اردو کی باتیں چھوڑیے، دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی اصنافِ نثر سے زیادہ اصنافِ شاعری پسندیدہ اورمعروف رہی ہیں۔ شاعری کا ذکر آتے ہی غزل اور نظم جیسے لفظ ذہن کے پردے پر اُبھر آتے ہیں۔ ان دونوں صنفوں کے فنی اور فکری تقاضوں میں بنیادی فرق ہے۔ غزل فکر و خیال کی صراحت یا تسلسل پر اصرار نہیں کرتی بلکہ اس کے ہر شعر میں فکر وخیال، ایجاز و اختصار کی صورت میں آتے ہیں، اس لیے معنی کے اعتبار سے غزل کے شعر کی حیثیت خودمکتفی ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس نظم میں کسی ایک خیال یا مواد کو تسلسل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ نظم گو شاعر کا طبعِ رواں پرانحصار ہے کہ وہ متعلقہ موضوع و مواد کو پھیلانے میں کہاں تک کامیاب ہوتا ہے۔ غزل کے شعر اور ایک پوری نظم میں فرق معنی کے ایجاز و اختصار اور تسلسلِ خیال کا ہے۔ اس لیے ایک مکمل نظم کے مدِمقابل غزل کے ایک شعر کو رکھا جاسکتا ہے۔ کسی خیال یا مواد کو دو مصرعوں میں باندھنا آسان نہیں، اس کے لیے تخلیقی زبان ، لفظوں کی تہذیب اور ان کے علامتی پیرایوں سے آگہی ضروری ہے۔ غزل کے شعرا چونکہ تخلیقی زبان کے رمز شناس ہوتے ہیں، اس لیے جب ان کا ذہن نظم نگاری کی طرف ملتفت ہوتا ہے تو غزل کے تمام مروجہ Tools کا استعمال کرتے ہوئے اچھی نظم کہہ جاتے ہیں۔ جس میں تسلسلِ خیال تو ہوتا ہی ہے، نظم میں ایجاز و اختصار کے ساتھ معنی کی کئی پرتیں اثرانگیزی کی کیفیت کو دوبالا کردیتی ہیں۔نظم کے شاعر کو چونکہ کسی بھی موضوع یا خیال کو پھیلاکر تسلسل کے ساتھ بیان کرنے میں یَدِطُولیٰ حاصل ہوتی ہے، اس لیے وہ غزل کے فنی و فکری تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھ پاتا، جس بنا پر غزل کے اشعار میں ایجاز و اختصار کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی اور شعر اکہری معنویت کا شکار ہوجاتا ہے۔ زمانۂ قدیم سے یہی صورت دنیائے شعر و ادب میں رہی ہے۔ اسی صورتِ حال نے "غزل تنقید” کا ایک لامتناہی سلسلہ دراز کیا۔ جس کے علم برداروں میںایسے نام بھی سامنے آئے، جو نظم کے اچھے شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ یہاں معاملہ غزل اور نظم کی شہرت اور عدم شہرت کا بھی تھا، یعنی غزل کا شاعر اپنی مٹھی بھر غزلوں کے ذریعے ادب کی بساط کا عمدہ کھلاڑی بن جاتا تھا، لیکن نظم کے شاعر کی تخلیقی پختہ کاری کے باوجود ان کی حیثیت پیادے کی ہی رہتی تھی۔ ان شعرا میں نظم طباطبائی، عظمت اللہ خاں، جوش ملیح آبادی، ظ. انصاری اور اخترالایمان کا شمار بھی ہوتا ہے۔ان میں سے کچھ شاعر مثلاً جوش ملیح آبادی اور اخترالایمان اپنے میدان میں یکتا و یگانہ ہیں۔ ان کی شہرت و مقبولیت پر بھی اشکال نہیں۔ اس کے باوجود وہ شہرت اور پذیرائی جو غزل کے شعرا کے حصے میں آتی ہے، انہیں میسر نہیں۔ چنانچہ "کھسیانی بلی کھمبا نوچے” کے مصداق انہوں نے غزل مخالف رویے کو ہوا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان لوگوں نے خودساختہ اصولوں کے تحت غزلیں کہیں، جن میں غزل کے فنی و فکری تقاضے عنقا تھے۔ چنانچہ تجربے کی بھٹی پر چڑھ کر ان کی غزلیں کندن نہ بن سکیں۔غزل کے شعرا اس کے فنی و فکری تقاضوں سے واقف تھے ، چنانچہ وہ نظم نگاری کے میدان میں آئے تو وہاں بھی اپنی فتح یابی کے جھنڈے بلند کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان شعرا میں خلیل الرحمن اعظمی، وحید اختر ، پروین شاکر، شہریار اور کشورناہید وغیرہ کے نام احترام کے ساتھ لیے جاتے ہیں۔نظم کے غزل گو شعرا کی اس فہرست میں ایک نام شہپررسول کا بھی شامل کی جاسکتا ہے۔
شہپر رسول بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ ان کے دو شعری مجموعے "صدف سمندر” اور "سخن سراب” دنیائے شعر و ادب میں اپنی موجودگی کا احساس کراچکے ہیں۔ ان دونوں مجموعوں کے اشاعتی سال میں جو وقفہ ہے، وہ شعر کہنے کی ابخَلی رفتار کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ واقعہ بھی یہی ہے، شہپر رسول شعر کہنے میں کنجوس واقع ہوئے ہیں۔ ان کے پہلے مجموعے "صدف سمندر” 1988 کے ٹھیک چودہ سال بعد دوسرا مجموعہ”سخن سراب” 2002 میں اشاعت کے مرحلوں سے گزرا۔ اس واقعے کو سولہ سال بیت چکے ہیں، لیکن تیسرے مجموعے کی اڑتی ہوئی خبر بھی کسی کے کانوں تک نہیں پہنچی۔ البتہ ان کی غزلیں اور مختلف موضوعات پر مبنی مضامین رسائل و جرائد کے ذریعے ان کی موجودگی کا احساس ضرور دلاتے ہیں۔ علاوہ ازیں شہپررسول کی نظمیں پکی روشنائی سے کندہ ہوکر ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کراتی رہی ہیں اور اپنے خالق کی تخلیقی ذہانت نیز فن پر اس کی گرفت کا سراغ بھی دیتی ہیں۔ یہ نظمیں نہیں بلکہ زنگار ہیں، جس کی سطح پر انسانی زندگی کے مسائل و معاملات، اس کی کربناکی، بے چہرگی، بے ثباتی، دہشت زدگی،خوف و خطر متحرک ہوگئے ہیں۔ اس میں ماضی کی جفاکشی اور حال کا بھیانک چہرہ ایک پھوڑے کی طرح اجاگر ہوا ہے۔شہپررسول ان پھوڑوں کی نشترزنی نہیں کرتے، ایسا کر بھی نہیں سکتے کہ وہ جراح نہیں بلکہ ایک تخلیق کار ہیں۔ وہ تو بس ان پھوڑوں کو آئینہ کرتے ہیں۔ ان کی نظموں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی مریض کی ناگفتہ بہ حالت کے ساتھ ڈاکٹر کے سامنے حرف بہ لب ہے۔ زندگی کے یہی پھوڑے اور ان کی کربناکی تخلیقی سطح پر شہپررسول کی نظموں کا موضوع بنی ہے، ان پھوڑوں کا علاج کرنا تو ایک ڈاکٹر یعنی ادب کے قاری کا کام ہے۔ وہ چاہے تو ایک جراح کی مانند نشترزنی کرکے ان پھوڑوں پر مرہم لگا سکتا ہے، نہیں تو انہیں ناسور بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ شہپررسول کی ایک خوبصورت نظم”بس سانس لیتے رہیں” ہے۔ اس نظم کا عنوان ہی معنی خیز ہے۔ سانس لینے کے عمل پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ شاعر نے پہلے دو مصرعوں میں "سانس لیتے رہیں/بس سانس لیتے رہیں” میں ابہام کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ یہاں ظاہر نہیں ہوتا کہ "سانس لینا”خوشگوار واقعے کا اشاریہ ہے یا اس میں طنز کے نشتر چھپے ہیں۔اسی تحیر و تعجب کے ساتھ آگے بڑھیے تو ان مصرعوں سے سابقہ پڑتا ہے:
مرگ آغوش ہے اور گھنی چھاؤں ہے
زیست کا کوہسار اور کڑی دھوپ ہے
زہر کو تھوک دیں گے کہ پی جائیں گے
مرتے مرتے بھی اک عمر جی جائیں گے
پہلے دو مصرعوں میں گھنی چھاؤں اور زیست کے کہسار اور اس کے معنوی انسلاکات پر نظر مرکوز کیجئے تو زندگی برف کے پھاہے کی طرح لگے گی، لیکن کڑی دھوپ اورمرگ کو آغوش تصور کرنا زہر ناک صورت اختیار کرکے ایک ایسی کربناکی، ہولناک منظر، بھوک اور مفلسی کے دل دہلانے والے واقعات سے روبرو کراتا ہے کہ اس زہر کو تھوکتے ہوئے بن پاتا ہے اور نہ ہی پیتے ہوئے۔ان حالات میں زندہ رہنا کمال نہیں تو اور کیا ہے، یہی کما ل عرفان حاصل کرنے کا طریقہ بھی ہے۔ جس نے زندگی کی دھوپ چھاؤں کے ساتھ نبھا لیا ، اس نے عرفان حاصل کرلیا اور جو ناکام رہا، اس کی زندگی آگے آنے والے مصرعوں کی طرح ہے، جس میں کہا گیا ہے:
نو بہ نو زندگی یوں تو ہر آن ہے
موت آسان ہے/سب تو جیتے نہیں
سب کو جینے سے کیا/سانس لیتے ہیں
/سانس لیتے رہیں
زندگی کی دھوپ چھاؤں دوسرے لفظوں میں کہیں تو اس کے اسرار و رموز کو ” نو بہ نو زندگی” کے فقرے میں ادا کیا گیا ہے، جو کہ ہر آن زندگی کے ساتھ لگی رہتی ہے۔ اس راز کو سمجھ کر جس نے اپنے روزو شب کو اس کے مطابق ڈھال لیا، اس نے یقینا زندگی کی معراج کو پالیا اور جس نے ایسا نہیں کیا وہ دنیا کے بیشتر افراد کی طرح سانس لیتے ہوئے اپنے نام و نشان کے ساتھ فنا ہوجائے گا۔ اس نظم کی شروعات قنوطی لہجے میں ضرور ہوئی ہے، لیکن اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے اظہار کے رجائی انداز کو اپنانے میں کامیاب بھی ہے۔ شہپررسول نے زندگی کو مختلف زاویوں سے دیکھنے، سمجھنے اور اپنی نظموں کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی نظم "گریزاں لمحے” اپنے عنوان کے مطابق ماضی کو حال کے آئینے میں اس خوبصورتی کے ساتھ منعکس کرتی ہے کہ زندگی بلکہ انسانی زندگی کی نشو و نما اور اس کے ارتقائی مدارج شفاف ہوجاتے ہیں۔ پہلے دو مصرعے قصیدے کی تشبیب سے کم نہیں۔ ایک اچھے اور پراثر قصیدے کی کامیابی کا راز اس کی تشبیب میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ شاعر اپنے تئیں جہاں تک ہوسکتا ہے، تشبیب کو زوردار بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ شہپر رسول نے ان دومصرعوں میں ایسا جادو جگایا ہے کہ بعد کے مصرعوں کی معنویت دوبالا ہوگئی ہے:
صبح ہوئی اور بادل چھائے
رنگ اڑے، دامن لہرائے
ان مصرعوں کے بعد شاعر نے علامتی پیرایۂ بیان اختیار کیا ہے۔ پھول کا بننا، شاخ پر آنا ، مہکنا اور مرجھانا در اصل زندگی کے مختلف مراحل ہیں۔ جسے شاعر نے "گریزاں لمحے” کی ترکیب میں سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہاں حال، ماضی میں تبدیل ہوجاتا ہے اور پوری نظم شعور کی رو کے تحت نقش بہ قرطاس ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے:
کچھ خوش کا ر گریزاں لمحے
پھول بنے اور شاخ پر آئے
یاد نہیں ہے اب کچھ بھی شہپر
کب مہکے اور کب مرجھائے
ان چار مصرعوں میں زندگی کے مدارج یعنی طفولیت، جوانی کی خوشگوار یادیں اوراس کی تکمیل یعنی موت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ سارے مدارج چونکہ کلی کے شاخ پر آنے، پھول بن کر مہکنے اور مرجھانے جیسی علامتوں میں پیش کیے گئے ہیں، اس لیے نظم کا ہر پڑاؤاپنے باطن میں معنی کا ایک جہان سمیٹے ہوئے ہے۔ جس جگہ سے دیکھنا چاہیں آنکھوں کے سامنے ایک دنیا آباد ہوجائے گی۔ اس میں زندگی کے مہ و سال تو نظر آئیں گے ہی، خوشگوار واقعات کے ساتھ اس کی کربناکی بھی جھنجھوڑ کر رکھ دے گی۔ اس نظم میں "کب” کا تخلیقی استعمال ایک ایسا دوآتشی پیکر بناتا ہے، جس کی تاثیر جادو سے کم نہیں۔ شاعر نے اپنی لاعلمی کا اظہار کر کے دراصل ذہن کو معنی کے جہانِ دیگر کی طرف موڑ دیا ہے۔جس میں شب و روز کی مصروفیت، واقعات و حادثات مل کر نظم کے کینوس کو وسیع کردیتے ہیں۔ شہپررسول نے چونکہ اس نظم میں کسی خاص موضوع پر اصرار نہیں کیا ہے بلکہ ایک عمومی خیال کو موضوع بنایا ہے، اس لیے غزل کے اشعار کی طرح معنی کی مختلف شعاعیں روشن ہوکر ان کی دوسری نظموں کو بھی ضیا بار کرتی ہیں۔ زندگی اور اس کے متعلقات کو شہپررسول نے اپنی کئی نظموں میں برتا ہے، چنانچہ ” بہت دورکہیں” میں موضوع کی اسی نوعیت کا تخلیقی اظہار ہوا ہے۔ نظم اس طرح شروع ہوتی ہے:
زندگی پھول ہے
کھلتی ہے، ہنسا کرتی ہے/ماہیِ آبِ جفاکار ہے
ہاتھوں سے پھسل جاتی ہے
ان مصرعوں میں زندگی کو پھول اور ماہیِ جفاکار سے تشبہہ دی گئی ہے۔ زندگی کو سمجھنے کے لیے اس سے اچھی تشبہہ ہوبھی نہیں سکتی تھی۔شاخِ شجر پر کلی کا آنا، مسکراتے ہوئے پھول بننا اور پھر اپنے آخری پڑاؤ کی طرف گامزن ہوجاناایک ایسی سچائی ہے، جس کے آئینے میں زندگی اپنے کلی وجود کے ساتھ متحرک ہوگئی ہے۔ زندگی کو پھول کہہ کر اس کے کھلنے اور ہنسنے کی طرف اشارہ دراصل زندگی کے نقطۂ عروج یعنی جوانی کی یاد دلاتا ہے۔ ایک ایسی یاد جو ہمیشہ انسانی ذہن و دماغ پر کچوکے لگاتی رہتی ہے۔ ماہی ِآبِ جفا کار یعنی ایک ایسی مچھلی سے تشبیہ دی ہے، جو ہاتھوں میں آکر پھسل جائے، زندگی بھی اسی مچھلی کی طرح ہوتی ہے، جو لمحہ بہ لمحہ ہاتھوں سے پھسلتی رہتی ہے۔ اسے پکڑنے کی کوششیں رائیگاں، ہتھکنڈے بے کار، داؤ پیچ اور چالیں سب ہیچ۔ وہ اپنی خاص رفتار کے ساتھ آگے بڑھتی رہتی ہے۔ ہم قدم بنے بغیر زندگی کا ساتھ نہیں دیا جاسکتا۔ ماہیِ آبِ جفا کار کی طرح زندگی کے تجربے بھی ستم شعار ہیں، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر نے کہا ہے:
سست اور شنگ ہیں
تجربے بے رنگ ہیں/آنکھوں سے گزر جاتے ہیں
تجربے لمس ہیں/لمحوں میں لپٹ جاتے ہیں
برسوں میں سمٹ جاتے ہیں
انفاس میں بٹ جاتے ہیں
ان مصرعوں میں زندگی کے تجربے کو بے رنگ اور اس کے انعکاس کو سست اور شنگ کہا گیا ہے۔ ایک ایسا تجربۂ بے رنگ جو قوسِ قُزح کی مانند دکھائی تو دیتا ہے، لیکن پلک جھپکتے ہی اس کا شائبہ تک نہیں رہتا۔ زندگی کے تجربے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے، مشکل سے پکڑ میں آتے ہیں اور کسی طرح گرفت میں آبھی جائیں تو اس کی سختی جاںفرسائی سے کم نہیں ہوتی، چنانچہ ایسے تجربوں کا آنکھوں سے گزر جانا ہی اچھا ہے۔ تجربے چونکہ انسانی زندگی کا ناگزیر حصہ ہیں، جن کا احساس آخری ہچکی تک ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ تجربے لمس بن کر لمحوں میں لپٹ جاتے ہیں، کچھ برسوں میں سمٹ جاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں ، جن کا رشتہ سانسوں کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ اس نظم کے تیسرے حصے میں روح کے اضطراب کو مختلف مدارج میں بانٹ کر دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے، روح جو محرومیوں اور حرماں نصیبیوں سے مضطرب ہے، اور یہی حالت اسے شعلوں میں بسر کرنے، صدیوں میں گذر کرنے، ادراک میں در کرنے ، سانسوں میں حذر کرنے اور لہروں پر سفر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ان مرکباتِ لفظی سے روح کی بے چینی ظاہر ہوتی ہے، یہی بے چینی نظم کے آخری چند مصرعوں سے گزرتے ہوئے شدت اختیار کر لیتی ہے:
دور بس دور
کہیں دور
بہت دور کہیں
ان مصرعوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر نے ایسے تجربوں کو نظم کا موضوع بنایا ہے، جن کو اس کی آنکھوں نے دور بہت دور کہیں دیکھا ہے۔ جس سے شاعر کے گہرے مشاہدے اور اس کے تخلیقی اظہار کا پتہ چلتا ہے۔ ایک ایساتجربہ و احساس جو شاعر کی آواز بن کر اوراقِ سادہ پر مسکرا اٹھا ہے۔ شہپر رسول نے زندگی کو مختلف زاویے سے باریک بینی کے ساتھ دیکھا اور سمجھا ہے، یہی وجہ ہے کہ زندگی ان کی متعدّد نظموں کا موضوع بنی ہے۔ "رمز” میں بھی زندگی اور اس کے تجربے کو مختلف تشبیہوں اور استعاروں کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔آٹھ مصرعوں کی اس نظم میں زندگی بھرپور معنویت کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر زندہ و جاوید ہوگئی ہے۔اس نظم میں زندگی کو درد کی ایسی سہیلی کہا گیا ہے، جو سال خوردہ ہونے کے باوجود نئی حویلی بھی ہے۔ وہ مسکراتی اور روتی بھی ہے۔ مسکرانے اور رونے کا یہ عمل در اصل اس کربناکی کو چھپانا ہے، جو کہ ناتواں جسم کے اندرون میں ہوتی ہے۔ اس نظم کے آخری چار مصرعے دیکھئے:
دھوپ ہے، چھانو ہے سفر اس کا
بس یہی رمز ہے ہنر اس کا/اور یہی رمز بڑھتا جاتا ہے
درد کو زندگی بناتا ہے
ان مصرعوں میںدھوپ چھاؤںکو زندگی کا ایسا عطرِ مجموعی کہا گیا ہے جو اس کے ساتھ آخری سانس تک موجود رہتا ہے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ دونوں متضاد ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو رسد بھی پہنچاتے ہیں۔ زندگی خوشیوں کا پھل دار درخت بن جائے یا اس کی زمین سے صرف غموں کے پودے اگنے لگیں تو دونوں ہی صورتوں میں جمود کی کیفیت طاری ہوجائیگی اور جمود کسی بھی طور زندگی کی علامت نہیں۔
شہپررسول نے زندگی کو مختلف زاویوں سے دیکھا اور اس کی روح کو اپنی نظموں میں پیش کیا ہے۔ زندگی، جس کے چہرے پر مسکراہٹ تو ہے، لیکن اس کے پیچھے سے ہزاروں سال کی کربناکی بھی جھلکتی ہے۔ ان کی بعض نظمیں غلامی کی اذیتوں اور اس سے نبرد آزما ہونے کی چاہتوں نیز آزادی کے بعد کے حالات کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں نئی زندگی یعنی گلوبل ولیج، میڈیا اور صارفی کلچر کے علاوہ انٹرنیٹ کی خوبی و خرابی اور اس سے پیدا شدہ حالات کا احاطہ بھی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔” ایک یہی تو رستہ ہے” کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہپررسول نے زندگی کی ایسی سچائی کو نظم کا موضوع بنایا ہے، جو مختلف مذاہب کی کتابوں سے ثابت ہے۔ چند مصرعے دیکھیں:
سب تنزل آمادہ
کیا تنزل آمادہ؟/سب زوال آسا ہے
کیا زوال آسا ہے؟/زندگی تماشا ہے
وہ تو سچ، تماشا ہے!
ان مصرعوں میں تنزل آمادہ، زوال آسا اور زندگی تماشا پر نظر کیجئے تو معلوم ہوگا کہ دنیا اپنے عروج کی طرف گامزن ہے اور یہی عروج اس کے زوال کا سبب بھی ہے، یعنی دنیا کو ایک دن فنا ہوجانا ہے۔ دنیا کی روش و رفتار میں زندگی کی ابتدا اور اس کا انحطاط ایک کڑی کی طرح ہے۔ اس درمیانی عر صے میں تماشا ہی تو ہوتا ہے۔ جس کا عروج و زال زندگی کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ اس عروج و زوال کے ملبے سے ایک نئی زندگی جنم لیتی ہے اور پھر وہی طرفہ تماشا شروع ہوجاتا ہے۔ شاعر زندگی کو دوبارہ اپنے رنگ میں دیکھتا ہے۔ اس کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں، جو تنزل اور زوال جیسے الفاظ پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ اس کی نظر میں دنیا دراصل ایک رنگ منچ ہے، جس پر زندگی نام کا تماشا کھیلا جاتا ہے، چونکہ تماشا کھیلنے کی ایک مدت ہوتی ہے۔ اس مدت کے ختم ہونے کے ساتھ زندگی کا ایک شو ختم ہوجاتا ہے۔ اس کا رنگ منچ معلوم نہیں، البتہ زندگی نام کا تماشا ہر وقت دنیا کے تمام خِطوں میں اپنی رفتار سے جاری و ساری ہے۔اس تماشے کی زد میں آکر کیسی کیسی قامتیں، کتنی تہذیبیں اور کیسے کیسے دور مسمار ہوگئے۔ مغلیہ دور سے ابھی تک کے ہندوستان پر نظر کی جائے تو اس طویل عرصے میں کئی تہذیبوں اور ثقافتوں سے آنکھیں چار ہوں گی۔ سب اپنی خصوصیات کے ساتھ کچھ عرصے تک زندہ رہیں اور پھر ان کا زوال ہوگیا۔ اس کے برعکس نئے ہندوستان میں کئی تہذیبوں نے جنم لیا اور کئی ثقافتوں نے سر ابھارا، لیکن سب مذہبی تشدد، فرقہ وارانہ فسادات اور مذہبی مسلکوں کی نذر ہوگئیں۔ جو کچھ باقی بچا اسے گلوبلائزیشن کے تصور اور اس کی معاون قدروں میں میڈیا اور صارفی کلچر، انٹرنیٹ کی یلغار نے نیست و نابود کردیا۔ نئے زمانے میں کسی خاص تہذیب یا ثقافت کی نشاندہی کرنا بہت ہی مشکل ہوگیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی کی بڑھتی ہوئی روش و رفتار انسانی ذہن کو آہنی شکنجے میں جکڑ کر اندیکھے ریموٹ سے کنٹرول کررہی ہے۔ یہ قوتیں جو کچھ انسان سے کرانا اور اس کے ذہن پر ثبت کرنا چاہتی ہیں، آسانی سے کرلیتی ہیں۔ ان کیفیتوں نے انسان کے ذہن کو اس طرح متزلزل کردیا ہے کہ وہ سوچنے اور سمجھنے کے قابل ہی نہیں رہا، یعنی زندگی تغیر و تبدل کے مراحل سے گزرتے ہوئے ایک ایسے دوراہے پر آکھڑی ہوئی کہ ہم تذبذب کا شکار ہوگئے۔ اسی سچائی کو شاعر نے "کیا” جیسے لفظ سے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ یعنی جہاں وہ "کیا تنزل آمادہ/ کیا زوال آسا ہے / وہ تو سچ، تماشا ہے” جیسے مصرعے نظم میں خلق کرتا ہے تو دراصل اپنے تذبذب کا اظہار تخلیقی پیرائے میں کر رہا ہوتا ہے۔یہ نظم بہتر مصرعوں پر مبنی ہے۔ جس میں شاعر نے نسلوں کے آنے جانے کو زندگی کے نئے پن سے تعبیر کیا ہے، لیکن یہاں بھی شاعر نے ایک بڑا سا سوالیہ نشان چھوڑ دیا ہے:
ایک نسل جاتی ہے، اک نسل آتی ہے
کچھ نیا سا ہوتا ہے
کیا نیا سا ہوتا ہے؟
شاعر نے علامتی پیرایۂ اظہار کے ذیل میں زندگی کی تیزگامی اور اس کے اسرار کو عیاں کرنے کی کوشش کی ہے:
آج ادب کے مرنے کی بات پھر سے نکلی ہے
آدھی اک صدی پہلے
جب ادب کے مرنے کے سانحہ کی صورت میں
اک سکوت چھایا تھا/حرف کسمسائے تھے
لفظ ٹوٹ بکھرے تھے
ان مصرعوں میں ادب، مرنا، سانحہ، سکوت، حرف اور لفظ جیسی علامتیں آدھی ایک صدی پہلے ہندوستان میں ہوئے اس سانحے کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جب پرانی تہذیب و ثقافت زوال آمادہ تھی اور اس کی جگہ نئی تہذیب و ثقافت کے انکُر پھوٹنے لگے تھے۔ یہ بھی ایک حادثہ تھا، لیکن "کیا” کی صورت میں شاعر کا سوال ایک ایسا بلیک ہول بناتا ہے، جس کے اندر جھانکنا ممکن نہیں۔ یہ نظم اسی طمانیت اور رفتار کے ساتھ آگے بڑھتی ہوئی لہجے کے جاگ اٹھنے، رنگوں کے جھم جھمانے اور سنورنے، چشمِ نخل کھلنے،شاخِ گل کے سجنے اور بگل کے بجنے جیسی تراکیب اور مرکباتِ لفظی کے ذریعے آزادی کے بعد کے حالات کو رقصاں کرنے میں کامیاب ہے۔ یہ تراکیب اپنے علامتی رنگ میں ہند و پاک کی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ آج کے تناظر میں وہ موسمِ بہاراں سے کم نہیں تھے، دھیرے دھیرے تنزل کا شکار ہوتے گئے۔ زندگی کی ان متضاد کیفیتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کتنے خوبصورت مصرعے لگائے گئے ہیں:
کیا جدید ہے پیارے اور کیا ہے پارینہ!
آج پھر وہی رنگت/آج پھر وہی نقشہ
فرق ہے مگر شہپر
آج فکر صارف ہے اور لفظ صرفہ ہے
ان مصرعوں کی قرأت ذہن کو اسی دور میں پہنچاتی ہے، جب ہندوستانی قوم پابہ زنجیر تھی، موجودہ ہندوستان غلامی کے انہیں دنوں کی یاد دلاتا ہے، لیکن حکمراں کسی دوسرے قوم کے لوگ نہیں بلکہ سائنس اور ٹکنالوجی کی نت نئی ایجادات ہیں۔ جسے برقی میڈیا اور صارفی کلچر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ ان چیزوں نے غلام بنا کر انسانی ذہن کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ چنانچہ انسانی سوچ اور زندگی کرنے کا طریقہ ان کے طابع ہوگیا ہے۔ ایک اندیکھے ریموٹ سے انسانی ذہن کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔ انسان نئی نئی ایجادات کے طابع ہوکر انہیں کاموں کو کرتا ہے، جس کا حکم اسے دیا جاتا ہے۔ ان مصرعوں میں "صارف” اور "صرفہ” سے غالباً شاعر کی یہی مراد ہے۔ نظم یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ بیج بونے، پیڑ اگنے اور پھول کھلنے پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے شاعر ان سے اپنی لا تعلقی کو "ہم کو کیا سروکار اس پھوٹنے سے پھلنے سے” جیسے مصرعے سے ظاہر کیا ہے۔ یہاں پر زندگی کی ایک اور سچائی عیاں ہوتی ہے۔ یہ سچائی سننے میں کڑوی ضرور ہے، لیکن حقیقت سے اس کا گہرا رشتہ بھی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کی لاتعلقی سماج، خاندان اور آس پڑوس بلکہ اپنے گھر کے جملہ افراد سے اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایک دوسرے کا رنج وا لم، شادمانی و کامرانی، مصیبتں اور دوسری متعلقہ چیزوں سے بے گانگی افسوس کی حد تک دیکھنے کو ملتی ہے۔ جس کا اظہار اگلے بہت سے مصرعوں میں تخلیقی سطح پر ہوا ہے۔ ادب خزانہ، آنا اور جانا، حاجتِ زمینی، نیا زمانہ، ماومن کی چھلنی اور چھانناچھنانا نیز اپنے اپنے قصے جیسے مرکب الفاظ انہیں سچائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اپنا اپنا قصہ در اصل انسانی بے گانگی کو پوری معنویت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ اس کے بعد کے مصرعے ملاحظہ کیجیے:
لڑکھڑاتی شمعوں کو کب تلک جلاؤ گے
یہ نئے دیے ہیں سب
اپنے اپنے پرچم کو ہاتھ میں لیے ہیں سب
ان کے بعد کے مصرعوں میں انہیں پرچم کے سبب پیدا شدہ صورتِ حال کی سچائیوں کی طرف اشارہ ہے۔ فضا کی وسعت، صداؤں کے سیل، ہواؤں کے شور کے ساتھ نئی صداؤں اور سرسراتی ہواؤں کو سیڑھیوں پر چڑھنے، رنگ کو بکھرنے اور روشنی کے بڑھنے کی تہہ میں ایسی سچائیاں چھپی ہوئی ہیں، جو زمانے کی متزلزل رفتار کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ شاعر کی نظر میں ماضی کی تہذیبوں اور ثقافتوں کی طرح انہیں بھی ختم ہوجانا ہے، اور اس کے بعد ایک نئی تہذیب اور نئی ثقافت آئے گی لیکن اسے مستحکم ہونے میں کچھ وقت ضرور لگے گا۔ یہ طویل نظم آخرکار ان مصرعوں پر اختتام پذیر ہوتی ہے:
اور پھر سماعت کے بے قرار پردے پر
کچھ نقوش ابھریں گے/پھر وہی پرانی سی بازگشت آئے گی
پھر بھی، آگے بڑھنے کا اک یہی تو رستہ ہے
اس ضمن میں شہپررسول کی نظم "مدافعت” کو دیکھئے، جس میں نئی صورتِ حال جو 1980 کے بعد ڈیجیٹل انسٹرومنٹ کی مختلف شکلوں کے ذریعے پیدا ہوئی اور جسے عالمگیریت اور صارفیت کا دور بھی کہا جاتا ہے۔ اس دور میں سائنس اور ٹکنالوجی کی نت نئی ایجادات نے حکمرانوں کی صورت اختیار کرلی، نتیجے کے طور انسان کشی اور ردِ انسانیت (Dehumanisation) کا عمل شروع ہوا۔ اس رویے کو کسی نہ کسی سطح پر اس سماج سے بھی جوڑ کر دیکھ سکتے ہیں، جس میں زمینداروں اور سرمایہ داروں کے ذریعے کسانوں، مزدوروں اور دبے کچلے لوگوں کا استحصال ہوا کرتا تھا۔ ان دونوں طبقوں کا تعلق چونکہ انسان ہی سے تھا، اس لیے زندگی کی وہ بھیانک تصویر نہیں بنی تھی، جو موجودہ ڈیجیٹل عہد میں ہوگئی ہے۔ جسے متکلم نے "سنگِ نو رفتار” سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے:
غبار آئے کہیں سے تو دور اس سے رہیں
مگر/جو سر پہ ہی آجائے سنگِ نو رفتار
مدافعت کا نیا زاویہ کوئی ڈھونڈیں
مدافعت کا نیا زاویہ ڈھونڈنے کا مطلب ایک ایسی طاقت سے الجھنا ہے، جو ناقابلِ تسخیر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ طاقتیں سائنس اور ٹکنالوجی کی نت نئی ایجادات ہیں۔ جن کی حکمرانی کو خود انسان نے قبول کیا ہے۔ سنگ نو رفتار اگر انسان یا پہلے مصرعے میں تلازمے کے طور پر استعمال ہوئے لفظ "غبار” کی شکل میں ہوتی تو اس سے نبردآزما ہوا جاسکتا تھا، مشینی طاقتیں جو ریڈیو، ٹی وی، کمپوٹر، موبائل فون، انٹرنیت اور دوسری کئی شکلوں میں انسان کو آکٹوپس کی طرح جکڑے ہیں، ان سے نبرد آزمائی کی کوئی شکل دکھائی نہیں دیتی۔ اب انسان کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ وہ فرار کا راستہ اختیار کرے یا پھر مشینی طاقتوں کو اپنی قسمت سمجھ کر قبول کرلے۔ پہلی صورت چونکہ زندگی کی نفی کرتی ہے، اس لیے دوسرا راستہ ہی قابلِ قبول ہے۔ اس راستے پر چلتے ہوئے کبھی کبھی ماضی کی یاد آتی ہے تو نظم ناسٹلجیائی کیفیت اختیار کر لیتی ہے:
شرافتوں میں گندھا کرتی تھی گلِ خالص
مگر ۔۔۔۔۔ وہ صبح کی پہلی دھلی دھلی سی ہوا
گلوبیت کے تکدر کی نذر ہوگئی ہے
زیادہ دیر تک شاعر ماضی کی انگنائیوں میں چہل قدمی نہیں کرپاتاکہ گلوبیّت کا تکدر اس پر اپنا سایہ ڈال دیتا ہے۔ اس کے بعد نظم ہائیڈگر کے وجودی فلسفے Dascin کی روشنی میں آگے بڑھتی ہے، یعنی متکلم کی ذات پھیل کر کائنات میں بدل جاتی ہے اور جب بین الاقوامی فکر نئی قدر بن کر معاشرے پر چھاجاتی ہے تو اس کی تیزگامی سے وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ اس طرح شاعر کا مشاہدہ عالمِ انسان کا مشاہدہ بن جاتا ہے۔ان مصرعوں کو بلند آواز میں پڑھ جائیں:
عجب سی سوچ، عجب فکر بین الاقوامی
معاشرت کی نئی قدر ہوگئی ہے
کہ بے حسی کے قصائد کی شہر آشوبی
ہماری بزمِ تغزل کی صدر ہوگئی ہے
یہ کیسی خاک ہراک سمت اڑ رہی ہے یہاں
کہیں دروغِ صداقت، کہیں ہے پاورشفٹ
کہیں ہے علم کو خانوں میں بانٹنے کا طلسم
اور اس کی رو سے مفادات کی سزاواری
تو بے حسی کے قصائد، شہر آشوبی، بزمِ تخیل، صدر، خاک، اڑنا، دروغِ صداقت، پاور شفٹ ، علم ، طلسم، مفادات اور سزاواری خاص تلازمے کی صورت میں ملیں گے۔ ان تلازموں کے ذریعے ایک کھڑکی سی کھل جاتی ہے، جس کے اس پار جھانکتے ہی ہمیں زندگی کا وہ چہرہ دکھائی دیتا ہے، جس کی تشکیل گلوبیت اور صارفیت نے مل کر ایک ساتھ کی ہے۔ یہ چہرہ اتنا بھیانک ہے کہ زیادہ دیر تک نگاہ نہیں ٹھہرتی اور متکلم اسے سیل سے تعبیر کرتے ہوئے بچنے کی سبیل تلاشتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دنیا کے نئے موحول میں اس سبیل کی تلاش فضول ہے، چنانچہ پھر نظم میں ناسٹلجیائی کیفیت حاوی ہوجاتی ہے اور شاعر اپنی توقعات اور خوابوں کے زائچوں پر ماضی کی بازیافت چاہتے ہوئے کہہ اٹھتا ہے:
ہمیں تو سیل سے بچنے کا ڈھنگ آجائے
توقعات پہ، خوابوں کے زائچوں پر بھی
وہی ملیح سا،پہلا سا رنگ آجائے
ہمیں تو سیل سے بچنے کا ڈھنگ آجائے
متکلم کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی کہ ماضی تو لاشعور (Unconscious) کا حصہ ہے۔ جس کی دھمک ذہن و ادراک پر محسوس کی جاسکتی ہے، لیکن اسے حال کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔ حال پر تو سائنس اور ٹکنالوجی کی حکمرانی ہے۔ انسان تو اس کے سامنے بس ایک روبوٹ ہے، جس کا ریموٹ حکمراں طبقے کے پاس ہے۔ انسان کی تمام سرگرمیاں انہیں کے طابع ہیں۔ جسے شہپررسول نے ـ”تیرگی اک فسوں” میں ایک ایسی روشنی سے تشبیہ دی ہے، جس کے آگے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔نظم اس طرح شروع ہوتی ہے:
اس قدر روشنی ہے آنکھوں میں
دور تک کچھ نظر نہیں آتا
اس روشنی کے سائے میں لفظوں کا سپید ہونا ایک ایسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے، جس کے آگے پیچھے، اوپرنیچے اور دائیں بائیں کچھ بھی نہیں یعنی مناظر صفحۂ ہستی سے غائب ہوگئے ہیں۔ نتیجے کے طور پر دنیا جو دن رات یا دوسرے لفظوں میں کہیں تو روشنی اور تاریکی سے تشکیل ہوئی تھی، اب دن ہی دن ہو کر رہ گئی ہے۔ دن کا استعارہ دنیا کے انجماد کا بلیغ اشارہ ہے۔ یہاں اس نکتے کو بھی ذہن میں رکھیں کہ انجماد دراصل موت کی علامت ہوتی ہے۔ موت کا واقع ہونا، جدوجہد سے عاری ہونا ہے۔ انسان نے چونکہ سائنس اور ٹکنالوجی کے طابع ہوکر روبوٹ کی شکل اختیار کرلی ہے، اس لیے زندگی کے سیاہ و سفید سے مبرا ایک ہی راستے پر ایک ہی رفتار سے گامزن ہے:
لفظ شاید سپید ہوگئے ہیں
دن ہی دن ہے مرے چہار طرف
متکلم جو اپنی تیرگی کے ساتھ زندہ تھا، اس کی آنکھوں کی روشنائی تو رات تھی، نئی چمک دمک نے راتوں کو نگل لیا ، نتیجے کے طور پر آنکھیں جو خواب دیکھتی تھیں، وہ بھی خشک ہوگئیں۔ گلوبیت اور صارفی کلچر کا ان دیکھا سیل متکلم کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے، مگر وہ اپنی ذات کو اس کے تھپیڑوں سے بچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ دلِ ناتواں میں بس ایک ہی خواہش ہے کہ اسے اپنے حال پر چھوڑدیا جائے کہ کسی تگاپو میں بھی کوئی کشش نہیں کہ اس کی طرف نگاہ بھر کر دیکھا جائے۔ ماضی کی یادوں کے ساتھ لڑکھڑاتے ہوئے زندگی کرنا گویا انسان کی مجبوری ہے:
میں، مری تیرگی میں زندہ تھا
خامۂ خواب جیسے خشک ہوا/رات تو روشنائی تھی اُس کی
مجھ کو میری حدوں میں رہنے دو
کس تگاپو میں کوئی لطف ہے یاں
دیکھنا ہے نہ کچھ دکھانا ہے/مجھ کو رُک رُک کے لڑکھڑانا ہے
آخرکار نظم ان مصرعوں پر ختم ہوجاتی ہے اور آنکھوں کے سامنے پھر سے وہی مناظر تیرنے لگتے ہیں، جہاں سے نظم شروع ہوئی تھی:
دور تک کچھ نظر نہیں آتا
کس قدر روشنی ہے آنکھوں میں
جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں کہ شہپررسول زندگی کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کوشش میں زیادہ تر نظمیں ایسا آئینہ بن گئیں ہیں، جس کی سطح پر زندگی کی موجودہ بہاریں اپنے تمام رنگوں کے ساتھ جلوہ گر ہے، لیکن اس کی جڑیں بہرحال ماضی میں پیوست ہیں۔ شہپر رسول کی نظموں سے ماضی کو نکال دیا جائے تو حال کی معنویت ماند پڑجائے گی۔ ان کی نظم "چلو ان پانیوں کو… ” بھی انسانی زندگی کی ہزار سالہ بلکہ دنیا کے وجود میں آنے کی کہانی کہہ رہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ خدا نے آدم اور حوا کو پیدا کیا۔ انہیں کی اولادوں سے دنیا با رونق ہوئی، یعنی وحدت میں کثرت کا سماں پیدا ہوا، لیکن تھوڑے عرصے بعد ہی وہ مختلف مذاہب، مختلف سرحدوں، مختلف خطوں اور مختلف گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ اس نظم میں "پانیوں” کا تلازمہ انسانی زندگی کے اسی بکھراؤ کی کہانی سنا رہا ہے۔ ایک ایسی کہانی جس کی اساس سمندر ہے، اسی سمندر سے دریا نکلے اور اپنی جڑ سے کٹ کر اپنے اپنے علاقوں کے حصار میں مقید ہوگئے۔ ان دریاؤں کی سمت اور رفتارمیں واضح فرق ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی مٹی کے لمس، اس کی رنگت اور ذائقے میں نمایاں فرق ملتا ہے۔ یہاں پر سمت، رفتار، مٹی کا لمس، ذائقہ اور رنگ سب تلازمے ہیں، جو جغرافیائی اعتبار سے زندگی کی مختلف جہتوں مثلاً قوم، مذہب، رنگ، نسل، زبان، تہذیب اور ثقافت نیز سماجی، سیاسی، اقتصادی اور معاشی جبر کا اشاریہ ہیں۔ اس نظم کا متکلم اس بکھراؤ یعنی زندگی کے انتشار سے غم زدہ ہے، اس لیے وہ پانیوں کو پھر سے یکجا کرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہتا ہے:
چلو! ان پانیوں کو پھر سے یکجا کردیا جائے
یہ مانا مختلف دریاؤں کے اپنے علاقے ہیں
یہ مانا مختلف دریاؤں کی سمتوں میں اور رفتار میں بھی فرق کا امکان وافر ہے
یہ مانا مٹّیوں کا لمس ان کے ذائقے اور رنگ میں بھی فرق کرتا ہے
اس انتشار کو ہندوستانی تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ مغلیہ دور قومی یکجہتی یعنی انیکتا میں ایکتا کی مثال تھا، لیکن انگریزوں کے بوئے بیج نے پہلے تو انکُر کی شکل اختیار کی اور اب تناور درخت بن کر قومی، مذہبی، نسلی، تہذیبی اور ثقافتی انتشار اور اس کی صورت میں تشدد کو جنم دیا۔ ملک گیر سطح پر لوگ خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔ روزانہ پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں قتل و غارت گری کی خبریں آتی ہیں۔ کسی بھی ملک میں ایسی صورتِ حال کا پیدا ہوجانا اس ملک کی بقا و سلامتی کے لیے اچھا نہیں۔ متکلم چونکہ عام نہیں بلکہ تخلیقی ذہن کا حامل ہے، اس لیے پانیوں کے اول و آخر میں اسے غزل کے اشعار کی سی موضوعی بے ترتیبی نظر آتی ہے۔ غزل کی ایک ہیئتی پہچان ہے، جس میں قافیے کی جھنکار اور ردیف کی تکرار نیز اشعار کی معنوی بے ترتیبی سب کچھ شامل ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ ہندوستان انیکتا میں ایکتا کی زندہ مثال ہے تو انیکتا سے مراد غزل کے قافیے، معنی و مواد ہیں جو ردیف کی تکرار کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے ایک خاص ہیئت کی تشکیل کرتے ہیں، جو بہر حال غزل کی پہچان ہے۔ہندوستان میں بھی یہی صورت ملتی ہے۔ یہاں بھانت بھانت کے لوگ انفرادی شناخت کے ساتھ رہتے ہوئے کثرت میں وحدت کے نظریے کو عملی طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان مصرعوں پر غور کیجئے:
مگر— اِن پانیوں کے اوّل و آخر پہ بھی کچھ غور کرلیجے
وہی مطلع، وہی مقطع
غزل کے شعروں کے اُس ربطِ بے مربوط کے مانند
بظاہر جو ہے نادیدہ مگر باطن میں رقصاں ہے
اگر اس راز سے پردہ اٹھانا ہے
دماغ و دل کی آنکھوں کو اگر دیدار کے قابل بنانا ہے
تو پھر— رفتار اور سمتوں، اچھوتے ذائقوں، رنگوں کے
بے معنی تفاوت کو/گوارا کرلیا جائے
چلو! ان پانیوں کو پھر سے یکجا کردیا جائے
تفریق اور عدم تفریق کے گہرے نقوش کو مٹایا تو نہیں جاسکتا، لیکن ان بے معنی تفاوت کے درمیان سے ایک راستہ ضرور نکالا جاسکتا ہے۔ یہ وہی راستہ ہے، جس پر چل کر پھر سے قومی یکجہتی کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔
شہپر رسول کی نظم "کون ہے اب بے حال” میں گیت کا آہنگ، اس کی روانی اور لفظیاتی فضا ملتی ہے۔ پہلی قرأت قاری کے جمالیاتی ذوق کی تسکین تو کرتی ہی ہے، اسے رومان پرور فضا کی سیر کراتے ہوئے خیال و خواب کی دنیا میں پہنچا دیتی ہے۔اس میں عاشق و معشوق کا کردار ابھرتا ہے۔ دونوں کے درمیان محبت پروان چڑھتی ہے اور پھر ہجر و فراق کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے:
اک دن
ایسا نکلا سورج/دن میں سپنے چمکے/پھول پتنگے تتلی بھونرے
بن کر تارے جھمکے
ہونٹ ہنسی کے وصل سے جیسے اپنا ماضی بھولے/اور۔۔۔۔۔۔
"اور….. ـ” کے بعد منظر بدلتا ہے، وہ چیزیں ادراک کا حصّہ بننے لگتی ہیں، جو کہ بپتا کے طور پر ہجر زدہ عاشق کا مقدر ہوا کرتی ہے۔ راتوں رات غم عاشق کے ارمانوں کو پامال کردیتا ہے، اسے دنیا ایک جنجال لگنے لگتی ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے، ان مصرعوں کو پڑھ کر آپ خود بھی سمجھ سکتے ہیں:
یکایک ۔۔۔۔۔ آہٹ ٹھٹھکی/ماتھا ٹھنکا
رقص میں آئے بگولے/فلک زمیں کو جیسے چھولے
ساری دنیا جھولے/راتوں رات کیا اک غم نے کیوں ہم کو پامال
دنیا ہے جنجال/ایسی آنکھیں جو آنکھوں پر جادو بن کر چھائیں
وحشت کیوں برسائیں/مست خرامی سے لمحوں کی صدیاں بھی شرمائیں
سمتیں سب چھُپ جائیں
سر سر سر سر سائیں سائیں کرتی جائیں ہوائیں
راتوں رات کیا مستقبل نے کیوں ہم کو بے حال/دنیا ہے جنجال
لفظ کے پیالے سے معنی کا امرت چھلکا جائے
کیسے کوئی گائے/دل سے نکلے ہائے
آوازیں ہی ہوجاتی ہیں آوازوں میں حل/کتنا میٹھا پھل
آج پھر اپنے کام آئی ہے خوابوں کی ٹکسال
کون ہے اب بے حال/دنیا ایک دھمال
اس نظم میں معنیاتی وحدت پر اصرار نہیں بلکہ Paradoxe کی صورت میں دنیا کے نئے چہرے کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ جسے گلوبیت اور صارفیت جیسی وباؤں نے خاص رنگوں سے رنگ کر تیار کیا ہے۔ یہ نظم اگر پہلے معنی و مواد پر اصرار کرتی تو ایک معمولی نظم ہوکر رہ جاتی، کیوں کہ حسن و عشق اور اس کی صورتوں کو نظم کا موضوع بنانا کوئی کمال کی بات نہیں۔ کمال تو اس وقت پیدا ہوتا جب اس نظم کو پڑھتے ہوئے ذہن دور تک پہنچ جائے اور Paradoxe کی صورت میں نئے نئے معنی اپنا اثبات کرانے لگیں۔ اس نظم کو پڑھتے ہوئے کچھ ایسی ہی کیفیتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
شہپررسول نے "نہیں دیکھنا ہے بہتر” میں ادبی گروہ بندی اور اس کے ذریعے ہونے والی سیاست کو سفید کبوتر اور کالی بلی جیسی علامتوں میں آئینہ کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اردو کے ادبی منظرنامے پر کئی گروہ متحرک ہیں۔ ملک اور بیرونِ ملک کے کئی ادبی ادارے اور رسائل و جرائد جن کے سائے میں پھلتے پھولتے ہیں۔ ان کے اشاروں پر ہی اعزاز و انعامات کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ چنانچہ ان اداروں کی مالی اعانت، رسائل و جرائد میں چھپنا، چھپوانا اور اعزاز و انعامات ان گروہوں کے طابع ہیں، اس لیے ہر طرح کی فہرست میں انہی گروہوں کے لوگوں کے نام سرِ فہرست ہوتے ہیں۔اس نظم میں "سفید کبوتر” ایک ایسے شخص سے متعارف کراتا ہے، جس کے آہنی چنگل میں اردو کے ادارے اور ان سے وابستہ تمام چیزیں ہیں۔ "کالی بلی” اس شخص کا بھیانک چہرہ ہے، جو ہمہ وقت خوف زدہ کرتا رہتا ہے۔ چند مصرعے دیکھیں:
اے گداگرانِ جلوہ
ذرا بند کر لو آنکھیں/یہ ادب کا ماجرا ہے
جو سفید ہیں کبوتر/سو ہیں کالی بلیاںبھی
کئی مسندیں ہیں خالی/کئی حوصلے ہیں جعلی
کئی نام ہیں سوالی/کئی حوصلوں کے پیچھے
کئی نام ہیں مقدس
یہاں مسندوں کے خالی، حوصلوں کے جعلی اور کئی ناموں کے سوالی ہونے کا استعارہ ایسے لوگوں کی شبیہ پیش کرتا ہے، جن کے پسِ پشت مخصوص گروہوں کے آقاؤں کا ہاتھ ہے۔ان میں ایسے لوگ شامل ہیں، جو شعر کہنا کیا اس کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔ اس نظم میں شعر کہنے، شعر گانے اور لفظ ڈھونے والے کی تراکیب خاص معنوی تناظر میں استعمال ہوئی ہیں۔ شہپررسول ان گروہوں کے ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے وہ اپنی یادداشتوں سے انہیں نکال دینا چاہتے ہیں، لیکن اپنی طرح دوسرے جینوئین فنکاروں کا دکھ ان کے اندرون میں دور کہیں اس احساس کو تازہ کردیتا ہے کہ ادب میں جعل سازوں کی آواز ہمیشہ اونچی رہے گی، ان کا رویہ بھی اپنی جگہ مستحکم رہے گا۔ ان کے شکاروں کی تعداد بھی روزبروزبڑھتی جائے گی۔ اس لیے ادبی جعل سازی کے رویوں کو بھولنا آسان نہیں۔ وہ گداگاران جلوہ کو مخاطب کر کے بس اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں:
اے گداگرانِ جلوہ
ذرا بند کرلو آنکھیں
کہیں دیکھنے سے بہتر
نہیں دیکھنا ہے شہپر
آخری مصرعے میں” شہپر” کا تخلیقی استعمال گداگرانِ جلوہ کو متکلم کی حیثیت سے لاکھڑا کرتا ہے، یعنی نظم میں شاعر کی حیثیت ایک ایسے شخص کی ہوگئی جو ادبی گروہ بندی کا نہ صرف شکار ہے، بلکہ اپنے تجربات کا اظہار تخلیقی سطح پر اس طرح کرتا ہے کہ وہ صرف شاعر کا ذاتی تجربہ نہیں رہتا بلکہ ادبی سماج کے ایسے لوگوں کا تجربہ بن جاتا ہے، جو سفید کبوتر اور کالی بلی کے ستائے ہوئے ہیں۔
شہپررسول کی نظموں کو پڑھتے ہوئے اس قدیم نظریے کا شدید احساس ہوتا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ فن کی دیوی شاعر پر حاوی ہوکر اسے بے بس کردیتی ہے۔ اس کے بعد جو تخلیق وجود میں آتی ہے، اسے شاہکار کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ اس نظریے سے اتفاق یا نااتفاقی کا محل نہیں۔ میں تو بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ قلم اپنے ہاتھوں میں اٹھاتے ہی شہپررسول لفظوں اور اس سے بننے والی دنیا میں ڈوب جاتے ہیں۔ اس دنیا کا سفر طے کرتے ہوئے حقیقی دنیا سے ان کا رشتہ ٹوٹتا جاتا ہے، لیکن ذہن جاگتا رہتا ہے۔ جاگتے ہوئے ذہن کا ہی ثمرہ ہے کہ ان کی اکثر نظموں میں Paradoxe کی خصوصیات پیدا ہوگئی ہیں۔ شہپر رسول نے اپنی نظموں میں جن تہذیبی و ثقافتی صورتوں کو آئینہ کیا ہے، ان کی تشکیل میں ڈیجیٹل ڈیوائس، عالمگیریت اور صارفیت کا اہم رول ہے۔اس عہد میں انسان کشی (Dehumanisation) بڑے پیمانے پر ہورہی ہے۔ اس کو ایک ریموٹ کے ذریعے ہنڈل بھی کیا جاتا ہے۔ چنانچہ انسان کی activities ایک روبوٹ (Robot) کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ شہپررسول دنیا کی اس نئی تصویر کو اپنی نظموں میں اجاگر کرتے ہیں اوراس کے ملبے پر بیٹھ کر ماضی کی عظیم روایت کو یاد کرتے ہیں۔ جس کی بازیافت ہی ان کی نظموں کا واحد مقصد ہے۔ ان نظموں کا اسلوب بھی مختلف اور متنوع ہے۔ جس میں پرانے نئے اسالیب، عناصر اور تکنیک کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ جدید عہد کی نمائندگی کرنے والے الفاظ کے ساتھ پرانی لفظیات کا بھی نئے معنوی پیرائے میں خوبصورتی کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ شہپررسول غزل کے اچھے شاعر تو ہیں ہی، غزل کی فنی اور فکری واقفیت کی بنا پر ان کی نظموں میں بھی ایجازواختصار کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ ان کی نظمیہ شاعری نہ صرف موضوع و مواد کی گہرائی و گیرائی پر اصرار کرتی ہے بلکہ تخلیقی سطح پر ایک ایسا دریچہ بھی کھول دیتی ہے، جس سے چھن کر آئی ہوئی روشنی انسانی ذہن و ادراک پر جو منظر بناتی ہے، اس میں نظم کا زمانۂ تخلیق تو رقصاں ہوتا ہی ہے، ہندوستان کی ہزار سالہ تاریخ کے ساتھ ازل سے اب تک کی کہانی کہتا ہوا ایک جادوگر بھی دکھائی دیتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہی شہپر رسول کی نظمیہ شاعری کا اختصاص ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page