اس وقت پوری دنیامیں مسلمان مسائل سے دوچار ہیں، کچھ غیروں کے ذریعہ اور زیادہ تراپنوں کے ذریعہ۔ غیروں پر تو بہت جلد انگلیاں اٹھادی جاتی ہیں جبکہ خود ایک مسلمان سے دوسرے مسلمان پریشان ہیں۔آج کا مسلمان صرف عبادت خداوندی (نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ وغیرہ) کو ہی عبادت شمار کرتا ہے اور معاملات ومعاشرت کو ایک لایعنی اور عبث فعل سمجھتا ہے، جبکہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مقدس میں فرمایا ادخلوا فی السلم کافۃ ”تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ“ اس آیت میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں شامل ہیں۔
اب آیئے حقوق العباد میں سے صرف ایک حق میراث کی بات کرتے ہیں،اس وقت عام طور پر مسلمان میراث کی تقسیم ارشاد ربانی اور فرمان رسول کے مطابق نہیں کرتا ہے،بلکہ ایک طاقتور وارث دوسرے کمزور وارثوں کے حصہ کو ہڑپ کرجاتا ہے اور دوسرے وارثوں کو محروم کر دیتا ہے۔ قرآن مقدس میں اسے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضگی کا نہایت اہم سبب بتایا گیا ہے۔ سورہ فجر کی آیت۹۱۔۰۲ میں ارشاد ربانی ہے ”اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال کی محبت میں پوری طرح گرفتار ہو“۔
اس وقت پوری دنیا عموما اور برصغیر خصوصا اس وبا سے دوچار ہے، جہاں بھائی اپنی بہنوں کے حصے بڑے شان سے ہڑپ کرجاتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وراثت میں لڑکیوں کا کوئی حصہ ہے ہی نہیں، جبکہ قرآن مقدس کے سورہ نساء کی آیتوں میں بالتفصیل اس کی صراحت موجود ہے کہ کس کو کتنا حصہ ملے گا۔
میراث اور ورثے کی تقسیم کے سلسلے میں دنیا کی مختلف قوموں کے تخیلات،نظریات اور طور وطریقے مختلف رہے ہیں لیکن کسی کے نزدیک اعتدال وانصاف نہیں پایا جاتا تھا۔میراث کی تقسیم میں افراط وتفریط تقریبادنیا کے ہر خطے میں پائی جاتی تھی اور آج بھی پائی جاتی ہے، اور افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ امت مسلمہ بھی اس گناہ کبیرہ میں ملوث ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں حفاظتِ قرآن کریم – مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی )
قبل از اسلام خطہئ عرب میں عورتوں اور بچوں کو میراث کے مال سے محروم رکھا جاتا تھا، وارثوں میں سے جو زیادہ طاقتور ہوتا وہ دوسرے وارثوں کا حق بلاتامل ہڑپ کرجاتا اور کوئی واضح قانون نہ ہونے کی وجہ سے کمزور ورثاء سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ نہیں کرسکتا۔اہل عرب میں وراثت کے کئی دستور تھے مثلا وہ میراث کا وارث صرف اولاد نرینہ کو قرار دیتے تھے جو ان کے بعد تلوار سنبھالنے کے اہل ہوتے، اور اگر اولاد نرینہ نہ ہوتی تو کسی قریبی مرد رشتہ دار کو ولی یا وارث قرار دیتے اور ان کی ترتیب یہ ہوتی، اولاد کے بعد باپ اگر باپ نہ ہو تو بھائی، اور اگر بھائی بھی نہ ہو تو چچا وغیرہ۔
لڑکیوں کو وراثت سے محروم رکھنے کی وبا برصغیر ہند میں غیر مسلموں سے آئی ہے ان غیر مسلموں کا نظریہ یہ ہے کہ لڑکیوں کی شادی میں جہیز وغیرہ دے دیاگیا لہذا اب وراثت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔اسلامی نقطۂ نظر سے یہ بالکل بے بنیاد ہے،وراثت میں لڑکیوں کا حصہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا لڑکوں کا۔
قرآن مقدس میں تقسیم میراث کے احکام نہایت واضح،متعین اور بلا شک و شبہ کے بیان کیا گیا ہے۔
میراث کی اہمیت وفضیلت
علم میراث کا رشتہ فقہ سے ہے،دین حنیف میں علم میراث کو علم الفرائض کے نام موسوم کیا گیا ہے اسے نصف علم قرار دیا گیا ہے اور اس کا سیکھنا فرض کفایہ ہے۔وراثت کا معنی ہے وہ عقد شرعی یا احکام الٰہی جن کے تحت کسی میت کی ملکیت دوسرے کی ملکیت میں چلی جاتی ہے (مترادفات القرآن ص 875)
سورہ نساء کی آیت 11سے-14اور اسی سورۃ کی آخری آیت میں تقسیم میراث کی اہمیت وفرضیت اور اس کے اداکرنے نہ کرنے پر ثواب وعذاب کا تفصیلی ذکر ہے۔
رسو ل اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا اے ابو ہریرہ ” فرائض سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ بلا شبہ یہ نصف علم ہے،اوروہ بھلادیا جائے گااور یہی پہلی چیز ہے جو میری امت سے چھن جائے گی۔“ (سنن ابن ماجہ)
ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے تعلموا الفرائض وعلموہا الناس فانہا نصف العلم ”تم لوگ فرائض سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاؤ کیونکہ وہ نصف علم ہے۔ (مشکوٰۃ شریف، باب العلم ص 38)
حضرت ابن عیینہ فرماتے ہیں کہ اسے آدھا علم اس لیے کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو عموما یہ پیش آتے ہیں۔
میراث کے حصے تقسیم نہ کرنے پر محمدعربی ﷺ نے سخت برہمی کا اظہار فرمایا، من قطع میراث وارثہ قطع اللّٰہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ (مشکوٰۃ) جس نے کسی وارث کے حصۂ میراث کو روکا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کے حصے کو روکیں گے۔اس کے علاوہ بہت سی احادیث میں اس کی اہمیت وافادیت اور وعید کا ذکر آیا ہے۔
میراث کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیلات قرآن مقدس کی کئی آیات میں بیان فرمایا ہے جبکہ دیگر کئی احکام کی صرف فرضیت کو ہی بیان کیا ہے مثلا نماز،زکوٰۃ،حج وغیرہ ان احکامات کی تفصیل حدیث پاک سے معلوم ہوتی ہے،لیکن میراث کی اہمیت کے پیش نظر اس کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا اور ورثاء کے حصص کو بھی بیان فرمایا۔مذکورہ آیات واحادیث میں جس تفصیل کے ساتھ میراث کی اہمیت،میت کے ورثے کے حالات بتائے گئے ہیں دنیا کے کسی مذہب میں اس کی ادنیٰ مثال نہیں مل سکتی یہ اسلام کا امتیاز ہے۔
تقسیم میراث میں حکمت واحکام
وراثت کے سلسلہ میں اسلامی شریعت کا یہ قانون ہے کہ عورتوں کا حصہ مردوں کے مقابلہ میں نصف ہے،چونکہ شریعت نے خاندانی زندگی میں مرد پر زیادہ معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا ہے اور عورت کو بہت سی معاشی ذمہ داریوں کے بار سے سبکدوش رکھا ہے،لہذا انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ میراث میں عورت کا حصہ مرد کی بنسبت کم رکھا جاتا۔میراث کی تقسیم میں جو حصے بیان کئے گئے مثلا لڑکے کو لڑکی کا دوگنا حصہ ملے گا اس کی مقدارکی مکمل حکمت ومصلحت تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، انسانی شعور کا وہاں تک رسائی حاصل کرنا محال و ناممکن ہے۔ جس نے انسانوں کو پیدا کیا جس نے مال کو پیدا کیا وہی ہر ایک کے لیے تقسیم کررہا ہے تو اعتراض کی کیا گنجائش؟ارشاد ربانی ہے ”تم نہیں جانتے کہ تمہارے والدین اور تمہاری اولادمیں سے کون نفع کے لحاظ سے تمہارے قریب تر ہیں، یہ حصے اللہ نے مقرر کردیئے ہیں اور اللہ یقینا سب حقیقتوں سے واقف اور تمہاری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔“(النساء 12)
عورتوں کی اس قانونی حصہ داری میں بظاہر جو عدم مساوات سی نظر آتی ہے اس کی تشریح علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے یوں کی ہے:
لڑکی کا یہ حصہ اس کی کسی فطری کمتری کی بناء پر نہیں بلکہ اس کے معاشی مواقع کے پیش نظر ہے اور اس مقام کی وجہ سے جو اپنے معاشرے کے نظام میں اس کو حاصل ہے ”مسلم پرسنل لاء“ کے مطابق لڑکی اس جائداد کی پوری طرح مالک تصور کی گئی ہے، جو اس کو شادی کے وقت باپ کی طرف سے بھی ملتی ہے اور شوہر کی طرف سے بھی، مزید برآں مہر بھی کلیتہ اسی کی ملکیت ہوتی ہے، جو خود اس کی مرضی کے مطابق معجل ہو یا مؤجل، اتنا ہی نہیں بلکہ مہر کی ادائیگی تک وہ اپنے شوہر کی ساری جائداد اپنے قبضے میں رکھ سکتی ہے، ساری عمر کی کفالت کی ذمہ داری بھی (شادی سے پہلے باپ پر اور شادی کے بعد) شوہر پر ہے۔ اگر آپ اس زاویہء نظر سے قانون وراثت کے عمل کو دیکھیں تو آپ کو بیٹے اور بیٹیوں کے معاشی مرتبے میں کوئی مادی تفاوت نظر نہیں آئے گا بلکہ حق تو یہ ہے کہ وراثت کی حصہ داری میں بظاہر غیر مساوی نظر آنے والی یہ صورت ہی اصل میں قانونی مساوات مہیا کرتی ہے۔ (اسلام کی مذہبی فکر کی تشکیل جدید ص ۱۶۱،۲۶۱)
تقسیم میراث میں وصیت اور قرض کا اعتبار
آیات تقسیم میراث میں قرض کی ادائیگی،میت کی طرف سے کی ہوئی وصیت کے الفاظ متعدد مرتبہ آئے ہیں۔ لہذا سب سے پہلے دیکھا جائے گا کہ میت کے ذمہ اگر قرض ہے تو ادا کیا جائے، قابل ذکر یہ ہے کہ بیوی کا مہر بھی قرض میں شامل ہے اگر شوہر نے اپنی زندگی میں بیوی کا مہر ادا نہ کیا ہو تو اس کے مال سے اداکیا جائے، اس کے بعد جو مال بچ جائے اس سے میت کی تجہیزوتکفین کے اخراجات پورا کیا جائے۔
اگر میت کے اوپر اتنا قرض ہو جتنا اس نے مال چھوڑا ہو تو نہ کسی کو میراث ملے گا اور نہ وصیت نافذ ہوگی میراث کی تقسیم اس وقت ہوتی ہے جب قرض کی ادائیگی کے بعد کچھ مال بچ جائے۔حدیث پاک میں ارشاد ہے ”میت کے ذمہ اگر کسی کا قرض ہے تو اس مال سے قرض ادا کیا جائے“(سنن الدارمی)
اب یہ دیکھنا چائیے کہ میت نے کوئی وصیت تو نہیں کی اگر ایسا ہے تو میت کے مال سے ایک تہائی کی وصیت پوری کی جانی چاہیے اگر اس سے زیادہ کی وصیت کی ہو تو وارثین پر ایک تہائی سے زیادہ پوری کرنا لازم نہیں ہے،ہاں اگر تمام بالغ ورثاء راضی ہو تو پورا کردیں ورنہ ایک تہائی سے زیادہ کو چھوڑدیں، وصیت اگر گناہ کے کام کے لیے کی گئی ہو تو پوری نہیں کی جائے گی۔
جب تک میراث تقسیم نہیں ہوتی تمام ورثاء کی اجازت کے بغیر اس مال میں سے صدقات وخیرات کرنا جائز نہیں ہے اگر وارث نابالغ کمسن یا یتیم ہوں تو کسی صورت میں ان کے مال سے خیرات وصدقات نہ کئے جائیں کیونکہ اس وقت ان نابالغ وکمسن یا یتیم کو اچھے برے کی تمیز نہیں جب وہ سن شعور کو پہنچ جائیں گے تو خود ہی فیصلہ لینے کے مجاز ہوں گے۔
وارث کے حق میں وصیت کرنا باطل ہے مثلا اگر کوئی اپنے لڑکے کے لیے وصیت کرتا ہے جس کو وراثت میں حصہ ملنے والا ہے تو اس وصیت کا کچھ اعتبار نہیں، وارثوں کو صرف وراثت میں حصہ ملے گا، محمد عربی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حصہ دے دیا ہے پس کسی وارث کے حق میں کوئی وصیت معتبر نہیں (مشکوٰہ بحوالہ ابوداؤد۔ص 265)
ہاں اگر وارث اجازت دے دیں تو جس وارث کے لیے وصیت کی ہے اس کے حق میں وصیت نافذ کرکے باقی مال شرعی طریقہ پر تقسیم کیا جائے، جس میں اس وارث کو بھی اپنے حصہ کی میراث ملے گی، بعض روایات حدیث میں الا ان یشاء الورثۃ کا استثناء بھی مذکور ہے (معارف القرآن)
اسلام نے یہ اصول قائم کیا کہ حق دار ہونے کے لحاظ سے مرد وعورت دونوں برابر ہیں۔قرآن مقدس نے لڑکیوں کا حصہ دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصہ کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتلایا ہے اور بجائے ”للانثیین مثل حظ الذکر“ (دو لڑکیوں کو ایک لڑکے کے حصہ کے بقدر) کے ”للذکرمثل حظ الانثیین“ کے الفاظ سے تعبیر کیا (معارف القرآن)
مال قیام زندگی کا ذریعہ ہے،مال ایک ایسی چیز ہے کہ انسان اسے چھوڑنا نہیں چاہتا، ہاں یہ اور بات ہے کہ معاشرتی دباؤ کی بناء پر کمزور انسان خاموش رہ جاتا ہے، لیکن دل میں خواہش، تمنا اور اپنا حق حاصل کرنے کی تڑپ ہر ایک میں موجود ہوتی ہے۔جو لوگ بہنوں کو حصہ نہیں دیتے اور بہنیں یہ سمجھ کر بادل ناخواستہ شرماشرمی معاف کردیتی ہیں کہ ملنے والا تو ہے نہیں،لہذا بھائیوں سے کیوں برائی مول لیں، ایسی معافی شرعا معافی نہیں ہوتی ان کا حق بھائیوں کے ذمہ واجب رہتا ہے یہ میراث دبانے والے اور بہنوں کا حق تلف کرنے والے سخت گنہگار ہیں۔
یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین الخ۔قرآن مقدس کی اس آیت نے بتلادیا کہ میراث کے جو حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں وہ اس کا طے شدہ حکم ہے اس میں کسی کو رائے زنی یا کمی بیشی کرنے کا کوئی حق نہیں اگر کوئی ایسا کرتا ہے تووہ اللہ کے نزدیک ظالم اور جہنمی ہے اللہ اسے دردناک عذاب دے گا۔
میراث کو قرآن مقدس کی ہدایات کے مطابق تقسیم کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، خود وارثوں پر فرض عین اور رشتہ دار اور دوسرے ذمہ داروں پر فرض کفایہ،اس کا مطلب یہ ہے کہ رشتہ دار ایک دوسرے کو تلقین کریں کہ جتنا جلد ہوسکے میراث تقسیم کردیئے جائیں تو ان کے اوپر سے فرض کفایہ ادا ہوجائے گااور وارثوں کو چاہیے کہ فورا میراث تقسیم کرلیں مبادا موت آجائے اور اللہ کی عدالت میں اس حالت میں پیشی ہو کہ دنیا میں میراث تقسیم نہ کرکے بغیر انصاف کیے رخصت ہوجائیں اور اس آیت کے مصداق ٹھہریں اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُر حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرالخ اور پھر جہنم کے مہمان بنیں۔
آج مسلم معاشرہ پر نظر ڈالیں تو واضح طور پر یہ تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے کہ اچھا سے اچھا دیندار،نمازی،حاجی (اور نہ جانے کیاکیا القاب استعمال کرنے والے لوگ بھی)اس گناہ کبیرہ میں ملوث ہیں، بلامبالغہ ہمارایہ حال ہے کہ ہمارے متقی بھی جب بات کرتے ہیں تو ان کے منہ سے ناحق اور ناانصافی کی بو آتی ہے۔اوروہ اپنے آپ کو اللہ کا برگزیدہ بندہ سمجھتے ہیں، جبکہ وہ کھلے طور پرایک دوسرے کا حق تلف کرکے اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کی خلاف ورزی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔آپ غور کریں اور بتائیں کتنے لوگ میراث شریعت کے مطابق تقسیم کرتے ہیں، اکثر لوگ جان بوجھ کر وراثت کی تقسیم
میں تاخیر کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتے ہیں اور جہنم کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہے ہیں۔ہمیں چائیے کہ ہم میراث کے شرعی حکم پر عمل کرتے ہوئے ہر ایک کو اس کا حق دیں اور جنت کے حقدار بنیں،ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم سب اللہ کے دربار میں کھڑے ہوں گے اور خالق کائنات جب میراث سے متعلق سوال کریں گے تو اس وقت کف افسوس ملنے کے کچھ ہاتھ نا آئے گا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
2 comments
یہ کتاب نہایت ہی آج کے معاشرے کے لے اچھا ہے
Super