غضنفر اردو فکشن کا ایک معتبر نام ہے۔ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے لوگ انہیں ”کہانی انکل “ کے نام سے بھی پکارنے لگے ہیں۔ غضنفر فکشن کے ”مسنگ مین “ نہیں ہیں کہ انہیں ”ڈگڈگی “ بجا کر اپنی ”پہچان “ کرانی پڑے ۔وہ جب اپنی ”دبیہ بانی “ شروع کرتے ہیں تو چاروں طرف ”فسوں “ طاری ہوجاتا ہے اور اس خاص لمحے میں وہ فکشن کے ” تختِ سلیمانی “ پر براجمان نظر آتے ہیں ۔
لوگ انہیں فکشن کے سمندر کا ہونہار ” مانجھی “ بھی کہتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے وہ ”پانی “ کی گہراٸ میں اتر کر ”وش منتھن “ کرنے کے ہنر سے واقف ہیں تاکہ ہمارا سارا سماج زہر کی کاٹ سے محفوظ رہے۔ آج ہم جس سماج میں زندگی کرنے پر مجبور ہیں اس کی فضا مسموم ہوچکی ہے اورہم اپنے پرانے اقدار سے محروم ہوگٸے ہیں یہاں وہ ہورہا ہے جو نہیں ہونا چاہٸے اور جو نہیں ہونا چاٸیے لوگ اسی کے پیچھے دیوانے ہورہے ہیں۔ مثلاً ختنے کی رسم ہمارے یہاں ایک عرصے سے راٸج ہے لیکن ”خالد کا ختنہ “ ہو کہ نہیں ہو یہ ایک بڑا مسٸلہ بن گیا ہے ۔ اگر ہو تو کیسے ہو اور نہیں ہو تو کیوں نہیں ہو ان سارے سوال کا جواب غضنفر سے بہتر کون دے سکتا ہے کیونکہ ختنہ کا ان سے بڑا ماہر ہمارے سامنے کوٸ اور نہیں ہے۔ تیل کی ضرورت پیداٸش سے شروع ہوجاتی ہے لیکن صارفیت اور ملاوٹ کے دورہ میں خالص ” کڑواتیل “ حاصل کرنا جوۓ شیر لانے سے کم نہیں ۔اس کے لٸے آپکو خالص سرسوں لیکر شاہ جی کے کولھو تک جاکر اپنی گھانی کا انتظار کرنا ہوگا اور اس انتظار کے دوران آپ کو ناقابلِ فہم اذیتوں سے بھی گزرنا ہوگا اگر آپ اس اذیت سے گزرنا نہیں چاہتے تو پھر ایک ہی صورت ہے کہ آپ غضنفر سے رجوع کریں کہ وہ نہ صرف اپنی گھانی کا صبر کے ساتھ انتظار کرسکتے ہیں بلکہ وہ پوری مستعدی سے بیل کی پیٹھ پر پڑے شاہ جی کے سونٹے کے نشان کی گنتی کرسکتے ہیں اور یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ شاہ جی کا بیل دن بھر میں سترہ کیلومیٹر سے زاٸد کا سفر کرتا ہے لیکن اس مشقت کے بعد بھی وہ ایک انچ کی دوری بھی طے نہں کرسکتا۔
اگر آپ کو کوٸ اچھا اور سیانا ” مانجھی “ مل جاٸے تو وہ تروینی میں آپکو ”سرشوتی اشنان “کا ایسا لطف محسوس کراٸےگا جس سے آپ کبھی آشنا نہیں ہوٸے ساتھ ہی وہ اپنی چرب زبانی سے بہت سے دیومالاٸ قصے سناکر آپ کو وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہونے دےگا۔اچھے اور سچے مانجھی کی تلاش میں غضنفر آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔
غضنفر دھیمے لہجے میں کہانی سناتے ہیں وہ فکشن کے ” سانڈ “ یا اشرف کے ” نمبر دار کا نیلا “نہیں ہیں کہ دندناتے پھریں اور گاٶں سے شہر کا رخ کرلیں۔ وہ اپنے دھیمے لہجے کی مٹھاس کے لٸے جانے جاتے ہیں اور اپنے شیریں لہجے کے لٸے مشہور بھی ہیں۔ عبدالصمد کے کرداروں کی طرح ان کے کردار بھی نرم گو ہیں وہ ذوقی کے کردار کی طرح اچھل کود بھی نہیں کرتے ۔ذوقی ” لے سانس بھی آہستہ “ پر یقین تو کرتے ہیں لیکن ” مرگ انبوہ“ میں کھلا کھیل فرخ آبادی کا کھیلنا بھی انہیں مرغوب ہے کہ آج کے زمانے میں نرم لہجہ کوٸ سننے کو تیار ہی نہیں۔
غضنفر کی ”فسوں “ کاری کو محسوس کرنے کے لٸے میں ان کے ” خالی فریم “ کی جانب رجوع کرنا چاہتا ہوں کہ دیکھوں کہ فریم خالی کیوں ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس فریم میں پہلے سے کوئی تصویر تھی جسے کسی نے نوچ کر پھینک دیا ؟ یا تصویر اپنے آزو بازو کے فریم کا دباٶ برداشت نہیں کرسکی اور خود ہی نکل کر بھاگ گٸ۔ (یہ بھی پڑھیں بلراج مین را کا افسانہ پورٹریٹ ان بلیک اینڈ بلڈ – پروفیسر غضنفر )
آٸیے اس سلسلے میں غضنفر سے ہی رجوع کرتے ہیں۔ان کا بیان دیکھیں
”داٸروی کینوس پر تین فلک بوس ٹاور ۔کناروں کے دونوں ٹاوروں کے رنگ و روغن روشن۔ درمیانی ٹاور چمک دمک سے خالی۔ بے رنگ ، بے نور۔“
تشریح یوں کی گٸ ہے۔
” روشن ٹاوروں کے فریموں میں تصویریں آویزاں ۔داٸیں جانب کے فریم کی تصویر کے کٸ ہاتھ۔ہر ہاتھ میں ایک آلٸہ حرب۔ کسی میں تیر ، کسی میں تفنگ ، کسی میں تلوار کسی میں بندوق ، کسی میں بم کلسی میں بارود۔“
” باٸیں طرف کی تصویر سر سے پا تک سیم و زر اور لعل و گہرے سے مزین۔دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں انگوٹھیاں ،انگوٹھیوں میں جڑے رنگ برنگ نگینے۔نگینوں سے پھوٹتی ہوٸ شعاٸیں “
تیسرا فریم بے رنگ اور بے رونق ٹاور کا فریم تصویر سے خالی۔
ٹاوروں کے فریم کی تصویر کا راز جاننے سے قبل آٸیے ٹاوروں کے آس پاس کی زمینوں کا جاٸزہ لیا جاٸے جہاں زمین پر ہر جگہ لمبی چوڑی خاکستری پیٹیاں، ادھر اُدھر بکھری ہوٸ ہڈیاں ، کہیں جمے ہوٸے سرخ اور مٹی میلے چکتّے ۔خاک و خون میں لتھڑے ہوٸے لوتھڑے ۔جھیلوں اور تالابوں کے شفاف پانی سے نکلتے ہوٸے شعلے۔ نیلگوں فضا میں اُڑتے ہوۓ آتشیں گولے اور سیاہ مرغولے۔
تیسرے خالی فریم پر گفتگو پھیلانے سے قبل کناروں کے دونوں فریموں کا جاٸزہ لیا جاٸے۔
پہلا جملہ ” داٸروی کینوس پر فلک بوس ٹاور “۔
یہ کینوس داٸروی کیوں ہے ؟
کینوس تو عام طور پر چار کونوں والے ہوتے ہیں جس پر مصور اپنی مرضی سے تصویر ابھارتے ہیں۔
داٸروی کینوس کہیں گلوب کی طرف اشارہ تو نہیں کررہے ؟
ہماری یہ دنیا بھی داٸروی ہے تو کیا یہ کسی خاص خطے کی کہانی نہیں ہوکر پوری دنیا پر محیط ہے۔
داٸیں والے فریم کی تصویر پر ایک نظر ڈال لیا جاٸے۔
تصویر کے کٸ ہاتھ، ہر ہاتھ میں آلٸہ حرب، کسی میں تیر کہیں تفنگ، کسی میں تلوار کسی میں بندوق ، کسی میں بم کسی میں بارود۔ یہ تصویر دہشت اور وحشت کی نماٸندگی کررہی ہے۔ یہ کالی ، درگا یا چنڈی کی بھی تصویر ہوسکتی ہے۔یہ تینوں دیویاں ایک ہی ہیں اور اپنی دہشت گردی کے لٸے جانی جاتی ہیں۔ ان کے گلے میں نرمنڈوں کی مالا بھی ہوتی ہے جو اسے سب سے زیادہ طاقت ور بناتی ہے۔
یہ داٸیں جانب دیکھاٸ گٸی ہے تو یہ داٸیں بازو والے راٸٹسٹ بھی ہوسکتے ہیں جو صرف خون خرابے پہ یقین رکھتے ہیں اور دیشت گردی ان کا وطیرہ ہوتا ہے۔ ٹاور کے اردگرد کی زمین پر بکھری ہڈیاں ، خون کے دھبے اور بکھرے لوتھڑے کے ساتھ آسمان میں اُڑتے ہوٸے آتشیں گولے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ پوری دنیا دہشت گردی سے جھوج رہی ہے اور ایک عام آدمی بغیر کسی قصور کے یہ ساری اذییتیں جھیلنے پر مجبور ہے۔
داٸیں جانب کے فریم میں درگا کی تصویر ہوسکتی ہے اسے ہم طاقت کا استعارہ بھی کہ سکتے ہیں۔
اب ذرا باٸیں جانب کی تصویر کا بھی جاٸزہ لیا جاٸے جو سر سے پا تک سیم و زر اور لعل وگہر سے مزین ہے ۔انگلیوں کی انگوٹھیوں کے نگینے کی شعاع آنکھوں کو خیرہ کررہی ہیں۔ یہ لکشمی کی تصویر ہوسکتی ہے جو دولت کی نماٸندگی کرتی ہے۔
ایک طرف طاقت دوسری طرف دولت۔ اب یہ بات واضح ہوگٸ کہ طاقت اور دولت کے لٸے ہزاروں جنگیں لڑی گٸیں اور انہیں دونوں کے سہارے پوری دنیا پر حکومت کی جاسکتی ہے۔ جن کے پاس یہ دونوں پاور ہے وہ ساری دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچا رہا ہے۔
اب دونوں فریموں کی تصویر کا راز کھل گیا۔ (یہ بھی پڑھیں ابو الکلام قاسمی: بیسویں صدی سے آگے کا آدمی – پروفیسر غضنفر)
ایک جانب درگا جو طاقت کا استعارہ دوسری جانب لکشمی جو دولت کی نماٸندگی کررہی ہے۔
اب تیسرے خالی اور بے رونق فریم پر گفتگو پھیلاٸ جاٸے۔
اس پر بحث سے قبل یہ منظر دیکھ لیں۔
” ایک گوشہ میں دخانی کھمبے پر سنہرے ، روپہلے اور قرمزی تاروں سے بندھی ہوٸ ایک تصویر ہے جس کے ماتھے پہ تیج اور آنکھوں میں جوت ۔ تصویر کے پیروں کے نیچے ٹوٹا ہوا ایک ساز اور مرجھایا ہوا ایک گجرا ہے۔“
اس منظر کو ذہن میں محفوظ کرلیں کہ اس پر گفتگو بعد میں ہوگی۔
تیسرا فریم خالی کیوں ہے ؟
اس سوال کے کٸ جواب ہوسکتے ہیں۔
ممکن ہے تصویر نکل گٸ ہو یا نکال دی گٸ ہو
یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس فریم کے لٸے کوٸ تصویر بنی ہی نہ ہو
لیکن ذہن میں یہ بات کلبلاتی ہے جب فریم بنا ہے تو تصویر بھی ضرور ہوگی۔
تو پھر تصویر کیوں نکال دی گٸ یا پھر تصویر فریم سے خود ہی نکل گٸ ؟
مسٸلہ یہ نہیں کہ تصویر نکلی یا نکالی گٸ بلکہ اصل مسٸلہ یہ ہے تصویر فریم سے باہر کیوں ہوٸ ؟
اس کا سبب تو تلاش کرنا ہوگا۔ کہانی کا یہ حصہ ممکن ہے رہنماٸ کرے۔
” اس سوال پر اس نے جب غور کرنا شروع کیا تو اس کی آنکھوں میں اس کے باغ کا ایک گرا ہوا پیڑ ابھر آیا ۔ نہ کوٸ آندھی چلی تھی ، نہ ہی کسی نے اس کے جڑ پر کلہاڑا مارا تھا پھر بھی ایک دن گر گیا۔“
گھر اور پڑوس کے لوگ حیران کہ ایسا کیوں ہوا۔ ایک ”سیانے “ نے بتایا کہ تھوڑے فاصلے پر جو پیڑ ہے اس کی جڑیں گرنے والے پیڑ کی جڑوں میں پہنچ کر موٹی ہونے لگی تھیں اور اسی کے دباٶ سے پیڑ گر گیا۔
اس خالی پڑے فریم کی تصویر پر کس کا دباٶ پڑا ؟
اگل بغل کا دباٶ ؟
پہلو میں کھڑے ٹاوروں کا دباٶ
ایک کا عروج دوسرے کا زوال
توجہی اور بے توجہی کی نفسیات
خود کو منوانے کے لٸے دوسروں کو ختم کرنے کی سیاست تو برسوں سے چلی آرہی ہے
یہ ٹاور ان تصویروں کی ماہیت کے مظہر ہیں اور تصویریں ان کی ترجمان ہیں
یہ زمین کو آسمان بنا سکتی ہے پست کو بلند کرسکتی ہے اور بلند کو زمیں بوس کرسکتی ہے۔ جس کے پاس طاقت و دولت ہو وہ کچھ بھی الٹ پھیر کرسکتا ہے۔
یہ خالی تیسرا فریم ۔۔۔۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ اگل بغل کی تصویروں کا دباٶ تیسرا فریم برداشت نہیں کرسکا اور اسکی تصویر وہاں سے نکال دی گٸ یا نکل بھاگی ۔
یہ جو تصویر مختلف رنگوں کے تاروں سے دھوٸیں اگلتے ہوٸے کھمبے سے باندھی ہوٸ ہے اس کے پیروں میں ٹوٹا ساز اور مرجھایا ہوا گجرہ پڑا ہے اس تصویر کی بھی کوٸ منطق ہونی چاہٸے۔
اس ٹوٹے ساز کو تصویر کے ہاتھ میں رکھ دیں اور گجرا تصویر کی زلفوں میں سجاد دیں تو کیسا رہےگا۔ (یہ بھی پڑھیں غضنفر کا افسانہ’سرسوتی اسنان‘ کا تجزیاتی مطالعہ – پروفیسر (ڈاکٹر) عبدُ البرکات )
اگر انگلیاں تاروں کو چھیڑتیں اور تاروں سے سُر نکلتا
انتشار کو ہموار اور اضطراب کو پرسکون کرنے والا سُر ، تزکیہ نفس والا سُر ، قلب کو اطمینان بخشنے والا سُر۔ گجرا اپنی جگہ ہوتا تو اس کی بدمست کردینے والی خوشبو فکرِ دوعالم سے آزاد کردیتی۔
یہ تصویر کس کی ہوسکتی ہے ؟
اس ٹوٹے ساز کو غور سے دیکھیں کہیں یہ وینا تو نہیں ؟ تصویر کے ہاتھ میں رکھیں ارے یہ تو سر سوتی یعنی علم کی دیوی کی تصویر نکل آٸ۔ دنیا کے سارے علم اسی وینا کے راگ ہی سے تو نکلے ہیں۔
زندگی کا عرفان ہو، میوزک ہو ، فاٸن آرٹس ہو ، میڈیکل ساٸنس ہو یا چاند ستاروں کو تسخیر کرنے والا علم ہو سب سرسوتی کی دین ہی تو ہے۔
اس تصویر کو دھوٸیں اگلتے ہوٸے کھمبے سے مختلف رنگوں کے خوبصورت تاروں سے باندھ کر کیوں رکھا گیا ہے ؟
کہیں اس بات کا خدشہ تو نہیں کہ اگر تصویر کھلی ہوتی تو خالی فریم میں جُڑ جاتی۔ داٸیں درگا باٸیں لکشمی اور بیچ میں سرسوتی ۔لیکن یہ بھی تو مشہور ہے کہ لکشمی اور سرسوتی کا 36 کا سمبندھ ہے دونوں ایک ساتھ نہیں رہتی۔
مطلب بیچ کی تصویر اگل بغل کے دباٶ سے نکلی یا نکال دی گٸ
اگر موجود ہوتی تو شاید اگل بغل کی تصویروں کا رنگ پھیکا پڑجاتا انکی چمک دمک ماند پڑجاتی ۔نگاہ کے زاوٸیے بدل جاتے ۔تیغ و تفنگ کا پانی اتر جاتا۔لعل و گہرے بے آب ہوجاتے ۔خوشبو تن من کو مہکا دیتی ۔معطر تن من سکون کا باعث ہوتا اور انتشار و خلفشار دم توڑدیتے ۔ہر طرف سکون ہی سکون ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ اگل بغل کے فریم نے اپنا وجود بچاٸے رکھنے کے لٸے اسے باندھ کر رکھا ہے تاکہ وہ دوبارہ اپنی جگہ واپس نہ جاسکے۔
اسے رسی یا زنجیر کے بجاٸے سنہرے روپہلے اور قرمزی تاروں سے باندھا گیا ہے یہ روشِ دوراں کے مظاہر ہوسکتے ہیں اسلٸے ان تاروں کے تار رفتار زمانہ سے لگّا کھاتے ہیں یہ خوبصورت تار مختلف علوم و فنون کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ دھواں اگلتا ہوا کھمبا کیا ہے اور علم کی دیوی کو اسی سے کیوں باندھا گیا ؟
یہ دھواں اگلتا کھمبا دراصل انڈسٹریلاٸیزیشن کی علامت ہے ۔ یہ مختلف صنعتوں حرفتوں کی جانب اشارہ کررہا ہے ۔ اور یہ سب علم کی بدولت ہی ممکن ہے اس لٸے علم کی دیوی کو اس کھمبے سے باندھا گیا ہے ۔یہ خوبصورت سنہرے روپہلے اور قرمزی تار بھی مختلف علوم و فنون کے مظاہر ہیں۔
یہ دھواں کثافت کی جانب بھی اشارہ کررہا ہے۔ دھواں انڈسٹری کی چمنی سے نکلے یا گاڑیوں کے ساٸلنسر سے ، چولہے کی آگ سے نکلے یا ایٹمک انرجی سے نکلے وہ فضا میں زہر ہی پھیلاتا ہے۔ انسانی پھیپھڑے کے ساتھ آنکھوں کو بھی نقصان پہونچاتا ہے۔ اوزون لٸر میں دراڑ پیدا کرتا ہے اور موسم کے مزاج میں تبدیلی کا باعث ہوتا ہے ۔ یعنی چمنی سے لگاتار نکلتا ہوا دھواں پوری انسانیت کی تباہی کا اشاریہ بھی ہے۔ انسان نے جتنی ترقی کی اس کے ساٸیڈ ایفکٹ سے اسے ہی نقصان ہوتا ہے۔
اب تینوں فریموں کی تصویر واضح ہوجاتی ہے اور یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ طاقت اور دولت کبھی بھی علم کی روشنی برداشت کرنے کو تیار نہیں کیونکہ علم کا عرفان اس کی دہشت گردی اور چمک دمک کو ماند کردےگا۔یہی وجہ ہے کہ اسے علوم و فنون کے خوبصورت تاروں سے جکڑ دیا گیا ہے ۔شور و شر کو روکنے والا خود رک گیا ہے اسے شکنجوں میں جکڑ دیا گیا تاکہ طاقت و دولت کو اپنی من مانی کرنے کی آزادی ہو۔
غضنفر نے حالات حاضرہ کو جس تباہی و دہشت گردی میں جکڑا پایا اور ہر جگہ طاقت و دولت کی حکومت دیکھی اسے استعاراتی پیکر میں پیش کردیا۔ انہیں یہ خدشہ بھی لاحق ہوگیا کہ شاید قاری اس کہانی کے بھید سے محروم نہ ہوجاٸیں اسلٸے ان کے دو کردار اپنی گفتگو سے ان بھیدوں کو کھولتے بھی نظر آٸے جبکہ انہیں اپنے قارئين پر بھروسہ کرنا چاٸیے تھا۔ (یہ بھی پڑھیں غضنفر کا ناول "مانجھی” ایک جائزہ – ساجدہ علیگ )
غضنفر دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے ہیں اور رساں رساں انجام تک لےجاتے ہیں جس کے لٸے وہ داد کے مستحق ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |