سر سید احمد خان کی شخصیت ایک عطر مجموعہ تھی، ان کا دل چیر کر دیکھا جاتا تو ان کے سویداۓ دل کے اندر حسین اور شامہ نواز گلاب کی پنکھڑیاں رکھی ہوئی دکھائی دیتیں، ان کا شگفتہ اور مسکراتا ہوا چہرہ ان کے آئین ہ دل کا غماز تھا، ان کی جسمانی ساخت، پیشانی کی کشادگی، پر وقار اور تیز چال ان کی مجاہدانہ شان اور بےباکانہ فطرت کی گواہ تھی ، وہ بولتے تو معلوم ہوتا کہ مصری ڈلی چبا رہے ہوں اور اپنے مخاطب کا من موہ رہے ہیں۔ سر سید احمد خان کو اردو پر اس قدر عبور تھا کہ زبان یا محاورے کی غلطی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔ وہ ایک منجھے ہوۓ پختہ کار وکہنہ مشق صاحب قلم بھی تھے، ان کی تحریر حالوت ورانی کے ساتھ برجستگی سے عبارت ہوتی تھی ، وہ اگر تصنیف کے کام میں مسلسل حصہ لیتے اور اگر ان کی دوسری مصروفیات اس راہ میں حائل نہ ہوتیں تو ان کا شمار ہندستان کے عظیم مصنفوں اور اہل قلم میں ہوتا۔ سید مرحوم جس درجہ کے صاحب قلم تھے اسی درجہ کے خطیب اور مقرر بھی تھے سید جی کو تحریر کا ملکہ بھی مال تھا، اور زبان و بیان پر مکمل قدرت بھی حاصل تھی لیکن نہ تحریر ان کی جوالن گاہ تھی اور نہ خطابت سے فطری مناسبت، بلکہ ان کی ساری سرگرمیوں کا محور اور ان کی جملہ تک ودو کا حاصل جدید تعلیم کی کوششیں تھیں، اس تقاضہ کے تحت وہ قلم بھی اٹھاتے ،اس جذبہ کے تحت وہ وہ تقر یر بھی بھی کر تے اور اسی مقصد کے تحت وہ لوگوں کی گالیاں تک سنتے۔ سید احمد بہت اچھے لکھنے اور بولنے کے عالوہ بہت اچھے سننے والے بھی تھے، ایسے ایسے لوگوں کو برداشت کرتے رہتے جن کے تصور سے ہی کوفت ہوتی تھی، طبیعت کی خرابی ،مزاج کی عدم مناسبت اور دیگر اہم مصروفیات کے باوجود آپ بہت سے جاہلوں کی عالمانہ باتیں بڑی توجہ سے سنتے، اور پھر اپنے دعوتی مزاج اور حکیمانہ بصیرت سے ان کی ایسی رہنمائی فرماتے کہ ایک لاابالی شخص اپنے حال پر فکر مند ہو جاتا ، اور بے مقصد زندگی کو زندگانی کا سرا مل جاتا، اور یہ سب اسی لیے ممکن تھا کہ آپ صرف ایک داعی قوم تھے، اور آپ کا ہر کام خالص کے ساتھ اور استحضار نیت کے ساتھ ہوتا تھا، یہ آپ کی وہ خوبی تھی جس نے آپ کی صحبت کو کیمیا اثر بنا دیا تھ ا جن لوگوں نے سید کو کو قریب سے دیکھا ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ وہ خصوصی طور پر علی گڑھ کے طلبہ اور اپنے متوسلین کی فالح و بہبود کی فکر میں ہر وقت لگے رہتے تھے، ذہن وفکر کو صحیح سمت میں موڑ دینا اور طالب علم کی فکر وتدبر کے لیے ایک وسیع میدان مہیا کر دینا ان کی خصوصیت خاصہ تھی۔ سر سید کی زندگی جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ دعوت دین کے لیے بھی وقف تھی ، انھوں نے اپنی ہر طرح کی صلاحیت کو اسلام کی اشاعت کے لیے وقف کر دیا تھا، ان کی فعال شخصیت، سرگرم عمل زندگی، تڑپ وکڑھن سے آراستہ صبح وشام ، امت کے لیے دردمندی و فکر مندی اور ان کا سیماب وجود تو اب حشر کے دن ہی دیکھنے کو ملے گا، اگر مجھے ان کی قبر پر کتبہ لگانے کا حکم ہوتا، اور مرحوم کی قبر پر کتبہ کے لیے مجھے کسی عبارت کے انتخاب کی اجازت دی جاتی تو میں اس آیت کا انتخاب کرتی: یاایتھا النفس المطمئنة ارجعي الى ربك راضیة مرضیۃ، فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی۔
اسماء فرحین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page