طنز و مزاح اردو ادب کا ایک قابل قدر شعبہ ہے، جس کی روایت بہت قدیم ہے۔ حالانکہ شروع میں یہ صرف ایک اندازِ سخن تھا لیکن آج یہ اردو ادب کی ایک باقاعدہ مقبول اور مستعمل صنف ہے، جس کا انسانی زندگی سے نہایت قریبی رشتہ ہے۔
انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں، ایک طرف آہیں، کراہیں ،سسکیاں اور آنسوہیں، دوسری طرف زیر لب تبسم اور قہقہے ہیں۔ ہمیشہ بحث کا موضوع رہا ہے کہ ان دونوں میں سے کون سا پہلو زیادہ تابناک اور روشن ہے۔ غم پسندی ،سوز و گداز میں چھپی ہوئی پہ در پہ سنجیدگی کو ہی انسانیت کی بلندی قرار دیتی ہے۔ لیکن زندہ دل ایسے بھی ہیں جو زندگی کے ہر مرحلے میں غم روز گار کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں اور غمِ روزگار کو مذاق میں اڑا دیتے ہیں۔ اردو ادب میں مزاح نگاروں نے زندگی کے مسائل کا حل قہقہوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہیں انھوں نے تبسم زیر لب سے کام لیا ہے، کہیں خندہ ٔ زندہ نما سے اور کہیں فلک شگاف قہقہوں سے۔
طنز و مزاح میں گہرا تعلق ہے۔ طنز کا ایک مقصد ہو تا ہے۔ یہ زخم لگا کر اصلاح کرنا جانتا ہے۔ مزاح صرف تضادات، عجائبات، قول و فعل کے فرق، ظاہر اور باطن میں بھید کی طرف اشارہ کر کے ناگوار کو گوار ااور نشیب و فراز کو ہموار کرنا سکھا تا ہے۔ مزاح میں طنز کی لے ضروری نہیں مگر طنز میں ادبیت اور دلکشی مزاح کی چاشنی سے آتی ہے۔
اردو نثر میں طنز و مزاح کی آمیز ش مرزا غالب کے خطوط میں جس طرح نثرکی سنجیدگی کو طباعی سے بدلتی ہے وہ مکتوبات غالب میں جس دلچسپی کے عناصر کا اضافہ کر تی ہے، وہ یقینا اردو نثر میں مذاحیہ اسلوب کا آغاز ہے۔ بقول مالک رام ،ـ’’نثر اردو میں مزاح داخل کرنے کا سہر ا غالبؔ کے سر ہے۔ غالب کے خطوط محض خطوط نہیں ہیں بلکہ وہ ادب کی ایسی خوب صورت صنف ہیں جن کو ’’زعفران زار‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ غالب کے طنز و مزاح اور ان کی ظرافت طبع کا ہی کمال ہے کہ آج تک خطوط غالب کی تازگی ،شگفتگی، مقبولیت اور مسرت آفرینی میں زرّہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔ خطوط غالب میں مزاح فطری اور بے ساختہ ہے۔‘‘
سید سلیمان ندوی نے نقوش سلیمانی میں بالکل ٹھیک تحریر کیا ہے،’’خطوطِ غالب میں جو اردو کے چند فقرے ہنستے، بولتے،چہکتے، چہچہاتے غالب کے قلم سے نکل گئے ،ان کا ہر لفظ قدر دانانِ ادب کے لیے موتیوں سے زیادہ قیمتی اور ہمارے ادبی خزانے کا بیش قیمت ترین سرمایہ ہے۔‘‘
غالب نے جس طرح شہد کی مکھی پر مصری کی مکھی کی فوقیت ثابت کی ہے یا جنت کے ایک قصر میں ایک حور کے ملنے پر زندگی کے اجیرن ہو جانے کا ذکر کیا ہے ،اس میں مزاح کی بڑی لطیف چاندنی ہے۔ سر سیدنے اپنے مخالفوں کے جواب میں جا بجا طنز سے کام لیا ہے۔ مگر یہاں ان کے بجائے نذیر احمد کا ذکر زیادہ ضروری ہے ،کیونکہ نذیر احمد کی کڑھی ہوئی شخصیت میں طنز و مزاح کی وجہ سے بڑی دل آویزی پیدا ہو گئی تھی۔ نذیراحمد کا تخیل اور ان کی زبان کی ساحری خصوصاً محاورے پر عبور ان کے ناولوں ہی میں نہیں، ان کی سنجیدہ تصانیف میں بھی جھلک جاتا ہے۔ طنز و مزاح میں ذیادہ تر نئے خیالات پروار ہوتا ہے اور اودھ پنچ کی ظرافت یہی ہے۔
