شاکر کریمی کا اصل نام امتیاز احمد کریمی ہے، وہ شمالی بہار کے مغربی چمپارن کے بتیا سے تعلق رکھتے ہیں۔گھر کا ماحول علمی تھا لہذا کم عمری میں ہی ذہن شاعری کی طرف مبذول ہوگیا، اپنے خاندان اور شاعری سے دلچسپی کے متعلق شاکرکریمی خود رقمطراز ہیں:
’’ حضرت علامہ شمشاد لکھنوی فرنگی محلی کے چہیتے شاگرد حضرت برتر آروی (مرحوم) کا فرزند اور فصیح الملک حضرت علامہ نوح ناروی کے شاگرد رشید صابر کریمی کا چھوٹا بھائی ہوں۔گھر کا ماحول ادبی تھا اس لیے کم سنی میں ہی میں امتیاز احمد کریمی سے شاکر کریمی ہوگیا۔میری ادبی زندگی کی ابتدا شاعری سے ہوئی لیکن بعد میں اپنے احساسات و جذبات کی مزید ترجمانی کے لیے افسانہ نگاروں کو بھی بہتر سمجھا۔ـ‘‘
(اپنی بات، ریزہ مینا ، ص۔ ۶)
شاکر کریمی بنیادی طور پر ایک تخلیق کار ہیں اور اکثر تخلیق کار اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی کے لیے الگ الگ اصناف کاانتخاب کرتے ہیں،شاکر کریمی کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز گرچہ شاعری سے کیا مگر بہت جلد ان کی دلچسپی شاعری کے ساتھ افسانے کی طرف ہوئی اور انھوں نے افسانے کو بھی اظہار کا ذریعہ بنایا۔سچ بات یہ ہے کہ انھوں نے شاعری سے زیادہ افسانے لکھے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کے تین مجموعے(پردے جب اٹھ گئے ۱۹۶۳، اپنی آگ میں ۱۹۷۹ اور ایک دن کا لمبا سفر۲۰۱۴) منظر عام پر آچکے ہیں ،جب کہ میری تحقیق کے مطابق ’’ریزۂ مینا‘‘ جس کی اشاعت ۱۹۸۵ میں ہوئی تھی ان کا واحد شعری مجموعہ ہے،اس لحاظ سے بھی شاکر کریمی ایک افسانہ نگار ہیں مگر ان کی شاعری کو کسی بھی اعتبارسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ہم امید کرتے ہیں کہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ بہت جلد منظر عام پر آئے گا۔
شاکر کریمی کا شعری مجموعہ ’’ ریزۂ مینا‘‘ ۱۹۸۵ میں نکھار پبلی کیشنز، مئو ناتھ بھنجن یو پی سے شائع ہوا تھا۔جہاں تک شاکر کریمی کی شاعری کا تعلق ہے تو بنیادی طور پر وہ غزل گو شاعر ہیں مگر انھوں نے نظمیں بھی کہی ہیں۔’’ ریزۂ مینا‘‘ میں غزلیں اور نظمیں دونوں شامل ہیں۔مجموعہ کا پہلا شعر حمدیہ ہے۔ ایک شعر دیکھئے:
زہے نصیب وہ پنہاں ہماری ذات میں ہے
کہ جس کا عکس ہر ایک سمت کائنات میں ہے
متکلم خدا کی وحدانیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خدا ہماری ذات میں شامل ہے اور اس کے عکس سے پوری دنیا منور ہے۔ شاکر کریمی کا یہ شعر موضوع کے لحاظ سے نیا نہیں ہے۔یہ خالص وحدت الوجود کا شعر ہے،اور اس وحدت الوجود ی فکر کو ولی، میر، درد، غالب سے لے اقبال اور فراق تک تقریبا تمام شعرا نے اپنے کلام میں پیش کیا ہے۔ میر کا شعر ملاحظہ کریں:
اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمع حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا
درد کا شعر دیکھئے:
جگ میں آکر اِدھر اُدھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
فراق کا شعر:
میں وحدت وجود کا قائل نہ تھا مگر
ہر شئے میں ہو کے رہ گیا مجھ کو ترا گماں
میرکہتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز میں جو چمک جو نور نظر آتا ہے دراصل وہ خدا کے حسن کا ایک پرتو ہے۔ درد کی دنیا خارجی ہے،اسے ہر شئے میں خدا نظر آتا ہے لہذا ان کا خیال ہے کہ دنیا کی جس چیز پر میری نظر پڑی مجھے اس میں خدا کی وحدانیت نظر آئی۔ فر اق پہلے خدا کی وحدانیت کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ وحدانیت کے قائل نہیں تھے،مگر جس کسی چیز پر بھی نظر پڑی اس میں خداکا وجود نظر آیا۔ میر، درد اور پھر فراق تینوں کے شعر سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خدا کی وحداینت کا علم خارجی اشیائ کے ذریعے ہوا مگر شاکر کریمی نے وحدت الوجود کے اس نظریے کو ایک خاص پیرائے میں پیش کیا ہے۔متکلم اپنی قسمت پر نازاں اور مسرور نظر آتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا کی ذات جس سے پوری دنیا روشن ہے اور جس کے پرتو سے ہرچیز منور ہے، اُس خدائے وحدہ لا شریک کی ذات ہمارے اندر موجود ہے۔شاکر کریمی کا یہ شعر انسانی اقدار کی بہترین مثال معلوم ہوتی ہے۔ شاکر کریمی کے شعر میں ایک داخلی کیفیت اور انسانی عظمت کا بیان ملتا ہے کہ خدا تو دراصل انسانوں کے دلوں میں بستا ہے۔ شعر ایک بار پھر ملاحظہ کریں: (یہ بھی پڑھیں افسانہ تنقید کے ابتدائی نقوش – ڈاکٹر نوشاد منظر )
زہے نصیب وہ پنہاں ہماری ذات میں ہے
کہ جس کا عکس ہر ایک سمت کائنات میں ہے
شاکر کریمی کے یہاں ایسے کئی اشعار ملتے ہیں جن میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود دونوں موجود ہیں ،دو شعر دیکھئے:
وہ جس کا حسنِ فسوں ساز شش جہات میں ہے
ہمارا ذکر اسی کے حریم ذات میں ہے
وجود ہستیٔ آدم کا نیستی ہے وہی
وہ ایک ذات جو پنہاں ہر ایک ذات میں ہے
ان اشعار کی قرأت کرتے ہوئے ہمارے ذہن میں اقبال کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔علامہ اقبال کے یہاں ایسے بہت سے اشعار با ٓسانی مل جاتے ہیں جن میں انسانی عظمت و بلندی کو بیان کیا گیاہے۔ شاکر کریمی بھی انسان کی عظمت کے قائل ہیں اور وہ بار بار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خدا دراصل ہمارے دلوں میں بستا ہے ۔یقینا جو دل خدا کی یاد سے غافل ہو وہ اس بات کو آسانی سے نہیں سمجھ سکتا ۔
شاکر کریمی کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں جہاں کلاسیکی رنگ کے اشعاربا آسانی مل جاتے ہیں،چند اشعار ایسے بھی ہیں،جو جدید عہد سے تعلق رکھتے ہیں۔زندگی اور موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے چشم پوشی ناممکن ہے، قرآن میں بھی آیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ’’ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘ اردو شاعری میں موت اور زندگی ایک پسندیدہ موضوع رہا ہے۔میر، غالب ، مومن اور بعد میں اقبال اور فراق نے بھی زندگی اور موت کے رشتے کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ غالب کا دو شعر دیکھئے:
قیدِحیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
زندگی اور موت دو ایسی حقیقتیں ہیں جن سے انکار ناممکن ہے۔اردو شاعری میں زندگی کو موت سے زیادہ تکلیف دہ بتایا گیا ہے۔شاکر کریمی کے یہاں بھی زندگی اور موت کا وہی روایتی فلسفہ پیش کیا گیا ہے۔چند اشعار ملاحظہ کریں:
فکر یہی دن رات ہے شاکر کیسے عمر بسر ہو آخر
جینا بھی آسان نہیں ہے، مرنے میں دشواری ہے
حیات قید ہے شاکر، تو موت آزادی
غرض کہ فرق یہی موت اور حیات میں ہے
یہ ایک خالص اسلامی فلسفہ ہے کہ زندگی دراصل ایک دھوکہ ہے،آزمائش ہے،اصل زندگی تو موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔شاکر کریمی زندگی کو ایک بندش اور موت کو اس سے نجات کا ذریعہ مانتے ہیں۔شاکر کریمی نے اپنی شاعری کے ذریعے اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کی شاعری میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کا ذکر بھی ملتا ہے۔ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
جو اشک ریزی و آہ و فغاں میں بیت گئی
وہ ایک رات ہی بہتر ہزار رات میں ہے
قرآن کریم کی سورۃ ا’ القدر‘ میں اللہ فرماتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ’ شب قدر کی عبادت ہزار راتوں کی عبادت سے بہتر ہے۔مذکورہ شعر میں متکلم کا اشارہ اسی لیلۃ القدر کی طرف ہے،وہ کہتا ہے اللہ اپنے بندوں کی خطا کو درگزر کرنے کے بہانے تلاش کرتا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر کسی شخص کی آنکھوں سے خوف الٰہی میں آنسو کی ایک بوند بھی گر جائے تو اللہ اس کی خطاوں کو معاف کردیتا ہے،اس لیے متکلم کہتا ہے کہ ایسی عبادت کا اللہ کی نظر میں کوئی مول نہیں جس عبادت میں خوف خدا اور خشوع وخضوع شامل نہ ہو۔
شاکر کریمی نے سماج کی بدلتی ہوئی قدروں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے،مغربی تہذیب کی بے جا تقلید نے ہمیں اس مقام پر کھڑا کردیا ہے کہ ہم اچھے اور برے میں تمیز کرنا بھول گئے ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں حکیم آغا جان عیش کی غزل گوئی۔ ڈاکٹر نوشاد منظر )
تم کو احساس ہے تہذیب کی عریانی کا
شوخ و خوش رنگ لباسوں سے سنورنے والوں
اردو شاعری کا غالب موضوع عشق رہا ہے۔شاکر کریمی کے یہاں عشق کے مختلف واقعات کو بھی پیش کیا گیا اور یہ عشق حقیقی بھی ہے اور مجازی بھی۔محبوب کے لیے تمام حدود کو پار کر جانے کا جذبہ شاکر کریمی کے اشعار میں موجود ہے۔ محبوب کی بے اعتنائی کا رونا توتقریبا سبھی شعرا کے یہاں ملتا ہے اور ظاہر ہے کہ شاکر کریمی بھی خود کو اس سے بچا نہیں پائے ہیں، کلاسیکی شاعری کا یہ بھی ایک اہم پہلوہے۔
اپنے در سے تو اٹھا سکتے ہو مانا لیکن
یہ تو ممکن ہی نہیں دل سے نکالو مجھ کو
آج اس شوخ نے اپنے بیمار کا
حال پوچھا مگر اجنبی کی طرح
اردو شاعری میں معشوق کا کردار بڑا دلچسپ ہے، وہ اپنے عاشق سے وعدۂ وصل کرنے کے باوجو اس سے ملنے نہیں آتا ۔معشوق اکثر اپنے محبوب کی تڑپ اور اضطراب کی کیفیت کودیکھ کر خوش ہوتا ہے ۔شاکر کریمی کا معشوق کچھ زیادہ ہی ظالم واقع ہوا ہے وہ اپنے عاشق کو ہجر کی آگ میں تڑپتے ہوئے دیکھ کرخوش ہوتا ہے اور اس کی اضطرابی کو جھوٹا بتاتا ہے:
میں رودادِ غم زیست بیاں کرتا ہوں
آپ سمجھیں اسے افسانہ تو افسانہ سہی
مگر عاشق کو اپنی انانیت بھی بے حد عزیز ہے، وہ اپنی انانیت کے ساتھ کسی بھی قسم کاcompermise نہیں کرنا چاہتا:
لے گا نہ پھر جہاں میں کوئی بھی وفا کا نام
اٹھ کر چلے گئے جو تری انجمن سے ہم
شاکر کریمی کے یہاں ایسے بہت سے اشعار ہیں جن میں محبوب کی خاطر اپنی شناخت تک ختم کرنے کی ایک کوشش نظر آتی ہے، ان اشعار میں دلسوزی کے ساتھ ساتھ عشق میں خود کو فنا کرنے کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے اس سے شعر میں ایک خاص قسم کی اثر انگیزی پیدا ہوگئی ہے:
میرے چہرے پہ لگادو کوئی نقلی چہرہ
اپنے جیسا جو چاہو تو بنالو مجھ کو
کیوں بھٹکتے ہو اندھیروں میں اجالوں کے لیے
مشعلِ راہ ہوں جب چاہو جلالو مجھ کو
اردو شاعری کا وصف خاص رہا ہے کہ عاشق کو محبوب کا وصال نصیب نہیں ہوتا اور یہ خاصیت ہماری کلاسیکی شاعری میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ ولی، سراج،میراور غالب وغیرہ کے کلام میں ہجر کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے اس سے بھی اس کا اندازہ لگایا جاسکتا۔ محبوب وصال کے انتظار اور ہجر کی آگ میں جلتا رہتا ہے ۔شاکر کریمی کی غزلوں میں وہی کلاسیکی رنگ نظر آتا جس پر پوری اردو شاعری کو فخر ہے۔عشق مجازی کاایک خاص تصور ہونے کے باوجود وصال کی لذت سے محروم رہنا اور ہجر کی کیفیت کی لذت کو بہت سے شعرا نے پیش کیا ہے۔دو شعر دیکھئے:
دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
(میر)
بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم
جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی
(فراق)
میرتقی میر کے یہاں صرف ہجر ہے انہیں وصال کی لذت کا اندازہ بھی نہیں مگر فراق کے یہاں جگہ جگہ وصال محبوب کا ذکر ملتا ہے باوجود اس کے فراق کو کبھی محبوب کے پہلو میں محبوب کی یاد آتی ہے اور کبھی محبوب کے ہجر میں گزارے گئے پل کی لذت کا احساس ہوتا ہے۔جہاں تک شاکر کریمی کا تعلق ہے تو ان کے یہاںمیر کا رنگ غالب ہے۔ حالانکہ چند اشعار ایسے بھی ہیں جن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے جیسے متکلم کو محبوب کا وصال ہوا ہے اسے متافی العش کا درجہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہاں عشق مجازی اور عشق حقیقی دونوں جہات ہیں:
عشق تو ہے حسن پر خود کو مٹادینے کا نام
حسن کو پابند کرنا عشق کی تضحیک ہے
انھیں پایا تو خود کو کھو دیا ہے
یہی حاصل ہے میری بندگی کا
’’انھیں پایا تو خود کو کھو دیا‘‘جیسے مصرعوں سے یہ احساس ہوجاتا ہے کہ متکلم عشق میں وصال کو محبت کی موت مانتا ہے ۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس زمانے میں شاکر کریمی کا مذکورہ مجموعہ شاعری منظر عام پر آیا اس زمانے میں فراق کی شاعری کا شہرہ تھا،گرچہ فراق کا انتقال ہوچکا تھا مگریہ بھی سچ ہے کہ شاکر کریمی کی شاعری کا آغاز فراق کی موت سے بہت پہلے ہوچکا تھا،باوجود اس کے وصال کا جو تصور فراق کے یہاں نظر آتا ہے اس سے شاکر کریمی بالکل متاثر نظر نہیں آتے۔فراق کا ایک شعر دیکھئے جس میں وصال کے بعد کی تبدیلی نظر آتی ہے۔ (یہ بھی پڑھیں کوثر مظہری کی نظمیہ شاعری میں رات کا تصور – ڈاکٹر نوشاد منظر )
ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی ہے
جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا شاکر کریمی کے یہاں وصال یار کا کوئی تصور نہیں ہے وہ ہجر یار کو لذت کے طور پر پیش کرتے ہیں:
شب فراق کی تاریکیوں سے گھبرا کر
نکل گئی مری جان حزین تو کیا ہوگا
سوال دید تو آساں ہے اے دل ناداں
گرے گی برقِ تجلی کہیں تو کیا ہوگا
پہلے شعر میں متکلم یہ کہنا چاہتا ہے کہ جدائی کی رات تو قیامت جیسی ہوتی ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں اس تاریکی اور خوف ناک رات کی تاب نہ لا سکنے کی صورت میں مر نہ جاؤں، پھر وہ اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے محبوب اگر میری موت ہو جائے گی تو سوچو پھر کیا ہوگا۔دوسرے شعر میں متکلم اپنے دل کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے دل محبوب سے اس کی دید کا سوال کرنا کوئی مشکل نہیں ہے،اہم بات یہ ہے کہ اگر میرا محبوب ملنے کے لیے تیار ہوگیا توظاہر ہے اس کی تاب لانے کی طاقت مجھ میں نہیں۔شاکر کریمی کا دوسرے شعر میں اس تاریخی واقعے کی طرف اشارہ نظر آتا ہے جب موسیٰ ؑ کی قوم نے ایمان قبول کرنے کی یہ شرط رکھی تھی کہ جب تک ہم اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیتے ہم ایمان نہیں لائیں گے۔موسیٰ ؑ نے بہ حالت مجبوری طور کی پہاڑی پر اپنی قوم کو لے کر پہنچے۔ اللہ پاک کی تجلی کا یہ اثر ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوگئے۔ شاکر کریمی کا خیال ہے کہ محبوب کی تجلی سے کہیں اس کی حالت بھی موسیٰ علیہ السلام جیسی نہ ہو جائے۔
شاکر کریمی نے سیاست کو بھی اپنی غزلوں کا موضوع بنایا ہے۔ دور حاضر میں ہماری جو سیاسی صورت حال ہے وہ نا قابل بیان ہے۔مذہب جو زندگی گزارنے کا اصول متعین کرتی ہے اسی کو بنیاد بناکر آج نفرت کا بازار گرم کیا جارہا ہے ،چند افراد کی اس حرکت نے ہمارے سماجی نظام کو ہی تہس نہس کردیا ہے اور اسی گندی سیاست نے انسانوں سے اس کی پہچان چھین لی ہے۔ دراصل سیاست نے ہمیں مختلف گروپوں میں بانٹ دیا ہے، اسی سیاست کا اثر ہے کہ ہم آج اپنی پہچان کے لیے لڑ رہے ہیں اور ہر کمیو نٹی اپنا الزام دوسری کمیونٹی پر رکھ رہی ہے۔
اپنا الزام کسی اور پہ دھرنے والو
کیا ملے گا تمہیں حالات سے ڈرنے والو
روند کر وقت گزر جائے گا اک دن تم کو
صورتِ ذرہ بے مایہ بکھرنے والو
حوصلہ ہے تو الٹ دو غم ہستی کی بساط
ورنہ بے موت ہی مر جاوگے ڈرنے والو
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ سیاسی صورت حال سے اگر عام آدمی نبرد آزما نہیں ہوتا ہے تو وقت کی آندھی اسے اپنے ساتھ اڑا لے جائے گی اور پھر ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں ۔ مذکورہ اشعار کسی خاص گروپ کے لیے نہیں کہے گئے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان شعروں میں تمام انسان مخاطب ہیں۔متکلم کا خیال ہے کہ انسان کو اپنی خامیوں کو دور کرنے اور ان پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ دوسروں کو الزام دینا اور اپنی خامیوں سے چشم پوشی کرنا بہت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، لہذا ہمت اور تدبر سے حالات پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔متکلم اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اتحاد بہت ضروری ہے اگر ہمارے اندر اتحاد نہیں رہا تو وقت ہمیں کچل دے گا۔مگر تیسرے شعر میں متکلم خاصے جذباتی انداز میں عوام کے دل میں حوصلہ اورجوش بھرتے ہوئے کہتا ہے کہ اپنے اندر حوصلہ پیدا کرو اور ظالم و جابر نظام حکومت کا تختہ پلٹ دو ورنہ بے موت ہی مرنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ (یہ بھی پڑھیں علامہ جمیل مظہری کی سلام نگاری – ڈاکٹر نوشاد منظر )
مذکورہ اشعار کو ہندستان کی موجودہ سیاسی اور سماجی صورت حال کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، حالانکہ شاکر کریمی کا مجموعہ ’’ ریزۂ مینا‘‘ ۱۹۸۵ میں شائع ہوا تھا جب ہندستان ایمرجنسی کے پر آشوب دور میں اپنا بہت کچھ کھو چکا تھا، سینکڑوں لوگوں کی جانیں گئیں، ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے، ممکن ہے شاعر کا اشارہ اسی جانب ہو،مگر ان اشعار کو ہم آج کی سیاست سے بھی جوڑ کر سمجھ سکتے ہیں۔ مذہب کے نام پر منافرت پھیلانے کا سلسلہ تو اسی دن شروع ہوگیا تھا جب مذہب کے نام پر ایک خوبصورت ملک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیا ۔ہندو مسلم جو صدیوں سے آپس میں بھائی بھائی بن کر زندگی گزار رہے تھے ان کے درمیان نفرت کی ایک ایسی کھائی کھود دی گئی جسے پاٹنا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔اگر ہم صرف ہندستان کی بات کریں تو آزادی کے بعد یہاں سیکڑوں فسادات ہوئے،بہت سے معصوم لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔مگر کچھ واقعات ایسے ہوئے جس نے عالمی سطح پر ہندستان کی شبیہ خراب کی ان میں سکھ فساد،ایمرجنسی، بابری مسجد انہدام اور گجرات فساد ہے جس نے دہشت کی ایک ایسی فضا قائم کی کہ برسوں بعد بھی عوام اس خوف سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ مذکورہ واقعات میں ایک یکسانیت یہ ہے کہ حکومت وقت اس فساد کو روکنے میں ناکام رہی، بلکہ حکومت وقت پر ہی مجرموں کو پناہ دینے کا الزام لگا۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی گنہگاروں کو سزا نہیں ملی اور فسادات کے شکار آج بھی در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔مگر ان کا خیال تک کسی کو نہیں آتا۔اس ضمن میں دو شعر ملاحظہ فرمائیں:
زمانہ لکھتا رہا جن کے خوں سے تاریخیں
انھیں کا نام زیب داستاں نہ ہوا
ہر ایک سمت لبوں پر ہے مہر خاموشی
کہ جیسے کوئی کسی کا ہم زباں نہ ہوا
اقبال نے جس امیدکی بات کی تھی اور یہ کہا تھا کہ ’’ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ اسی امید کے قائل شاکر کریمی بھی معلوم ہوتے ہیں:
غم زدہ دیکھا ہے شاکر کو کسی دن تم نے
تذکرہ تلخیٔ حالات سے کرنے والو
متکلم شکست قبول کرنے کے بجائے وقت کی تلخی سے نبرد آزما ہونے پر زور دیتا ہے۔ متکلم کا خیال ہے کہ غم زدہ ہونے اور وقت کی ناسازی کی شکایت کرنے کے بجائے اپنے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
شاکر کریمی کی شاعری میں ایک خاص قسم کی نغمگی پائی جاتی ہے،کہیں کہیں یہ نغمگی اس قدر حاوی ہے کہ وہ غزل کم گیت زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔
ساقی نہ پوچھ تیرے غم انتظار میں
رندوں پہ کیا گزر گئی، فصل بہار میں
ڈھوندتی ہے کس کو اُدھر، منتظر ہیں ہم
اے گردش حیات چلی آ، اِدھر ہیں ہم
سب کی نظر سے خود کو چھپائے ہوئے ہو تم
پھر بھی ہر اک نظر میں سمائے ہوئے ہو تم
ابر باراں تو برس، خوب برس، اب کے برس
جام و مینا کی نہیں ہم کو ہوس اب کے برس
مذکورہ اشعار تو بس نمونے کے طور پر پیش کیے گئے ہیں ، ’’ریزۂ مینا‘‘ میں ایسے بہت سے اشعار ہیں جن میں ایک خاص لب ولہجہ، نغمگی، زبان کی ندرت اور انداز بیان کا جوہر نظر آتا ہے۔ ان گیت نما غزلوں کو اگر موسیقی کی دھن پر گایا جائے تو ان غزلوں کی غنائیت اور موسیقیت مزید بڑھ جائے گی ۔
بہر کیف؛ شاکر کریمی کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ افادی ادب کے قائل ضرور تھے مگر انہوں نے جدید تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش بھی کی۔وہ لکھتے ہیں:
’’جہاں تک نظریہ ادب کا سوال ہے میں ادب کی مقصدیت اور افادیت کا قائل ہوں،میری نظر میںوہی ادب صحت مند ہے جو زندگی کے لیے سکون، خلوص اور صداقت کا پیغامبر ہو،جو انسانی مسائل کا صحیح حل پیش کرکے صالح قدروں اور صحت مند معاشرے کو جنم دے۔میں ادب میں نئے تجربات کا حامی بھی ہوں،اس لیے جدید ادب کو بھی پسند کرتا ہوں۔لیکن ’مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ‘ قسم کے ادب کا قائل نہیں ہوں اور ایسے ادب کو لفظی شعبدہ گری سمجھتا ہوں۔‘‘
(ریزۂ مینا ، ص ۸،۹)
شاکر کریمی کی اس بات سے ایک حد تک اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ ادیب کو کسی خاص نظریے کا پابند نہیں ہونا چاہیے ورنہ ایک خاص قسم کی تخلیقات سامنے آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور ادب میں نئے تجربات و رجحانات کو فروغ نہیں مل پاتا۔’’ریزۂ مینا ‘‘کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں اندازہ ہوا کہ شاکر کریمی کی غزلوں میں کلاسیکی اور جدید رجحانا ت کابہترین امتزاج پایا جاتا ہے۔
٭٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |