دوپہر کا وقت تھا سورج کی گرمی عروج پر تھی – سخت گرمی سے پریشان ہوکر درخت کے پتے بھی ہلنے کی حالت میں نہیں تھے – چڑیاں آسمانوں کی اڑان چھوڑ کر اپنے اپنے گھونسلے میں آرام کر رہی تھیں- افف اس گرمی نے تو جینا محال کر دیا ہے ثنا ڈوپٹے سے اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے بولی- ابھی تک وہ بھی نہیں آئے ہیں- ثنا کا شوہر جمیل پیشے سے ایک مزودر تھا. سخت دھوپ میں محنت و مشقت کرتا اور دوپہر کو گھر سے کھانا کھاکر پھر اپنے کام پر لوٹ جاتا- مگر آج دھوپ اتنی تیز تھی کہ گھر سے باہر نکلنا تک دشوار تھا- ثنا اپنے لخت جگر ریحان کو سینے سے لگا کر پیار کر رہی تھی تبھی دروازے پر دستک ہوئی – کون؟ ثنا نے نہایت ہی ادب سے پوچھا….. خشک گلے سے لرزتی ہوئی آواز میں جمیل نے کہا میں ہوں دروازہ کھولو …. آج آنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ بیچارہ جمیل جو پسینے سے شرابور تھا، اپنی بیوی کے سوال کا جواب نہ دے سکا- ثنا اپنے شوہر کو تھکن سے چور دیکھ کر جلدی جلدی اسے اپنے ہاتھوں سے پنکھا جھلنے لگی- چونکہ بجلی بل نہ ادا کرنے کی وجہ سے آج اس کے گھر سے بجلی کاٹ لی گئی تھی – جمیل کے ہاتھ بالکل سخت ہو چکے تھے جب وہ کام سے فارغ ہوکر گھر آتا اور مزید تکان کی وجہ سے جب بستر پر جاتا تو پل بھر میں ہی نیند اسے اپنی گرفت میں لے لیتی – اس کے بعد ثنا اپنے مخملی ہونٹوں سے اپنے شوہر کے ہاتھوں پر بوسہ لیتی – بہر حال جمیل نے کھانا کھایا اور اپنے لخت جگر ریحان کو کچھ دیر پیار کر اپنے کام پر لوٹ گیا – جمیل کے جانے بعد ثنا کھانا کھاکر اپنی گود میں ننھے ریحان کو سلا کر خود بھی سو گئی – ایک روز اچانک ننھے ریحان کی طبیعت بگڑ گئی بخار کا غلبہ کچھ اس قدر تھا کہ ریحان کی آنکھیں بھی نہیں کھل رہی تھیں- اپنے لخت جگر کو اس حالت میں دیکھ کر ثنا سخت پریشان ہوئی – جمیل کام پر گیا ہوا تھا گھر میں بس دو ہی لوگ تھے ثنا اور اس کا بیمار بیٹا ریحان – ریحان کی طبیعت متواتر بگڑتی جا رہی تھی. ثنا اپنے لخت جگر کو ڈاکٹر کے پاس کیسے لے جاتی وہ اپنی بے بسی پر رو رو کر جمیل کے آنے کا انتظار کر رہی تھی – دوپہر کو جب جمیل گھر لوٹا تو اپنی اہلیہ کی آنکھوں سے موتی کی ماند ٹپکتے ہوئے آنسو دیکھ کر حیرت انگیز لہجے میں گویا ہوا؟
کیا ہوا؟ تم کیوں رو رہی ہو؟ ثنا ہچکیاں لیتی ہوئی بولی ریحان بہت بیمار ہے وہ آنکھیں بھی نہیں کھول رہا ہے اسے جلدی ڈاکٹر کے پاس لے چلیں ثنا سے اپنے لخت جگر کی یہ حالت سن کر جمیل فوراً اپنے بیٹے کو گود میں لے کر کڑی دھوپ میں دوڑتا ہوا گاوں کے ہی ایک ڈاکٹر کے پاس پہنچا – ڈاکٹر صاحب میرا لعل سخت بیمار ہے بہت دیر سے اس نے آنکھیں بھی نہیں کھولی ہیں جمیل نے ہانپتے ہوئے کہا – ….. اس بچے کی حالت بہت بگڑ چکی ہے بغیر وقت ضائع کیے آپ اسے شہر کے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں. ڈاکٹر نے کہا- ثنا روتی ہوئی ڈاکٹر کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی مجھ غریب پر رحم کجیے میرے بیٹے کو ٹھیک کر دجیے ہمارے غریب خانے کا واحد چراغ ہے یہ – ڈاکٹر نے ثنا کو سمجھاتے ہوئے کہا دیکھو بیٹی تمہارے بیٹے کو بہت تیز بخار ہے اور بخار مسلسل بڑھ رہا ہے جوکہ بہتر نہیں ہے – اب اسے ٹھیک کرنا میرے بس میں نہیں جتنی جلدی ہو سکے شہر کے ڈاکٹر کے پاس جاو – ثنا ڈاکٹر صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں ہمیں جلد ہی شہر نکلا چاہیے جمیل نے کہا – چنانچہ وہ دونوں اپنے بیمار لخت جگر کو لے کر شہر کی طرف نکل پڑے – تیز بخار کے سبب ننھے ریحان کا بدن کچھ اس قدر گرم تھا گویا اس کے بدن میں کسی نے آگ لگا دی ہو – مگر ان سب کے باوجود ثنا اسے ایک دم اپنے سینے سے لگائی ہوئی تھی – تقریباً ایک گھنٹہ سفر کرنے کے بعد وہ دونوں اپنے بیمار لخت جگر کو لے کر شہر کے سب سے مشہور ڈاکٹر اوم پرکاش کے پاس پہنچے- ڈاکٹر نے ریحان کی حالت دیکھتے ہوئے کہا بچے کی حالت بہت نازک ہو چکی ہے اسے فوراً ایڈمٹ کرنا ہوگا – جاکر چار نمبر کائونٹر پر پانچ ہزار جمع کجیے تبھی اس بچے کو ایڈمٹ کیا جائے گا – ثنا ڈاکٹر صاحب کے پیروں پر گر کر رونے لگی اور جمیل ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا ڈاکٹر صاحب ہم غریبوں پر دیا کجیے بہت مشکل سے دو ہزار اکٹھا کر کے آپ کے پاس بڑی امید سے آیا ہوں آپ علاج شروع کریں میں پیسے کا بندوبست بہت جلد کر دوں گا…… کہہ دیا ناں پہلے پیسے جمع کرو تبھی بچے کا علاج ہوگا ڈاکٹر صاحب نے سخت لہجے میں کہا – ثنا پیر پکڑ کر ڈاکٹر صاحب میرے گھر کا چراغ بجھنے کی دہلیز پر ہے آپ میرے گھر کو تاریک ہونے سے بچا لجیے آپ کو آپ کے بھگوان کا واسطہ – چل ہٹ گاوں کے لوگ اس طرح کے ڈھونگ بہت کرتے ہیں تاکہ ان کا علاج بالکل مفت میں ہو جائے. بے وقوف کسی اور کو بنانا اور ہاں اگر علاج کروانا ہے تو پہلے پانچ ہزار روپے جمع کرو ورنہ دفع ہو جاو یہاں سے تم جیسے ڈھونگی لوگو کو میں بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں. ڈاکٹر نے کڑوے لہجے میں کہا – میرا یقین کجیے ڈاکٹر صاحب ہم ویسے نہیں ہیں جیسا آپ ہمیں سمجھ رہے ہیں جمیل نے کہا…… ڈاکٹر صاحب.. میں نے کہا ناں جاو یہاں سے مجھے اور مریضوں کو دیکھنا ہے میرا وقت برباد مت کرو وہ دونوں گڑگڑاتے رہے مگر ڈاکٹر کو ان کی بے بسی پر ذرا بھی رحم نہ آیا – چنانچہ ڈاکٹر نے ان مصبیت کے ماروں کو دھکہ مرواکر ہسپتال کے باہر کروا دیا – ننھا ریحان اب تب میں تھا – تبھی ثنا نے جمیل سے کہا کہ میں یہاں اپنے لعل ریحان کو لے کر ٹھہرتی ہوں آپ جلد از جلد گھر جاکر میرے جو بھی گہنے ہیں اسے بیچ کر پیسے لے آئیں – جمیل ثنا کی باتیں سن کر رو پڑا مگر اس کے علاوہ ان دونوں کے پاس کوئی چارہ بھی تو نہ تھا – چنانچہ وہ گھر کی طرف روانہ ہو گیا – یہاں ثنا اجنبی شہر میں اپنے بیمار بچے کو چھاتی سے لگا کر جمیل کے لوٹنے کا انتظار کر رہی تھی – ثنا اپنے لخت جگر کی جبیں پر مخملی لبوں سے بوسہ لے کر بولی میرے لعل جب تم بڑے ہو جاوگے تب میں تمہیں بھی خوب پڑھا لکھا کر ڈاکٹر بناوں گی پھر تم غریبوں کا علاج بالکل مفت میں کرنا – یہ شہر کے ڈاکٹر لوگ ہم غریبوں کو ڈھونگی کہتے ہیں-دیکھنا تمہیں اتنا بڑا اور کامل ڈاکٹر بناوں گی کہ گاوں کے غریب مریضوں کو کبھی شہر جانے کی نوبت ہی نہیں آئے گی – ثنا اپنے جگر کے ٹکڑے سے یہ ساری باتیں کہہ ہی رہی تھی کہ جمیل گہنے بیچ کر وہاں پہنچا اور جلد ہی فیس ادا کر کے ننھے ریحان کو ایڈمٹ کروایا- ہسپتال کے ہی ایک ملازم سے جمیل نے کہا کہ فیس کی ادائیگی ہو چکی ہے اب تو میرے بیٹے کا علاج شروع کر دجیے – ملازم نے ج کو ڈانٹتے ہوئے کہا آپ کے بچے کا نمبر اس کے بعد ہے ابھی ڈاکٹر صاحب دوسرے مریض کو دیکھ رہے ہیں…. مگر میرا بچہ بہت دیر سے بیمار ہے جلدی کچھ کجیے جمیل نے گڑگڑاکر کہا…… کہہ دیا ناں اس کے بعد ہی آپ کے بچے کا علاج ہوگا ملازم نے پھر ڈانٹ کر کہا – ملازم کی ڈانٹ سن کر وہ دونوں خاموش ہو گئے – کچھ وقت کے بعد جب ننھے ریحان کے علاج کی باری آئی تب ڈاکٹر نے اس بچے کو دیکھا پھر اسے چھو کر کہا سوری اب بہت دیر ہو چکی ہے –
ایم اے صابری
جگن ناتھ مشرا کالج مظفرپور
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page