بحمد اللّٰہ برکتوں کا ،رحمتوں کامبارک مہینہ رمضان المبارک سایہ فگن ہوچکا ہے،مغفرت کی سبیل لگا دی گئی ہے، پکارنے والا پکارتا ہے ’’ہے کوئی جو مجھ سے مانگے اور میں اس کو دوں،ہے کوئی جو اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور میں اس کو معاف کردوں ۔
یہاں بندے کا کوئی کمال نہیں بلکہ وہ ذات جو غفور رحیم ہے، وہ ذات جو سراپا رحمت ہے اپنے بندے پر رحم کرتے ہوئے سال میں ایک مرتبہ اس مہینہ کو وارد کرکے اپنے بندے کو نوازنے کی راہ نکالتا ہے، انہیں معاف کرنے کے بہانے تلاش کرتا ہے۔کتنا مفلس ہوگا وہ شخص جو اس مبارک مہینہ کو پائے اور اپنی دنیا نہ بدلے اور نہ اپنی آخرت سنوار سکے۔ دینے والے کی تو کرم کی انتہاء نہیں اور ہماری غفلت کی انتہاء یہ ہے کہ اس سے بھی فیض نہ اٹھایا جائے، دینے والا تو بے دریغ لٹا رہا ہے اور لینے والا اگر غفلت میں پڑا رہے تو اس سے بھی بڑی بد نصیبی کیا ہوگی۔
رمضان المبارک قمری مہینوں میں سے نواں مہینہ ہے اس ماہ مبارک کی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی طرف خاص نسبت عطا فرمائی ہے، حدیث پاک میں ہے ’’رمضان شہر اللّٰہ‘‘ رمضان اللہ کا مہینہ ہے اس وجہ سے اس ماہ مبارک کو دوسرے مہینوں سے ایک خاص امتیاز حاصل ہے ، اس مہینہ سے اللہ تعالیٰ کو خاص تعلق ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ کی تجلیات خاصہ اس کثرت سے نازل ہوتی ہے جیسے موسلادھار بارش تسلسل کی ساتھ برستی ہے۔یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کے اول عشرہ میں حق تعالیٰ کی رحمت برستی ہے جس کی وجہ سے انوارواسرار کے ظاہر ہونے کی قابلیت واستعداد پیدا ہوکر گناہوں کے ظلمات اور معصیت کے دلدل وکثافت سے نکلنا میسر ہوتا ہے اور اس مبارک ماہ کے درمیانی عشرہ گناہوں کی مغفرت کا سبب ہے اور اس ماہ کے آخری عشرہ میں دوزخ کی آگ سے آزادی حاصل ہوتی ہے۔
یقینا رمضان المبارک نہایت خیر وبرکت کا مہینہ ہے ،مسلمان کو عملی مسلمان بن کر اپنے اعمال کو اللہ کی رضا وخوشنودی کے مطابق ڈھالنے کا مہینہ ہے ، اہل ثروت کو اپنی دولت کے ذریعہ اللہ کو راضی وخوش کرنے کا اور غرباء کو باوجوداپنی غربت کے نیک عمل کے ذریعہ اللہ کو منانے کا مہینہ ہے۔یہ وہ مہینہ ہے جس میں فضا پرنور ہوجاتی ہے ، ایمان والوں میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے،بڑی عمر کے لوگ نہایت شوق وجذبہ کے ساتھ عبادتوںمیں اپنا وقت صرف کرتے ہیں ،چھوٹے بچے اپنے بڑوں کی نقل کرتے ہوئے عبادتوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔
خالق کائنات کا اعلان
ماہ رمضان المبارک کی فضیلت میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔حدیث قدسی ہے ’’لعنت ہے اس شخص پر جو رمضان المبارک کو پائے اور اپنی بخشش نہ کرالے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہرعمل اس کے لیے ہے سوائے روزہ کے ،روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا جزا دوں گااور روزہ (آگ سے ) ڈھال ہے، لہذا جس روز تم میں سے کسی کاروزہ ہو ،اس روز وہ فحش گوئی نہ کرے اور بیہودہ کلامی نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوج کرے یا لڑائی کرے تو روزہ دار کو (صرف اتنا کہنا چائیے کہ) میں روزہ دار ہوں،اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی خوشبو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہوگی،روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ فرحت حاصل کرے گا، اولا جب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے، ثانیا جب وہ اپنے رب سے ملے گا اور روزے کے بدلے میں اپنے رب سے انعام پائے گا تو خوش ہوگا ۔(صحیح مسلم، باب فضل الصیام)
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص رمضان میں ایمان اور ثواب کا کام سمجھ کر روزے رکھے اس کے اگلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری)
ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے فرماتے ہوئے سنا کہ’’بے شک جو شخص اللہ کی راہ میں ایک دن بھی روزہ رکھے اللہ اس کو دوزخ سے ستر برس کی مسافت کے برابر دور کردیتا ہے ۔‘‘(صحیح بخاری)
حضرت ابو ہریرہ ؓرسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ’’ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اورسرکش جنات قید کردیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں پھر اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا اور جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں پھر اس کا کوئی دروازہ بند نہیں رہتا، اور اعلان کرنے والا (فرشتہ) یہ اعلان کرتا ہے کہ اے بھلائی (نیکی وثواب) کے طلبگار! اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجا اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے! برائی سے باز آجا، کیونکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہے (یعنی اللہ تعالی اس ماہ مبارک کے وسیلے میں بہت سے لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ تو بھی ان لوگوں میں شامل ہو جائے )اور یہ اعلان (رمضان کی )ہر رات میں ہوتا ہے (سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ)اس کے علاوہ بہت سی احادیث رمضان کی فضیلت پر وارد ہوئی ہیں۔( یہ بھی پڑھیں حقوق انسانی اسلام کی نظر میں – ڈاکٹر انیس الرحمن )
ماہ رمضان کی برکتوںکا اندازہ اس حدیث سے بخوبی ہوجاتا ہے کہ جب رمضان آتا ہے تو شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں ،شیاطین کا کام انسانوں کو راہ راست سے بھٹکانا ہے اور برے ،گندے کاموں کا سبز باغ دکھانا ہے وہ شیاطین اس ظالمانہ اور گندے کاموں سے روک دیئے جاتے ہیں چنانچہ مشاہدہ یہ بتلاتا ہے کہ اکثر گنہگار لوگ گناہوں سے اپنے آپ کواس ماہ میں باز رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔لیکن یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ کیا ہر وہ شخص جو رمضان کا مہینہ پائے لیکن وہ اپنے طرز زندگی میںکوئی تبدیلی نہ لائے یعنی خرافات و لغویات میں اپنے اوقات صرف کرے تو وہ اس مہینہ کی برکتوں،رحمتوں سے مستفید ہوجاتا ہے؟یقینا ایسا نہیں ہے بلکہ اس ماہ کی برکتوں و رحمتوں سے اپنی جھولیاں تو وہی بھرتے ہیں جو اس ماہ کو تقویٰ وطہارت میں گذارتے ہیں اور ان کی نیت یہ ہوتی ہے کہ ان کا نفس پاک ہوجائے اور دل کی کجی ختم ہو جائے۔صرف رمضان رمضان کا شور مچانے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ ضروری یہ ہے کہ ہم رمضان سے استفادہ کا پختہ ارادہ کریں اوراپنے آپ کو بدلنے کا تہیہ کرلیں، اللہ تعالیٰ اس قوم کی حالت نہیں بدلتے جو خود اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے۔لہذا رمضان سے مکمل فائدہ حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی مصروفیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے لیے ایک ایسا نظام الاوقات مرتب کریں جس میں عبادت ، تلاوت قرآن ،مطالعہء حدیث اور ذکرووظائف وغیرہ کے لیے زیادہ وقت نکالیں ،فقراء ومساکین، یتیم ونادار کا خاص خیال رکھیں۔
رمضان میں امت محمدیہ پرخصوصی انعام
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ رمضان شریف کے متعلق میری امت کو خاص طور پر پانچ چیزیں دی گئی ہیں، جو پہلی امتوں کو نہیں ملیں۔
(۱) روزہ دار کے منہ کی بدبو (جو بھوک کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے) اللہ کے نزدیک مشک ے زیادہ پسندیدہ ہے۔
(۲) ان کے لیے دریا کی مچھلیاں تک دعاء مغفرت کرتی ہیں،اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔
(۳) جنت ان کے لیے ہرروز سجائی جاتی ہے،پھر حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں قریب ہے کہ میرے بندے (دنیا کی) مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر تیری طرف آئیں۔
(۴) اس ماہ مبارک میں سرکش شیاطین قید کردیے جاتے ہیں کہ وہ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں پہنچ سکتے ہیں (یعنی رمضان میں شیاطین قید ہونے کی بناء پر روزہ داروں کو گناہوں پر نہیں ابھار سکتے، لیکن انسان کا نفس گناہ کرانے میں شیاطین سے کم نہیں ہے اور گناہوں کا چسکا بھی گناہوں کی پٹری پر چلاتا رہتا ہے، تاہم پھر بھی گناہوں کی کمی اور عبادت کی کثرت کا ہر شخص مشاہدہ کرتا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں تقسیمِ میراث وقت کی اہم ضرورت – ڈاكٹر انیس الرحمن )
(۵) رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کے لیے مغفرت کی جاتی ہے۔ صحابہ ؓنے عرض کیا یہ شب مغفرت شب قدر ہے؟ فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔ (تحفہء رمضان،بحوالہ الترغیب والترہیب)
حضرت سہل بن سعدؓرسول ا للہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے ،جس سے قیامت کے دن روزہ دار گذریں گے ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی دوسرا نہیں گذرے گا۔(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
حضرت زید بن خالد الجہنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا اسے اس (روزہ دار) کے برابر ثواب ہوگا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی ہو ۔‘‘(سنن ترمذی، کتاب الصیام)
روزے کا اصل مقصد تقویٰ وللہیت
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بہت سے روزے دار ایسے ہیں جنہیں اپنے روزہ سے سوائے بھوک (پیاس) کے اور کچھ حاصل نہیں اور بہت سے تہجد گزار ایسے ہیں جن کی رات کی نمازوں سے سوائے جاگنے کے اور کچھ نتیجہ نہیں۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الصیام)
اس حدیث پاک میں اور قرآن مقدس کی آیت لعلکم تتقون میں یہ بتلایا گیا ہے کہ روزہ کا اصل مقصد تقویٰ ہے ۔یعنی انسان اپنی نفسانی خواہش کو موت کے گھاٹ اتار دے اور اپنے نفس امارہ کو اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کا تابع دار بنا دے، سچی اور خلوص سے بھرپور اسلامی زندگی گذارنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ڈر ( جسے قرآن میںلفظ تقویٰ سے بارہا خطاب کیا گیا ہے) اور اس کی رضا مندی کی طلب بے حد ضروری ہے جس شخص کو نہ رب کائنات کا ڈر ہو اور نہ اس کو راضی کرنے کی آرزو وفکر ہو وہ کبھی صحیح معنوں میں اسلامی زندگی بسر نہیں کرسکتا، رب کائنات نے فرمایا روزہ سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے ۔لیکن یہ تقویٰ خود بخود پیدا نہیں ہوجاتا، اس کے لیے ضروری ہے کہ روزہ دار جہاں تک ہوسکے اس بات کی پوری کوشش کرے کہ وہ کوئی کام ایسا نہ کرے جسے پروردگار نے ناپسند کیا ہو۔روزے کی صورت اور اس کا قانونی وجود اگر چہ یہ ہے کہ انسان کھانے پینے اور جنسی خواہش کی تکمیل (مجامعت) سے دور رہے۔اگر کوئی شخص روزہ رکھ کر اپنی تمام خواہشوں کو احکام الٰہی کے کنٹرول میں دے دیتا ہے تو حقیقی معنوں میں روزہ دار ہے لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کا روزہ حقیقی روزہ نہیں بلکہ صرف فاقہ ہے۔
چنانچہ حدیث پاک میں ارشاد ہے ’’جب کسی نے جھوٹ بولنا اور غلط کام کرنا ہی نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ اس کا کھانا اور پینا چھڑادے ۔‘‘(صحیح بخاری)
کسی بھی عبادت کو بلاسوچے سمجھے محض رسما ادا کرنا بارگاہ رب کائنات میں قبول ومنظور نہیں بلکہ ہر عبادت کی قبولیت کا دار ومدار اخلاص نیت اور اس عبادت کے نتیجہ میں پیداہونے والی وہ صفات و کیفیات ہیں جو اس عبادت کا اصل تقاضا ہے۔ رسول عربی ﷺ نے فرمایا ’’ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے ۔‘‘(صحیح بخاری، باب کتاب الوحی)
دوسری عبادتوں کی طرح روزے کا صحیح اثر اسی وقت ظاہرہوسکتا ہے جب روزہ اچھی طرح سوچ سمجھ کر رکھا جائے جو شخص اللہ کے خوف سے اور آخرت کے جواب دہی کے خیال سے روزہ میں کھانا پینا ترک کرسکتا ہے اس سے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ زندگی کے باقی کاموں میں رب کائنات کی نافرمانی کرے اور برابر کرتا رہے ۔یہ ایک مومن کا شیوہ نہیں، یہ ایک مسلم کا طرز زندگی نہیں اور یہ امت محمدیہ کا شعار نہیں ۔
ڈاکٹر انیس الرحمن
شعبۂ اسلامک اسٹدیز،
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
3 comments
[…] اسلامیات […]
[…] اسلامیات […]
[…] اسلامیات […]