دربھنگہ ٹائمز ، جنوری تا مارچ 2022 کا شمارہ اۡردو صحافت کے دو سو سال مۡکمل ہونے پر گوش? خاص ہے – قلبِ حسّاس پہ ہر لمحہ ، ہواؤں سے اۡلجھتے ہوئے ، ادب و صحافت کی سنہری تاریخ کی صداؤں سے مچل جانے والے منصور خوشتر کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ یک موضوعی شمارہ شائع کیا جائے – افسانہ نمبر ، ناول نمبر ، اکیسویں صدی میں اردو غزل نمبر ، یاد رفتگاں نمبر ، گوشہ صحافت اور بھی کئی اہم موضوعات پر شائع ہونے والے ، ادب کے اس صحتمند روایات اور جدید رجحانات کے ترجمان نے مختصر عرصے میں عالمی سطح پر اپنی شناخت قائم کر لی ہے ۔بے لباس شجر کے موسم میں ،” منصور _شجر” کو دیکھ ، مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ ان کے جنون کے راستے ہوں جیسے – دربھنگہ ایک ایسا شہر ہے جہاں کچھ لوگ موجودہ عہد میں بھی جگنوؤں جیسے ہیں . دربھنگہ شہر کی ادبی فضا ، سوئے ہوئے قصبوں سے کچھ کہتی ہے – جاگ کیوں نہیں رہے ہو ، اے سونے والو ؟پاؤں پسارتی سنہری دھوپ کا ذائقہ چکھنے کا ہنر ، منصور کو خوب آتا ہے – اس عمر میں اپنی ساری شوخیوں کو ختم کر کے ، ادب و صحافت میں سنجیدہ ہو جانا ، کبھی مستانہ بن جانا آسان نہیں ہوتا ہے کہ ادب سماج کی جھنانہ کیفیت سے سبھی واقف ہیں – حروف تاگنا آسان نہیں ، میرے عزیز ! اڑانوں کے حوصلے میں دیکھ بھی رہا اور محسوس بھی کر رہا ہوں ۔خوشتر کی زندگی متحرک ہے ، جو ٹھہراؤ سے ہاتھ ملا کر آگے نہیں بڑھتی – ان کے یہاں ادب ، صحافت کی زندگی ہو یا کچھ اور ، موجودہ عہد میں بہنے والی ہواؤں سے ہی نۡمو پاتا ہے – ان کے مکان کی کھڑکیوں سے اب بھی تازہ ہوا آتی ہے۔
تازہ شمارے کا اداریہ ،غور طلب ہے – اردو صحافت کے دو سو سال کے تاریخی سفر پر اختصار کے ساتھ ، ماضی ، عہد موجود اور مستقبل کے امکانات پر کارآمد گفتگو کی گئی ہے – نگاہ وقت کے ساتھ صحافت کی تاریخ کا یہ سفر خوب ہے – اس رسالہ کی صورت میں آہٹیں لفظوں کی نئی رتیں لے کر آئی ہیں ۔
گوشہ صحافت میں کل بارہ مضامین / مقالے شامل ہیں – ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی ، ڈاکٹر ریحان غنی ، ڈاکٹر سید احمد قادری ، مفتی محمّد ثنا الہد یٰ قاسمی ، احمد جاوید ، نے ڈاکٹر کامران غنی صبا ، ڈاکٹر منصور خوشتر ، ڈاکٹر سلمان عبدالصمد ، ڈاکٹر جگموہن سنگھ ، ڈاکٹر نورالسلام ندوی ، ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز ، سہیل انجم نے اپنی تحریر میں آنکھیں اپنی آئنہ کو دے کر ، منفرد انداز و اسلوب کے ساتھ ، اردو صحافت کی سنہری تاریخ کو تحقیقی مراحل سے گزر کر سماجی / تمدنی / معاشرتی / اور سیاسی منظر _ پس منظر میں اردو صحافت کے تپتے سورج کو قلم کی نوک سے اٹھایا ہے – سبھی مقالہ / مضمون نگار مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
جام جہاں نما اور ہری ہر دت کے بعد آج تک ، اردو صحافت و ادب کے بدلتے مزاج کو اس شمارہ میں ، اپنا دھوپ چہرہ لئے میں نے محسوس کیا ہے – صحافت سے متعلق بے شمار پہلو سمیٹے اور خود میں سموئے ہوئے مضامین پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آج کی صحافت اور صحافی ، ماضی کی سرگوشیوں اور نیم کے پیڑ کی کٹی شاخ کی طرح ہیں یا پھر ، الگنی پر سوکھتے ہوئے الگ الگ وچاروں کی قمیص کی طرح ، شاید کہ روز مرّہ کی درہم برہم زندگی میں ، ادبی صحافت / صحافت کا حال کیا ہے۔سچ کیا ہے ، کیسے جانیں ، ایک صحافی کی زندگی میں جھانک کر تو دیکھیں کہ جو دکھایا جاتا ہے ، وہ سچ نہیں ہوتا –
سیاسی ہواؤں کی سازش میں ، فاختہ بھی پاگل ہوئی جائئے ہے ، یکجہتی کے جھرنے بھی سوکھتے جا رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں کہانی کی چَٹائی پر بیٹھنا ، بتیانا آسان نہیں ہوتا۔ نسترن فتیحی ، انجم قدوائی ، سرور غزالی ، مجیر احمد آزاد کی کتھا کہانی میں مضوعات کا فنی اظہار متاثر کرنے میں بہت کامیاب ہے۔جہان نقد و آگہی میں پروفیسر اسلم جمشیدپوری نے دو ہزار اکیس کے فکشن اور فکشن تنقید کا بہت ایمانداری سے جائزہ لیا ہے – ان کی تنقید میں تحقیق کا پہلو نمایاں ہے – عہد جدید میں پروفیسر اسلم جمشید پوری اردو کے ایک کامیاب فکشن نگار اور ناقد ہیں – فکشن کی تنقید لکھتے وقت پروفیسر شہاب ظفر اعظمی بھی قاری کے ذہن کو گمراہ نہیں کرتے – اس صدی میں حقانی القاسمی ، شہاب ظفر اعظمی ، اسلم جمشید پوری۔ اور کئ اہم نام ، نسیم احمد نسیم ، خان رضوان ، کامران غنی ، غلام نبی ، عشرت ناہید کی نسل تک چلے آئیے ، پابندیوں ، بندشوں اور مخصوص نظریوں سے آزاد ان سب کی تنقیدی نظر ( تنقیصی ہرگز نہیں ) متاثر کرتی ہے۔جہان فکر و فن میں ، انور آفاقی ، ضیا فاروقی ، ڈاکٹر مظفر مہدی ، ڈاکٹر انور الحسن وسطوی ، ڈاکٹر احسان عالم کے مضامین نے متاثر کیا – ویسے مجھے جس نثر میں شاعری کا ہلکا سا خمار اور سرور ہوتا ہے ، وہ میری روح کو ، جو میری ہوتے ہوئے بھی میری نہیں ، متاثر کرتی ہے ۔جہان امید میں” ریسرچ اسکالر کے آٹھ مختلف موضوعات پر مضامین شامل کئے گئے ہیں جو معیاری ہیں – پھول سا چہرہ لئے نئی نسل کے مضامین نے متاثر کیا – تین سو باون صفحات کے اس شمارہ میں افسانے ، غزلیں ، یاد رفتگاں نمر پر چھہ تبصرے ، کتابوں کی باتیں میں ، ڈاکٹر کامران غنی صبا ، منصور خوشتر ، احسان عالم ، مفتی ثنائ الہد یٰ قاسمی اور خیال آباد میں ادب کے معتبر چہروں کے خطوط شامل ہیں – ابتدا پروفیسر عبد المنان طرزی کی ” حمد رب ذوالجلال اور نعت پاک سے اور انتہا پروفیسر طرزی کے منظوم تاثرات پر۔ طرزی صاحب کو پڑھنے کے بعد ، خوشبو اک جدا سی آنے لگی ہے –
ادب پسند قارئین اس رسالہ کو انوکھے اپروچ ، خوبصورت گیٹ اپ اور عمدہ طباعت و کاغذ کے ساتھ خرید کر پڑھیں۔
سانس سانس اور قدم قدم ، اردو کی نئی بستیوں کو ، عملی طور اپنی تہزیب ، زبان اور کتب و رسائل کی بقا کے لئے کچھ کرنا ہوگا کہ آپ کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک رہی ہے۔
٭٭٭
خۡورشید حیات
موبائل6263331924
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page