ایکو سائیکولوجی مطالعہ کا ایک شعبہ ہے جو انسانوں اور قدرتی دنیا کے درمیان تعلقات کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی مسائل جیسے موسمیاتی تبدیلی، آلودگی اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان کے نفسیاتی اور جذباتی اثرات کو بھی دریافت کرتا ہے۔انسانوں اور قدرتی ماحول کے درمیان تعلق کا مطالعہ ہے۔ یہ انسانوں اور قدرتی دنیا کے درمیان باہمی انحصار پر زور دیتا ہے اور تسلیم کرتا ہے کہ دونوں کی فلاح و بہبود کا گہرا تعلق ہے یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ فطرت سے ہمارا تعلق ہماری ذہنی صحت اور تندرستی کو کس طرح متاثر کرتا ہے، اور کس طرح ماحولیاتی انحطاط ہماری نفسیاتی اور جذباتی حالتوں کو متاثر کر سکتا ۔
فطرت میں وقت گزارنا تناؤ، اضطراب اور افسردگی کو کم کر سکتا ہے۔ ایکو سائیکولوجی کا مقصد لوگوں کو قدرتی دنیا سے گہرا تعلق استوار کرنے میں مدد کرنا ہے، جو ذہنی صحت کو بہتر بنانے کا باعث بن سکتا ہے۔ایکو سائیکولوجی ان طریقوں کو سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے جن سے ہمارے رویے ماحول کو متاثر کرتے ہیں، اور ہمیں اپنے ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ ایکو سائیکالوجی اہم ہے کیونکہ یہ انسانوں اور قدرتی دنیا کے درمیان باہمی انحصار کو تسلیم کرتی ہے، اور انسانی بہبود اور ماحولیاتی پائیداری دونوں کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
ایکو سائیکالوجی کی جڑیں Henry David Thoreau اور John Muirکے کام سے مل سکتی ہیں، جنہوں نے فطرت میں وقت گزارنے کے روحانی اور نفسیاتی فوائد کو تسلیم کیا۔ تاہم، یہ 1960 اور 1970 کی دہائی تک نہیں تھا کہ ماہرین نفسیات اور دیگر سماجی سائنس دانوں نے انسانوں اور ماحول کے درمیان تعلقات کو مزید گہرائی میں تلاش کرنا شروع کیا۔
ایکو سائیکالوجی کی ترقی میں کلیدی شخصیات میں سے ایک تھیوڈور روززک(Theodore Roszak) تھے، جنہوں نے اپنی 1992 کی کتاب "The Voice of the Earth” میں "ماحولیاتی نفسیات” کی اصطلاح تیار کی تھی۔ روززاک نے استدلال کیا کہ ماحولیاتی بحران صرف سیاست اور معاشیات کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ بھی ہے جو قدرتی دنیا کے تئیں ہماری اقدار اور رویوں میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
اس کے بعد سے، ایکو سائیکولوجی ایک فیلڈ کے طور پر ترقی کر رہی ہے۔ آج، اس نے دوسرے نظریات کو بھی اپنے اندر سمو لیا ہے ، ان میں ماحولیات، ایکو فیمنزم، ایکومارکسزم قابل ذکر ہیں ماحولیات کے ماہرین انسانوں اور قدرتی دنیا کے درمیان نفسیاتی، جذباتی اور روحانی روابط کو سمجھنے کے لیے کام کرتے ہیں، اور ماحولیاتی پائیداری کو فروغ دینے اور افراد اور مجموعی طور پر کرہ ارض دونوں کے لیے فلاح و بہبود کے لیے حکمت عملی تیار کرتے ہیں۔
ایکو سائیکالوجی مختلف شعبوں پر مشتمل ہے، بشمول نفسیات، ماحولیات، ماحولیاتی سائنس، اور فلسفہ۔ اب مختلف زبانوں کے ادب کے اندرایکو سائیکولوجی نے بھی اپنی جڑیں مضبوط کی ہے۔ اگر اُردو ادب کی بات کی جائے تو اب اُردو میں باقاعدہ ماحولیاتی تناظر میں ادب تخلیق کیا جا رہا ہے ۔۔ایکو سائیکالوجی ایک نسبتاً نیا شعبہ ہے لیکن اُردو ادب نے کھلے دل سے اِس نئے شعبے کو خوش آمدید کہا ہے چونکہ ا اردو ادب سے مراد اردو زبان کا ادبی ورثہ ہے، جس میں شاعری، نثر، ڈرامہ اور اظہار کی دیگر اقسام شامل ہیں۔
ا یکو سائیکالوجی کا تعلق ماحول کے ساتھ انسانی رشتے سے ہے اور اردو ادب آرٹ اور ادب کے ذریعے اس تعلق کو تلاش کرنے اور اس کے اظہار کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کر سکتا ہے۔اُردو زبان و ادب نے شاعری اور نثر میں بیشمار نئے موضوعات میں ماحولیات کےموضوع پر بھی اظہار خیال کیا ہے ۔تخلیق کار جب کوئی فن پارا تخلیق کرتا ہے تو خود کو فطرت کے عناصر سے الگ نہیں کر سکتا اِس لئے وہ شعوری یا لاشعوری طور پر اپنےفن پاروں میں بےشمار فطرت کے عناصر کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے
اُردو شاعری ابتدا سے ہی مالا مال ہے سبز وادي، ستاروں کي ٹمٹماہٹ، سمندر اور ندي کي لہريں، بادِ نسيم اور باد بہار، فطرت کا شايد ہي کوئي ايسا منظر يا مناظر ہوں جن کو اردو شاعري کا موضوع نہ بنايا گيا ہو جوش ملیح آبادی جو انقلابی شاعر کے نام سے جانے جاتے ہیں انھوں نے ماحول میں چھپی فطرت کی عکاسی صبح کی منظر کشی بڑے اچھوتے انداز میں کی ہے
۔ جوش مليح آبادي کا شعر ہے۔
ہم ايسے اہل نظر کو ثبوت حق کے ليے
اگر رسولؐ نہ ہوتے تو صبح کافي تھي
اس کی ایک مثال اردو کے معروف شاعر علامہ اقبال کی شاعری ہے اقبال نے فطرت کو ایک شاعری کی جمالیاتی خصوصیات کے ساتھ فلسفیانہ انداز میں فطرت کو نئے رنگ ڈھگ کے ساتھ پیش کیا ۔جن کی ابتدائی دُور کی شاعری فطرت کی عکاسی اتنی خوبصورت طریقے سے کی گئی ہے کہ وہ مناظر فطرت میں پوشیدہ حقیقی پیغام ربانی کی ترجمانی کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے، جیساکہ وہ اپنے قاری کو بھی تلقین کرتے ہیں:
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالۂ و گل سے کلام پیدا کر
اقبال کی کتاب ’’بانگِ درا‘‘ میں بالخصوص ایسی نظمیں اور اشعار جابجا نظر آتے ہیں جو مظاہرفطرت کی خوش نما عکاسی کرتے ہیں۔ بانگ دراِ کی پہلی نظم ’’ہمالہ‘‘ ہی اس امر کی ایک خوب صورت مثال ہے۔
اے ہمالہ! اے فصیل ِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں۔۔۔
، وہ اکثر روحانی اور فلسفیانہ تصورات کے اظہار کے لیے قدرتی منظر کشی کا استعمال کرتے تھے۔عہدِ اقبال کے شعرا میں فیض ایسے پہلے شاعر ہیں جنھیں عالمی شناخت حاصل ہوئی اور اپنی زندگی میں ہی بین الاقوامی سطح پر ان کے شاعرانہ کمالات کو نہ صرف یہ کہ سراہا گیا بلکہ کوئی نصف صدی تک وہ تیسری دنیا کی ادبی آواز کے طور پر مشرق ومغرب کے اسٹیج پر اردو کی نمائندگی کرتے رہے
قدرت اور فطرت کے ساتھ فیض کا جو تعلق ابتدا میں قائم ہوا، وہ کبھی بھی ختم نہیں ہوا۔ دوسرے شعرا کی طرح فیض کے یہاں مناظر صرف منظر نگاری کا سامان بن کر نہیں آتے بلکہ زندگی کا کوئی گہرا تجربہ یا کائنات کا کوئی داخلی ذائقہ پیش کرنے کے لیے آتے ہیں۔ اکثروبیشتر ان مناظر کی پیش کش میں فیض ایسی تخلیقی روح پرو دیتے ہیں جیسے مناظر متحرک اور سیّال ہوجاتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
آسماں پر اداس ہیں تارے
چاندنی انتظار کرتی ہے
آکہ تھوڑا سا پیار کرلیں ہم
زندگی زر نگار کر لیں ہم
مندرجہ بالا شعراء کے علاوہ بےشمار شعراء نے فطرت اور ماحول کے تعلق کو انسان کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی اور انسان کو بھی فطرت کے ایک نمائندے کے طور پر پیش کیا جن میں مولانا الطاف حسین حالی ،محمد حسین آزاد ،احسان دانش ، اور جدید شعراء میں مجید امجد ،ن مُ راشد ،حسرت موہانی وغیرہ جیسے بےشمار شعراء قابل ذکر ہے یہ بات درست ہے کہ یہ ماحولیاتی نفسیات یا ایکو سائیکالوجی ایک نیا شعبہہے لیکن اگر اس کو تخلیقیت کے تناظر میں اس شعبے نے بہت پہلے جنم لے لیایہی وجہ ہے کہ شعراء لاشعوری طور پر جو نفسیات اور ماحولیات کے درمیان ایک دوسرے کو ملانے پر مرکوز ہے۔ ۔ یہ ماحول کے تحفظ اور احترام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انسانوں اور قدرتی دنیا کے درمیان تعلق کو دریافت کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
Dr.Rashida Parveen sahiba ka ya article bohat informative hay..