غزل ایک ایسی صنف شاعری ہے جو نیم وحشی کہے جانے یا اس کی گردن بے دریغ مار دینے کے فتوے کے باوجود اپنی تازگی اور اثرانگیزی کے ساتھ فروغ پذیر رہی ہے۔ یہ محبوب کے لب و رخسار یا محض گیسوئے خمدار یا پھر عشوہ طرازیٔ معشوق یا پھر جلوۂ جاناں تک محدود نہیں۔ غزل کبھی محاذِ جنگ پر مستعد سپاہیوں کا ترانہ بنی ہے تو کبھی تلخ حقائق زندگی کی پیش کش کا ذریعہ، کبھی صدائے انقلاب بن کر ابھری ہے تو کبھی شورش دوراں کا موضوع بنی ہے۔ تحریکِ آزادی جو بنیادی طور پر سیاسیات اور سوشل سائنس کا ایک اہم موضوع ہے، اس کے نقوش بھی اردو غزل میں ملتے ہیں۔ اس موضوع کے تحت قومی یکجہتی، احتجاجی رویے یا پھر اس تحریک سے پیدا شدہ حالات پر گفتگو کی جاسکتی ہے۔ میں نے کچھ اہم شاعروں کے حوالے سے اس موضوع پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ قومی یکجہتی گرچہ اسی کا حصہ ہے لیکن یہ بہت پھیلا ہوا موضوع ہے اس لیے اس پر یہاں گفتگو نہیں کی جائے گی۔
میں اپنی بات غالب کے مشہور زمانہ قطعے کے صرف دو شعروں سے شروع کرتا ہوں جس میں ایجاز معانی کے اعلا اوصاف ملتے ہیں۔ دو شعر سنیے:
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
تحریکِ آزادی اور اس کے بعد کے حالات کی ایسی منہ بولتی تصویر اردو شاعری میں کم ہی نظر آتی ہے۔ اسی طرح شیفتہ اور مجروح نے بھی تحریکِ آزادی کے بعد ہونے والی تباہی کو پیش کیا ہے۔ فریاد دہلی (مرتبہ نظامی بدایونی ۱۹۳۱ء) میں مجروح کی سات اشعار کی غزل ملتی ہے۔ اس کے دو شعر یوں ہیں:
یہ کہاں جلوۂ جاں بخش بتانِ دہلی
کیوں کہ جنت پہ کیا جائے گمان دہلی
ان کا بے وجہ نہیں لوٹ کے ہونا برباد
ڈھونڈے ہیں اپنے مکینوں کو مکان دہلی
اسی طرح حالی جیسے ٹھنڈے دماغ کے شاعر نے بھی تحریکِ آزادی سے پیدا ہونے والے حالات سے اثر قبول کیا۔ ان کی تیس (۳۰) اشعار کی ایک غزل میں ۲۵ اشعار دہلی کی تباہی و بربادی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ یہ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
تدکرہ دہلیٔ مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
داستاں گل کی خزاں میں نہ سنا اے بلبل
ہنستے ہنستے ہمیں ظالم نہ رلانا ہرگز
صحبتیں اگلی مصور ہمیں یاد آئیں گی
کوئی دل چسپ مرقع نہ دکھانا ہرگز
آخر کے حصے میں چند بڑی شخصیات کا ذکر کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے کچھ وفات پاچکے تھے اور کچھ زندہ تھے:
غالب و شیفتہ و نیّر و آزردہ و ذوق
اب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانہ ہرگز
مومن و علوی و صہبائی و ممنون کے بعد
شعر کا نام نہ لے گا کوئی دانا ہرگز
داغ و مجروح کو سن لو کہ پھر اس گلشن میں
نہ سنے گا کوئی بلبل کا ترانہ ہرگز
اس کے علاوہ بہت سی غزلوں میں بہت سے اشعار مل جاتے ہیں جن میں وطن عزیز کی حالت زار کا نقشہ ملتا ہے۔ کہیں رقت آمیز اسلوب اظہار ملتا ہے تو کہیں دعائیہ لہجہ، کہیں طنز تو کہیں خطابیہ انداز— یہ چند دیکھیے: (یہ بھی پڑھیں وہاب اشرفی کا نقـدالشعـر – پروفیسر کوثر مظہری )
ملے گا نہ گُل چیں کو گل کا پتا
ہر اک پنکھڑی یوں بکھر جائے گی
نہ گل چھوڑے نہ برگ و بار چھوڑے تونے گلشن میں
یہ گل چینی ہے یا لٹّس ہے گلچیں یا ہے قزاقی
کبک و قمری میں ہے جھگڑا کہ چمن کس کا ہے
کل بتا دے گی خزاں یہ کہ چمن کس کا ہے
——
کل کبک سے چمن میں یہ کہتا تھا ایک زاغ
دیکھ اس خرام ناز پہ اتنا نہ کر دماغ
ہے تاک میں عقاب تو شہباز گھات میں
حملے سے یاں اجل کے نہیں ایک دم فراغ
یارب نگاہ بد سے چمن کو بچائیو
بلبل بہت ہے دیکھ کے پھولوں کو باغ باغ
میں اپنے اس مضمون کو غزل کے مشہور شاعر حسرت موہانی کے اس شعر سے آگے بڑھاتا ہوں :
ہے مشق سخن جاری چکّی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
طبع حسرت کی طرفگی اردو شاعری کی رنگارنگی کی دلیل ہے۔ اسی طرفگی کے سبب اردو غزل کی اس توانا آواز میں سیاسی و سماجی مسائل کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ حسرت کی طرح اپنے زمانے میں شاعری کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں عملی طور پر شریک کوئی دوسری شخصیت نظر نہیں آتی۔ حسرت نے غزل کی ایمائیت کو سیاسی موضوعات میں برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ انقلاب، تحریکِ آزادی اور جذبۂ حریت کو انھوں نے غزل کے تلازمات و علامات کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انھیں پتہ تھا کہ غزل جیسی صنف نازک انقلاب کی بلند آواز کو پیش کرنے سے قاصر ہے۔ نظم میں تو اس کی پوری گنجائش ہوتی ہے کیوں کہ وہاں وضاحت اور صراحت کے سبب چیخ پکار پر ایک طرح کا پردہ ڈالا بھی جاسکتا ہے اور نہیں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ لیکن غزل میں چوں کہ ہمیشہ ایجاز بیانی سے کام لینا پڑتا ہے، اس لیے حسرت نے ان امور کا خیال رکھتے ہوئے اپنے تجربات پیش کیے۔ یہ اشعار دیکھیے جن میں ان کی سیاسی بصیرت اور جذبۂ حریت کے نقوش ملتے ہیں:
خوشی سے ختم کرلے سختیاں قید فرنگ اپنی
کہ ہم آزاد ہیں بے گانۂ رنج دل آزاری
روح آزاد ہے خیال آزاد
جسمِ حسرتؔ کی قید ہے بیکار
ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی
واللہ کبھی خدمت انگریز نہ کرتے
حسرت کی غزلوں میں تحریک آزادی اور انقلاب کے جو عناصر ملتے ہیں ان میں بہت زیادہ درشتگی کے بجائے ایک طرح کی دھیمی لے ملتی ہے، اس لیے اس میں سوز و گداز کی کیفیت محسوس کی جاسکتی ہے:
رہتی ہے روز اک ستم تازہ کی تلاش
بے چین ہے وہ فتنہ دوراں میرے لیے
ہوتی ہے روز بارش عرفاں مرے لیے
گویا بہشت عشق ہے زنداں مرے لیے
سیاست میں جس طرح حسرت عملی طور پر شریک رہے اُسے دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ ان کے تجربات شعری میں تصنع اور آورد کے بجائے برجستگی اور آمد نظر آتی ہے، ورنہ ہوتا یہ ہے کہ بہت سے شعرا اپنے زمانے کی اتھل پتھل پر بھی ایک اچٹتی نظر ڈالنے کو بطور فرض کفایہ کے ادا کرتے جاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح تصوف کے مضمون کو بیشتر شعرا نے صرف ’’برائے شعر گفتن‘‘ کے طور پر برتنے پر اکتفا کیا۔
حسرت آزادیٔ کامل کے علم بردار تھے۔ وہ ذاتی طور پر مزدوروں اور کسانوں سے بہت قریب تھے۔ جذبۂ حریت کے حوالے سے یہ اشعار دیکھیے:
حرّیتِ کامل کی قسم کھاکے اٹھے ہیں
اب سایۂ برٹش کی طرف جائیں گے کیا ہم
تحریکِ حریت کو جو پایا قرین حق
ہر عہد میں معاونِ تحریک ہم رہے
اسی طرح انھوں نے تحریکِ آزادی کے ساتھ ساتھ ایک امید کی کرن بھی دیکھی اور دکھائی۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
نہ سرمایہ داروں کی نخوت رہے گی
نہ حکّام کا جورِ بے جا رہے گا
زمانہ وہ جلد آنے والا ہے جس میں
کسی کا نہ محنت پہ دعوا رہے گا
کر لیجیے کرنا ہے جو کچھ لطف و مدارا
پھر گردش دوراں میں کہاں آپ کجا ہم
عاشقوں دور نہیں منزل مقصود وصال
بادپائے طلبِ یار کو مہمیز کرو
یہ امید کی کرن فیض احمد فیض کے یہاں بھی دکھائی دیتی ہے۔ میں ان کی نظموں کے حوالے بالکل نہیں دوں گا۔ فیض کے یہاں آزادی کا تصور ہندستان میں ہو یا پاکستان میں، انسانی زندگی کے آزاد ہونے کو واضح کرتا ہے۔ غزل کے پیکر میں تصور آزادی کو انھو ںنے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ حسرت نے جو امید و بیم کی کرن یا آزادی کا خواب دیکھا اور دکھایا تھا، اس کا عکس یہاں بھی ملتا ہے:
پھر آگ بھڑکنے لگی ہر ساز طرب میں
پھر شعلے لپکنے لگے ہر دیدۂ تر سے
صبا نے پھر در زنداں پہ آکے دستک دی
سحر قریب ہے، دل سے کہو نہ گھبرائے
اسی طرح فیض کے یہاں جو احتجاج کی لے ملتی ہے اس میں دوسرے ترقی پسندوں کی بہ نسبت ایک طرح کی دھیمی آنچ محسوس کی جاسکتی ہے۔ غزل کے لہجے میں احتجاج یا تحریک آزادی کے مضمون کا پیش کیا جانا اپنے آپ میں ایک چیلنج ہے، اس چیلنج کو فیض نے فنی لوازمات کے ساتھ برتنے کی کوشش کی۔ ان کے یہاں جو طنز کی کاٹ ہوتی ہے، وہ بھی مزا دیتی ہے۔ آپ بھی سنیے:
پیو کہ مفت لگا دی ہے خونِ دل کی کشید
گراں ہے اب کے میٔ لالہ فام کہتے ہیں
یہاں اس احساس لطیف کو پیش کیا گیا ہے جو احتجاج کا محرک ہے۔ اردو غزل کے مزاج میں جس طرح کی نازک خیالی اور احتجاج کا امتزاج ملتا ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔ علی سردار جعفری، مخدوم محی الدین، مجاز، فیض، کیفی اعظمی وغیرہ کی غزلوں میں تحریکِ آزادی سے متعلق تلازمات دیکھے جاسکتے ہیں۔ سردار جعفری کی غزلوں میں جو آواز ہے اس میں ایک طرح کی بلند آہنگی محسوس کی جاسکتی ہے۔ ترقی پسند شاعروں نے اس موضوع کو اپنی نظموں میں خوب خوب نبھایا۔ سردار جعفری نے بھی نظموں میں تحریکِ آزادی اور احتجاج کی لے کو پروان چڑھایا۔ ان کی غزلوں میں جا بہ جا اس کے نقوش ملتے ہیں۔ یہ چند شعر ان کے تحریکی اور احتجاجی رویے کو ظاہر کرتے ہیں:
جو آگ لگی ہے دل میں اسے کچھ اور ابھی بھڑکانا ہے
اس آگ سے ہم کو دنیا کی ہر آگ بجھانا ہے ساتھی
بڑھتی ہوئی فوجوں کا نغمے کیوں ساتھ نہیں دے پاتے ہیں
ہاں ساز کی لے کو اور ابھی کچھ اور بڑھانا ہے ساتھی
——
حقیر ہوکر نہ رہ سکے گی تری بلندی سے میری پستی
میں اپنے سجدوں سے کیوں بساؤں تری رعونت کا آستانہ
سردار نے تو آزادی کے بعد کے حالات پر بھی طنزیہ اشعار کہے ہیں۔ ان کی نظر میں آزادی کے بعد بھی ہندوستان اُسی طرزِ کہن پر قائم ہے۔ گیارہ اشعار کی ایک غزل (خون کی لکیر–۱۹۶۹) کے یہ دو شعر ملاحظہ کر لیجیے:
فریب یہ دے دیا ہے کس نے کہ حریت کی برات آئی
ترنگی چلمن اٹھا کے دیکھو تو ساحر مکر و فن وہی ہے
ابھی تو جمہوریت کے پردے میں نغمۂ قیصری چھپا ہے
نئے ہیں مطرب اگر تو کیا ہے، نوائے ساز کہن وہی ہے
ہندوستان میں تحریکِ آزادی بیسویں صدی کے آغاز ہی سے چل رہی تھی۔ مختلف ادوار میں مختلف شعرا نے اپنے اپنے طور پر اس احساس آزادی کو شعری پیکر میں ڈھالا۔ ترقی پسند تحریک سے پہلے بھی احتجاج اور تحریک کے نقوش بہت سے شعرا کے یہاں مل جاتے ہیں۔ لیکن احتجاج،انقلاب اور تحریک کو سب سے زیادہ ترقی پسندوں نے مہمیز کیا۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے نعرہ بازی اور چیخ پکار کے لہجے کو بھلا دیا جائے تو ایک مثبت ادبی رویہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ترقی پسندوں نے اردو نظم کے دامن کو بہت وسیع کیا۔ اس صف میں مخدوم، مجاز، جوش، فیض، اخترالایمان، سردار جعفری، کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی، سلام مچھلی شہری، جذبی وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ اسی سے الگ ہونے والے گروہ حلقۂ ارباب ذوق کے اہم شعرا میں ن م راشد، میراجی، قیوم نظر، مختار صدیقی، ضیا جالندھری کے نام لیے جاسکتے ہیں جنھوں نے نظم نگاری میں اچھے نمونے پیش کیے۔ (یہ بھی پڑھیں کوثر مظہری کی نظمیہ شاعری میں رات کا تصور – ڈاکٹر نوشاد منظر )
یہاں جوش کے حوالے سے گفتگو کرنا ضروری ہے کیوں کہ وہ تو شاعر انقلاب ہی تھے۔ نظمو ںکے علاوہ انھوں نے غزلیں بھی کہی ہیں لیکن ان کی تعداد نظموں کے تناسب میں آٹے میں نمک کے مصداق ہے۔ جوش کی غزلوں سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے جن میں احتجاج اور آزادی کے کسمسانے کا انداز ملتا ہے:
ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن کر
مگر جو گھِر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے
ضمیر فطرت میں پرفشاں ہے چمن کی ترتیب نو کا ارماں
خزاں جسے تو سمجھ رہا ہے وہ درحقیقت خزاں نہیں ہے
کہسار میں تیشے کی صدا گونج رہی ہے
افسوس ہے اے زمزمۂ عشرتِ پرویز
پھر بوئے گل ہے دُشنۂ سر تیز ان دنوں
پھر باد صبح، شعلۂ عریاں ہے آجکل
وہ خونِ دل کہ جنسِ دوعالم سے ہے گراں
بازارِ اضطراب میں ارزاں ہے آجکل
کُہسار میں تیشے کی صدا، بوئے گُل کا دُشنہ سر تیز ہونا، بادصبح کا شعلۂ عریاں بن جانا یا پھر خون دل کا ارزاں ہوجانا کسی نہ کسی طرح جوش کے اُس فکری رجحان کو ظاہر کرتا ہے جس کی تشکیل تحریکِ آزادی اور اس عہد میں احتجاج اور انقلاب کے رویے سے ہوئی تھی۔
ترقی پسند شاعروں میں مجروحؔ کا نام غزل کے حوالے سے بہت ہی توانا اور مستحکم ہے۔ دوسرے شعرا نے زیادہ تر نظموں کے سہارے اپنی صدائے احتجاج بلند کی لیکن یہی کام مجروح نے غزل سے لیا۔ مشہور زمانہ شعر اپنے زمانے کی تحریک اور ضرورت اتحاد کو ظاہر کرتا ہے:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
تحریک آزادی کے لیے جس نظم و ضبط اور اتحاد اور یکجائی کی ضرورت تھی۔ اس شعر میں اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام کسی ایک آدمی کے بس کا تھا بھی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی بھی کام کا آغاز ایک آدمی ہی کرتا ہے اور دھیرے دھیرے لوگ آتے جاتے ہیں۔ مجروح نے غزل کے روایتی اور مستند لب و لہجے کو برقرار رکھتے ہوئے تحریکِ آزادی اور انقلاب کے موضوع کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ اشعار دیکھیے:
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن، جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
جھونکے جو لگ رہے ہیں نسیم بہار کے
جنبش میں ہے قفس بھی اسیر چمن کے ساتھ
شب ظلم نرغہ راہزن سے پکارتا ہے کوئی مجھے
میں فراز دار سے دیکھ لوں کہیں کاروان سحر نہ ہو
مجروح نے یہاں زنداں، پاؤں کی زنجیر، رقص، قفس، اسیر چمن، شب ظلم، نرغۂ راہزن، فرازدار اور کاروان سحر جیسے الفاظ و تراکیب کی مدد سے ایک ایسا تنانظر خلق کرنے کی کوشش کی ہے جس کے تلازمے تحریکِ آزادی سے ملتے ہیں۔ جدوجہد آزادی کی صعوبتوں کو جس خوبصورتی سے مجروح نے ایک مصرعے میں پیش کردیا ہے اس کی مثال اردو غزل میں اس موضوع کے حوالے سے شاید و باید ہی ملے۔ یعنی: رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ کوزے میں دریا کو سمونے کا فن یہی ہے۔
اردو غزل میں رومان و انقلاب کے ملے جلے رنگ کو مجاز نے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا۔ ان کی غزلوں میں نشاطیہ رنگ بھی ہے اور اپنے عہد کی تصویر بھی۔ جوش اور سردار جعفری کے رنگِ تغزل کے بجائے فیض، جذبی، مجروح اور ساحر کے آہنگ غزل سے مجاز قریب نظر آتے ہیں۔ یہ چند اشعار دیکھیے:
دیکھ شمشیر ہے یا ساز ہے یا جام ہے یہ
تو جو شمشیر اٹھا لے تو بڑا کام ہے یہ
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
دنیا کے انتشار اور چہار سو کی افراتفری کو دیکھ کر جب مجاز اپنا تاثر پیش کرتے ہیں تو ان کا انداز غزل میں بہت ہی Practical ہوجاتا ہے:
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
ترقی پسندوں میں گرچہ بیشتر نے غزل کی مخالفت میں بیانات جاری کیے۔ اختر حسین رائے پوری، ممتاز حسین، سردار جعفری وغیرہ نے کھُل کر باتیں کیں، البتہ سجاد ظہیر نے غزل کی عظمت کے حوالے سے انتہاپسندانہ بیانات پر اپنی کتاب ’ذکر حافظ‘ میں کھل کر گفتگو کی بلکہ صنف غزل کا بطور فن کے دفاع کیا۔
میں نے اپنے اس مختصر سے مضمون میں تحریکِ آزادی اور اردو غزل کے حوالے سے اپنے بکھرے ہوئے خیالات پیش کیے۔ مجھے احساس ہے کہ یہ ایک تشنہ مضمون ہے۔ لیکن گفتگو آگے بڑھانے کے لیے یہ ایک بنیاد ضرورت فراہم کرتا ہے۔ دراصل میرا ماننا ہے کہ یہ ایک Constant موضوع ہے۔
(قومی سمینار، اردو سیل، دلی سرکار، ۲۳،۲۴ اپریل ۲۰۰۹ء)
مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ | 

