز انسانیت، مساوات اور بھائی چارہ جیسی خوبیوں کی حوصلہ افزائی کی۔
"فارسی اور اردو کلاسیکل شاعری میں بندہ آزاد یعنی آزاد انسان کا تصور شروع ہی سے ایک مرکزی خیال کی حیثیت رکھتا ہے۔انسان دوست صوفیوں نے ہمیشہ انسانی اقدار کا تحفظ کیا اور وہ ہمیشہ حریت فکروضمیر اور حق وعدل کے پشت پناہ بنے رہے ۔موقع آیا تو جبر واستبداداورظلم وجور کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔خود ان کی زندگی ،محبت ،
رواداری اور وسیع المشربی کا نمونہ تھی۔وہ ریا کاری،کوتانظری،اقتدار پرستی اور قلب و ذہن کی کوتاہ اندیشی کو ہمیشہ مطعون کرتے رہے۔سچائی ،انصاف اور مساوات جیسی اخلاقی قدروں کو استحکام بخشا۔زندگی کی کھٹن گھڑیوں میں بھی حق پرستی اور انسان دوستی کا دامن ان سے نہ چھوٹا”۔(7)
دنیامیں ہر ادب کی ایک سرزمین ہوتی ہےجہاں سے اس کا جڑاؤ ہوتاہےاوروہ اپنے آس پاس کے ماحول سے،اس کے سیاسی اورسماجی حالات سے،اس کی ثقافت سے متاثر ہوتا رہتاہے۔مختلف ادوار میں مختلف تحریکات ادب کو متاثر کرتی رہتی ہے۔یعنی ادب انسانی زندگی کے اونچ نیچ،بلند وبرتر غرض ہر رنگ کو پیش کرتا ہے۔اگر وسیع تناطر میں دیکھا جائے تو ادب میں انسان کے بغیر کونسی مخلوق زیادہ بار پاتی ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ادب انسانوں سے ہی لکھا جاتا ہے۔انسانو ں کے لیے ہی لکھا جاتا ہےیعنی انسانی زندگی کے معاشرتی،
معاشی،سماجی،اخلاقی،تعلیمی،مذہبی غرض ہر پہلو پر ادب میں بات کی جاتی ہے۔اس سے جہاں کسی مخصوص دور میں انسان کامزاج،اس کا رہن سہن ،طور طریقہ،حلیہ پوشاک،عادات و اطوار وغیرہ کا پتہ چلتا ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں معاملات سے نبھاکرتے اسے کس نوعیت کے احساسات،تجربات اور جذبات کاسابقہ پڑا۔کیا ان تمام تعلقات میں اس نے مثبت طورطریقہ اپنایا یا منفی۔ادب اسی انسانی کارکردگی کا نام ہے۔یعنی انسانی زندگی کی طرح ادب بھی موضوعات کے لحاظ سے متنوع ہے۔انسانی زندگی کےوہ تمام ترموضوعات بھی اس میں شامل ہیں جن سے انسانی معاشرہ میں مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ انسانی زندگی کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔انسان کی فلاح وبہبود کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔انسانوں کے درمیان محبت،رواداری، یگانت،وسیع المشربی،امن و امان،مذہبی ہم اہنگی،خوشحالی،صحت مندمعاشرتی،تعلیمی،ثقافتی نظام، مساوات وہمدردی جیسے عوامل کو پیدا کیا جاسکتا ہے۔اس کے بالعکس بدامنی، جنگ و جدل،کشت وخون،بدامنی،دہشت گردی،فرقہ واریت،فسادات،ظلم وجبر، عصبیت جیسے شر پسند عناصر کی مذمت ونفی کرکےان کو مُول سے ہی اکھاڑاجاسکتا ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی انسان شاعر تو ہے مگر انسان دوست نہیں ہے۔بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ایک شاعر پہلے انسان دوست ہوتا ہے اور بعد میں شاعر۔امن پسندی،انسان دوستی،روادرای،جذبہ اتحاد،قوت برداشت کا جذبہ اس میں کوٹ کوٹ بھراہوا ہوتا ہے۔خواب جب تنہائی کی خوراک سےصبر و تحمل کے کی گود سےغذا پاتا ہے اور پھر زیست کے دائرہ کار کا احاطہ بھی کرتا ہے تو احساسات کی رنگینیاں انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی شعور کا حصہ بن جاتی ہیں۔یعنی شاعر کی شروعاتی گمبھیرتا بعد میں اپنا فکری دائرہ وسیع کرکے دوسرے انسانوں تک محیط ہوجاتاہے۔تو یہی وہ نقطہء ارتکاز ہے جہاں سے اس کی انسان دوستی کا سفر شروع ہوتا ہے۔یہیں سے اس کے اندر کی تنگ نظری وسعتِ نظری میں تبدیل ہوجاتی ہے۔اور وہ انسانوں سے محبت،انسانی حقوق کی حمایت اوران کے فروغ میں سرگرداں رہنے لگتا ہے۔اب اگر وہ اپنے محبوب کو پھول سے تشبیہ ہی دیتا ہے کہ میرا محبوب پھول کی طرح نازک ہے تو جہاں ایک طرف شاعر اپنے عشق کی بات کرتا ہےاوریہ مانتا ہے کہ فطرت کے حسن اور عشق میں رشتہ و پیوند اورچمک ورمق موجود ہےوہیں وہ انسانی زندگی کو اس قابل سمجھتا ہے کہ اس کی دوستی فطرت سے جوڑی جاسکتی ہے تاکہ ایک پائیدار اور مستحکم رشتہ وجود نما ہوجائے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شاعر اپنی تخیلاتی دنیا میں حسن،خیر اور صداقت کی بہاریں دیکھنے کا تمنائی ہوتا ہے۔جہاں بلا تخصیص ہر کوئی وجودی پیکرامن وامان میں زیست کررہا ہوتاکہ تماشائے دیدہ نازآفریں بھی ہو اور آپسی رشتہ داری سے ترقی بھی ہوکیونکہ یہاں تو اکیلے تنہا جیا بھی نہیں جاسکتا ہے۔پرنس کرو پاٹکن کے بقول:
"اگر تمہارے دل میں بنی نوع انسان کا درد ہے،تمہارے جذبات کا رباب ان کے دکھ سکھ کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے،اگر ایک حساس انسان کی طرح تم زندگی کے پیغام کو سن سکتے ہو،توتم ہر قسم کے ظلم کے مخالف ہوجاو گے۔جب تم کروڑوں آدمیوں کی فاقہ کشی پرغور کروگے۔جب تم میدانِ جنگ میں لاکھوں بے گناہوں کے لاشے تڑپتے دیکھو گے،جب تمہارے بھائی بند،قید وبند اور دارورسن کے مصائب جھیلتے نظرآئیں گے اور جب تمہاری آنکھوں کے آگے دلیری کے مقابلے میں بزدلی اور نیکی کے مقابلے میں بدی فتح یاب ہوگی تو ادیبو!اور شاعرو!اگر تم انسان ہو تو ضرور آگے آو گے۔تم ہرگز خاموش نہیں رہ سکتے ۔تم مظلوموں کی طرف داری کرو گے،کیوں کہ حق و صداقت کی حمایت ہر انسان کا فرض ہے "(8)
اردوکے کلاسیکی شعر وادب کے بارے میں اکثر یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ اس میں گل وبلبل،وصل و وصال،حسن وعشق،ہجر و فراق کے سوا رکھا ہی کیا ہے۔جسم و جنس کے حبس سے باہر کی دنیا میں اس کا ایک قدم بھی نہیں۔اگرچہ اس پہلو کو یکسر رد تو نہیں کیا جاسکتا ہے البتہ اسی ایک پہلو پر تکیہ کرنا بھی ٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔ہاں یہ صحیح ہے کہ دنیائے ادب میں یا کسی نئی زبان میں جب پہلے پہل ادب تخلیق کیا جاتا ہے تو اکثر و بیشتر یہ لغوی معنی و مفہوم میں ہی بارز ہوتا ہے۔یعنی موضوعاتی وسعت زیادہ دیکھنے کو نہیں ملتی۔ادب تہذیب کی کوکھ سے ہی جنم لیتا ہے تو وقتی تغیر و تبدل سے اس کے تقاضے بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔اردو ادب کے ابتدائی نقوش اگرچہ شمالی ہند سے ملتے ہیں لیکن کسی مربوط شکل میں نہ ہونے کی بنا پر یہ روایت باقاعدہ نہیں مانی جاتی ہے اس کے برعکس دکن میں ابتداء سے ہی اس زبان کو سر آنکھوں پر اٹھالیا گیا۔ صوفیائے کرام نے جہاں اس زبان کے ذریعے اپنے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایا وہیں مقامی حکمرانوں نےخود بھی خامہ فرسائی کرکے ادیبوں اور شاعروں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کو انعام و اکرام سے بھی نوازتے رہے۔اس طرح یہ اجتماعی جدوجہد اردو ادب کے لیے نیک فال ثابت ہوئی۔اوراردو ادب شروع سے ہی مذہب،حکومت اور شہری زندگی کے زیرِاثر پروان چڑھتارہا۔جوبعد میں ترقی پسند تحریک کے دور میں اشتراکی فکر آنے کی وجہ سے کم ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائی دور میں اردو ادب کی تمام اصناف پر مذہبی اثر ورسوخ کا غلبہ نظر آتا ہے۔چنانچہ اس دور میں انسان دوستی کا جو تصور ابھر کرسامنے آتا ہےوہ بھی مذہبی رنگ سے رنگین دکھائی دیتا ہےیعنی ہند اسلامی فکر میں جس روحانی انسانی پیکر کی مثالیں ملتی ہیں۔اسی کی عکاسی اس ابتدائی دور کے شعر وادب میں ملتی ہے۔بہمنی دور کی مثنوی "کدم راو پدم راو "میں انسان دوستی کا تصور ان اشعار میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک انسان سے تلقین کی جاتی ہے کہ وہ وقت کی پابندی کرکے ہر کام کو اپنے وقت پر کرے یعنی آج کا کام آج ہی کو کرنا چاہیےکل پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ساتھ ہی بھلائی اور برائی کی تلقین بھی کی گئی ہے کہ جو جس طرح کے کام کی نیت کرے اس کو اسی حساب سے بدلا ملے گا۔جب اعمال کا دارمدار نیت پرہے۔تو جو بھلا کرے اس کو بھلا اور جو برا کرے اس کو برا ہی ملنے والا ہے۔
جو کچ کال کرنا سو توں آج کر
نہ گھال آج کا کام توں کال پر
بھلے کوں بھلائی کرے کچ نہ ہوئے
برے کوں بھلائی کرے ہوئے توئے
جو نیت کرے کام جے کچھ کوئے
اسی کا بھلا بھی اسی سات ہوئے
دکن میں مثنوی کا بول بالا تھا۔اگرچہ تمام اصناف میں طبع آزمائی کے نمونے ملتے ہیں۔لیکن مثنوی کی حیثیت سب سے اوج پرتھی۔ہر صنفِ سخن کےعروج کا ایک زمانہ ہوتا ہے۔ ابتدائی دور کی مثنویوں میں ہمیں متنوع موضوعات ملتے ہیں ۔جن میں اخلاقیات، انسانی ہمدردی،محبت،اخوت،
رواداری،یکجہتی وغیرہ بھی اہمیت کے حامل ہیں۔جن پر سراپا تصوف کی رنگین مہر ثبت ہے۔شمس العشاق شاہ میراں جی،شاہ علی جیو گام دھنی،خوب محمد چستی،قاضی محمود گاواں وغیرہ سب کے یاں اخلاقی،اصلاحی اورصوفیانہ بصیرت کے ساتھ ہی انسان دوستی کے نت نئے رنگ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔جن میں انکسار،توکل،صبر کی تلقین،شکر، سادگی،محبت،ہم آہنگی،ہمدردی،خدمتِ خلق، قناعت، جیسے اخلاقی عناصر دیکھیے جاسکتے ہیں اورظواہر پرستی،کٹر پن اورنراجیت،غرور وتکبر سے پرہیز کی تلقین بھی ملتی ہے۔
تن دھوئے سے دل جو ہوتا پوک
پیش رو اصفیا کے ہوتے نموک
خاک رلنے سے گر خدا پائیں
گائے بیلاں بھی واصلاں ہوجائیں
حق رسی کیا ہے،عبادت عین دین
جوں صنم کا مبتلا مستِ شراب
ان صوفیائے کرام نے اپنے پیغام کی ترسیل کے لئے فارسی کی بجائے دکنی کو وسیلئہ اظہار بنایا۔نثر سے زیادہ شاعری کو ہی پیش کیا۔نیزتانیثی صیغہ کا بھی استعمال کیا۔میراں جی شمس العشاق،برہان الدین جانم،شہباز حسین قادری بیجاپوری سے شاہ امین الدین اعلی تک كے تمام دکنی شعراء نے اپنے کلام میں تصوف کی گل کاریاں کی ہیں۔جس میں عقل و عشق،عرفان ذات،عرفان روح،عرفان عالم، جبرو قدر،سلوک ومعرفت ، شہود ووجودوغیرہ تک کے سب موضوعات کو دیکھا جاسکتا ہے۔ہر چند کہ دکنی روایت میں اس کی خاطر خواہ مثالیں ملتی ہیں ساتھ ہی صوفیانہ نظموں جیسے چکی نامہ ،ناری نامہ،سہاگن نامہ،پیت نامہ،لگن نامہ،گلسر نامہ،لوری نامہ وغیرہ میں عورت اور گھریلو اصلاح کی کوشش کی گئی ہے۔تاکہ عورت کی تعلیم و تربیت سے ایک صحت مند معاشرہ کی بنیاد ڈالی جاسکے۔
بسم اللہ بسم اللہ ہر دم بولوں گی
ثنا ہور صفت کے موتیاں رولوں گی
بسم اللہ بسم اللہ سمرن میرے من کا
ہر دم وظیفہ ناری اوس نبیؐ کا
بسم اللہ جو ناری یک بار کئیں گی
بدی اُس کی نہ ولے باقی رہیں گے
(شاہ راجو قتال)
اسی طرح ملک خوشنود نے دنیا کی بے ثباتی ،ہیچ پوچی اور ناپائیداری کا ذکر اپنی مثنوی "ہشت بہشت”میں کیا ہے۔یہ مثنوی اس نے محمد عادل شاہ کی فرمائش پر لکھی تھی۔دنیا دارالفنا ہے یہاں کی ہر چیز آنی جانی ہے۔کتنی بھی پیاری لگے لیکن اس کی محبت میں وفا نہیں بلکہ جفا ہے۔یہاں کی رشتہ داری بھی یہیں تک ہے۔کوئی بھی قبر میں ساتھ نہیں جاتا۔فقط یہاں رشتوں کو نبھانے کی اداکاری ہے۔اوراس پر دنیا کی ناپائیداری کازعم کہ اس نے کیسے کیسے نامیوں کے نشان مٹادئیےدارا،سکندر،جمشید،حاتم خسرو ،رستم،نوشیرواں سب کے سب اپنی حشمت،جاہ و جلال یہیں چھوڑ کر خالی ہاتھ راہ عدم کوسدھارے۔بس صرف ان ہی کا نام زندہ رہا کہ جنہوں نے نیکی کا راستہ اختیار کیا اور خدا کی خوشنودی حاصل کی۔یعنی زمین پر خدا کے نائب ہونے کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
عجب بے مہر دنیا بے وفا ہے
محبت عین اس کا سب جفا ہے
جتے ہیں دوستاں فرزند ساقی
سکل ہیں گور لگ اوسب سنگاتی
ملے ہیں باپ بھائی سب مراثی
دلے کوئی گور میں ہرگز نہ آسی
کہاں دارا سکندر رشتہ کیانی
کہاں جمشید جم حاتم دورانی
کہاں خسرو کہاں او رستم زال
سنیا نوشیرواں کا کیا ہوا حال
چلے جوں نیک مرداں چل تو خوشنود
خدا حاصل کریں گا دل کا مقصود
کائنات کا پورا نظام ہی محبت اور ہم آہنگی کا عکاس ہےپھر بھی نا جانے کیوں محبت کے نام پر انسانی سوچ صرف مرد اور عورت کی محبت تک محدود ہو جاتی ہے۔ہر چند کہ دکن کی شعری روایت جسم و جنس کی متحمل رہی ہے لیکن اخلاق و موعظمت،فلسفہ تصوف، مذہبی تعلیم،حسن و عشق کی داستانیں،اور زندگی کی رنگارنگی کے پہلو کے علاوہ ہندو مسلم رواداری،اتحاد پسندی، انسان دوستی اور ہم آہنگی یا اس طرح کے اورنمونے دکنی روایت سے بہ آسانی مل جاتے ہیں جو انسانوں میں انسانی خصائص پیدا کرنے اور دوسرے انسانوں کے کام آنے سے متعلق ہیں۔
"اردو ادب میں رواداری،محبت اور اخوت کا جذبہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود ہندووں اور مسلمانوں کا سابقہ ۔اردو ادب میں اتحاد اور یگانت کی روایت کسی دباؤ کی پیداوار نہیں ہےاس کی پشت پر ایک ہزار سال کے ارتقاء کی تاریخ ہے۔اس نے باہمی علاحدگی اور دوری کی خلیج کو پُر کرنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔یہ وہ رشتہ ہے جو کعبے کو شوالے سے اور ہندو کو مسلمان سے جوڑے رہا ہےاور جوڑے ہوئے ہے۔”(9)
پریشان لوگاں میں آجمع ہو
اونو گر پتنگ ہے تو توں شمع ہو
نہ جانوں روا کیوں رکھے کردگار
تو عشرت میں،لوگاں سو در انتظار
اگر توں دنیا میں ہوا بادشاہ
کرم کر ہمیشہ بخلقِ خدا
خبر لے بھوکا کون،کھاتا ہے کون
امیں کون ہے ہور چراتا ہے کون
اگر راستی سوں کیا عدم یھاں
تجے اوستے بڑی بادشاہی ہے واں
درج بالا اشعار محمد امین ایاغی کی مثنوی "نجات نامہ” سے ماخوذ ہیں۔شاعر ان اشعارمیں انسان دوستی کا بھر پور مظاہرہ کرکے بادشاہ علی عادل شاہ کو عدل و انصاف،خیر وبرکت اوررحمدلی کا پیکر دیکھنا چاہتا ہے تاکہ خلقِ خدا کی فلاح وبہبود بھی ہو اور زندگی کے دن بھی خوشحالی سےگزریں۔
اٹھارویں صدی عیسوی میں مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرنے لگا تو نااہل جانشیوں نے باقی ماندہ کسر بھی پوری کردی۔تخت وتاج کی ہوس میں برادر کشی بھی کی اور اپنی تنزلی کے دن کاٹنے کے لیے رنگ رلیاں بھی منائیں۔جس سے نہ صرف عوام ظلم و زیادتی کی شکار ہوئی بلکہ سیاسی،سماجی،اقتصادی اور معاشرتی لحاظ بھی بے یار ومددگار ہوگئی۔اس طرح سے باقی ماندہ سیاسی طاقتیں(مثلاً انگریز) کھڑکی کی اوٹ سے نہیں بلکہ سیدھے دروازہ سے دیکھنے لگے کہ کس طرح سے اس گھر پر قبضہ جمایا جائے اور اس کی باگ ڈور کو سنبھالا جائے۔یہ موقعہ انہیں فرح سیر کے زمانے میں اس وقت میسر آیا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کو مغل حکومت سے تجارتی مراعات حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔اب کیا تھا کہ انگریز ہر جگہ اپنے اثر ورسوخ سے چھاجانے لگے نیز ان کا دائرہ کار وسیع ہونے لگا۔عوام کی اس خودفریبی اور نِر نئے اقدار کی پاسداری نے ان میں جمود طاری کردیا کہ حالات حوادث کے عمل دخل سے ٹھیک ہونگے۔لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ نوآبادیات کار نے تو مغلیہ مرکزیت کو ختم کرکےپورےبرصغیر کو بکھرے موتیوں کی طرح کردیا۔تختہ تاراج ہو تو تختہ کا تحت بھی تبدیل ہوتاہے۔اقدار سے انکار اور اقرار سے اظہارکے نئے سانچے جنم لیتے ہیں۔چنانچہ تہذیب و تمدن کے دھارے بھی تغیر پذیر ہوجاتےہیں۔یہی معاملہ ہوا کہ مغلیہ حکومت کے زوال سے فارسی زبان وادب کی جاگیرداری اور ایرانی تہذیب و تمدن پس منظر میں چلے گئے اور ان کی جگہ اردو زبان اور ہندوستانی تہذیب لے لیتی ہے۔اس طرح سے اردو زبان وادب دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔
اردو زبان ابتداء سے ہی بد امنی،بد اعمالی، ظلم وجبر،زیادتی اور استحصال کے خلاف رہی ہے۔چاہیے وہ صوفیائے کرام کی حق و انصاف پر مبنی تعلیمات ہوں یا ان کی ظالم و جابر حاکم کے خلاف سینہ سپر ہونے کی بات ہو۔اس زبان کی یہ ہمتِ مرداں اٹھارویں صدی عیسوی میں اس وقت اور زیادہ نکھر کر سامنے آتی ہے جب اس دور کے شعرا حکومتِ وقت کی ناانصافیوں، نااہلیوں، بد اعمالیوں،سفاکیت کو اپنے کلام کے ذریعے طشت از بام کردیتے ہیں۔عوام کو درپیش مسائل ومشکلات کی نہ صرف ترجمانی کرتے ہیں بلکہ احتجاج پر بھی اتر آکر پیچیدہ حقائق کی آئینہ سامانی کردیتے ہیں۔یوں انسان دوستی یا انسانی ہمدردی کی ایک ایسی فقید المثال روایت قائم ہوتی ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔اس صورتحال کی سب سے عمدہ مثال جعفر زٹلی کی ہے۔
جعفر زٹلی کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ایک مدت تک انہیں صرف ایک ہجو گو اور فحش گو سے زیادہ نہ سمجھا گیا۔یہاں تک کہ تذکروں میں بھی ان کوکوئی خاص جگہ نہ مل سکی۔ جیسے جیسے ادب میں موضوعات کا تنوع بڑھنے لگا یعنی ہر طرح کے موضوعات ادب میں اپنی جگہ پانےلگے۔جعفر زٹلی کے ادبی چہرے سے دھول ہٹنے لگی اور ان کی ادبی اہمیت اجاگر ہونے لگی۔یاد رہے کہ جعفر کے کلام میں احتجاج کی ایک ایسی لے موجود ہے جو نہ کہ یہ غالباً انہیں اردو کے پہلے باغی شاعر ہونے کا شرف بخشتی ہےاور ان کے سیاسی شعور کی غماز ہے بلکہ ایک ایسے انسان دوست شاعر کی حیثیت سے بھی سامنے لاتی ہے جس نے ارباب اقتدار (Power Structures )کو بھی اپنےتیر وطنز کا نشانہ بنایا ہے۔”وہ اپنے عہد کا ایک بڑا باغی تھا کہ جو ریاست سے بھی ٹکراجانے میں خوف محسوس نہ کرتا تھا۔زٹلی اردو کا پہلا شاعر تھا جسے تخلیقی اظہار کی سنگین پاداش میں سزائے موت کا سامنا کرنا پڑا۔”(10)۔
مذکورہ اس وقت عوام کے سیاسی،سماجی اور معاشی مسائل و مصائب کی نشاندہی کرتا ہے جب چار سوں زبان پر مہر اور ظلم و زیادتی کی یلغار روا تھی۔جب امید،ناامیدی کے ملبے تلے دب چکی تھی اور انسان کو صرف موت کا دروازہ کھلا دکھائی دیتا تھا۔اس اور اس طرح کےعہد کا نقشہ اپنے کلام میں جعفر نے بڑے ہی احسن طریقے سے کھینچا ہے کہ اردو اور فارسی کے شیر وشکر میں کوئی دوئی نہیں رہتی۔اس دور میں
” انسانیت ،محبت،خلوص کے رشتے بوسیدہ ہورہے تھے۔شر،فساد اور بغاوت کے بادل گھرے کھڑے تھے۔عدل و اعتدال معاشرے سے رخصت اور شمشیر وسناں اور طاوس و رباب کے درمیان توازن ختم ہورہا تھا۔بیرونی طاقتیں برصغیر کے ساحلوں پر قدم جمارہی تھیں۔
اور شمالی سرحدوں پر موقع کی تاک میں تھیں۔ معاشرتی رشتے بکھر رہے تھے اور صلاحیت پھٹے کپڑوں پیدل چل رہی تھی۔”(11)
حاتم،میر،سودا اور درد کا دور بھی سیاسی افراتفری اور معاشی تنزلی کا شکار تھا۔ہرطرف ہر آن رشوت خوری اور چاپلوسی کا دوردورہ تھا۔چنانچہ عوام یا تو تصوف کی آغوش میں پناہ لینے لگے یا بھنگ ،چرس یا نشہ آور چیزوں میں مشغول رہ کر مست رہنے لگے۔معاشرے کی اس ابتر حالی کو لے کر شعراء بھی ایک طرح کے تخلیقی امتحان سے گزرنے لگے۔اس طرح انہوں نے غزل کے علاوہ دوسری اصناف سخن میں بھی کلام کرنا شروع کیا تاکہ عوام غزل کی استعاراتی اور علامتی زبان کے سحر میں کھوجانے کے بجائے براہ راست انداز بیان سے مستفیض ہوکر وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھ سکے۔یہی وجہ ہے کہ حاتم،میر،سودا اور دردجیسے بڑے شاعروں نےمثنوی اور شہر آشوب لکھ کر اپنے دور کا دوردورہ لکھ ڈالا۔جس سے ان شعراء کے یاں انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کی بڑی خوبصورت مثالیں ملتی ہیں۔حاتم اپنے شہرآشوب میں اس تمام صورتحال کو یوں رقم کرتے ہیں کہ
یہاں کے قاضی و مفتی ہوئے ہیں رشوت خور
یہاں کے دیکھ تو سب اہل کار ہیں گے چور
یہاں سبھوں نے بھلائی ہے دل سوں موت اور گور
یہاں کرم سیں نہیں دیکھتے ہیں اور کی اور
یہاں نہیں ہے مدارا بغیر دارو مدار
اسی طرح سودا اور میر نے بھی اپنے کلام میں جابجا انسان دوستی یا انسان پرستی کے متعلق اشعار کہے ہیں۔مثال کے طور پر سودا کا وہ بند جس میں اس نےاسلاف کےحسن سلوک اور خیر خواہی کے کام انجام دینے کا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنی نیک نیتی اور اچھے کاموں کی وجہ سے اس فانی دنیا میں یاد رکھے گئے کہ وہ پل،مہمان سرائے ،مسجد اور چاہ تعمیر کراکے انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے ہمہ تن مصروف رہتے تھے۔غرض شاعر کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں بھی ایسے نیک کام کرنے چاہیے جن سے نوع انسانی کی فلاح بھی ہو،چہاردانگ انسان دوستی کا چرچا بھی ہو اورانسان کا نام بھی زندہ و تابندہ رہے۔
کرتے تعمیر اہل کمنت و جاہ
پل و مہمان سرائے و مسجد وچاہ
اب نہ وہ دن ہیں اور نہ وہ راتیں
رہ گئیں یاد گار یہ باتیں
نظیر اكبر آبادی اردو شاعری کا وہ پہلا باقاعدہ انسان دوست شاعر ہے جس نے عوام میں رہ کر عوام کے مسائل ان ہی کی زبان میں پیش کیے۔جو انفرادیت کے بجائے اجتماعیت کےمتحمل ہیں۔جن کی اساس سیکولرزم پر استوار ہے اور جن کی سررشت محبت اور لگاؤ سے سرشار بھی ہے اور قائم و دائم بھی۔اپنے عہد کی سیاسی،سماجی، معاشرتی اور اقتصادی آویزش اور کشمکش نے شاعر کے تخلیقی نظام کو تحس نحس کرکے اس میں عوام کے تئیں ہمدردی اور انسان دوستی کا شدید اور بھرپور عنصر پیدا کیا۔اس تخلیقی بے چینی سے شاعر کے سامنے آگہی کے نت نئے کنارے روشن ہوجاتے ہیں اور وہ ان کے سہارے ہی انسانی مسائل کے بھیل کا تدارک سوجھتا ہے۔گوکہ شاعراس عمل میں کوئی بڑے بڑے فلسفیانہ دعوے نہیں داغتا۔لیکن یہ کیا کم ہے کہ وہ مقامی نوعیت یا نجی زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے ذریعے ہمیں بڑی سے بڑی حقیقت سمجھانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔اس سے ایک طرف جہاں شاعر کے بالغ مشاہدہ اور مجاہدہ کا اندازہ ہوجاتاہے وہیں دوسری طرف اپنے وطن کی مٹی اور ماٹی سے محبت کا واضح اشارہ بھی ملتا ہے۔جو ان کے سیکولر مزاج کا آئینہ دار بھی ہے اور آئینہ سامان بھی۔”نظیر آدمی کو آدمیت کے دائرے میں رکھ دیکھتے ہیں یعنی اس کی تمام تر جبلتوں،حواس اور جذبات کے ساتھ اس کی تمام آلائشوں اور خوبیوں سمیت _(12)
1857ء کی جنگ ِ آزادی میں انگریزوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد ہندوستان پوری طرح سے سامراجیت کے پنجے میں جکڑ گیا۔سامراج اپنے ہاؤ بھاؤ سے نہ صرف یہاں کے علم وادب،تمدن،ثقافت کو فضولیات تصور کرنے لگا بلکہ اس کو اپنے من مطابق ڈھالنے کی ٹھان بھی لی۔جس سے ردعمل کی تحریک بار پانے لگی۔مسلمان جن سے انگریزوں نے اقتدار چھین لیا تھا،زیادہ اہانت آمیزی کے شکار ہوگئے۔جس کے بالعکس مسلمان بھی نوآبادکار کو شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔
وقت بدلتاہے تو فکر بھی بدل جاتی ہے۔جوں ہی انگریز برصغیر پر مسلط ہوئے تویہاں کے کلاسیکی شعرو ادب میں نئی تبدیلوں کے امکانات روشن ہونے لگے۔اردو کے شعروادب میں بھی مغربی ادب کے زیرِ اثر نئی اصناف معرضِ وجودمیں آئیں۔چنانچہ وہ اصنافِ شعر پسِ منظر میں چلی گئیں’ جو اس ہنداسلامی تہذیب و تمدن کی ترجمان اور نقیب سمجھی جاتی تھیں۔شاعری میں غزل کے بجائے نظم کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔اس سلسلے میں محکمہ تعلیمات کے ڈائریکٹر کرنل ہالرائیڈ نے 1865ءمیں "انجمن پنجاب” قائم کی۔کرنل ہالرئیڈ جو اس وقت پنجاب کے سررشتئہ تعلیم کے منتظم اعلی تھے انھوں نے ڈاکٹر لائٹز کو جو گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل تھے اس انجمن کے قائم کرنے کی ہدایت دی۔اس انجمن کا اصل نام” انجمن اشاعت مفیدہ پنجاب "تھا۔جو بعد میں انجمن پنچاب کے نام سے مشہور ہوئی ۔محمد حسین آزاد اپنی نظموں میں مقصدیت کے قائل نظر آتے ہیں۔انجمن پنجاب کے عنوانی مشاعروں میں اس نے اردو نظم کی دنیا کوکائنات کے فطری حسن سے فیضیاب ہونے کی بھر پور کوششیں کیں۔جس پر براہ راست انگریزی شاعری کے اثرات کو دیکھا جاسکتا ہے۔آزاد اپنی نظموں میں انسان کو قوم کی بھلائی کا ایک عظیم آلہ سمجھتے ہیں کہ جس میں اگر اعلی اخلاقی اقدار ہوں تو وہ ہیچ کاموں سے دور رہ کر اچھائی کے کاموں میں منہمک ہوجائے تو انسانیت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں باربار اس بات کی تلقین ملتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے سے ہی تمام تر مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ساتھ ہی شاعرعزم و ہمت ،شجاعت اور حوصلہ کو بھی ضروری گردانتا ہے۔
مولانا الطاف حسین حالی کا کلام سراپا انسان دوستی کے اقدار سے مملو ہے۔جو ان کی سماجی اور قومی ہمدردی کی واضح مثال ہے کہ کس طرح سے وہ اپنے کلام خاص کراپنی نظموں میں اخلاقیات کا درس دے کر ملت کی بیداری کا سامان کررہے ہیں۔ حسد سے پرہیز،جھوٹ سے نجات،اتحاد واتفاق میں یقین،نفس پر قابو، خودستائی، حرص وہوس سے دوری ،تعصب وتنگ نظری سے گریزوغیرہ جیسی اخلاقی قدروں کی ضرورت کو اپنی قوم کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔آزاد ،حالی کے علاوہ اس دور کی شاعری میں اکبر ،شبلی،نادر کاکوروی، نظم طباطبائی اور مولوی اسماعیل میرٹھی کے کلام میں انسان دوستی کے عناصر کو آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔مقصدیت، عقلیت،مادیت ،نیچریت ان کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں جن سے ارضیت اور فطرت سے انسان کا والہانہ لگاؤ بھی ظاہر ہوتا ہے۔
اقبال انسان کو مرکزی حیثیت دینے کے ساتھ ہی ظالم ہاتھوں سے اس کی بربادی کا نظارہ دیکھنا گوارا نہیں کرتے بلکہ برصغیر کے انسان کو جو صدیوں سے سرمایہ داری اور سامراجی ظلم وجبر کے شکنجوں میں جکڑا ہوا تھا،کو اُٹھ کر بیدار ہونے کی تلقین کرتے ہیں کہ اب مشرق و مغرب میں آپ کے دور کا آغاز ہوچکا ہے۔یوں اقبال نےبیسویں صدی عیسوی کےسنگین مسائل کے دور میں انسان کی گہری معنویت اور اس کی عظمت کا اعلان کیا۔اقبال کی یہ اشعار اس بات کی ضمانت ہے کہ کس طرح سے وہ مزدوروں اور مفلسوں کی حمایت میں اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔
اُٹھّو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمَرا کے در و دیوار ہِلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہُو سوزِ یقیں سے
کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
درج بالا کوائف سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ اردو شاعری میں ہمیشہ سے ہی انسان دوستی کا تصور تابندہ رہا ہے۔غزل،اردو شاعری کی محبوب ترین صنف رہی ہے اور اس میں مسائل کے اظہار کی گنجائش کم ہی رہتی تھی تاہم اردو شعرانے "محبوب سے گفتگو” کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کے مسائل کو بھی موضوعِ اظہار بنالیا۔وقت کے ساتھ ساتھ موضوعات کا دائرہ کار وسیع ہوتا گیا اور اردو غزل کے امکانات بھی بڑھنے لگے۔غزل میں اس طرح کے امکانات کی آبیاری کا سہرا ان شعرا کے سر جاتا ہے جنہوں نے ابتدا سے ہی انسان دوستی کے تصور کو فروغ دیا۔یوں تو انسانی مسائل اور ملکی حالات نیز زوالِ حکومت کو بیان کرنے کے لیے شہرِ آشوب کی صنف موجود تھی لیکن دھیرے دھیرے غزل نے بھی ایسے موضوعات کو اپنے دامن میں جگہ دی جو انسانی مسائل سے سرور کار رکھتے تھے۔
حوالہ جات :
1۔قومی انگریزی۔ اردو لغت ،مرتبہ جمیل جالبی،ڈاکٹر،السلام آباد؛مقتدرہ قومی زبان،2002،ص 942
- English ,Urdu Dictionary ,6th Edition by Abdul Haq p.561
3۔شاہد فریاد،ڈاکٹر،”سیکولرازم ۔ایک تعارف”،لاہور:کتاب محل،ص103
4۔نیر،ناصر عباس،ڈاکٹر، "لسانیات اور تنقید "،نئی دہلی؛ انجمن ترقی اردو، 2015، ص157
5۔اشفاق حسین_”اقبال اور انسان "، حیدرآباد:آندھرا پردیش ساہتیہ اکادمی،اپریل 1974ء،ص2
6۔شمیم حنفی ۔مضمون "ادب میں انسان دوستی کا تصور”مشمولہ "اردو ادب کی موت "مرتبہ طاہر مسعود،لاہور سنگ میل پبلی کیشنز 2015ء،ص682
7۔اشفاق حسین_”اقبال اور انسان "، حیدرآباد:آندھرا پردیش ساہتیہ اکادمی،اپریل 1974ء،ص3
8۔بحولہ رائے پوری،اختر حسین ” ادب اور زندگی اور دیگر تحریریں”،(مرتبہ)حمیرا اشفاق،ڈاکٹر، لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز 2014ء،ص35
9۔نارنگ ،گوپی چند ،کاغذِ آتش زدہ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس’دہلی2011،ص93
10۔تبسم کاشمیری ،ڈاکٹر ،”اُردو ادب کی تاریخ(ابتدا سے 1857ءتک) "،نئی دہلی:ایم ۔آر۔پبلی کیشنز2009،ص265
11۔جمیل جالبی،تاریخِ ادب اُردو،جلد دوم،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس’دہلی ،
سن1993،ص91
12۔سجاد باقر رضوی ،ڈاکٹر :تہذیب و تخلیق ،اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان 1987ء،ص206
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page