قرآنی سفر/ سید احمد انیس ندوی – زین ہاشمی ندوی
ناشر : مکتبہ احسان لکھنؤ
مبصر: زین ہاشمی ندوی
کتاب کا نام : قرآنی سفر
مصنف کا نام : سید احمد انیس ندوی
ناشر : مکتبہ احسان لکھنؤ
مبصر: زین ہاشمی ندوی
"قرآن کا سفر” سید احمد انیس ندوی کی بہترین اور منفرد کتاب ہے۔ جس میں انہوں نے قرآن کے پاروں کے اہم موضوعات کا خلاصہ پیش کیا ہے نیز انہوں نے قارئین کو متن قرآن سے متعلق معلومات کو وسیع کرنے کے لیے جس قدر آسان عام فہم طریقہ اپنایا ہے اس کی مثال بہت کم نظر آتی ہے، جس بات کا اظہار کرتے ہوئے سید احمد انیس ندوی لکھتے ہیں
"میرا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر کوئی شخص اس پورے خلاصے کو پڑھ لے تو قرآن مجید کے اہم موضوعات سے اُس کو کسی حد تک واقفیت ہو جائے اور اُس کا قرآن مجید سے شغف مزید بڑھ جائے ، اور کسی نہ کسی درجے میں وہ ان مضامین کے ذریعہ قرآن کریم کے اصل پیغام کو سمجھ سکے ”
(قرآنی سفر ص 42)
اس میں کوئی شک نہیں کہ کتاب کو اس انداز میں ترتیب دیا گیا ہے کہ قارئین کو قرآن کی بنیادی تعلیمات اور موضوعات کی گہرائی میں جانے کا موقع ملتا ہے
نیز ان عنوانات نہایت ہی علمی جامع اور مانع ہونے ساتھ ساتھ عام فہم بنانے کی کوشش کی ہے، مثال کے طور پر پہلے پارے چند موضوعات کچھ اس طرح ہیں۔
"قرآن مجید میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں”
"ساری انسانیت کو دعوت ایمان اور خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اظہار”
"حضرت آدم اور ان کی زوجہ محترمہ کی تخلیق کا تفصیلی واقعہ”
"اہل کتاب یہود ونصاریٰ حق قبول کیوں نہیں کرتے”
وغیر وغیر جیسے اہم عنوانات قائم کئے اور دلائل کی روشنی میں ان پر سیر حاصل بحث بھی کی ہے، اگر ان عنوانات کو پاروں کے ساتھ فہرست کا حصہ بنایا جاتا تو کتاب کی معنویت اور زیادہ نکھر کر آتی۔
کتاب کی اہمیت اور افادیت سمجھنے کے لیے مولانا سید سعدی قاسمی کی رائے کافی اہمیت کی حامل ہے جس میں وہ سید احمد انیس ندوی کے انداز نگارش کے علاؤہ موضوع پر مکمل دسترس کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں
” اللہ تعالی نے اپنے کرم سے انیس میاں کو رواں اور سیال قلم عطاء فرمایا ہے، ہر موضوع کے اطراف واکناف کو وہ مکمل طور سے اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور پھر اس کو روانی سادگی شگفتگی سے بغیر کسی تصنع، بناوٹ کے لکھتے چلے جاتے ہیں، جو بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتا ہے اس کے علاوہ اللہ تعالی نے ان کو خاص قرآنی ذوق عنایت فرمایا ہے خاص کر قرآن کی آیات سے بروقت بر محل استدلال اور استشہادیہ ان کی وہ خوبی ہے جو اس کم عمری میں گنے چنے افراد کو ملا کرتی ہے”
(قرآنی سفر ص 17)
سید احمد انیس ندوی کا انداز نگارش ایک علمی انداز نگارش ہے، ان کی زبان وہی علمی زبان ہے جس میں تفاسیر و سیر یا دیگر اسلامی کتابیں لکھی جاتی ہیں، سید احمد انیس ندوی کی یہ زبان اور طرز استدلال ان کو جلد ہی اس دور کے بہترین مصنفین کی صف میں کھڑا کر دیگا۔
ان کے علمی اور سنجیدہ اسلوب اور انشاء پردازی کی سحر انگیزی کا جائزہ آپ خود لیجئے! یہاں سے 29 ویں پارے میں سورہ ملک کی شروعات ہے صرف چند ستور پڑھیں اور پوری سورہ کے لب لباب اور اس کے اصل پیغام سے واقف ہو جائیں
( زندگی اور موت کا مقصد )
سورة الملک آیت نمبر ۱ – ۲ ( تبرک الذی بیدہ الملک …… الخ ) میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی کہ وہی ذات سب سے بابرکت ہے جس کی قدرت میں ساری بادشاہت ہے، اور وہ ہر چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے، اس مالک نے زندگی اور موت اس لئے بنائے ہیں تا کہ وہ تم انسانوں کو آزما سکے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے، اور وہی اللہ ہے جس کے قبضے میں مکمل اقتدار ہے اور وہ بہت بخشنے والا ہے۔ ( اس آیت مبارک سے معلوم ہوا کہ دنیا میں انسانوں کی پیدائش کا مقصد یہی ہے کہ انسانوں کو آزمایا جائے کہ وہ کیسی زندگی گزارتے ہیں؟؟ )۔
(قرآنی سفر ص 317)
سید احمد انیس ندوی کے اسلوب نگارش کی بات کریں تو ایک منجھے ہوئے قلم کی طرح قاری کے ذہن کے میں ایک چھاپ چھوڑ جاتے ہیں، جس اسلوب کی نغمگی میں قاری کھو سا جاتا ہے، انداز نگارش نہایت آسان بھی ہے اور شگفتہ بھی، شستہ بھی ہے اور رواں بھی، ایک ستر پڑھئے اور بس پڑھتے ہی چلے جائیے، کبھی محسوس ہوتا ہے کہ مولانا مودودی کے اسلوب میں بات کر رہے ہیں اور کبھی محسوس ہوتا ہے کہ عبد الماجد دریابادی کے پکے شاگر ہیں۔
سورہ بقرہ میں جہاں حضرت یعقوب علیہ السلام کی وفات کا تذکرہ ہے، اس واقعہ کو سید احمد انیس ندوی نے نہایت ہی حسین اور دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔
( حضرت یعقوب علیہ السلام کی آخری وصیت و نصیحت جو پوری امت کے لئے ایک پیغام ہے )
لوگ جب مرنے لگتے ہیں یا ان کو اپنی موت قریب معلوم ہوتی ہے تو وہ اپنی آل اولاد کے جان و مال کی ، ان کے کاروبار کی بڑی فکر کرتے ہیں۔ مگر سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۳۳ (ام كنتم شهداء اذ حضر …. الخ ) میں ایک عجیب واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ وہ خاندان جس میں چار پشتوں تک نبوت کا سلسلہ قائم رہا اسی ابراہیمی خاندان کے ایک نبی حضرت یعقوب علیہ السلام کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے اپنے بچوں کو ، اہل وعیال کو جمع کر کے سب سے زیادہ اس بات پر فکر مندی کا اظہار کیا کہ میرے ( دنیا سے رخصت ہونے کے بعد تم لوگ عبادت کس کی کرو گے ؟؟ جب نبیوں کے خاندان کا ایک نبی دنیا سے جاتے جاتے اپنے اہل و عیال کے ایمان کے لئے اتنے فکر مند ہیں تو ہم سب کو اس سلسلے میں کتنا زیادہ فکرمند ہونا چاہئے ، ہم خود سمجھ سکتے ہیں۔
قرآنی سفر ص 63″
اس کتاب پر مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی صاحب نے "پیش لفظ” تحریر فرمایا ہے، اور حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے تقریظ لکھی، حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب نے "دعائیہ کلمات” سے نوازا ہے لیکن افسوس کی بات ہے ان تینوں حضرات میں سے کسی نے بھی اس کتاب کو نہیں پڑھا۔
اسی طرح مولانا طارق ایوبی ندوی نے اس کتاب پر تبصرہ کیا ہے، جس میں کتاب کے فن پر گفتگو بہت ہی کم کی گئی ہے، اب خدا ہی جانے ایوبی صاحب کتاب پر تبصرہ کر رہے تھے یا فن تفسیر اپنی مہارت کا تعارف کرا رہے تھے۔
اسی طرح سید ادہم مصطفی سعدی قاسمی نے اس کتاب پر "تاثرات” تحریر فرمائے ہیں، جس کتاب کا صحیح معنوں میں تعارف بھی کریا گیا ہے، اور ان کے علاؤہ مولانا اسعد علیم شمسی وصی اللہی صاحب کے "کلمات بابرکت” سے نواز کر اس کتاب کو واقعی بابرکت ہی بنا دیا ہے۔
سب سے قابل ذکر بات اس کتاب کا مقدمہ ہے سید احمد انیس نے وقیع، معلوماتی، اور فاضلانہ مقدمہ لکھا ہے جس میں انہوں نے اپنے علمی سفر کے ساتھ ساتھ فن تفسیر سے ان کی وابستگی اور شغف کا ذکر کیا ہے نیز اردو کی مشہور ترین قدیم و جدید تفاسیر کا مختصر تعارف کے بھی کرایا ہے، اور ان کی اہمیت و افادیت پر روشنی بھی ڈالی ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ آئیندہ ایڈیشن میں ڈاکٹر اسرار احمد کی بیان القرآن کو اس فہرست میں شامل کریں گے۔
مختصر یہ کہ یہ کتاب قرآن کے مظامین کو مختصر انداز سمجھنے کے لیے بہترین کتاب ہے، بطور خاص ہمارے مدارس کے طلبہ و اساتذہ جو تراویح میں قرآن مجید سنتے سناتے ہیں وہ اس کتاب کو پڑھ کر قرآن کے اہم موضوعات کو مختصر انداز میں پیش کر سکتے ہیں اور عوام کو قرآن سے جوڑنے میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page