منشی پریم چند وا حد ایسے فکشن نگار ہیں جس کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے اور مستقبل میں بھی رہے گی:پروفیسر پرتگیہ پاٹھک
شعبۂ اردو کی ششماہی میگزین ’’ہماری آواز‘‘ کے نئے شمارے کا اجراء بھی عمل میں آ یا۔
میرٹھ6؍اگست2024ء
پریم چند صرف ترقی پسند فکشن نگار ہی نہیں ہیں بلکہ ان کی تخلیقات مابعد جدیدیت سے بھی مطابقت پیدا کرتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب نقدو نظر کو پریم چند کی تخلیقات کی از سر نو قرأت کرنی چاہئے۔کیونکہ کسی بھی تخلیق کارکو ہم اس کے عہد تک ہی محدود نہیں کرسکتے بلکہ ہر تخلیق کا دائرہ کار مستقبل کا بھی نقا رہ ہوتا ہے یہ الفاظ تھے موجودہ عہد کے نامور نقاد و محقق پروفیسر ارتضیٰ کریم کے جوشعبۂ اردو ،جن وادی لیکھک سنگھ اور وی کمٹ کے مشترکہ اہتمام میں منعقد پروگرام بعنوان’’ پریم چند اور عصری ادب‘‘ اور شعبے کی ششماہی میگزین کے تازہ شمارے ’’ہماری آواز‘‘ کی رسم اجراء کے موقع پر ادا کررہے تھے۔انہوں نے مزید کہاکہ اس گوشے سے بھی پردہ ہٹنا چاہئے کہ پریم چند صرف فکشن نگار ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک نقاد بھی تھے۔ ان کی تنقیدی تحریروں کے حوالے سے بہت کم گفتگو ہوتی ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ سماجی مسائل اور عام انسان کا دکھ درد پریم چند کی تخلیقات میں جابجا نظر آ تا ہے۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغاز نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ہدیۂ نعت فرحت اختر نے پیش کیا ۔پروگرام کی صدارت کے فرائض سابق صدر شعبۂ اردودہلی یونیورسٹی پروفیسر ارتضیٰ کریم نے انجام دیے۔مقررین کے بطور پروفیسر پرگیہ پاٹھک، پروفیسر للتا یادو(این ایس کالج، میرٹھ) اور ڈاکٹر ودیا ساگر(شعبۂ ہندی) نے شرکت کی۔استقبالیہ کلمات ڈاکٹر شاداب علیم،پریم چند پر تعارفی کلمات ڈاکٹر ارشاد سیانوی،ہماری آواز پر اظہار خیال ڈاکٹر آصف علی نے کیا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر الکا وششٹھ اور شکریے کی رسم و کمٹ کے چیئر مین اتل سکسینہ نے ادا کی۔
اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے معروف فکشن نگار اور منفرد ناقد پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ ہر دور کے فکشن نگاروں میں خواہ ناول ہوں یا افسانے سبھی پر پریم چند کے اثرات نظرآ تے ہیں۔عصر حاضر میں پریم چند کے فن پر گفتگو کرنا اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ انہوں نے آج کے مسائل کو بہت پہلے محسوس کرتے ہوئے اپنی تخلیقات میں پیش کیا جس کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے فکشن کی مقبو لیت میں اضا فہ ہو تا رہے گا۔
ڈاکٹر ودیا ساگر نے کہا کہ پریم چند نے اپنی تخلیقات میں ابھرتے ہوئے سر مایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کے فکشن میں بالخصوص کسان، مزدور اور غریب طبقے کی آ واز سنائی دیتی ہے۔انہوں نے جاگیر دارانہ نظام پر یلغار کرتے ہوئے اپنی تخلیقات میں سماجی برا ئیوں کو زبردست طریقے سے اجاگر کیا۔ در حقیقت وہ زندگی کے کہانی کار ہیں۔جن کی تخلیقات میں حیات غبار بھی ہے اورحیات گل بھی اور خارِ زندگی بھی۔
پروفیسر پرتگیہ پاٹھک نے کہامنشی پریم چند وا حد ایسے فکشن نگار ہے جس کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے اور مستقبل میں بھی اسی طرح رہے گی۔ ان کے ناول ہوں یا افسا نے تمام تخلیقا ت میں سماج کے مسائل، انسانی جذبات و خیالات اور عہد حاضر کے پیچیدہ مسائل کو آ سانی سے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ پریم چند کی تخلیقات میںجو فن ہمیں نظر آ تا ہے اس فن کے اثرات ہمیں پریم چند کے بعد دیگر فکشن نگاروں کے یہاں بھی کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
پروفیسر للتا یادو نے کہا کہ پریم چند کے ناول اور افسانوں کے کردار ہمیں غوروفکر کرنے پر مجبور کرتے ہیںجو سچ ہوتا ہے وہی خوبصورت ہوتا ہے۔ان کے ادب میں سچ اور خوبصورتی کا ایک منفرد زاویہ نظر آ تا ہے۔منشی پریم چند کے یہاں انسانی شعور، سماجی مسائل اور عام انسانوں کا دکھ درد ان کی تخلیقات میں جابجا نظر آ تا ہے۔ ان کے ناول ہوں یا افسا نے ہمیں سماج کا سچا آئینہ دکھاتے ہیں۔انہوں نے انسانیت کے تن مردہ کی جڑوں کو سینچنے کا فریضہ انجام دیاہے۔
جن وادی لیکھک سنگھ کے کار کن اور معروف ایڈ وکیٹ منیش تیاگی نے کہا کہ منشی پریم چند کی بہت سی کہا نیاں ایسی ہیں جن میں فنی چابکدستی اور عمدہ اسلوب دکھائی دیتا ہے۔انہوں نے مزدوروں ، کسانوں اور دبے کچلے افراد کے مسائل بھر پور طریقے سے اٹھائے۔ان کا فکشن ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔اس موقع پر ریسرچ اسکالر سیدہ مریم الٰہی نے منشی پریم چند کی کہانی’’بیوی‘‘ کی قرأت کی۔
اس دوران مہمانان کے ہاتھوں شعبے کی ششما ہی میگزین’’ ہماری آواز‘‘ کے نئے شمارے کا اجراء بھی عمل میں آیا۔
پروگرام میںڈاکٹر پروین کٹاریہ، آفاق احمد خاں،انجینئر رفعت جمالی ،شکیل سیفی،شہناز پروین، عظمیٰ سحر، شاہ زمن، بھارت بھوشن شرما، شوریہ جین،محمد شمشاد، سعید احمد سہارنپوری،نزہت اختر، فرحت اختر ، طلبہ و طالبات اور کثیر تعداد میں عمائدین شہر موجود رہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page

