مولانا مفتی قاضی عبد الشکور قاسمی بن محمد قاسم علی ساکن نیا ٹولہ کبئ بنگھرا دلسنگھ سراۓ ضلع سمستی پور نے مورخہ ۲۹/اگست ۲۰۲۱ء مطابق ۱۹/ محرم الحرام ۱۴۴۳ھ بروز اتوار صبح نو بجے داعی اجل کو لبیک کہا، وہ عرصہ سے مختلف امراض کے ساتھ ضعف و نقاہت اور کبر سنی کا سامنا کررہے تھے، اہلیہ دو سال پہلے ہی انتقال کرچکی تھیں، پس ماندگان میں ایک لڑکا اور چارلڑکیاں ہیں، سب شادی شدہ ہیں، لڑکا فضل اللہ ماجد حافظ قرآن ہے اور ایک اسکول میں تدریسی خدمات سے وابستہ ہے، جنازہ کی نماز دوسرے دن ۳۰/اگست ۲۰۲۱ء بروز سوموار دس بجے دن میں ادا کی گئی اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
مولانا مفتی عبد الشکور قاسمی کی ولادت ان کی خود نوشت کے مطابق اندازاً ۱۹۴۸ء اور سند کے مطابق ۳/ربیع الثانی ۱۳۷۱ھ میں ہوئ ، آبائی وطن شاہ پور پٹوری ضلع سمستی پور کے دکھن سرساواں نامی گاؤں تھا، گنگا نے جب اس گاؤں کو اپنے حلقہ میں لے لیا تو مفتی صاحب کے دادا نقل مکانی کرکے نیا ٹولہ کبئ بنگھرا میں آکر بس گئے، ابتدائی تعلیم آپ نے گاؤں کے مکتب میں مولوی عبد الاحد مرحوم سے پائی، اور تیسرا درجہ پاس کرنے کے بعد گاؤں کی کاشت کو دیکھنے لگے اور جانوروں کی چرواہی مشغلہ قرار پایا،دوسال بعد بڑے بھائی مولانا محمد یعقوب صاحب (م ۱۴/نومبر ۲۰۱۷ء ) کی تحریک اور توجہ سے ۱۹۶۰ء مطابق ۸/شوال ۱۳۸۰ھ میں بھائ کے ساتھ دارالعلوم دیوبند چلے گئے اور وہاں حفظ قرآن شروع کیا، قاری محمد کامل کی توجہ سے شوال سے شعبان تک میں دس پارے حفظ میں مکمل ہوگئے، شعبان ۱۳۸۲ھ کو حفظ قرآن مکمل ہوگیا، اسی سال مولانا یعقوب صاحب کا دورہ حدیث مکمل ہوچکا تھا، ان کے دیوبند نہ جانے کی وجہ سے دور کے لئے آپ کا داخلہ ۱۳۸۳ھ میں مدرسہ امدادیہ لہریا سراۓ دربھنگہ میں کرایا گیا، ۱۳۸۴ھ میں تجوید پڑھنے کے لئے مولانا یعقوب صاحب نے پھر سے دیوبند بھیج دیا، قاری نعمان صاحب کے درس میں تجوید کی تعلیم دوسال میں مکمل کی اور اسی دوران دامانی ایرانی سے خارج وقت میں گلستاں، مفتی سعید احمد پالن پوری رح نحومیر، پنج گنج، مکتبہ نعمانیہ کے مالک اور حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب کے خلیفہ مولانا طیب صاحب نابینا سے ہدایت النحو، نورالایضاح اور ابتدائی منطق کی تعلیم پائی، ۱۳۸۵ھ میں اپنے بھائی مولانا محمد یعقوب صاحب کے زیر سایہ مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم مظفر پور آگئے، یہاں شرح وقایہ، اصول الشاشی اور کافیہ تک کا نصاب مکمل کیا، ۱۳۸۶ھ میں مفتاح العلوم لودی کٹرہ مئو میں ہدایہ اولین، مختصر المعانی اور متنبی پڑھی، حضرت مولانا عبد اللطیف نعمانی صاحب سے شرف تلمذ حاصل ہوا، ۱۳۸۷ھ میں پھر سے دارالعلوم دیو بندکا رخ کیا ۱۳۹۱ھ میں دورہ حدیث کی تکمیل کی اور امتحان میں ممتاز رہے، درجہ اول سے کامیاب قرار پائے، ۱۳۹۲ھ میں دارالافتاء میں حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی کی زیر نگرانی فتویٰ نویسی کی تربیت حاصل کی ۱۳۹۲ھ مطابق ۱۹۷۲ء میں گھر واپسی ہوئی، فراغت کے بعد ۱۳۹۳ھ مطابق اپریل ۱۹۷۳ء میں قاری محمد عثمان صاحب لعل گنج ضلع ویشالی کی دختر نیک اختر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔
تدریسی زندگی کا آغاز حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا سید نظام الدین رحمھما اللہ کے حکم سے مدرسہ اسلامیہ ہلدی پوکھر ضلع سنگھ بھوم سے کیا، کوئی چھ ماہ یہاں قیام رہا اور چھ ماہ مدرسہ نورالاسلام چھتون ضلع دربھنگہ میں بھی پڑھایا پھر دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد ناظم تعلیمات کی حیثیت سے خدمت انجام دینے لگے، ڈیڑھ دو سالہ یہاں قیام کے بعد لخت جگر کی ولادت کی خبر ملی تو گھر آگئے؛لیکن بچہ آٹھویں دن ہی ابدی نیند سو گیا، پہلے بچے کی داغ مفارقت نے حیدرآباد کی طرف سے دل کو پھیر دیا چنانچہ قاضی صاحب اور مولانا محمد یعقوب صاحب کے حکم و ہدایت پر ناظم تعلیمات بن کر مدرسہ اسلامیہ بتیا چلے گئے، اس زمانہ میں قاضی عبد الجلیل صاحب رح کا قیام بھی وہیں تھا اور وہ بتیا کے قاضی کی حیثیت سے وہاں خدمت انجام دے رہے تھے۔اسی درمیان مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں فاضل کی خالی جگہ کے لئے تقرری کا اشتہار نکلا، بڑے بھائیوں کے دباؤ پر انہوں نے انٹرویو میں شرکت کی، صلاحیت مضبوط تھی اور اس زمانہ میں تنخواہ بھی قلیل تھی اس لیے آسانی سے تقرری ہوگئی اور آپ فروری ۱۹۷۸ء سے وہاں خدمت انجام دینے لگے، ۲۰۱۲ء میں مولانا آفتاب عالم مفتاحی کی سبکدوشی کے بعد مدرسہ کے انچارج پرنسپل بنے اور دسمبر ۲۰۱۲ء کو مدت ملازمت پوری کرکے سبکدوش ہوئے۔ (یہ بھی پڑھیں یادوں کے چراغ : الحاج عتیق احمد ناصری – مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی )
حضرت امیر شریعت مولانا سید نظام الدین صاحب رح (م ۲۰۱۵)نے ویشالی میں دارالقضاء کے قیام کا فیصلہ کیا تو مفتی صاحب نے کار قضا کی تربیت امارت شرعیہ سے لی ۲۳/ستمبر ۲۰۰۳ء مطابق ۱۵/رجب ۱۴۲۳ھ میں ایک بڑے اجلاس میں حضرت امیر شریعت نے انہیں منصب قضاء تفویض کی اور وہ سبکدوشی کے بعد بھی اپنی علالت کے قبل تک اس منصب پر مامور رہے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرتے رہے، جب ہاتھ میں رعشہ آگیا اور کام کی صلاحیت باقی نہیں رہی تو خود سے سبکدوش ہوگئے اور مستقل قیام گھر پر رہنے لگا۔
میری ان سے رفاقت کی سرگزشت طویل ہے، میں جب یکم مئی ۱۹۸۴ء کو مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور میں بحال ہوا، تو میری ان کی رفاقت ۲۰۰۳ء کے اپریل تک رہی،میں نائب ناظم کی حیثیت سے امیر شریعت سادس کی دعوت پر امارت شرعیہ آگیا تو بھی ان سے تعلقات استوار رہے، ابابکرپور کے زمانہ قیام میں میری جتنی کتابیں طبع ہوئیں، سب میں ان کا تعاون رہااور تمام کتابوں پر نظر ثانی کا کام انہوں نےپوری دلچسپی سے کیا۔ بعض کتابوں پر انہوں نے تبصرے بھی لکھے
وہ مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے، عربی ، اردو ، فارسی، فقہ، حدیث، تفسیر، نحو، صرف، منطق،فلسفہ سب میں ان کا مطالعہ وسیع اور گہرا تھا، انہوں نے کبھی شاعری کی میرے علم میں نہیں ہے، لیکن اشعار کی تصحیح کا انہیں خاص ملکہ تھا، وہ تُک بندی کو اوزان، قافیہ، ردیف کا پابند کرنے میں مہارت رکھتے تھے، قرآن کریم اچھا یاد تھا، تراویح پڑھایا کرتے تھے؛ لیکن ادھر ایک دہائی سے زیادہ سے ان کی آواز بیٹھ گئی تھی اس لیے تراویح پڑھانا چھوڑ دیا تھا، تقریر بھی اچھی کرتے تھے؛ لیکن آواز کےساتھ چھوڑنے کی وجہ سے یہ سلسلہ بھی کئ سالوں سے رک سا گیا تھا، وہ سادگی پسند تھے، اس لیے ان کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ اتنے بڑے عالم ہیں، مدرسہ بورڈ کے امتحان کے موقع سے وہ طلبہ کی پہلی پسند اور ان کے مسائل کے حل میں پیش پیش رہا کرتے تھے، طلبہ میں یہ بات مشہور تھی کہ بورڈ امتحان کے موقع سے اصل امتحان تو مفتی عبد الشکور صاحب کا ہوتا ہے، ان کی آمدنی قلیل تھی اور مالی دشواریوں کا سامنا تھا، لیکن ہفتہ دو ہفتہ پر گھر ضرور جایا کرتے تھے، چاہے سفر قرض لے کر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
طلبہ کے ساتھ ان کا معاملہ عموماً شفقت کا تھا، حالانکہ مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور میں ناظم دارالاقامہ وہی تھے، تنبیہ بھی کرتے تھے تو حد اعتدال سے تجاوز نہیں کرتے تھے۔ (یہ بھی پڑھیں امیرشریعت سابع: حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ – مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی )
مفتی صاحب کے انتقال سے ہم نے ایک بڑی علمی شخصیت کو کھو دیا، اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل دے۔آمین یارب العالمین۔
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم
امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
(مضمون نگار کے مختصر تعارف اور ’’ادبی میراث‘‘ پر شائع ان کے مضامین کی تفصیلات جاننے کے لیے کلک کریں مفتی محمد ثناء الہدیٰ)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
3 comments
[…] فکر و عمل […]
[…] فکر و عمل […]
[…] فکر و عمل […]