اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
اولاد بھی املاک بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
رسائل و جرائد ، کلینڈروں پر یہ اشعار علامہ اقبال سے منسوب ہوکر زبان زد ہوگئے ، یہاں تک کہ پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خاں نے نیشنل اسمبلی میں انہیں اقبال کے کلام کی حیثیت سے پیش کیا تو بعض اہلِ علم نے شبہ ظاہر کیا کہ یہ اشعار اقبال کے نہیں ہیں ، کیوں کہ یہ ان کی کلیات میں نہیں پائے جاتے _ چنانچہ تحقیق شروع ہوئی تو تلاش بسیار کے بعد پتہ چلا کہ یہ اشعار راجستھان کے اسلام پسند شاعر جناب سرفراز احمد فلاحی کے ہیں جو شاعری میں اپنا نام ‘سرفراز بزمی’ استعمال کرتے ہیں _
سرفراز صاحب(ولادت 1969) کا تعلق راجستھان کے ضلع سوائی مادھوپور میں قصبہ بہتیڑ سے ہے _ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعۃ الفلاح ، بلریا گنج ، اعظم گڑھ میں داخلہ لیا ، جہاں سے 1985 میں عالمیت اور 1987 میں فضیلت کی اسناد حاصل کیں _ اس کے بعد
کچھ عرصہ اسلامیہ سینیر سیکنڈری اسکول سیکر(راجستھان) میں تدریسی خدمت انجام دی _ ان دنوں راجستھان کے محکمۂ تعلیم میں مدرس ہیں _ اس کے علاوہ انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ذاتی طور پر فاطمہ زہرا گرلس اسکول قائم کر رکھا ہے _
سرفراز صاحب اصلاً عالمِ دین ہیں _ علاقے میں اسی حیثیت سے ان کا تعارف ہے _ وہ ‘راجستھان علماء فورم’ کے ، جس میں تمام مکاتبِ فکر کی نمائندگی ہے ، ناظم ہیں ، لیکن ساتھ ہی ادبی ذوق بھی ان کی شناخت ہے ، اسی وجہ سے ادارۂ ادب اسلامی راجستھان سے بھی ان کی وابستگی ہے _ ان کا اصل تعارف اسلام پسند شاعر کی حیثیت سے _ ان کے کلام نے انہیں عالمی شہرت عطا کی ہے _ انہیں بڑے مشاعروں میں عزت و احترام کے ساتھ مدعو کیا جاتا ہے _ ان کے اشعار رسائل و مجلات کی زینت بنتے ہیں _
بھائی سرفراز اپنے کلام کی حفاظت اور اشاعت کے معاملے میں لااُبالی رہے ہیں _ کسی موقع پر انھوں نے کچھ اشعار کہے ، پیش کیے ، لیکن انہیں لکھ کر محفوظ نہیں رکھا ، پھر وہ ذہن سے بھی محو ہوگئے _ اس طرح ان کا اچھا خاصا کلام ضائع ہوگیا _ کچھ عرصہ قبل بعض احباب کے اصرار پر انھوں نے ہمّت کی ، اوراقِ پریشاں کو جمع کیا اور انہیں کتابی صورت میں مرتّب کیا _ یہ کتاب ‘نوائے صحرا’ کے نام سے منظر عام پر آئی ہے _
سرفراز بزمی کے کلام میں حالاتِ حاضرہ پر زبردست پکڑ پائی جاتی ہے _ وہ عالم اسلام پر گہری نظر رہتے ہیں اور ان پر پوری بے باکی سے تبصرہ کرتے ہیں _ مثال کے طور پر ترکی میں رجب طیب اردوان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد انھوں نے یہ قطعہ کہا تھا :
ستم کی دھوپ ڈھلی آسماں پہ نکلا چاند
کرن امید کی مغرب میں جگمگائی ہے
خدا کرے یہ کوئی مصطفیٰ کمال نہ ہو
دیارِ ترک سے ٹھنڈی ہوا تو آئی ہے
ایک طرف ترکی میں پھر اسلام کا نام لیا جانے لگا ہے ، دوسری طرف عرب ممالک میں اسلام سے بیزاری بڑھتی جارہی ہے اور ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جو اسلامی اقدار اور تعلیمات کے بالکل مغایر ہیں _ سرفراز اس صورت حال سے کُڑھتے ہیں اور اس کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں :
ہزار والئ مکہ ہیں آستینوں میں
کوئی یہود کا بندہ کوئی سبائی ہے
ہزار ابنِ سبا تخت و تاج والوں میں
سیاہ قلب لباسوں میں پارسائی ہے
چراغ طاقِ حرم کا خدا محافظ ہو
حرم کا پیر کلیسا سے آشنائی ہے
عالمی سطح پر حالات امت مسلمہ کے لیے غیر موافق ہیں ، لیکن ان کا تدارک اور مقابلہ کرنے کے لیے امت کے سرکردہ حضرات اور اربابِ حلّ و عقد تیار نہیں ہیں _ وہ اسلام دشمنوں سے خائف ہیں _ اس صورت حال کی ترجمانی شاعر ان الفاظ میں کرتا ہے :
فرعون آرہا ہے تعاقب میں سوئے نیل
گم ہوگئی کلیم کی لاٹھی مرے خدا
لیکن قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ وہ ان حالات سے دل برداشتہ نہیں ہوتے _ وہ رجائیت پسند شاعر ہیں _ حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں وہ امید کی شمع جلائے رکھتے ہیں :
بجھا بجھا کے وفا کی تمام قندیلیں
حرم کا پیر بھی خوش ہے مگن اندھیرا ہے
یہ کور چشم مگر دیکھتے نہیں شاید
اسی لہو سے نکلتا ہوا سویرا ہے
شاعر اپنے ملک کے حالات سے غافل نہیں ہے _ یہاں وہ اسلام کی بقا اور عظمت کا متمنّی ہے اور کفر کے سرغنہ لوگوں کی سرگرمیاں اسے ایک آنکھ نہیں بھاتیں _ بابری مسجد کی شہادت پر شاعر کا دل وفورِ غم سے لب ریز ہوجاتا ہے اور اس کے جذبات چھلک کر ان الفاظ کا روپ دھار لیتے ہیں :
اپنے انجام سے ہوئے دوچار
آڈوانی اٹل ونے کٹیار
اب کہاں کوئی مُرلی و سنگھل
اب کہاں ہے اُوما وہ شعلہ بار
بددعا کیسے کام کرتی ہے
دیکھ لے ظلم کے سپہ سالار
مودیو! یوگیو! خیال رہے
عرش والے کا ہے بڑا دربار
گھر خدا کا بچا نہیں پائے
ہم بھی مجرم ہیں یا شہِ ابرار!
سرفراز کے کلام کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے علامہ اقبال کی کام یاب نقّالی کی ہے _ ان کے الفاظ ، ان کا اسلوب ، ان کے اوزان ، ان کا پیغام ، ان کا اندازِ پیش کش ، سب کچھ اقبال جیسا ہے ، پھر ان کے کلام کو اقبال کا کلام کیوں نہ سمجھا جائے_ ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے :
یقین محکم عمل پیہم نہیں ہے
محبت فاتحِ عالم نہیں ہے
معلم محسنِ عالم نہیں ہے
مدارس ہیں درِ ارقم نہیں ہے
سرفراز صاحب کی بعض نظمیں بڑی پیاری ہیں _ ابھی حال میں انھوں نے ایک نظم ‘جنوں’ کے عنوان سے کہی ہے ، جس کا ایک بند ملاحظہ ہو :
جنوں کے پاؤں کی ٹھوکر میں تخت و تاج و کلاہ
جنوں کی راہ گزر کوئے آتشِ نمرود
خرد کے زعم میں آتش نژاد بر آتش
جنوں کے فیض سے مٹی ملائکہ مسجود
جنون کیا ہے زمانے میں قیصرِ بے تاج
جنون کیا ہے محبت کی آخری معراج
ان کی ایک نظم علامہ اقبال کے مصرع ‘پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہوجائے گی’ پر ہے _ اس میں انھوں نے امتِ مسلمہ کے ناگفتہ بہ حالات کا تذکرہ کرنے کے بعد خوش آئند مستقبل کی پیشین گوئی کی ہے _ چند اشعار ملاحظہ ہوں :
پھر خراں دیدہ گلوں پر آئے گا جوشِ بہار
شامِ غم اپنی سحر سے آشنا ہوجائے گی
وادئ ہستی میں گونجے گی صدائے لا الہ
نغمۂ توحید غنچوں کی نوا ہوجائے گی
پھر صنم خانوں سے نکلیں گے حرم کے پاسباں
"پھر جبینِ خاکِ حرم سے آشنا ہوجائے گی ”
‘نوائے صحرا’ سرفراز بزمی کا مجموعۂ کلام ہے _ اس میں حمد و نظم ، غزلیات ، قطعات و رباعیات شامل کیے گئے ہیں_ امید ہے ، اسلام پسند حلقے میں ، خاص طور پر نوجوانوں کے درمیان اس مجموعے کو مقبولیت حاصل ہوگی _
صفحات :320، قیمت :200
ناشر :گائیڈنس پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس
ڈی _105،ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی
Email:gpddelhi 2018 @gmail.com
Mob:9899693655,9958923032
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |