علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ جیسی عظیم شخصیت پر لکھنا میرے لیے بہت شرف کی بات ہے، جبکہ میں اردو کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں۔ علامہ اقبال نے ٦١ سال کی زندگی میں وہ خزانہ امت مسلمہ کو دے دیا ہے جس کو پڑھ کر نوجوان ہو یا جوان بچہ ہو یا بوڑھا سب کے اندر دین حق کی بیداری آسکتی ہے۔ میں اردو ادب کا طالب علم ہوں اور تصوف اور صوفیاء کرام سے مجھے بہت دلچسپی ہے۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے اور ان کی شاعری تصوف سے خالی نہیں۔ علامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد کشمیر کے برہمنوں کی نسل سے تھے۔ ان کے آبا و اجداد انیسویں صدی میں اسلام قبول کر کے کشمیر سے ہجرت کرتے ہوئے سیالکوٹ میں آب سے۔ شیخ نور محمد صاحب نے خواب دیکھا جس میں ایک سفید کبوتر میدان میں چکر لگا رہا ہے، کبھی اتنا نیچے آجاتا کہ زمین سے سٹ گیا کبھی اتنا اوپر اڑ جاتا کے تارے بن کر آسمان سے لگ گیا سب اس کو پکڑنا چاہتے تھے مگر وہ کچھ دیر بعد غوطہ لگایا اور میری جھولی میں آ گرا۔ اس خواب کے بعد نور محمد صاحب کو یہ احساس ہوا کہ اللہ انہیں ایک بیٹا عطا کرے گا۔ جس کی دین اسلام کے لیے کافی خدمات ہوں گی۔ علامہ اقبال کی پیدائش ٩ نومبر ١٨٧٧ء کو سیالکوٹ میں ہوئی۔ علامہ اقبال کے تعلیمی سفر کا آغاز کتاب اللہ سے مولانا ابوعبداللہ غلام حسن نے کروایا۔ کچھ دن بعد مولانا نے نور محمد صاحب سے خواہش ظاہر کی کہ اقبال کو میری تربیت میں دے دیا جائے۔ علامہ اقبال مولانا میر حسن کی تربیت میں آنے کے بعد یہاں انہوں نے اردو، فارسی اور عربی ادب کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ مولانا سید میر حسن تمام اسلامی علوم سے آگاہ تھے اور جدید علوم پر بھی اچھی نظر تھی۔ مولانا میر حسن علامہ اقبال کو بہت عزیز مانتے تھے، اور علامہ اقبال بھی مولانا سے بہت رقبت رکھتے تھے۔ مولانا میر حسن کو علی گڑھ تحریک اور سر سید سے کافی لگاؤ تھا وہ اس تحریک کو مسلمانوں کے لیے بہتر سمجھتے تھے جس کی وجہ سے علامہ اقبال کو بھی سر سید سے بہت لگاؤ تھا۔ شعرو شاعری کا شوق تو بچپن سے ہی تھا مگر خود لکھ کر ضائع کر دیا کرتے تھے۔ ایک صوفی باپ اور عالم استاد کی تربیت حاصل ہونے کی وجہ سے ان کا بچپن کشادگی کے ساتھ گزرا وہ اپنی ذہانت اور سمجھ کے لحاظ سے اپنے ہم عمر بچوں سے بہت اوپر تھے۔ استاد نےان کو زندگی کے تجربات اور حقائق سے جوڑے رکھا۔ کیونکہ پچپن سے کتاب میں زیادہ ملوث ہوجانے سے تجرباتی زندگی سے فاصلہ بن جاتا ہے۔سنہ ١٨٩٣ کو آپ نے میٹرک کیا اور ١٨٩٥ء میں آپ اسکاج مشن اسکول سے انٹرمیڈیٹ کر کے فراغت حاصل کی۔ انٹرمیڈیٹ کے دوران ان کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اقبال کی شاعری کو تراشنے میں داغ دہلوی کا نام آتا ہے، انہوں نے اقبال کی شاعری کے تعلق سے بتایا کہ اسے تراشہ نہیں جا سکتا ہے۔ اصلاح کی گنجائش ان کی شاعری میں نہ کے برابر تھی۔ ١٨٩٨ء میں علامہ اقبال نے بی-اے پاس کیا اور ایم-اے (فلسفہ) میں داخلہ لیا۔ اقبال کی شاعری کا سلسلہ چلتا رہا مگر مشاعروں میں نہ جاتے تھے۔ ایک دن کچھ بے تکلف دوست انہیں ایک مشاعرے کی محفل میں زبردستی لے گئے، اقبال ان کے بیچ نۓ تھے۔ علامہ اقبال نے جب غزل پڑھی اور اس شعر پر پہنچے
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
تو بڑے بڑے شعراء اور اساتذہ بے اختیار داد دینے لگے، اور یہاں سے ان کا ایک شاعر کی شہرت کا آغاز ہوا۔ علامہ اقبال اپنی شاعری میں جب حوصلہ دلاتے ہیں تو لوگوں کے جزبات خود باخود ابھر آتے ہیں۔ اور جب علامہ اقبال یہ احساس دلاتے ہیں کہ تم کس امت سے تعلق رکھتے ہو اور تمہارے اسلاف کون اور کیا تھے؟ اور تمہارا کیا حال ہو چکا ہے تو واقعی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کی صورتحال کو علامہ اقبال نے پہلے ہی قلم بند کردیا تھا۔ علامہ اقبال جدید دور کے نوجوانوں کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ:
کبھي اے نوجواں مسلم! تدبر بھي کيا تو نے
وہ کيا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
علامہ اقبال نوجوانوں کی موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے جوانان اسلام کیا تونے کبھی غور کیا کہ تیری نسبت کہاں سے ہے، تیرے اسلاف کون تھے اور تو کہاں ہے؟ یہاں ٹوٹے ہوئے تارے سے علامہ اقبال نے یہ ظاہر کیا ہے کہ جب ستاروں کا جھرمٹ میں سے ایک تارہ ٹوٹ جاتا ہے تو اس کا تعلق اس گروہ سے ختم ہوجاتا ہے۔ آج کے نوجوان اپنے آباؤاجداد کے طریقے، ان کی روایات اور ان کی دینی خدمات کو فراموش کر کے دنیا کی محبت میں گمشدہ ہو گۓ ہیں۔ جس کی وجہ سے دوسری قومیں ان پر غالب آگئی ہیں۔ نوجوان ہر قوم کی طاقت ہوتا ہے، اسلام کی فتح کی تاریخ نوجوانوں کی جدوجہد اور ان کی قربانی سے ہی لکھی گئی ہے۔ اس لیے آج کے نوجوانوں کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے علامہ اقبال یہ شعر لکھتے ہیں تاکہ ان کو یہ احساس ہوکہ ان کا تعلق اور ان کی نسبت کہا سے ہے
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
علامہ اقبال عہد جدید کے حالات کو سمجھتے ہوئے نوجوانوں کو رہنمائی فرماتے ہیں کہ اگر تمہارے یقین مستحکم ہوں، تمہارے ارادے مضبوط ہوں اور تمہارے اعمال مسلسل ہوں یعنی تم جس کام کے لیے سوچو اس پر ثابت قدم رہو، عیش وعشرت کی جگہ اپنی زندگی اللہ کے حکم کے مطابق گزارو اور محبت تمہارے اندر بےانتہا موجود ہو تو تم جس جگہ قدم رکھوگے اللہ تمہیں وہاں فتح نصیب کرے گا۔ ان چیزوں پر مغرب والوں نے اچھی طرح عمل کیا جس کی وجہ سے آج ان کو دنیا میں کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ علامہ اقبال کا نام انگریزی ادب میں بھی جدا ہے۔ انہوں نے انگریزی میں اللہ رب العزت کے وجود کے تعلق سے کتاب لکھی ہے The Reconstruction of Religious Thought In Islam۔ علامہ اقبال نے اورینٹل کالج میں عربی ریڈر کی ملازمت کے بعد اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی ملازمت لاہور گورنمنٹ کالج میں کیا۔دین اسلام کو اپنی فکری خدمات دینے کے ساتھ ساتھ علم و ادب اور تصوف کی دنیا کو ایک عظیم علمی ذخیرہ بھی دیا۔ اور امت میں بیداری کی نئی امنگ اور راہ دکھاتے ہوئے طویل علالت کی وجہ سے ٢١ اپریل ١٩٣٨ء کو اللہ رب العزت سے جا ملے۔ لاہور کی بادشاہی مسجد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔
اسامہ غنی، متعلم پٹنہ کالج (پٹنہ یونیورسٹی)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page