انیسویں صدی اردو نثر کی تاریخ میںچند جیالوں کی حیرت انگیز صلاحیتوں سے اپنے عروج کو پہنچی، ان میں ڈپٹی نذیر احمد اپنی کثیر الجہات شخصیت اور گوناگوں علمی کارناموں کی وجہ سے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز تو سب کا مقدّر ہیں لیکن نذیر احمد کو کم عمری ہی میں جن تجربات و حوادث کا سامنا کرنا پڑا، اسی نے انھیں سونا بنایا۔ انھوں نے طرح طرح کی چیزیں لکھیں، ایک تحریر دوسری سے بالکل الگ دنیا کی سیر کراتی ہوئی ملتی ہے لیکن ہر جگہ اُن کی جہاں دیدنی زیریں لہر کی طرح پیوست دکھائی دیتی ہے۔ ان کی زندگی شوکیس میں سجی دھجی نہیں تھی بلکہ دلّی کی گلیوں اور مدارس و مساجد کی صبر آزما منزلوں میں مرحلہ درمرحلہ تشکیل پاتی رہی۔ اس بے چین زندگی کو دلّی کالج میں داخلے سے جو قرار حاصل ہوا؛ وہیں سے ایک نئے نذیر احمد کا ورودِ مسعود ہوتا ہے۔یہاں نَو برس کی تعلیم نے نذیر احمد کی علمی شخصیت کو یوں سجایا جیسے کوئی مالی جنگل میں اُگے پھول اور پتّیوں کو ایک دھاگے میں پِرو کر رنگ اور خوشبو کا جہانِ نَو قائم کرد ے۔زندگی کی دھوپ چھانو کا جو ابتدائی سبق انھیں چارو ناچار پڑھنا پڑا تھا، تمام عمر وہ انھی تھپیڑوں کی تعبیراور ان کی نئی نئی شقیں قائم کرتے رہے۔ غدر کی تباہی و بربادی کے نتیجے میں نذیر احمد کے ذہن کا جو نیا دریچہ کھُلا،غور کیجیے تو اس کا بھی ابتدائی سِرا اُن کی اپنی زندگی بالخصوص دورِ اوّل سے پورے طَور پر جُڑا ہوا ہے۔
علی گڑھ تحریک سے وابستہ ہر فرد تعلیم کو اپنی قومی زندگی میں سرِ فہرست رکھتا تھا۔ سرسیّد کی لائق قیادت اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی شکل میں خوابوں کی تعبیر نے انھیں جدید ہند ستان کا تعلیمی رہنما بنادیا۔ اس وجہ سے ان کے بعض رفقا کی تعلیمی اوّلیات پر بالعموم غور و فکر اور محاسبے سے کام نہیں لیا جاسکا۔ سب کے سب سرسیّد کے جُزو ہو گئے اور ایک کُل جو وجود میں آیا، اس پرسرسیّد کے نام کی تختی آویزاںتھی۔سرسیّد کی شناخت پر کوئی سوالیہ نشان لگانا مقصود نہیں لیکن نذیر احمد، حالی، شبلی وغیرہ کا ذہن بھی ہندستان کی آیندہ تعلیم کے سلسلے سے پورے طَور پر متحرّک تھا۔ محمد حسین آزاد بھی تعلیمِ جدید کی بعض بنیادی باتیں پیش کررہے تھے۔ مشرقی اور مغربی تعلیم کی خانہ بندی آج کوئی معنیٰ نہیں رکھتی لیکن اُس زمانے میں قومی تعلیم کا کوئی مکمّل خاکہ تیّار ہو سکتا تھا تو اس کا سب سے متوازن رنگ نذیر احمد کے یہاں اُبھرتا ہے۔ یہ عجب اتّفاق ہے کہ نذیر احمد ناول نگار مانے گئے، زبردست عالِمِ دین، بے مثل خطیب اور مترجم بھی قبول کیے گئے، محاورات وضرب الامثال کی بہتی ہوئی انشاپردازانہ ندی تسلیم کیے گئے لیکن انھیں جدید ہندستان کی تعلیمی تشکیل و تعمیر کے بنیاد گزار کے طور پر بہت کم یاد کیا جاتا ہے۔ نئی تعلیم کے بارے میں انھوں نے بھی اپنے علم، مشاہدے اور قومی ضرورت کے مطابق کچھ اساسی کام کیے تھے؛اس سلسلے سے ہم اکثر غفلت کا شکار ہوتے ہیں۔ مغربیت اور سر سیّد کی قیادت کا طوفان اتنا شدید تھا جس نے ہمیں اُس عہد کے بہت سارے لوگوں کے کارناموں کی اہمیت سے بے پروا ہو جانے دیا۔ تاریخ کے دھارے میں ایسی ناانصافیاں اشخاص اور قوموں کا مقدّر ہو جاتی ہیں۔ نذیر احمد واقعتا اس کا شکار ہوگئے۔ (یہ بھی پڑھیں اردو میں شہر آشوب: فن اور روایت – ڈاکٹر صفدر امام قادری )
نذیر احمد نے اپنے اکلوتے بیٹے بشیرالدین احمد کو اپنی ڈپٹی کلکٹری کے سلسلے سے دہلی سے باہر پوسٹنگ کے دوران جو ایک سو سے زاید چھوٹے بڑے خطوط رقم کیے، وہ اُن کے تجربات و مشاہداتِ زندگی کا نچوڑ معلوم ہوتے ہیں۔ ’موعظۂ حَسۡنہ‘ نام سے ۱۸۸۷ئ میں پہلی بار یہ خطوط شائع ہوئے ۔ ملازمت کے دوران نذیر احمد اپنے صاحب زادے کو ساتھ رکھتے تھے اور ابتدائی تعلیم و تربیت بالخصوص عربی زبان کی تدریس خود اُن کے ذمّے تھی۔ لیکن جیسے ہی انگریزی تعلیم کا معاملہ اور کالج میں داخلے کی بات سامنے آئی، نذیر احمد نے اپنے بیٹے بشیرالدّین احمد کو دلّی بھیجنے کافیصلہ کیا۔ بیٹے کی جدائی میں یہ خطوط لکھے گئے ہیںجن کی تحریر کا زمانہ ۱۸۷۶ئ سے ۱۸۷۹ئ ہے۔ اُس زمانے میں عبدالغفور شہباز عظیم آبادی کی ترتیب و پیش کش اوراس کتاب پر محمد حسین آزاد کا تعریفی تبصرہ سامنے آنا یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس کا پُرجوش استقبال کیا گیا تھا۔ کتاب کے عنوان سے آج ہمیں زیادہ سروکار نہیں کیوں کہ اس وقت ’مقصدیت‘ کا بھاری پتّھر سبھوں کے ذہن پر سوار تھا۔ نذیر احمد تو پورے مولوی ہی تھے لیکن آج اس مجموعۂ مکتوب کو پڑھتے ہوئے اردو کے مراسلاتی ادب کے تناظر کے پہلو بہ پہلو ہماری اس بات پر بھی نظر ہونی چاہیے کہ نذیر احمد اور ان کے دیگر معاصرین قومی ذہن سازی کا جو تصوّر پیش کررہے تھے، کیا اُس کے کچھ چھینٹے اِن خطوط پر بھی پڑے؟ اپنی واحد اولاد کو اپنے علم کا کون سا اصلی جوہر وہ عطا کرنا چاہتے تھے؟ یہ خطوط صرف ایک باپ کی جانب سے بیٹے کو لکھے ہوئے نوشتہ جات نہیں ہیں بلکہ قومی زندگی کے خواب میں سرگرداں ایک تَپے تَپائے عالِم اور مُفکّر کا اپنے بعد کی نسل کو دیا جانے والا ایک حتمی پیغام بھی ہے۔ نذیر احمد ان خطوط میں جو لکیریں اور دائرے یا نقطے بناتے ہیں، ان سے صرف مولوی بشیر الدّین کی زندگی کا معاملہ جڑا ہوا نہیں ہے بلکہ انھی سے ایک بدلتے ہوئے ملک کی آیندہ زندگی کی تصویر بھی تیّار ہوتی ہے۔ ایک اور جہت بھی اظہر من الشمس ہے۔ ماہرینِ تعلیم اس کتاب کے صفحات پر نگاہ ڈالیں کہ کس طرح ایک نَوعمر اولاد کو عام خیر وعافیت کے پیرایے میں رائج تعلیم کا محاسبہ کرتے ہوئے نئی تعلیم کا خاکہ ذہن نشیں کرایا جا رہا ہے۔
نذیر احمد نے اپنے بیٹے کو خاص طور سے انگریزی تعلیم کے مقصد سے دہلی بھیجا تھا۔ وہ زمانہ انگریززدگی کا تھا اور ہر کوئی اُسی طرف دوڑ رہا تھا۔ مولوی نذیر احمد کا بھی دوسروں سے کچھ الگ خیال نہیں تھا۔ انگریزی تعلیم کی اہمیت، افادیت اور سیکھنے سکھانے جیسے بنیادی امور پر الگ الگ مکاتیب میں جو باتیں گوش گزار کی گئی ہیں، انھیں مرتّب کرتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ تعلیم کااصولی اور عملی دونوں تجربہ رکھتے تھے اور خطوط میں اپنے بیٹے کو اس نئی تعلیم کی مستقل ترغیب دیتے رہے۔ ذیل کے جملوں پر ذرا ایک نگاہ ڈالنا چاہیے:
(۱) جہاں تک ہو سکے، بُری بھَلی، غلط صحیح، ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولنی چاہیے۔ (ص:۴)
(۲) تم اونچی کلاس کے لڑکوں سے تعارف پیدا کرو اور ہر روز تین چار گھنٹے انگریزی میں بات چیت کرو تا کہ جھجک اور رکاوٹ دور ہو۔ (ص:۴)
(۳) تمھارے ماسٹر ہندستانی یا انگریز جو ہوں، ان سے ار دو میں ایک لفظ مت کہو۔ ( ص:۴)
(۴) لیسن صاحب کی میم سے تجدیدِ تعارف کرلو۔(ص:۴)
(۵) انگریزی مسودہ ہر روز لکھنا چاہیے۔ (ص:۵)
(۶) مجھ کو ہمیشہ انگریزی میں خط لکھو اور چوں کہ راز کی بات نہیں ہوتی، کسی ماسٹر یا کسی اونچی کلاس کے لڑکے یا کسی متعارف سے اس کودرست کرالیا کرو۔ (ص:۵)
(۷) ایک کتاب انگریزی کمپوزیشن کی بنالو جس میں اپنا کمپوزیشن تاریخ وار لکھ کر اس میں سُرخی سے اصلاح لے لیا کرو اور اصلاح کو بہ نظرِ غوردیکھ کر یاد رکھو کہ پھر ویسی غلطی نہ ہو۔( ص:۵)
(۸) میں نے سُنا ہے کہ تمھارے مدرسے میں ….. ماسٹر صاحب ہیں اور وہ انگریزی کے بڑے ادیب ہیں۔ ان سے تعارف پیدا کرو۔( ص:۵)
(۹) مدرسے کے خالی گھنٹے اور فرصت کے اوقات انگریزی گفتگو میں صَرف کرو۔ تفریح کی تفریح اور فائدے کا فائدہ۔(ص:۷)
ان ہدایات میں نذیر احمد استاد کے استاد اورایک مکمّل سرپرست کے طَور پر بھی نظر آتے ہیں۔ ایک نئی زبان سیکھنے کے لیے جتنے گُر آزمائے جا سکتے ہیں، انھیں نذیر احمد نے اپنے صاحبزادے کو بتا دیے۔ اِن جملوں میں اصول بھی ہیں اور ان کے اطلاق کے پیمانے بھی۔ ان سب سے بڑھ کر وہ استادانہ ہوش مندی اور چالاکی بھی بین السّطور میں سمو دی گئی ہے جس سے بہ ظاہر یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ طالب علم کی بغیر بتائے جانچ پرکھ کا ایک مکّمل انتظام روا رکھا گیا ہے۔ یہاں بڑی معصومیت سے ایک ہمہ جہت نگرانی کا طَور بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک غیر ملکی زبان سیکھنے کے سلسلے سے طالب علم کی سرگرمیاں کن پہلوؤں سے ہونی چاہئیں، نذیر احمد اِس معاملے میں نہایت مستعدی کے ساتھ اپنی تدریسی اور سرپرستانہ خدمات انجام دیتے ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں باصرسلطان کاظمی کی غزلیں [حصّہ اوّل] – ڈاکٹر صفدر امام قادری )
مولوی نذیر احمد انگریزی تعلیم کے نِرے پیروی کار نہیں تھے۔ انھیں انگریزی تعلیم کی خوبیوں کے ساتھ اس کی کمزوریوں کا بھی خیال تھا ۔مشرقی علوم کے سلسلے سے اُس زمانے میں بالعموم ناقدری کا ایک جوش بھَرا ماحول تھا اور سر سیّد کی قیادت میں تحریک زوروں پر تھی لیکن نذیر احمد کو معلوم تھاکہ علم کی گہرائی اور کلاسیکی زبانوں کی ہم نشینی کے الگ ہی جلوے ہیں اور اِن سے لَیس ہوئے بغیر طا لبِ علم بہر حال ادھورا رہے گا۔ بیٹے کو لکھتے ہیں :
< ’’بشیر! افسوس اگر تم نے عربی نہ پڑھی، عجیب چیز ہے۔ نِرے انگریزی داں جہاں دیکھے ،بے تمیز اورمبہوت؛ نہ اپنی کہہ سکیں اور نہ دوسرے کی سمجھیں۔‘‘ (ص:۳۱)
< ’’انگریزی خوانوں میں بڑا، بہت بڑا، بہت ہی بڑا نقصان یہ دیکھنے میں آیا کہ اُن لوگوں میں مطالعے کا دستور نہیں اور چوں کہ طبیعت پر غور و خوض کا بوجھ نہیں ڈالتے، میں نے جہاں تک دیکھا، استنباطِ مطلب میں اکثر خطا کرتے ہیں۔ آج کل کے بی۔اے، ایم۔اے، بات صاف تو یہ ہے کہ ہم لوگوں کی نظروں میں مطلق نہیں جچتے۔ محامل الفاظ اور تعلّقاتِ سابق و لاحق اور عبارت کے اطراف وجوانب اور مضمون کے مالہٗ و ماعلیہ پر کبھی اُن کی نظر کو احاطہ کرتے نہ دیکھا۔ پس اِن کی مثال اُس غوطہ زن کی سی ہے جس میں قعرِ دریا تک پہنچنے کا دَم نہیں،ڈُبکیاں لگاتا اور دُرِ مطلب کو نہیں پاتا۔‘‘ (ص: ۱۹۳)
< ’’اب تم انگریزی ایسی لکھتے ہوکہ مجھ کو مشکل سے غلطی ملتی ہے۔ اخبارِ انگریزی کا مطالعہ اور اس کا طرزِ ادا ے مطلب خیال میں رکھنا بہت مفید ہوگا۔ عربی جو تمھارا موروثی علم ہے، اس کی طرف تم کو مطلق توجّہ نہیں۔ افسوس!‘‘( ص:۱۶۹)
اس کے باوجود یہ سچّائی اپنی جگہ قائم ہے کہ نذیر احمد اپنی اولاد کو انگریزی تعلیم کی گوناگوں برکتوں سے مستفید کرنا چاہتے تھے ورنہ عربی کی تعلیم کے لیے انھیں اپنے صاحب زادے کو کسی دوسرے کے پاس کیوں کر بھیجنا تھا؟ انھیں معلوم تھا کہ عربی کی جو بنیاد انھوں نے قائم کردی ہے، اسے رفتہ رفتہ اُن کی اولادمستحکم کرلے گی۔اس میں کوئی کوتاہی ہوئی تو اس کا تدارُک وہ خود کر سکتے تھے لیکن زمانے کو دیکھتے ہوئے اصل مقصدتو انگریزی تعلیم میں آگے بڑھنے کا تھا۔ وہ متعدّد خطوط میں بیٹے کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ اُن سے الگ ہو کر دہلی میں صرف اس لیے قیام پذیر ہے کیوں کہ اُسے انگریزی تعلیم اور کالج کی زندگی اختیار کرنی ہے۔ اس لیے انگریزی زبان کی خصوصیات اور سیکھنے کی جدّوجہد اور پھرترغیب پیدا کرنے کے لیے پُرلطف واقعات کی شمولیت سے ان خطوط میں ایک دل پسند ماحول قائم کیا گیاہے؛ملاحظہ ہو :
< ’’کالج کے کتاب خانے کو جا کر دیکھو۔ عربی فارسی کی الماریوں میں پاؤگے کتابیں متقدّمین کی۔ کتاب زمانۂ تصنیف و تالیف کے اعتبار سے جس قدر پُرانی، اُسی قدر ہم لوگوں میں معتبر اور مستند؛ برخلاف انگریزی کے کہ سوبرس کی کتاب مثلِ تقویمِ پارینہ سلسلۂ درس سے خارج۔ شتان بینُھما۔ اس سے ظاہر ہوا کہ کسی علم میں ہم نے ترقّی نہیں کی۔ کی ہوتی تو عظامِ رمیم کو کیوں پڑے چچوڑتے۔‘‘ (ص:۱۹۲)
< ’’……. ڈپٹی کلکٹر کی استعدادِ انگریزی کچھ ایسی اچھّی نہ تھی مگر انگریزی فیصلے خوب لکھتے تھے۔ بعض لوگ شبہ کرتے تھے کہ کسی سے لکھوا لاتے ہیں۔ میں نے اس کی ٹوہ لگائی تو معلوم ہوا کہ نظائر ہائی کورٹ کے چند (غالباً سو سوا سو) فیصلے ہیں کہ اوقاتِ فرصت میں اُن کو بالالتزام نقل کیا کرتے ہیں۔ نقل کرتے کرتے کورٹ لینگوئج دھیان پر چڑھ گئی ہے اور کثرت ِکتابت سے سوادِ خط میں بھی پختگی کے نشان پیدا ہو گئے ہیں۔‘‘ (ص:۱۹۵)
< ’’ایک دوست نے مجھ کو انگریزی میں ترقّی کرنے کی یہ تدبیر بتائی تھی کہ اخبار سے چھوٹے چھوٹے مضامین مثلاً آٹھ آٹھ دس دس سطر کے پڑھ لیے اور پھر انھی مضامین کو آپ انگریزی میں لکھ کر اخبار سے مقابلہ کیا اور جہاں اختلاف ہوا، اُس کو غور سے دیکھ بھال لیا اور بہ تدریج مشق کو بڑھاتے گئے۔ مجھ کو اس تدبیر کے تجربہ کرنے کی تو فرصت نہیں ملی مگر عقل چاہتی ہے کہ بے شک مفید ہوگی، تم سے ہو سکے تو کر کے دیکھو۔‘‘ (ص:۱۹۶)
< ’’جولوگ گفت و شنود سے نہیں بلکہ کتاب بینی کے ذریعے سے انگریزی میں استعداد حاصل کرنا چاہتے ہیں (یاد رکھو کہ اخبار کا پڑھنا بھی داخلِ کتاب بینی ہے)؛ اکثر اُن سے ایک بڑی غلطی ہوتی ہے: وہ یہ کہ طرز ِعبارت سے قطع ِنظر کرکے محوِ مضامین ہو جاتے ہیں اور اُن کی محنت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مثلاً کئی گھنٹوں میں انھوں نے ایک اخبار پورا کیا۔ فارغ ہوئے تو اُن کو واقعات مستحفظ ہیں اور پیرایۂ عبارت کسی ایک مضمون کا بھی یاد نہیں۔ اُن کی مثال ڈفالیوں کی سی ہے کہ ساری عمر گاتے بجاتے رہے اور تال اور سُر نہ جاناـ۔‘‘( ص:۱۹۶)
< ’’انگریزی جاننا فی الحقیقت ہم لوگوں کے حق میں الگ مصیبت ہے۔ میں نے بڑے بھائی کا بنوایا ہوا مکان دیکھا اور انگریزی خیالات کے مطابق ناپسند کیا۔ مکان خوش قطع ہے، محکم ہے اور تھوڑی سی جگہ میں گنجائش بھی خاصی ہے۔ ضرورت کی کُل چیزیں ہیں یہاں تک کہ دو چور تہہ خانے بھی ہیں مگر وِنٹی لیشن کا نام نہیں۔ ہَوا جو کوٹھریوں کے پاٹتے وقت بند کی گئی ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بہ دون پنپ کے کیوں کر بدلی جا سکتی ہے۔ اس مکان کی زمین اس قدر مرتفع تھی کہ اگر مکان روشن اور ہوادار ہوتا تو بالا خانے کی کچھ ضرورت نہ تھی مگر ہوادار نہ ہونے سے گرمی کی رات اور موسمِ برسات کے قابل نہیں، ناچار بالا خانہ بنوانا پڑا۔‘‘ (ص: ۱۸۶)
ڈپٹی نذیر احمد نے یہ خطوط یوں تو نہایت محدود مقاصد سے تحریر کیے۔ بیٹے کو اپنے احوال رقم کرنے ہیں اور مقصد یہ ہے کہ اس کے جواب میں بچّے کی خیریت وصول ہوجائے ۔تمام والدین ایسا ہی کرتے ہیں لیکن نذیر احمد کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دلّی کالج سے فراغت کے بعد سرکاری ملازمت میں آگئے اور ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے جگہ جگہ گھومتے رہے۔ بے مثل عالِم تھے، اس لیے لڑکے اور لڑکیوں کے مکتب اور مدارس یا اُن میں پڑھائی جارہی کتابوں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ یہ سب ادارے اور ان کی درسی کتابیںقابلِ اطمینا ن نہیں ۔ انھوں نے اپنے بچّوں کی تعلیمی ضرورتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے کتابیں لکھنے کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ اسی مرحلے میںدیکھتے دیکھتے وہ ناول نگار بن گئے۔ بعد میں وہ منصوبہ بند انداز میں اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے کام میں بھی منہمک ہوگئے۔ (یہ بھی پڑھیں سلطان اختر: غزل کے قصر میں شاید ہو آخری آواز [حصّہ اوّل] – ڈاکٹر صفدر امام قادری )
حقیقت یہ ہے کہ نذیر احمد سر تاپا استاد تھے۔ اپنے بچّوں کی غیر رسمی تربیت کے دوران اُن کی استادی کی صلاحیت میں ایسا نکھار آیا جس نے اُن کی شخصیت کا ایک علاحدہ لیکن نہایت پختہ رنگ باندھا۔ تصنیف وتالیف تک بھی وہ تدریس کے دروازے ہی سے پہنچے تھے۔ اس کام کی اساسی اہمیت سے وہ واقف تھے جس کی وجہ سے اپنے بچّے کو خیر وعافیت کی اطّلاع دینے کے ساتھ پورے نظامِ تعلیم کی اصلاح کے اصول بھی وضع کرتے رہے۔ اپنے عملی تجربوں سے ان خطوط کو انھوں نے اتنا مالامال کیا ہے جس کا سرسری مطالعے سے شاید کوئی اندازہ بھی نہیں کرسکتا ۔ نذیر احمد کُھلی آنکھوں سے دنیا دیکھنے والے آدمی تھے۔ دہلی کالج کی تعلیم نے انھیں ہر بات کی تہہ میں اُترنے اور وسیع دائرۂ کار میں نتائج اخذ کرنے کا شعور عطا کردیا تھا۔ ملازمت کے دوران جہاں گردی اور انگریز افسروں کی ہم نشینی نے انھیں یکسربدل دیا تھا۔ ان سب سے مل کر اُن کی ایک نئی شخصیت قائم ہوئی جو عرفِ عام میں مجموعۂ اضداد کہی جاسکتی تھی لیکن یہ تھی شخصیت مولوی نذیر احمد کی جسے اس کی رنگا رنگی اور بوقلمو نی کے حوالے سے بہت بعد میں مرزا فرحت اللہ بیگ نے پہچانا تھا۔ ’موعظۂ حَسنہ‘ کے تمام خطوط سے جو نذیر احمد ابھرتے ہیں، وہ مولوی بھی ہیں اور جِنٹل مَین بھی؛ عربی بھی سکھانا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ انگریزی بھی سر چڑھ کربولے۔ اُن کی خواہش ہے کہ ان کی اولاد کی نگاہ گہری اور باریک بیں ہو لیکن اس کی نظر وسیع اور پھیلی ہوئی بھی ہو۔ کردار کا بھی سچّا چاہیے اور کاروبارِ دنیا کی مہارت بھی انھیں درکار ہے۔
نذیر احمداسکول اور کالج میں بچّے کو بھیجتے ضرورہیں لیکن انھیں معلوم ہے کہ یہ تعلیمی ادارے کارگر نہیں۔ جن اساتذہ کے سہارے یہ تعلیمی نظام قائم ہے؛ اُن کی استعداد پر انھیں کامل یقین نہیں لیکن اپنی اولاد کو جدید تعلیم سے انھیں لازماً آراستہ بھی کرنا ہے۔یہ خطوط درس گاہوں کے لیے کُمک کا درجہ رکھتے ہیں۔ طالب علم اور اساتذہ دونوں نے مل جل کر جتناسیکھنا سکھانا تھا، وہ تو کیا ہی لیکن جب مولوی نذیر احمد جیسا سرپرست ہوتو صرف اساتذہ کے بھروسے سب کچھ چھوڑ دینا ممکن نہیں تھا۔ تعلیمی اداروں کی صفوں میں جہاں جس پہلو سے کمی یا ابتری دیکھی، نذیر احمد نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے فوری طور پر علمی رسد مہیّا کرا کر ادارہ جاتی تعلیم کواستحکام عطا کیا۔
نذیر احمد کے ذہن میں تعلیم کا ایک مبسوط تصّور ہے۔ ڈگری یافتگی یا ملازمت ایک بات ہے اوربحرِ علم میں غوطہ زنی مختلف شَے۔ علم کی پیاس اور اس کی گہرائی کو نذیر احمد تعلیم و تدریس کی معراج مانتے ہیں۔ اپنے فن میں کامل ہوئے بغیر کوئی طالبِ علم واقعتا منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو ایسا لگتا ہے کہ نذیر احمد اپنی اولاد کو خود اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں۔ شاید اپنے سے زیادہ بہتر کی انھیں تمنّا ہے۔ اسی لیے زمانے کی روِش کو دیکھتے ہوئے مغربی تعلیم میں وہ اپنی اولاد کو زیادہ پختہ کار اور کامل دیکھنا چاہتے ہیں۔نذیر احمد کے خطوط میں تعلیم کی اہمیت اور اس میں مہارت کے مدارج اتنے سلسلے وار انداز میں بیان کیے گئے ہیں جس سے نذیر احمد کا نقطۂ نظر آئینہ ہو جاتا ہے۔ انگریزی تعلیم کی مرکزیت کے سلسلے سے نذیر احمد کے خیالات گذشتہ سطور میں ہمیں معلوم ہو چکے ہیں، ان باتوں کے علاوہ نذیر احمد کے ایسے خیالات بھی قابلِ توجّہ ہیں جب وہ زبان کی اہمیت اور تعلیم و تدریس کے ضمن میں ان پر خصوصی توجّہ کی بات کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
< ’’عربی عبارت کی شرح بھی کبھی کبھی لکھ بھیجا کرو تاکہ مجھ کو معلوم ہوکہ تم کچھ کرتے ہو۔‘‘ (ص:۲۲)
< ’’ایک زبان میں عمدہ معلومات ہوں تو دوسری زبانوں کے حاصل کرنے میں ضرور مدد ملتی ہے۔‘‘( ص:۶۱)
< ’’سب پر مقدّم ادب ہے جس کو انگریزی میں لٹریچر کہتے ہیں، یعنی زبان دانی۔ کمالِ زبان دانی یہ ہے کہ تم کو اہلِ زبان کی سی قدرت حاصل ہو۔‘‘(ص:۲)
< ’’جس طرح کے خیال اور مضمون کو جس پیرایے میں اہلِ زبان نے ادا کیا ہے، اس کی تقلید اور اس کی نقل کرنی چاہیے۔ ‘‘(ص:۲-۳)
< ’’سواے زبان دانی دوسرا کوئی علم نہیں جس میں آدمی ساری عمر مشغول رہے۔‘‘( ص:۳)
< ’’زبان دانی کی استعداد بے شک کتابوں کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے مگر اہلِ زبان سے گفتگو بھی ایک عمدہ ذریعہ ہے۔‘‘( ص:۴)
< ’’زبان دانی بے تسویدیعنی کمپوزیشن کے نہیں آتی اور اس خصوص میں تم نے میرے نزدیک غفلت کی، اور کرتے ہو۔‘‘( ص:۱۰۹-۱۰۸)
زبان دانی ایک جوہر ہے اور ایک ساتھ کئی زبانوں کا جاننا ہماری صلاحیت کو بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ ہمارے زمانے میں عالَم کاری نے کثیر لسانی صورتِ حال کو زندگی کا لازمہ بنا دیا ہے لیکن آج سے سَوا سَو برس پہلے نذیر احمد اپنے دَور میں ان باتوں سے پورے طور پر واقف تھے۔اس راستے کی آسانیوں کو تو وہ سمجھتے ہی تھے لیکن اس سفر کے مشکل مراحل پر بھی ان کی نگاہ تھی۔ زبان کی تعلیم کے بارے میں کامل ہونے کی بات وہ سو طرح سے اپنی اولاد کے دل میں بسا دینا چاہتے تھے۔ علم میں کرید اور ایک ایک لفظ کی تحقیق ان کا بتایا ہوا ایسا اصول ہے جسے شاید قیامت تک بدلنے کی ضرورت نہ پڑے۔ وہ کہتے ہیں:
< ’’کامیابی کی تدبیرِ یقینی یہ ہے کہ جو پڑھا بہ تحقیق اور جتنا نظر سے گزرا یاد۔‘‘( ص:۶۱)
< ’’کمالِ فن میں عجیب قدرت اور قوّت ہے۔ ‘‘(ص:۶۱)
< ’’جس تحقیق سے تم مجھ سے عربی پڑھتے تھے کہ ہر ہر لفظ کا مادّہ اور ماخذ اور صیغہ اور ترکیب کوئی بات چھوٹنے نہیں پاتی تھی۔ یہی تحقیق فارسی اور انگریزی کُل زبانوں میں ہے۔‘‘( ص:۳)
< ’’جب کسی کتاب کا سبق لے کر بیٹھو، خود لفظ لفظ پر نظر کرتے جائو۔‘‘(ص:۳)
< ’’ہر لفظ میں بال کی کھال نکال لیا کرو؛ مادّہ اور صیغہ اور ترکیب اور معنی اور مطلب۔ ‘‘(ص:۷)
مرزا فرحت اللہ بیگ نے صحیح علم کے متلاشی طلبہ کے بارے میں نذیر احمد کی پسندیدگی کا ذکر اپنے خاکے میں کیا ہے۔ نذیر احمد ان خطوط میں بھی اپنے بیٹے کو ایسا ہی طالب علم بنانا چاہتے ہیں جو روز آگے کی طرف بڑھتا جائے۔ علم کے پَروں سے طالبِ علم اُڑے اور اُن منزلوں تک پہنچے جہاں دوسروںکے لیے پہنچنا ایک خواب ہو۔ ذیل کے اقتباسات میں یہ بات دیکھنے سے تعلّق رکھتی ہے کہ نذیر احمد کس طرح تعلیمی ترغیبِ علمی اور مہارتِ تامّہ پیدا کرنا چاہتے ہیں:
< ’’خوش خطی بھی عجب ہنر ہے، خواہ مخواہ اچھّاخط دل کو بھَلا لگتا ہے۔ اگر کالج میں خط کو درست نہ کرو تو خیر، بگڑنے دینا بھی عقل کی بات نہیں۔ چندے بناکر، ہاتھ روک کر لکھو، پھر تو گھسیٹ بھی اچھّی ہوگی۔‘‘( ص:۱۳)
< ’’بے شک کلاس میں ۴۰؍ طلبہ ہیں اور سب پر سبقت لے جانا مشکل ہے لیکن آخر کوئی تواوّل ہوگا؟ کیا وجہ کہ وہ ’کوئی‘ تم نہ ہو اور دوسرا ہو۔ ابھی چالیس دیکھ کر ڈرے؛ اجی حضرت، یونی ورسٹی کے امتحان میں ہزاروں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔‘‘(ص:۶۰)
< ’’کتابیں تمھارے پاس بہت ہیں مگر سب رکھنے کی ہیں۔اگر اِن کتابوں پر نظر محقّقانہ ہو تو آدمی عالِم ہوجائے۔‘‘(ص:۸)
< ’’محنت سے جان چُرانا تو طالب علم کا کام نہیں ہے اور پھر یہ بھی کوئی محنت ہے کہ خدا کے فضل سے ہر طرح کے آرام کے ساتھ گھر میں رہنا اور پڑھنا۔ وہ بھی بندگانِ خدا ہیں جو دن بھر کلھاڑی چلاتے، سڑک کوٹتے، دوڑتے، راتوں کو جاگتے، بوجھ ڈھوتے؛ ہزاروں شکر ہے کہ شاقّہ محنت میں مبتلا نہیں کیے گئے۔ محنت ایک امرِ اضافی ہے، اس کا مفہوم متعیّن نہیں۔ ایک کام زید کے واسطے محنت کا ہے مگر شاید خالد کے حق میں وہ کامل آسائش کا موجب ہے۔ پس جس کو تم نے محنت سمجھا کیا، تم جیسے اور تم سے بہتر ہزاروں لاکھوں اُس کو نہیں کرتے۔ افسوس ہے کہ تم اس کو محنت کہو۔ ارے بابا! اگر یہ محنت بھی ہے تو ساری عمر کا آرام، ساری عمر کی خوش حالی، ساری عمر کی آبرو اس محنت کے طفیل سے حاصل ہوگی۔‘‘ ( ص: ۲۲-۱۲۱)
نذیر احمد یہاں اخلاق اور نصیحت پر گفتگو کی بنیاد نہیں رکھتے ہیں بلکہ منطقی استدلال کے سہارے اپنی باتیں پیش کرتے ہیں ۔ تجربہ اور علم کے گہرے سمندروں سے متھ کر دلیلیںنکالی گئی ہیں۔ اسی لیے وہ وقت کا بہترین مصرف لینے کی تاکید کرتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ان کی اولاد نے اپنے اوقات کا سلیقہ مند اور کار آمد استعمال نہیں کیاتو اس کی مٹّھی سے وقت کی چڑیانکل جائے گی۔ وقت کا بہتر استعمال ہمارے لیے ترقّی کے راستے کھولتا ہے۔نذیر احمد نے کیا خوب کہا ہے :
< ’’وقت کو انتظام کے ساتھ صَرف کرنے میں عجب برکت ہے۔ تھوڑا تھوڑا روز حاصل کرتے کرتے ایک ذخیرہ جمع ہوجاتا ہے۔‘‘( ص:۱۰۹)
< ’’روز کا کام روز کرنا ضرور ہے۔ جو سبق پڑھا ، اچھّی طرح اُس کو سمجھ کر قابو میں کرلیا۔ غافل لڑکے سبق جمع کرتے جاتے ہیں اور امتحان کے زمانے میں انبار مصیبت ہوجاتا ہے۔‘‘(ص:۷)
< ’’اپنے باہر کے اوقات منضبط کر لو کہ فلاں وقت یہ کام کریں گے اور جب اپنے کُل اوقات منضبط کر چکو، مجھ کو بھی اطّلاع دو۔ اس انتظام میں اس کا بڑا خیال رکھو کہ طبیعت پر اتنا بوجھ نہ پڑنے پائے کہ گھبرا جائے۔ جب تک خوش دلی ہے، سب کام اچھّا ہوتا ہے؛ بے دلی پیداہوئی اور کام بگڑا۔‘‘( ص:۷)
نذیر احمد خود ایک مکمّل استادتھے۔ اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ خطوط لکھتے وقت وہ اپنے اس کام سے پیچھے ہٹ جائیں۔ذرا دیکھیے کہ اپنے زمانے کا سب سے بڑا عربی زبان کا استاد کس طرح زبان اورعلم کے نئے نئے پہلو روشن کر تا چلتا ہے:
< ’’مختصر اور گول ’ۃ‘ کے قاعدے کو زیادہ صاف کرڈالیں۔ واضح ہوکہ سواے الفاظِ عربی کے گول ’ۃ‘ لکھنی روا نہیں کیوں کہ یہ رسمِ خط عربی کی ہے اور بس۔ عجمی الفاظ میں ہمیشہ لمبی ’ت‘ لکھنی ہوگی۔ جیسے بُت، دست، آتش پرست، مست، ہمالیہ پربت، سورت، مورت۔ عربی میں صرف چار قسم کی لمبی ’ت‘ لکھی جاتی ہے۔۔۔ ان چار قسموں کے علاوہ جتنی تیئیں ہیں، سب کو مختصر یا گول لکھنا ہوگا۔‘‘ (ص:۶۷)
< ’’کیوں جی، خیریت کیا لفظ ہے؟ ضرور عربی ہے۔ خیر وشر ایک دوسرے کی ضد ہیں؛ پس ’ی‘ اور ’ت‘ مصدر ی ہوگی جیسے قابلیت، جاہلیت۔ ’ی‘ اور ’ت‘ لگا کر صرف صفت کے صیغوں کو مصدر بناتے ہیں، یعنی اسم فاعل، اسم مفعول، صفت مشبہ؛ چنانچہ لفظ خیر اسم اور صفت دونوں ہے۔ ’بھلائی‘ اور ’بھلا‘ تو خیریت ٹھہرا لیکن درحالے کہ لفظ خیر خود مصدر ہے ،گو اس کو ’ی‘ ، ’ت‘ لگا کر مصدر بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ چناںچہ خیر وعافیت کہتے ہیں؛ پس آئندہ سے صرف خیر یا خیروعافیت لکھا کرو۔‘‘(ص:۷۸)
< ’’تمھارے خطوط میں بہت سی غلطیاں سہل انگاری سے رہ جاتی ہیں۔ اگر بہ تامّل نظرِ ثانی کر لیا کرو تو ضرور تم خود اُن کو درست کر لیا کرو۔‘‘(ص:۱۰۸)
< ’’تم نے صرف ونحو فارسی میں پڑھا کہ زبانِ فارسی میں ’ذ‘ نہیںتو ’گذارش‘ نہیں،’ گزارش‘ چاہیے۔‘‘( ص:۱۲)
< ’’میرے پاس اس مقام پر لغت کی کوئی کتاب نہیں اور تم نے عبارتِ سابقہ ولاحقہ لکھی نہیں کہ اس کے سہارے سے جواب دوں۔ پس جہاں تک اس وقت معلوم ہے، تمھارے مستفسرات کا جواب لکھتا ہوں۔ جن کا جواب شافی اس وقت نہیں دے سکتا، یا تو وہاں حل کرا لو یا یہیں سے قبلِ امتحان حل کرکے بھیج دوں گا۔‘‘ (ص:۱۱۰)
حصولِ علم کے لیے وقتاً فوقتاً رسمی اداروں سے دور چلے جانا بھی لازمی ہوتا ہے۔ نذیر احمد تعلیم کی غیر رسمی فصیلوں کی طرف امّید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ حصولِ علم کی منزل اور ذرایع دونوں لامحدود ہیں، اس لیے اس کی تلاش میں جو نکلے، اسے بھی اتنی تمنّا ،شوق اور جسارتیں ساتھ رکھنی چاہئیں۔ ایک سرپرست اور استاد کا یہ فرض ہے کہ تعلیم حاصل کرنے والے کو اگلی منزل کے لیے بھی راستہ دکھائے۔وہ کہتے ہیں:
< ’’میں تم کو عام اجازت دیتا ہوں کہ تحصیلِ علم واستعداد کے لیے صَرفِ زر میں مطلق تامّل مت کرو۔ میں اس خرچ کو خوشی سے ادا کروںگا۔ ‘‘(ص:۱۰)
< ’’میں اس کو زیادہ پسند کرتا کہ تم تعطیل میں علی گڑھ جاتے اور سیّد احمد خاں صاحب کے پاس رہ کر استفادہ کرتے۔ تمھارے خیالات کو اُن سے بہت نفع ہوتا۔‘‘( ص:۱۶۹)
نذیر احمد کے ان خطوط میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی جہاں دیدنی بھی اُبھر کر سامنے آتی ہے۔ اس جہاں دیدنی میں اپنے علم یا مشاہدے کا اظہار مقصود نہیں بلکہ دورانِ گفتگو کوئی ایسی بات آ گئی ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ان کے مشاہدات درکِ کاملہ کا ثبوت ہیں۔ ذیل کے جملے تجربات کی بھٹّی میں تپ کر مستقبل کی دیواروں پر کَندہ عبارتوں کے پڑھتے ہوئے رقم ہوئے ہیں:
< ’’مدراس شہر کا ہے کو ہے، آدمیوں کا جنگل ہے۔ کہتے ہیں اور سچ کہتے ہیں کہ کلکتہ چھوڑ کر ہندستان کے کُل شہروں سے بڑا ہے۔ انگریزی کا اس قدر رواج ہے کہ بی۔ اے۔ سوداگروں کے یہاں دس دس روپے بلکہ اس سے کم پر چٹھّی نویسی کرتے ہیں۔ مدراس، بنگلور دیکھنے سے مجھ کو یقین ہوا کہ اب سے ستّر یا غایت درجہ سو برس بعد بہ شرطِ بقاے عمل داریِ انگریزی ہماری ملکی زبان انگریزی ہوجائے گی۔ ان دوشہروں میں انگریزی کی یہ کثرت ہے اور ضرور یہی حال کلکتّے اور بمبئی کا ہوگا کہ بازاری کنجڑے، بھٹیارے انگریزی بولتے ہیں۔‘‘(ص:۱۶۹)
< ’’لوگ ایسا خیال کرتے تھے کہ انگریزی تعلیم رفتہ رفتہ ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک کردے گی لیکن علی الرغم التوقّع چند سال سے دیکھتے ہیں کہ دونوں قوموں میں الٹی ایک طرح کی مخاصمت سی پیدا ہوتی جاتی ہے۔ اگر یہ مخاصمت صرف طرفین کے عوام میں ہوتو کچھ پروا کی بات نہیں مگر افسوس ہے کہ تعلیم یافتہ اور انلائٹنڈ لوگوں کے دلوں میں تکدّر آگیا ہے۔ یہ باہمی نفاق اگر جڑ پکڑ گیا، ممکن نہیں کہ ملک کو پنپنے دے۔ اس فتنۂ خوابیدہ کو بیدار کیا ہے تاریخوں نے جو سرکاری مدارس کے کورس میں داخل ہیں۔ ‘‘(ص:۲۰۲) (یہ بھی پڑھیں نذیر احمد کا ناول ایامیٰ اور نو آبادیاتی جدیدیت – پروفیسر ناصر عباس نیرّ )
< ’’یہ ایک مشہور بات ہے کہ آدمی جس شہر میں رہے، وہاں کے طبیب اور کوتوال سے دوستی پیدا کرے۔ تم بھی اس کا خیال رکھو۔‘‘ (ص:۱۱)
نذیر احمد ہندستان کے بدلتے نظامِ تعلیم کے پروردہ تھے ۔ وہ مدارس سے نکل کر کالج کی سیڑھیوں پر چڑھے اور پھر انگلش انتظامیہ کا حصّہ بنے۔ اپنی اولاد کو اس سے آگے کی منزل تک وہ لے جانا چاہتے تھے، اس لیے انھوں نے تعلیم کو ایک نظام کے طور پر سمجھنے کی کوشش کی ۔وہ جانتے تھے کہ سسٹم کی بنیادی خوبی اور خامی پر نظر نہ رکھی جائے تو اس نظام سے اچھّا حاصل کرنا مشکل ہے۔ وہ سر سیّد کی طرح انگریزی تعلیم کے یک رخے عاشق نہیں ہیں، اسی لیے جہاں وہ جدید تعلیمی اداروں کا احتساب ان لفظوں میں کرتے ہیں:
< ’’پڑھائی کم، تعطیلیں زیادہ، استاد نامہربان، ہم سبق شیطان۔ ‘‘(ص:۲۰)
لیکن اسی کے ساتھ ساتھ مدارس کی تعلیم کی ایک خاص بات وہ اس طرح روشن کرتے ہیں:
< ’’مدارس کی تعلیم میں اگر پسندیدگی ہے تو یہی کہ مختلف علوم اور متعدّد فنون ایک ساتھ سکھاتے ہیں۔ اگر ایک ہی چیز کو آدمی دن بھر رَٹا کرے تو طبیعت اُکتا جاتی ہے لیکن اگر کئی چیزیں پیشِ نظر ہوں اور باری باری سے دیکھے تو سارا دن پڑھتا رہے اور مطلق جی نہ گھبرائے۔‘‘( ص:۱۰۹)
اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ یہ ذاتی خطوط عوامی اپیل رکھتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نذیر احمد نے اس میں ایسی کوئی بات شامل ہی نہیں کی جسے ایک باپ کو اپنے بیٹے سے کہنا چاہیے تھا۔ اگر یہ بات سچ ہو جائے تو اِن خطوط پر نئے زاویے سے بحث قائم ہو نے لگے گی۔ وہ زمانہ قومی فیضان میں خود کو لُٹا دینے کا تھا۔ سر سیّد ہی نہیں ، ان کے تمام رفقا اپنی ذات سے زیادہ قوم کی فکر میں سرگرداں رہے۔ اس لیے اگر اولاد بھی بہ طورِ مخاطب سامنے ہو، تب بھی موضوع کی بنیادی تان قوم پر ٹوٹے گی۔ ان خطوط میں بھی نذیر احمد کا یہی انداز ہے۔ لیکن جگہ جگہ باپ کے دھڑکتے ہوئے دل کی صدائیں بھی عود کر آتی ہیں لیکن یہ یاد رہے کہ یہ باپ بھی قومی اور تعلیمی ذی روح زیادہ ہے۔چند جملے ملاحظہ کیجیے:
< ’’تم بھائی بہن مل کر ماںکو تسلّی دو اور سمجھائو۔ غموں کے مارے اُن کا بدن بہت تحلیل ہوگیا ہے۔ ۔۔۔ چند روز کے لیے ایسا التزام کرو کہ اکثر اپنی ماں کے پاس بیٹھا کرو تاکہ ان کو ایذادہ تصوّرات کاموقع نہ ملے۔ ‘‘(ص:۶۸)
< ’’اب تم کو اپنا انتظام خود کرنا پڑے گا۔ اس کو سمجھ لو کہ لوگوں پر ہمارے حقوق کچھ نہیں اور ایسے نفوسِ قدسی جو دوسروں کو بے وجہ منفعت پہنچائیں، کم ہیں۔ پس اگر کوئی بے اعتنائی کرے تو افسردہ خاطر نہ ہونا چاہیے۔‘‘( ص:۹)
< ’’ذرا کھانے پینے میں احتیاط رکھا کرو؛ وہ احتیاط یہ ہے کہ اوقات منضبط؛ خلافِ وقت مت کھایاکرو اور اقسام اطعمہ بھی مضر ہیں۔ ایک غذا سے جو جی کوبھائے، پیٹ بھر لینا ضامنِ تندرستی ہے۔‘‘( ص:۷۲)
< ’’ایک تمھارے دوست اور تشریف لائے۔ یہ وہ لڑکا ہے جو اعظم گڑھ بھی گیا تھا۔ غالب ہے کہ اس نے تم سے میرا پتا پایا اور دہلی میں تمھارے پاس رہا یا ٹھہرا۔ اگر تم ایسے نالائق اور بدوضع لڑکوں سے تعارف اور ملاقات رکھتے ہو تو بھلے مانس رہ نہیں سکتے۔ بشیر، ذرا احتیاط کرو۔ قرآن میں آیا ہے کہ مِن الجنۃ والناس‘۔ اس طرح کے آدمیوں پر شیطان کا اطلاق کیا گیا ہے۔ ‘‘(ص: ۱۴۹)
< ’’صفائی سے رہو مگر زینت جو تمہیدِ بدوضعی وآوارگی ہے، خبردار، مت اختیار کرو۔‘‘( ص:۱۱-۱۰)
سر سیّد کی تعلیمی فکر اور مہم جوئی کا کوئی مقابلہ نہیں ۔ان کے معاصرین میں اس درجے تک شاید ہی کوئی پہنچتا ہو لیکن ادارہ سازی میں انہماک کے سبب سرسیّد کی مدرّسانہ حیثیت کا کوئی بڑا نقش ہمارے سامنے نہیں آتا ۔ ان کی تحریر اور تقریر میں ہمیشہ ہزاروں اور لاکھوں تک پہنچنے کا جو جوش ہے، وہ اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ رنگ قیادت کرنے والوں کا ہے لیکن ایک استاد یا مدرّس کو قومی قیادت جیسی باتوں سے کس قدر سروکار ہوتا ہے ؟ استاد کو ایک مختصر سی جماعت ،چند طالب علم اور کتابیں چاہئیں؛ اس کی زندگی بسر ہوجائے گی۔ نذیر احمد بھلے انتظامیہ کے افسر اور اپنے زمانے کے منتخب خطیب اور عالمِ دین تھے لیکن اصلاً وہ تھے مدرّس ہی۔ ان کے ناولوں پر بھی سب سے بڑا اعتراض جس مُبلّغانہ عُنصر کی وجہ سے قائم ہوتا ہے، وہ فی الحقیقت ایک استاد کی عمومی شان ہے۔ نذیر احمد کے خطوط اس درجے کے ہیں جنھیں ہم ۱۳۵؍ برس بعد بھی ایک ایسا تعلیمی منشور قرار دے سکتے ہیںجس میں نئی تعلیم اور مستقبل کے نظامِ تعلیم کاعمومی خاکہ موجود ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ڈپٹی نذیر احمد کے مکتب میں سائنس کی تعلیم – ڈاکٹر شاداب تبسّم )
ہمارے زمانے میں تعلیم کی ہمہ گیری اور کار آمد بننے بنانے کی بات ہر ماہرِ تعلیم کرتا ہے لیکن یہ بھی سامنے آتا رہتا ہے کہ اعلا تعلیم کے معیار میں گراوٹ آرہی ہے۔ فکر مندی اس بات پر ہے کہ اتنے وسیع تعلیمی ڈھانچے کے باوجود ملک میں نہ کوئی نوبیل ایوارڈ مل رہا ہے اور نہ ہی علمی سطح پر ہمارے فارغین کی عالمی شناخت قائم ہورہی ہے۔ ایسی حالت میں نذیر احمد کے ان خطوط میں وہ نسخۂ کیمیا موجود ہے جس سے ہم آج بھی اس نظام میں خاطر خواہ تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں۔ نذیر احمد کی فکر ہے کہ لیاقت اعلا پائے کی نہ ہو تو تعلیم کس لیے ہے؟ کالج اور یو نی ورسٹیوں سے نذیر احمد علم کے سب سے اونچے ،گھنے اور باثمر پیڑوں کے متلاشی ہیں۔وہ درس گاہوں سے نکلنے والی ایسی جماعت کا خواب دیکھتے تھے جو اپنے انہماک، ارتکاز، عمق اور وسعت کے ساتھ ساتھ’ دردوسوزِ آرزومندی ‘کا طلب گار ہو۔ اپنی اولاد کی تعلیمی پیش رفت سے وہ بار بار مایوس ہوتے ہیں تو اس کی بنیاد میں ایک ایسی عظیم توقّع ہے جو کم وبیش مثالی کہی جاسکتی ہے۔ آج جن صاحبانِ علم کے دل میں یہ تمنّاہے کہ ہماری یو نی ورسٹیوں اورکالجوں سے اعلا ذہن اور دماغ کے افرادپیدا ہوں، انھیں نذیر احمد کی اس کتاب کے ورق ورق میں پیوست تعلیم و تدریس کے اصولوں سے واقف ہولینا چاہیے ۔ نذیر احمد کو صرف ایک ناول نگار یا عالمِ دین سمجھ کر تعلیمی دائرے سے باہر کا فرد سمجھنا ہماری بڑی بھول ہوگی۔
DR. SAFDAR IMAM QUADRI
Head, Department of Urdu,
College of Commerce, Arts & Science, Patna-20, Bihar
202, Abu Plaza, NIT More, Ashok Rajpath, Patna-800006
Mob.: 094304-66321, Email: safdarimamquadri@gmail.com
مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |