پہلی بیوی صحت مند ہو تب بھی مرد کو دوسرے نکاح کا حق حاصل ہے
سوال:
ایک صاحبِ استطاعت شخص دوسرے نکاح کا خواہش مند ہے ۔ پہلی بیوی حیات ہے ۔ بہت بیمار رہتی ہے ۔ پوشیدہ نسوانی امراض کے سبب تین آپریشن ہو چکے ہیں ۔ شوہر کی خدمت کرنے سے قاصر ہے ۔ گھر کے کاموں کو انجام نہیں دے سکتی ۔ برتن دھونے ، جھاڑو پوچھا کرنے کے لیے ایک خادمہ کا انتظام ہے ۔ بیوی سے ایک لڑکا اور تین لڑکیاں ہیں ۔ لڑکے اور دو لڑکیوں کا نکاح ہو چکا ہے ۔ لڑکا اپنی بیوی کے ساتھ الگ رہتا ہے ۔ ایک لڑکی کا نکاح ابھی کرنا ہے۔ شوہر ریٹائرڈ ٹیچر ہے ۔ گھر کا خرچ پینشن کی رقم اور ایک فلیٹ سے حاصل ہونے والے کرایے سے پورا ہوتا ہے ۔ شوہر صحت مند ہے اور جنسی تقاضے رکھتا ہے ۔
کیا ایسا شخص نکاحِ ثانی کر سکتا ہے؟ یا اس میں کوئی شرعی عذر مانع ہے؟
جواب:
اسلام میں مرد کو ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ (النساء: ۳)
’’جو عورتیں تم کو پسند آئیں ، ان میں سے دو دو ، تین تین اور چار چار سے نکاح کر لو ۔‘‘
ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت اس سے مشروط نہیں ہے کہ پہلی بیوی بیمار ہو ، یا کسی اور وجہ سے وظیفۂ زوجیت ادا کرنے پر قادر نہ ہو ۔ تعدّدِ ازواج عورت کی ضرورت نہیں ، بلکہ مرد کی ضرورت ہے ۔ آپ نے جو عذر ات بیان کیے ہیں وہ اگرنہ بھی ہوں ، پہلی بیوی بالکل صحت مند ہو ، پھر بھی شوہر اپنے لیے ضرورت محسوس کرتا ہے تو وہ دوسرا نکاح کر سکتا ہے ۔
اسلام نے دوسرے نکاح کو عدل کے ساتھ مشروط کیا ہے ۔ اسی لیے مذکورہ بالا آیت کا اگلا ٹکڑا ہے:
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً (النساء: ۳)
’’ لیکن اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ تم ان کے ساتھ عدل نہ کر سکوگے تو پھر ایک ہی بیوی کرو ۔‘‘
بیویوں کے درمیان عدل کا تذکرہ قرآن مجید کی ایک دوسری آیت میں بھی آیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ (النساء: ۱۲۹)
’’ بیویوں کے درمیان پورا پورا عدل کرنا تمھارے بس میں نہیں ہے ۔ تم چاہو بھی تو اس پر قادر نہیں ہو سکتے ۔ لہٰذا (قانونِ الٰہی کا منشا پورا کرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ) ایک بیوی کی طرف اس طرح نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو ادھر لٹکتا چھوڑ دو ۔‘‘
اس آیت میں ’عدل‘ سے مراد رغبت ، محبت اور دلی تعلق میں برابری نہیں ہے ، کیوں کہ انسان اس پر قادر نہیں ۔ اس لیے اس کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے ۔ مطالبہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ظاہری معاملات میں ان کے درمیان فرق نہ کرے ، بلکہ دونوں کا یکساں خیال رکھے ۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اس آیت کی تشریح میں لکھا ہے:
’’ مطلب یہ ہے کہ آدمی تمام حالات میں ، تمام حیثیتوں سے ، دو یا زائد بیویوں کے درمیان مساوات نہیں برت سکتا ۔ ایک خوب صورت ہے اور دوسری بد صورت ، ایک جوان ہے اور دوسری سن رسیدہ ، ایک دائم المرض ہے اور دوسری تندرست ، ایک بد مزاج ہے اور دوسری خوش مزاج _ اور اسی طرح کے دوسرے تفاوت بھی ممکن ہیں ، جن کی وجہ سے ایک بیوی کی طرف نسبتاً آدمی کی رغبت کم اور دوسری کی طرف زیادہ ہو سکتی ہے ۔ ایسی حالتوں میں قانون یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ محبت و رغبت اور جسمانی تعلق میں ضرور ہی دونوں کے درمیان مساوات رکھی جائے ، بلکہ صرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جب تم بے رغبتی کے باوجود ایک عورت کو طلاق نہیں دیتے اور اس کو اپنی خواہش یا خود اس کی خواہش کی بنا پر بیوی بنائے رکھتے ہو تو اس سے کم ازکم اس حد تک تعلق ضرور رکھو کہ وہ عملاً بے شوہر ہوکر نہ رہ جائے ۔ ایسے حالات میں ایک بیوی کی بہ نسبت دوسری طرف میلان زیادہ ہونا تو فطری امر ہے ، لیکن ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ دوسری یوں معلّق ہوجائے ، گویا کہ اس کا کوئی شوہر نہیں ۔‘‘ (تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، جلد اول ، ص 403)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ عام حالات میں بھی مرد کو ایک بیوی کے رہتے ہوئے دوسرا نکاح کرنے کی اجازت ہے ۔ بس لازم یہ ہے کہ وہ دونوں کے درمیان عدل کو ملحوظ رکھے اور کسی کی حق تلفی نہ کرے ۔
( شائع شدہ ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی ، نومبر 2021)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |