ایک نیم تاریک بے ترتیب سا کمرہ‘شوہر کی وفات سے نڈھال ایک عمر رسیدہ خاتون‘اس کمرے کی ہرشئے پراداسی نے سایہ کر رکھاتھا‘ ایک اچھاخاصہ روشن دن‘اس کمرے کی دہلیز تک آتے آتے کس قدر بوجھل پن کا شکارہوگیاتھا۔ تعزیت کو پہنچنے والی خواتین سے وہ بہت ہی تحمل سے مل رہی تھیں‘پھروہ یوں گویا ہوئیں:”انہیں (شوہرکو) شوگر تھی‘اور بچیوں کی شادی کی فکر بھی“اس بات پر تیس سے بتیس سال کی ان کی چار لڑکیاں خودکو کچن کے کونوں کھدروں میں چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگیں۔قدرے پستہ قد اورفربہ وہ چار بہنیں ایک دوسرے کو یوں دیکھنے لگیں گویا ان کا وجود ان کے والد کی عدم موجودگی اور ان کی ماں کے لہجے میں اترآئی افسردگی کاسبب ہو۔ ان لڑکیوں کا ایک ہی بھائی ہے جو خود بھی شادی کے قابل ہے لیکن وہ اپنی بہنوں کی شادی کے لیے محنت مشقت میں جٹاہوا ہے‘ وہ لڑکے والوں کے مطالبات پورے کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔لیکن وہ اپنی بہنوں کو لڑکے والوں کے لیے قابل ِ قبول کس طرح بنائے؟”ویری فیئر‘ درازقد‘ سلم‘بیس بائیس سال کی پروفیشنل ڈگری کی حامل لڑکی“ کی جنہیں تلاش ہو‘وہ بھلاان لڑکیوں کا انتخاب کیوں کریں؟
شہرحیدرآباد کے ایک اردو روزنامہ کے ایک صفحہ پرلڑکوں کے لیے شائع شدہ 94ضرورت رشتہ کے اشتہارات کا جائزہ لیاگیا۔
84 فیصد اشتہارات میں ویری ویری فیئر‘ویری فیئر‘ فیئر‘خوبصورت‘سلم‘درازقد لڑکی کا مطالبہ کیاگیا تھا‘ محض 15 اشتہارات ایسے تھے جن میں فیئرکلر یا خوبصورتی کا مطالبہ نہیں تھا‘اس کی بجائے پروفیشنل اور اعلی تعلیم کا مطالبہ کیاگیاتھا ‘محض ایک اشتہار ایساپایاگیا جس میں خوب سیرت اور قبول صورت لڑکی کا ذکر کیا گیا تھا۔ ضرورت رشتہ کے اشتہارات کے تجزیہ سے اس بات کا بھی علم ہوا کہ لڑکے والے پروفیشنل ڈگری کی حامل لڑکیوں کوترجیح دینے لگے ہیں‘ایسے اشتہارجن میں No Demands لکھاتھا انہوں نے پروفیشنل لڑکی کا مطالبہ کیاتھا۔
بعض اشتہارات میں بطورخاص یہ درج ہوتا ہے کہ’سید‘لڑکی نہیں چاہیے‘اوربعض سرپرست لکھتے ہیں کہ فاتحہ درود والے ہی ربط پیدا کریں‘اورکچھ یوں درج کرتے ہیں کہ فاتحہ درود والے زحمت نہ کریں۔ آج کل شرک وبدعات سے پاک دیندارلڑکیوں کا مطالبہ بھی بڑھ گیا ہے لیکن ایسی دینداری جو ویری ویری فیئر‘سلم اورشارپ فیچرس والی نہ ہو کسی کام کی نہیں۔
کئی خاندان ایسے ہیں جہاں لڑکیوں کی عمر تیس برس سے تجاوز کرچکی ہے اوران کے نکاح کی کوئی صورت بنتی ہوئی نظرنہیں آتی۔کچھ سرپرست سمجھوتہ بھی کرلیتے ہیں‘بڑی لڑکی کو مناسب رشتہ نہ ملے اور لڑکے والے چھوٹی لڑکی کو پسند کرلیں تو بڑی کی بجائے چھوٹی لڑکی کی شادی کردیتے ہیں‘حسینی علم کی صائمہ(نام تبدیل) بن بیاہی رہ گئیں اور ان کی چھوٹی بہن کی شادی ہوگئی اوروہ دو بچوں کی ماں بن گئیں۔
35سالہ عائشہ (نام تبدیل)کے چہرے پر ایک نقص کے سبب ان کی ابھی تک شادی نہیں ہو پائی اور ان سے پانچ سالہ چھوٹی بہن کی آٹھ سال قبل شادی ہوگئی اور وہ چاربچوں کی ماں ہے۔ایک سال قبل اس کے چھوٹے بھائی کی بھی شادی کردی گئی۔
38 سالہ مریم(نام تبدیل) اپنی دونوں چھوٹی بہنوں کو سسرال وداع کرکے اپنی ضعیف ماں کے ساتھ تنہاء رہ رہی ہیں۔ان سے چھوٹی بہن کے نین نقش بہت اچھے ہیں۔اورسب سے چھوٹی بہن کا رنگ بہت فیئرہے۔عام شکل و صورت کی مریم کے لیے مناسب رشتہ نہیں مل رہا تھا اورچھوٹی بہنوں کو ان کے رنگ روپ کے سبب رشتوں کی کمی نہیں تھی۔لہٰذا دونوں بہنوں کی شادی کردی گئی۔اس دوران مریم کے والد بھی گزر گئے۔وہ ایک عرصہ تک اسکول میں ملازمت کرتی رہیں‘اورگھرکاخرچ برداشت کرتی رہیں۔ان کی شادی شدہ کزنزانہیں ”باجی“ کہہ کر ہر وقت یہ احساس دلایاکرتی ہیں کہ وہ ان سے عمر میں بڑی ہیں اور اب تک بن بیاہی بیٹھی ہیں۔ مریم کی بڑھتی عمر اور معمولی فیچرس کو پیش نظررکھ کر لوگ ان کے لیے عقد ِثانی کے رشتے لے آتے ہیں‘ جنہیں وہ ٹھکرادیتی ہیں۔ مریم کاکوئی بھائی نہیں ہے۔کبھی انہیں معاشی تنگدستی کاسامنا رہا کرتا تھا‘ اب یہ مسئلہ بھی نہیں ہے۔شادی کے معاملے میں وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتیں۔ ا نہیں اپنے آئیڈیل کی تلاش ہے۔بظاہربے فکر اوربولڈ دکھائی دینے والی مریم کہتی ہیں:”من کے اندر کی بات کوئی نہیں سمجھ سکتا‘ جب میری عمرچوبیس پچیس سال تھی تو میرے لیے کوئی ڈھنگ کارشتہ نہیں آیا‘ میری بہنوں کوکئی رشتہ آیاکرتے تھے‘مجھے اگر مناسب رشتہ مل جاتا تو کیا میں تب بھی انکارکرتی؟ پھر باباگزرگئے‘گھر کی ذمہ داری مجھ پر آگئی‘ بہنیں سسرال کی ہوگئیں‘ وقت تیزی سے بھاگتا رہا۔آج خاندان والے کہتے ہیں‘ چالیس کی ہوگئی‘ ابھی تک شادی نہیں کی‘اب اس عمر میں جو بھی رشتہ آئے‘ غنیمت ہے‘لیکن اس لڑکی کا دماغ تو ساتویں آسمان پر ہے۔“
معین باغ کی 37 سالہ تحسین(نام تبدیل) گندمی رنگت اورمعمولی فیچرس کی حامل تھیں اور ان کی تینوں بہنیں فیئراوردبلی پتلی۔تینوں کی شادی مناسب وقت پرہوگئی اورپچھلے کئی برسوں سے تحسین کومناسب رشتہ نہیں مل پایا۔گوری رنگت کی ڈیمانڈ کودیکھتے ہوئے انہوں نے کوئی فیئرنیس کریم اپنے چہرے پرلگالی‘ رنگت نکھرنے کی بجائے ان کا چہرہ ہی خراب ہوگیا اورگندمی رنگت سیاہی مائل ہوگئی۔پورے خاندان نے لعنت ملامت کی کہ کیوں فیئرنیس کریم لگائی‘بزرگ خواتین نے کہا کہ ابٹن لگاتیں‘کریم لگاکرچہرے کو اورکیوں بگاڑلیا؟یوں فیئرنیس کریم سے تحسین کا مسئلہ توحل نہیں ہوا‘ہاں طنز اورطعنوں کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔
خلوت کی 22 سالہ تبسم (نام تبدیل)کا رشتہ بڑی آسانی سے ہوگیا‘وہ درازقد ہونے کے ساتھ ساتھ گوری اور دبلی پتلی بھی ہے۔لیکن اس کی 28 سالہ بہن تسنیم (نام تبدیل)کا رنگ صاف توہے لیکن وہ کافی پستہ قد اور کچھ فربہ بھی ہے۔تبسم اپنے رنگ روپ اور دراز قد پراتراتی پھرتی ہے۔جب سے تبسم کی منگنی ہوئی ہے‘تسنیم کے لیے مشکلات اور بھی بڑھ گئی ہیں۔ ارکان خاندان کا تکلیف دہ رویہ‘ماں کے طعنے اور لوگوں کے چبھتے ہوئے سوالوں نے اسے بدمزاج بنادیا ہے۔کچھ احساس کمتری اورمحرومی کادخل بھی ہے کہ ہر دوسرے دن اس کی ماں یابہن سے بحث ہوجایاکرتی ہے۔اب تو وہ اپنے ”ہونے“ پر ہی ملامت کرنے لگی ہے کہ بچپن ہی میں مار ڈالتے‘زندہ کیوں رکھا؟( یہ بھی پڑھیں عصر حاضر کے چند اہم سماجی مسائل اور اسلام -ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی )
شادی میں تاخیرکامسئلہ محض صائمہ‘عائشہ‘مریم‘ تحسین یاتسنیم کا نہیں ہے‘اس فہرست میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایسی لڑکیوں کے نام جڑسکتے ہیں‘ جن کی عمر تیس برس سے زیادہ ہوچکی ہے یا تیس برس کے قریب پہنچ چکی ہے۔کہیں کوئی مناسب رشتہ نہیں ملتا‘ کہیں جہیز کی طویل فہرست کا تقاضہ پورا نہ کرسکنے کی مجبوری ہے۔ کہیں پستہ قد نے تو کہیں سانولی رنگت نے توکہیں روز بہ روز فربہ ہوتے جسم نے قیامت ڈھادی ہے۔
لڑکیوں کا وزن بڑھنے لگے تو مائیں اپنی بیٹیوں کو معمول کا کھانا کھاتا دیکھ کر بھی کڑھنے لگتی ہیں۔اور پڑوس کی دبلی پتلی کسی لڑکی کے حوالے سے طعنے دے کر جیناحرام کردیتی ہیں۔
لڑکیوں کی بڑھتی عمر اورمناسب رشتہ کا نہ مل پانا والدین کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ اور ایسی لڑکیاں جو نہ توخوش شکل ہیں‘نہ دراز قد‘نہ سِلم نہ ہی پروفیشنل ڈگری کی حامل‘ان کا وجود اس بازارمیں کوئی ’یوایس پی‘نہ رکھنے کے سبب ایک بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔
یہی احسن ہے کہ لڑکے لڑکیوں کا مناسب عمر میں نکاح ہوجائے۔لیکن ترجیحات‘مطالبات اور معیارات کاکوہ گراں انتہائی سہل طریقے سے قائم ہونے والے اس تعلق میں حائل ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |