ڈاکٹر مولانا محمدنعیم اللہ خاں خیالیؔ بہرائچ کے اس عظیم فرد کا نام ہے جو نہ صرف شاعرو ادیب تھے بلکہ ایک انجمن تھے۔آپ نہ صرف اردو عربی اور فارسی کے جانکار تھے بلکہ آپ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عالم بھی تھے۔ ڈاکٹر مولانا محمد نعیم اللہ خیالیؔ کی ولادت۱۵؍ اپر یل۱۹۲۰ء کو شہر بہرائچ کے محلہ قاضی پورہ میں جنا ب خان عبداللہ صاحب کے یہاں ہوئی تھی،آپ کی والدہ کا نام مقبول جہاں بیگم تھا۔ حضرت عبد الرحمن خاں وصفیؔ بہرائچی خیالیؔ صاحب کے بھائی تھے۔ خیالیؔ صاحب اسکولوں کالجوں کی زندگی سے محروم رہے لیکن علم و ذکاء اورعقل و ادراک کے خالق نے آپ کو وہ استعداد،اہلیت اور عرفان و شعور عطا کیا جس کی بدولت خیالی صاحب روایتی مدرسوں اور رسمی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قدم رکھے بغیر ہائی اسکول سے لیکر ایم۔اے۔تک سارے مدارج و مراحل پرائیوٹ امیدوار کی حشیت سے طے کئے ان کے علاوہ منشی کامل ،دبیر کامل ،فاضل طب وغیرہ کے امتحانات بھی نمایاں پوزیشن سے پاس کئے۔ حضرت ابوالنّصرانس فاروقی مجدّدی (خانقاہ مرزا مظہر جان جاناں شہیدؒ المعروف درگاہ حضرت شاہ ابوالخیرؒ دہلی)خیالی ؔ صاحب کی تصنیف ’’معارف مکتوبات امام ربانی ؒ میں لکھتے ہیں :۔
مولانا محمد نعیم اللہ خاں خیالی ؔکے والد بزرگوارحضرت شاہ فضل الرحمٰن گنج مرادآبای قدس سرہ‘ سے بیعت تھے۔چنانچہ بزرگان دین وعلماء اعلام کی محبت و عقدیت ابتدائے مکتب سے ہی حاصل تھی۔آپ بعمر۱۶سال۱۹۳۶ء میں شوقیہ طور پر ایک بزرگ حضرت سیدمرحوم شاہ پشاوری قدس سرہ(جومسجد کالے خاں،محلہ قاضی پورہ شہر بہرائچ کے حجرے میں قیام کرتے تھے۔) سے سلسلہ قادریہ مجددیہ میں بیعت ہوئے۔کتب درسیہ میں خلاصہ کیدانی اور قدوری کا درس بھی ان سے لیا۔مشفق والد او ر بزرگوں کی موجودگی میں ایام پر سکون گزر رہے تھے کہ ۱۹۳۸ءسے دورِ ابتلا شروع ہوا ۔اسی سال آپ کے شیخ پشاور میں انتقال کر گئے اور اگلے سال ۱۹۳۹ءمیں آپ کے ابتدائی عربی و فارسی ادب طب یونانی کے استاد حکیم صاحب انتقال کر گئے۔اگست۱۹۴۰ءمیں آپ کے والد بھی اس دارم فانی سے راہی ملک بقا ہوئے۔ اس طرح ابتدائے جوانی میں متواتر تین سالوں میں روحانی،علمی وجسمانی سرپرستوں کے سایۂ شفقت سے یکدم محروم ہو گئے۔اسکول کی تعلیم دردِمفاصل کی شدت کے سبب ۱۹۳۴ءمیں پہلے ہی چھوٹ چکی تھی ۔چنانچہ بنا ظاہری لیاقت و باطنی قوت کے زندگی بھاری معلوم ہونے لگی۔فکرِ معاش لاحق ہوئی۔مگر اس کے با وجود اللہ کے فضل شامل حال رہا کہ تعلیمی دلچسپی برقرار رہی اور علمی جستجو کا جذبہ ماند نہ پڑا۔گھر پر ہی خود محنت کرکے پرائیوٹ بورڈ اور یونی ورسٹی کے امتحانات برائے اردو ،فارسی،عربی اور انگریزی زبانوں کے دیتے رہے۔ اور کامیابی حاصل کرتے ہوئے ۱۹۵۸ءمیں مقامی(آزاد انٹر کالج )میں استاد ہو گئے۔اس کے علاوہ طب یونانی اور ہومیوپیتھی میں بے حد دل چسپی رکھتے ہوئے اس کے مطالعہ میں بھی مشغول رہے۔شہر میں ہومیوپیتھ کے اچھے طبیب کے طور پر مشہور ہوئے۔شعر و سخن میں خیالی ؔ صاحب اچھا ملکہ رکھتے تھے۔اردو ،فارسی وعربی میں آپ نے کافی اشعار کہے۔۱۹۷۴ءمیں آپ کالج کے ساتھی ماسٹر شبیر احمد صاحب کے ساتھ غیر متوقع طور پر دہلی گئے۔اگرچہ اصل کام بریلی میں تھا۔جہاں خانقاہ مظہری المعروف بہ درگاہ شاہ ابوالخیرؒ میں قیام ہوا۔جہاں حضرت جد امجد شاہ ابوالحسن زید فاروقی مجددی قدس سرہ‘سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ دوسرے سال ربیع الاول شریف میں آپ دہلی گئے اور سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت ہوئے اور آپ کو سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں داخل کرنے اور وظیفہ شریف بتانے کی اجازت دی۔ (معارف مکتوبات امام ربانی ؒص ۱۲) ( یہ بھی پڑھیں پورنوگرافی اور انٹرنیٹ – جاویداختر ذکی خان)
پروفیسر ایم ایم جلالی لکھتے ہیں:۔
خیالیؔ صاحب کوعربی،فارسی،اردو،ہندی، تامل،تلگو،بنگلہ کے علاوہ روسی، فرنچ، جرمن، انگریزی،چینی،ترکی اور لاطینی زبانوں پر کافی عبور تھا۔لسانیات کے علاوہ ہومیوپیتھی، یونانی،ایورویدک طریقہ علاج میں عملی طور پر زبردست مہارت تھی،لیکن آپ نے علمی اور ادبی ذوق کی پروریش اورتعلیم و دریس کے جذبات کے پیش نظر پیشئہ معلمی کا انتخاب کیا اور مقامی آزاد انٹر کالج میں اردو اور عربی کا درس دیتے رہے۔آخر میں کچھ وقت کے لئے کسان ڈگری کالج میں پروفیسر اردو کے طور پر خدمات انجام دی۔ سبکدوش ہونے کے بعد تصنیف و تالیف کے کاموں میں مشغول ہو گئے او ر’’ ادارئہ لسانیات‘‘ اور ’’ادارۃ المصنفین‘‘ قیام کیا۔ ‘‘(اردوکی بین الاقوامی حیثیت،محمد نعیم اللہ خاں خیالیؔ ۱۹۸۲ء ص ۱۱)
خیالی صاحب کے ملک اور بیرون ملک کے ادبی و تنقیدی رسائل و جرائد میں تاعمر مضامین اور مقالے شائع ہوتے رہے جن کا کوئی شمار نہیں۔آپ بہرائچ سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’چودھویں صدی‘‘کے بانی اور مدیر تھے۔۳۱؍دسمبر ۱۹۹۱ء بروز منگل کو بہرائچ کی ادبی تاریخ کے اس درخشندہ ستارے نے ہمیشہ کے لئے بہرائچ اور قاضی پورہ کی ادبی دنیا کو اکیلا چھوڑ کر راہی ملک ادم ہوئے اور تدفین احاطہ شاہ نعیم اللہؒ(خلیفہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں ؒ ) میں ہوئی ، جہاں ایک چہار دیواری میں آپ کی مزار بنی ہوئی ہے۔”معارف مکتوبات امام ربانی‘‘میں ہے کہ اپنی وفات سے پہلے آپ نے لوگوں کے سامنے اپنی تاریخ وفات کا اظہار کردیا تھا۔چنانچہ اسی تاریخ میں آپ نے انتقال فرمایا۔(معارف مکتوبات امام ربانی ص ۱۵)
ڈاکٹر نعیم اللہ خاں خیالی ؔ کی ادبی خدمات نصف صدی پر محیط ہے۔آپ کی قلم نے تاریخ کے واقعات کو قلم بندکرنے کے ساتھ ساتھ تمام اصناف سخن پر اپنا جادو دیکھا ہے آپ کی نثری تصانیف کی ایک بڑی تعداد ہے جس کے قلمی مسودہ آپ کے اہل خانہ کے پاس محفوظ ہے ،اس کے ساتھ ساتھ آپ کے شعری مجموعے بھی کئی جلدوں میں قلمی محفوظ ہیں۔آپ کی مطبوعہ کتابوں میں مدارج الخیر(ترجمہ مناہج السیّر،از شاہابو الحسن زید فاروقیؒ) ،معمولات خیرؒ،بیان خیر البشر،معارف مکتوباتِ امام ربانیؒ،تاریخ مسعودی،اردو کی بین الاقوامی حیثیت،اردو الفاظ –ایک بین الاقوامی رابطہ،اردو ایک ہمہ گیر زبان،اردو ادب کا جمہوری کردار،گلزار ِفارسی(برائے طلبائے ہائی اسکول یو۔پی بورڈ سے منظور شدہ)قابل ذکر ہیں۔اس کےعلاوہ تقریباً ۳۰ تصانیف کے قریب بشکل مسودہ تیار ہیں اور ابھی تک غیر مطبوعہ ہیں جن میں آپ کی نثری کلیات مرقعِ خیالؔ(پانچ جلد)،شعری کلیات بنام ’’فانوسِ خیالیؔ(سات جلد) اہم ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ آپ کی تمام تر غیر مطبوعہ کتابیں منظر عام پر آکر آپ کے نام اور کام کو دوبارہ سے زندہ و جاوید کریں اور تشنگان علم اس سے پیاس بجھا سکے۔آمین۔
*متفرق اشعار*
سراپا فکر تخئیلِ مجسّم
متین و زندہ دل عکسِ خیالیؔ
شگفتہ آج کچھ دل کی کلی معلوم ہوتی ہے
بہار خندۂ گل زندگی معلوم ہوتی ہے
فانوس دل ٹوٹا خیالیؔ تو غم نہیں
افسوس یہ ہے رہ گیا انسان بے چراغ
چمن میں خندہ گل کی صدائے پیہم ہے
ہنسو ،ہنسو کہ یہاں فرصت خوشی کم ہے