جنوری1877ء میں لکھنؤ کی سر زمین سے طنز و مزاح سے بھر پور اخبار’’اودھ پنچ‘‘ جاری ہوا۔ اس اخبار کو اردو طنز و مزاح کے تیسرے دور میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے مدیر منشی سجاد حسین اپنی شگفتہ مزاجی اور طنزیہ و مزاحیہ تحریر کے لیے مشہور ہیں۔ اودھ پنچ سے قبل سب سے پہلے 1805 ء میں رام پور سے اس رنگ کا اخبار ’’مذاق‘‘ کے نام سے حکیم احمد رضا نے جاری کیا تھا ۔پھر 1859 میں ’’مدراس پنچ‘‘ کے نام سے اردو کا دوسرا مزاحیہ اخبار نکلا تھا جس کے مالک شاہ محمد صادق حسینی شریف تھے۔ 1876 ء میں بمبئی سے فرحت الا خبار، روہیل کھنڈ پنچ، مرادآباد اور پٹنہ سے ’’الپنچ‘‘ جاری ہوئے۔
’’اودھ پنچ‘‘ نکالنے کی غرض و غایت مالی فائدہ کے بجائے طنز و مزاح کے ذریعے قوم میں پیدا شدہ معاشرتی برائیوں کی اصلاح، ذہنی بیداری پیدا کرنا اور انگریزوں کی لائی ہوئی ذہنی غلامی سے نجات دلانے کی کوشش تھی۔ اودھ پنچ نے 1912 تک اپنی ظرافت سے قہقہہ لگانے اور مسکرانے پر مجبور کیا اور اپنے طنز کے تیر سے لہولہان اور مضطرب کرتے ہوئے اردو ادب کے طنز و ظرافت کے سر مایہ کو مالا مال کیا۔ اودھ پنچ میں منشی سجاد حسین، نواب سید محمد آزاد ،منشی احمد علی شوق، مرزا مچھو بیگ، ستم ظریف، اکبر الہ آبادی، پنڈت تربھون ناتھ ہجر،جوالا پر شاد برق کے علاوہ مولانا دکنی،داغ بدایونی، سلطان ظریف، ش ع کا کوروی ،مدہوش بمبئی، حضرت لکھنوی، غ غ فیض آبادی، ع دفاروقی وغیرہ فرضی ناموں سے خصوصی مضامین لکھے جاتے تھے۔
بیسوی صدی میں سید محفوظ علی ، فرحت اللہ بیگ، پطرس بخاری، رشیداحمد صدیقی، فلک پیما، عبد المجید سالک، کنہیا لال کپور، مشتاق احمد یوسفی وغیرہ مزاح نگار سامنے آئے۔ ان کے علاوہ عظیم بیگ چغتائی، انجم ـمانپوری، شوکت تھانوی ،فرقت کاکوروی، احمد جمال پاشا، سید عابد حسین، ملارموزی، حاجی لق لق، کرشن چندر ،وجاہت علی سند یلوی، عبد المجیب سہالوی، فکر تونسوی، برق آشیانوی، تخلص بھوپالی،شین مظفر پوری، حسنین عظیم آبادی، بھارت چندر کھنہ، ابراہیم جلیس،یوسف ناظم، نریندر لوتھر، ناوک حمزہ پوری، مجتبیٰ حسین، اظہر مسعود، پرویز مہدی، رؤف خوشتر، معین اعجاز، ارشد علی خان، شفیقہ فرحت، اعجاز علی ارشد اور عابد معز وغیرہ نے اردو نثر میں طنز و مزاح پر طبع آزمائی کی ہے۔ اردو نثر کے ان مزاح نگاروں کے یہاں صرف جملوں یا فقروں سے نہیں ،بلکہ ان کے لفظ لفظ سے ظرافت کی کرنیں پھوٹتی نظر آتی ہیں ۔ان متبسّم کرنون کی تابانی و درخشانی اور ان کی خندہ سامانی اپنی جگہ ۔ اردو ڈرامے میں طنز ومزاح دیکھنے کو ملتا ہے۔ پروفیسر مسعود الحسن رضوی نے بھانڈوں کی نقلیں لکھی ہیں۔ اردو ڈرامہ میں مزاحیہ نثر کا بھی حصہ ہے۔ (یہ بھی پڑھیں خواجہ حسن ثانی نظامی کی انفرادیت – زاہد احسن )
طالب بنارسی، رونق، بیتاب یا بعد میں محشرانبالوی وغیرہ کے یہاں مزاح کا پہلو مل جا تا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں آ غا حشر کے یہاں یہ عنصر نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے مزاح پیدا کرنے کے لیے لفظی بازی گری سے تو کام لیا ہی ہے، ادبیت کی چاشنی بھی رکھی ہے۔ امتیاز علی تاج کے’’چچا چھکن‘‘ کو ڈرامائی شکل بانو قدسیہ زیدی نے دی۔ اردو ڈراموں میں ظرافت کا علمی و ادبی معیار پیش کر تا ہے۔ گرنام سنگھ تیر پنجاب کے ایک اسکالر تھے جنھوں نے ہندوستان کی تمام زبانوں کے طنز و مزاح کا جائزہ لینے کے بعد اردو زبان کے طنز و مزاح کو پہلے نمبر پر رکھا تھا۔ تیرؔ نے لکھا کہ سب سے شائستہ طنز اردو زبان میں ملتا ہے۔ در اصل اردود طنز و مزاح کا تعلق تو شہری زندگی سے ہی رہا ہے۔ عموماً اس میں کاروباری سیاسی مجلسی زندگی کا عکس زیادہ ہے۔
عالمی طنز و مزاح کے سامنے مشتاق احمد یوسفی نے اردو طنز و مزاح کا جواب پیش کیا ہے۔ ان کو دنیا کی کسی بھی بڑی زبان کے طنز و مزاح کے ادب کے سامنے بلا جھجک رکھا جا سکتا ہے۔ شوکت تھانوی بھی بہت عمدہ طنز و مزاح نگار ہیں۔ ان کی تخلیقات ہمیشہ یاد رہنے والی تخلیقات میں ہیں۔ اصل میں چند خصائص تمام ادب میں یکساں ہوتے ہیں جو تخلیق کو زندہ جاوید بنا دیتے ہیں ۔صرف ناقدوں کے اہمیت دینے یا نہ دینے سے ان کی قدر و قیمت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ان کی آفاقی اہمیت تو ہمیشہ برقرار رہے گی۔ ابن انشاکو گزرے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا لیکن سب سے زیادہ پڑھا جانے والا مزاح نگاروہی ہے۔ مشتاق احمد یوسفی نے ادب کو جس منزل پر پہنچا یاہے، اس کی وجہ سے طنز و مزاح کو دوسرے درجے کی صنف قرار دینے کا نظریہ ختم ہو جانا چاہیے۔ دنیا کے بڑے مزاحیہ ادب کا نمونہ ہمارا اردو طنز و مزاحیہ ادب بھی ہے اور ہمارے پاس مزاح نگار ہیں جو عالمی ادب کے سامنے رکھے جا سکتے ہیں۔
اردو نثر میں طنز و مزاح پر خوب کام ہو رہا ہے،لیکن یہاں کوئی ناقد نہیں ہے۔ طنز و مزاح نگاروں پر مختلف یونیورسٹیوں میں ڈاکٹر یٹ کے لیے مختلف مقالے لکھے جا رہے ہیں اور کل ہند سمینار بھی ہو رہے ہیں۔ لیکن طنز و مزاح نگار کو ساہتیہ اکادمی یا گیان پیٹھ وغیرہ کی طرف سے کوئی ایوارڈ نہیں دیا گیا ہے۔ اردو نثر کے طنز یہ اور مزاحیہ ادب کے ترجمے بھی نہیں کے برابر ہیں۔
آج کے نوجوانوں کو طنز و مزاح کے معیار کو بر قرار رکھنا چاہئے ۔انھیں اپنی وراثت کے ساتھ ساتھ مغرب کے طنزیہ اور مزاحیہ ادب کا بھی حتی الا مکان مطالعہ کرنا ہے، کیونکہ بغیر مغربی ماحول اور یہاں کے ماحول میں تفریق کو محسوس کیے اور اسے برتے بغیر بہترین طنز یہ و مزاحیہ ادب کی تخلیق تقریبا ً نا ممکن ہے۔ اردو میں طنز کا سرمایہ اب خاصا وقیع ہے لیکن ابھی مزاح کی دنیا میں خوب سے خوب تر جستجو کی بڑی گنجائش ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
[…] متفرقات […]