شعری مجموعہ ’’آنکھوں کے اُس پار‘‘جواں سال شاعرہ محترمہ فوزیہ قریشی المتخلص فوزیہ ربابؔ کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔یہ شعری مجموعہ 2018میں منصہ شہود پر آکر قارئین کی آنکھوں اور دلوں کو فرحت بخش رہا ہے۔فوزیہ رباب سیر و سیاحت کے لیے مشہور ریاست گوا میں سکونت پذیر ہیں ۔اس مجموعے کے صفحہ 6پر موصوفہ نے اپنا جو تعارفی خاکہ پیش کیا ہے اس کے مطابق انھوں نے ابھی تک اپنی زندگی کی31بہاریں ہی دیکھیں ہیں۔فوزیہ ربابؔ نے اپنی اعلا تعلیم(ایم ۔اے،ماس کمیونی کیشن اور بی۔ایڈ) گجرات یونی ورسٹی احمد آباد سے مکمل کی ہے۔فوزیہ رباب ؔ کے اس مجموعے کے منظرِ عام پر آنے سے قبل ہی ان کی شاعری کی شہرت عالمی پیمانے پر ہونے لگی تھی۔اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں نسائی لب و لہجے کو پُر درد اور پُر سوز آواز میں پیش کرنے والی شخصیت اور شاعرہ فوزیہ ربابؔ ہیں۔ویسے فوزیہ ربابؔ کا تعلق یو پی کے ایک علمی، مذہبی اور دینی خانوادے سے ۔
اس شعری مجموعے میں ایک حمد ،ایک نعت، ایک مناجات کے علاوہ60غزلیں اور 20نظمیں شامل ہیں۔فوزیہ رباب ؔ نے اپنی غزلوں اور نظموں میں مکمل طور پر نسائی جذبات کی ہی ترجمانی کی ہے۔ان کی کسی بھی غزل کا مطالعہ کیجیے،محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی غزلوں میں عورتوں کے درد ،کسک اور احساس کو یکجا کر دیا ہے۔ غزل کے لغوی معنی کو انھوں نے صفحۂ قرطاس پر اپنی غزلوں سے نئے معنی عطا کیے۔یعنی نسائی لب و لہجے ،نسائی خیالات ،احساس و جذبات کو غزل میں محسوس کرنا ہو تو فوزیہ ربابؔ کی غزلوںکا مطالعہ کیجیے۔کوئی بھی غزل ایسی نہیں ہے جو قارئین کے دل کے تارِرباب کو نہ چھیڑے:ایسی ہی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
اپنے ہوش گنوا بیٹھی ہوں پھر سے آج
سوچ رہی ہوں تجھ کو ہر دم شہزادے
میری روح میں تیری یاد اُترتی ہے
ہولے ہولے مدھم مدھم شہزادے
فوزیہ ربابؔ نے اپنی شاعری میں نئی نسل خاص کر اکیسویں صدی کے نوجوانوں، دوشیزاؤں بالخصوص عنفوانِ شباب کی عمر کے مچلتے ہوئے ارمانوں کو نئی سمت اور نئی آواز دی۔جسے پڑھ کر عموماًنو عمر لڑکے لڑکیاں بالخصوص عنفوانِ شباب کی دہلیز میں قدم رکھنے والی نئی نسل کے دل و دماغ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ان کی شاعرانہ معصومیت ،سیدھے سادے اور میٹھے بول کانوں میں رس گھولتے ہیں۔جنھیں پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ غزل صرف اور صرف میرے لیے لکھی گئی ہے:ملاحظہ کیجیے دو اشعار:
میرے الفاظ کیوں لگے میٹھے
میرے منھ میں تیری زبان ہے کیا
خود کو میں اُس کی ہی سمجھتی ہوں
ہائے! اُس کو بھی یہ گمان ہے کیا
فوزیہ ربابؔ نے چھوٹی بحروں میں زیادہ تر غزلیں کہیں ہیں۔ان غزلوں میں فوزیہ ربابؔ نے سماجی حقیقت نگاری سے کام لیا ہے۔اُنھوں نے اپنی آنکھوں سے جن واقعات کو دیکھا ،محسوس کیا اور برتا ،انھیں اپنی غزلوں میں قلم بند کیا۔خوبصورت ترکیبوں اور منفردرنگ و آہنگ نے ان غزلوں کو قارئین کے قلوب سے قریب تر کر دیا ہے۔فوزیہ ربابؔ نے صرف عشقیہ اور رومان کی چاشنی میں ڈوبی ہوئی غزلیں ہی نہیں کہیں بلکہ سماج کو آئینہ دکھاتی ہوئی یا یو ں کہہ لیجیے معاشعرتی نا ہمواریوں کو اپنی غزلوں میں بہ بانگ دُہل پیش کیا۔فوزیہ ربابؔ کی باتیں نرم لیکن دل میں سیدھے اثر کرنے والی ہوتی ہیں۔چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
صرف کردار ہے نگاہوں میں
گوروں کالوں کو بھول جاتی ہوں
اتنی وحشت ہے مری آنکھوں میں
درد بھی چیخ اٹھا ہو جیسے
امیرِ شہر کو بستر پہ کیا خبر لوگو!
کہ کون بھوک سے تڑپا ہوا ہے بستی میں
مذکورہ اشعار کے علاوہ میں ان کی ایک نظم قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ فوزیہ ربابؔ صاحبہ نے نہ صرف اپنی غزلوں میں بلکہ اپنی نظموں میں بھی نسائی جذبات کی پُر زور نمایندگی کی۔ علاوہ ازیں انھوں نے انسانیت کی خاطر بالخصوص روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ علم اور تعلیم پر بھی اظہار خیال پیش کیا ۔’’قلم اٹھاؤ!‘‘ایک ایسی ہی نظم ہے جس میں فوزیہ ربابؔ نے بے بس،مظلوم،نادار لوگوں کو بھوک ،پیاس،افلاس اور غربت سے نجات حاصل کرنے کے لیے قلم اُٹھانے پر زور دیا گیا ہے۔نظم کا ایک بند ملاحظہ کیجیے:
قلم اٹھاؤ
اداس لوگو!
اداسیوں کا لباس تن سے اُتار پھینکوں
اے خواہشوں کے اسیر لوگو!
حقیقتوں سے نظر نہ پھیرو
کئی سسکتی ہوئی سی بے سود خوہشوں کا
جو آج نوحہ سنا رہے ہو
الغرض!فوزیہ رباب کی شاعری کا جب قارئین مطالعہ کرتا ہو تو اسے فوزیہ ربابؔ کی شکل میں نئی صدی کی پروین شاکر نظر آتی ہے۔میں یہاں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر دور کی شاعرہ کا اپنا منفرد مزاج اور اسلوب ہوتا ہے۔بے شک پروین شاکر بیسویں صدی کی نمائندہ شاعرہ تھیں اور قارئین نے پروین شاکر کی شاعری کے منفرد لب و لہجے، آہنگ اور اسلوب کا سواد حاصل کیا ۔فوزیہ رباب ؔبے شک ابھی اس مقام و مرتبے کو نہیں پہنچی ہیں لیکن اس مجموعے کی روشنی میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر ان کی شاعرانہ روش یہی رہی تو بہت جلد ہو ہندوستان کی پروین شاکر بن جائیں گی۔ ابھی ان کی عمر اکتیس برس کی ہے اور لہجہ ، آہنگ اور اسلوب میں وہ پیش رو شاعرات سے کم نہیں ۔خیالات کی آزادی کا اظہاران کے نزدیک سب سے بڑی نعمت ہے۔خانگی زندگی کی مصروف ترین لمحات سے شعر گوئی کے لیے وقت نکالنا کوئی آسان کام نہیں ۔میں اس بات کو پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس مجموعے کے مطالعے سے قارئین واقعی آنکھوں کے اُس پار کیا شے ہے کا مشاہدہ ضرور کر ے گا۔آخر میں ،میں فوزیہ رباب ؔ کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں جس میں انھوں نے نسوانی جذبات کو کمالِ معراج عطا کیا:
میں کلی جیسی ہوں پر خار سمجھتے ہیں مجھے
لوگ مجرم یہاں ہر بار سمجھتے ہیں مجھے
ibraheem afsar
ward no-1,mehpa chuoraha, nagar panchayat
meerut (u.p)
mobile 9897012528
email:ibraheem.siwal@gmail.com