غالؔب کی وفات کوصدیاں گزر گئیں لیکن آج بھی اردو شاعری پر غالؔب کا غلبہ ہے۔ غاؔلب اردو ادب کا وہ درخشاں ستارہ ہے جس کا فن گزرتے لمحے کے ساتھ گرد آلود ہونے کے بجائے اور بھی نکھرتا جاتا ہے۔ غاؔلب کے کلام میں ہر روز نئے نئے نکتے اور نئی نئی جہتیں تلاش کی جارہی ہیں۔ دنیا کے عظیم شاعروں کی طرح غاؔلب کی شاعری بھی یک رنگی صفات کی حامل نہ ہو کر بڑی تہہ دار اور پہلو دار ہے۔ اس میں بیک وقت دل اور دماغ دونوں کو اپنی گرفت میں لے لینے کی صلاحیت موجود ہے۔
کوئی بھی شعر اس وقت تک زندگی کی ترجمانی نہیں کرسکتا جب تک کہ اس میں زندگی کے حقائق، انسانی افکار اور احساسات و جذبات کی بھر پور عکاسی نہ ہو۔ کسی انسان کے ساتھ جو واردات ہوتے ہیں یا ان واردات سے انسان کے دل پر جو کیفیتیں گزرتی ہیں وہ دوسروں کے دلوں پر بھی گزرتی ہیں۔جو خیالات ایک شخص کے ذہن میں آتے ہیں وہ دوسروں کے ذہن سے بھی ہوکر گزرتی ہیں۔ جو ایک شخص محسوس کرتا ہے وہ دوسرے لوگ بھی محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے جب شاعر اپنےشعر میں اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرتا ہے تو گویا پڑھنے والے کو وہ اپنی روداد معلوم ہوتی ہے۔
باہمی گفتگو میں، تقریروں میں، تحریروں میں اور کبھی کبھی پڑھے لکھے لوگوں کے آپسی تنازعات اور نوک جھونک میں بھی غالبؔ کے اشعار استعمال ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ کامیابی ہو یا ناکامی، سکون ہو یا ذہنی الجھن، امید ہو یا مایوسی، خوشی یا غم ہر موقعے پر ہم غالبؔ کے اشعار سے اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کو اپنا کہا اور کیا ہمیشہ درست لگتا ہے۔ بہت کم ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے غلط فیصلے پر نادم ہوتے ہیں۔ جس کی خوبصورت ترجمانی غاؔلب کے اس شعر سے واضح ہوتی ہے:
کی مرے قتل کے بعد اس نےجفا سے توبہ
ہائےاس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
یہ حقیقت ہے کہ خدا سے بڑا رحیم اور عطا کرنے والا کوئی اور نہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ انسان سے بڑھ کر ناشکر گزار کوئی اور مخلوق نہیں۔ ناشکری کی ترجمانی کرتا ہوا یہ شعر پیش خدمت ہے:
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غاؔلب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
غصہ ایک ایسی کیفیت ہےجس پر انسان با آسانی قابو نہیں پاسکتا۔ انسان جب غصے میں ہوتا ہے تو اسے ہر شخص کی بات بری معلوم ہوتی ہے اور کسی کے لاکھ سمجھانے پر بھی اسے وہ بات سمجھ نہیں آتی یا وہ غصے کی کیفیت میں اس بات کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر بے ساختہ زبان سے یہ شعر نکل جاتا ہے:
یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
جب کوئی کسی کی دہلیز سے ذلیل و بے آبرو کرکے نکالا جاتا ہے تو اسے اپنے اس احساس کی ترجمانی کے لئے غاؔلب کے اس شعر سے بہتر کوئی اور شعر نظر نہیں آتا:
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے
کوئی انسان جب کسی شخص کے خلاف کوئی سازش کرتا ہے اور وہ اس امید میں ہو کہ وہ کام اس کے توقع کے مطابق ہی ہو لیکن جب ایسا نہیں ہو پاتا تو اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے اور جس کے خلاف سازش کی گئی ہو وہ طنزیہ لہجے میں اس شعر کا استعمال کرتا ہے:
تھی خبر گرم کے غاؔلب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پہ تماشہ نہ ہوا
سچائی کا راستہ ہمیشہ مشکل ہوتا ہے اور اس پر چلنے والوں کو ہمیشہ مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ برے لوگ ہمیشہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ انہیں راہِ راست سے ہٹایا جائے جس کے لئے وہ انہیں بے سبب بدنام کرتے ہیں تو غاؔلب کے اس خوبصورت شعر سے ان کو تسلّی و تشفّی دی جاتی ہے:
کی وفا ہم نے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ﷲ کی ذات اور اس کی رحمت سے بہت جلد مایوس ہوجاتا ہے۔ یوں تو ناامیدی کفر ہے لیکن کبھی کبھی حالات اتنے بد سے بدتر ہوجاتے ہیں کہ انسان بالکل ناامید ہوجاتا ہے اور غاؔلب کا یہ شعر اس کا ترجمان بن جاتا ہے:
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جن کی حرکتیں اتنی ذلت آمیز ہوتی ہیں کہ انہیں دیکھ کر افسوس بھی ہوتا ہے اور ان کے خلاف غصہ اور نفرت بھی پیدا ہوتی ہے جیسے والدین کی نافرمانی، عورتوں کی بےعزتی، بزرگوں کی تضحیک، کمزورں پہ ظلم، مزدوروں کا استحصال وغیرہ اور اس جیسے نہ جانے کتنے حرکات ہیں جنہیں دیکھ کر یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ گویا ان میں انسانیت زندہ ہے۔ غاؔلب نے سچ ہی کہا تھا:
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
انسان کے اندر صبر کی بہت کمی ہوتی ہے۔ وہ ہر چیز اسی وقت چاہتا ہے جب اس کا دل ہوتا ہے۔ اس کے اندر انتظار اور صبر کا مادہ نہیں پایا جاتا ہے۔ اس سے کسی کا انتظار کرنا محال ہوتا ہے۔ جب ایسی صورت حال پیش آتی ہے تو غاؔلب کا یہ شعر برملا یاد آتا ہے:
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
انسان کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ بہت جلد خوش فہمی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جوچیز اصل میں واقع نہیں ہوئی ہو انسان اس کی توقع کر کے دل ہی دل خوش ہونے لگتا ہے اور اگر اس کی خوش فہمی کا اندازہ لگانا ہو تو اس شعر کے ذریعہ مزاحیہ انداز میں اس کی خوش فہمی کا اظہار کیا جا سکتا ہے:
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غاؔلب یہ خیال اچھا ہے
انسان کے دو روپ ہوتے ہیں ایک ظاہر اور دوسرا باطن۔ انسان اندر سے کچھ ہوتا ہے اور باہر سے کچھ ظاہر کرتا ہے لیکن کچھ ایسے بھی لوگ موجود ہیں جن کا ظاہر اور باطن یکساں ہوتا ہے۔ جب کسی کے ظاہر اور باطن ایک دوسرے سے بالکل مخالف ہوں تو یہ شعر پڑھ کر اسکی ترجمانی کا حق ادا کیا جا سکتا ہے:
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
دوستی ایک ایسا رشتہ ہے جو خون کے رشتے سے بھی بڑھ کر مانا جاتا ہے چونکہ اسے ﷲ خود بناتا ہے اس میں صرف دل کی مرضی چلتی ہے۔ دوستی کا رشتہ ایک پاکیزہ رشتہ ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس پاکیزہ رشتے کو ناپاک کر دیتے ہیں۔ جو دوست کے نام پر دشمن ہوتے ہیں ایسے بے وفا دوست کے کردار کی ترجمانی اس شعر سے بخوبی کی جاسکتی ہے:
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جن کے، دشمن ان کا آسماں کیوں ہو
اپنی بات کی صداقت کا اظہار کرنے کے لئے اس شعر کا استعمال کیا جا سکتا ہے:
صادق ہوں اپنے قول میں غالبؔ خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
اگر انسان کسی دوسرے انسان کی حق گوئی پر اس کی حمایت کرتا ہے یا اس کی طرفداری کرتا ہے
تو لوگ اسے اس کا طرفدار سمجھ لیتے ہیں اور اس کا چاپلوس سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ایسی حالت میں خود کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے غالؔب کے اس مصرع سے بہتر کوئی اور مصرع نہیں ہو سکتا :
ہم سخن فہم ہیں غاؔلب کے طرفدار نہیں
کسی کے جنم دن کے موقع پر یا یوں ہی صرف دعا کے لئے اس سے بہتر شعر شاید ہی کہیں اور نظر آتا ہو:
تم سلامت رہو ہزار برس!
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار!
اقباؔل نے ایک دفعہ کہا تھا کہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
غالؔب دراصل ایسی ہی شخصیت کا نام ہے جو صدیوں میں ایک بار پیدا ہوا کرتی ہے۔ ہزاروں سر سجدے کو جھکتے ہیں، ہزاروں دست دعا کو اٹھتے ہیں تب کہیں جاکر غاؔلب جیسی شخصیت ابھر کر ادبی دنیا کے منظر نامے پر آتی ہے۔ اردو شاعری کو جدت بخشنے اور زندگی سے قریب تر کرنے والے فنکاروں میں غالؔب کا شمار ہوتا ہے۔ آج غالؔب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں مگر پھر بھی ہمیں ان کے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ بڑا فنکار کبھی مرتا نہیں ہے بلکہ مر کے بھی جاوداں ہوجاتا ہے۔
نازیہ پروین
ایم اے اردو (تری وینی دیوی بھالوٹیہ کالج، رانی گنج)
پتہ: آر کے مشن بائی لین، تالپوکھریا،
آسنسسول-713303، پچھم بردوان، مغربی بنگال
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |