’’بہروپیا‘‘ ہندی اور اردو کے آپسی رشتوںکی بہترین مثال ہے:پروفیسر وائی وملا
شعبۂ اردو،سی سی ایس یو میں سیمینارو’’بہروپیا‘‘ کا اجراء کا انعقاد
میرٹھ24؍ ستمبر2021ء
’’زبانوں سے ہم زندگی،معاشرہ اور اپنے ملک کو بہت خوش گوار بنا سکتے ہیں مگر ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ ہم زبانوں کی معصومیت سے ناجائز فائدہ اٹھا تے ہیں حالانکہ ہندوستانی زبانوں کی جو فطرت ہے وہ بڑی معصوم ہے۔ہمارے ملک کی تہذیب کو اور ہندوستانیت کو بچا نے کے لیے یہ دو زبانیں ہی بچی ہیں،یہ آخری پڑائو ہے۔اگر ان کوایک اسٹیج یا ایک پلیٹ فارم مہیا کرا دیا جائے تو یقینا معاشرہ کی کڑواہٹ کم ہو جائے گی۔‘‘یہ الفاظ تھے عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر نواز دیوبندی کے جوانتراشٹریہ ساہتیہ کلا منچ،میرٹھ اور بزم اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ کے مشترکہ اہتمام میں منعقد شعبۂ اردو،سی سی ایس یو کے صدر اور نئی نسل کے معروف فکشن ناقد اور افسانہ نگار ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری کی کہانیوں کا نیا مجموعہ ’’بہروپیا‘‘(ہندی)کی رسم اجراء اور بعنوان’’ہندی اردوکا باہمی رشتہ‘‘سیمینارمیں اظہار خیال کے دوران ادا کر رہے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ سیاست زبانوں کی معصومیت سے بہت فائدہ اٹھا تی ہے۔اگر ان کی دوریوں کو ختم کردیا جائے تو ہمارے ملک کی کافی پریشانیاں کم ہو جائیں گی۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغاز سعید احمد سہارنپوری نے تلا وت کلام پاک سے کیا ساتھ ہی حفیظ میرٹھی کی غزل اپنی مترنم آواز میں سناکر سامعین کو خوب محظوظ کیا۔بعد ازاں مہمانوں کو پھول کا نذرانہ پیش کیا گیا۔استقبال ڈاکٹر شاداب علیم ، صاحب کتاب کا تعارف ڈاکٹر آصف علی ،کتاب پر تبصرہ چاندنی عباسی ،شکریہ ڈاکٹر ارشاد سیانوی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر الکا وششٹھ نے بحسن و خوبی انجام دیے ۔
تقریب کی صدارت معروف ادیب پرو فیسروید پرکاش بٹوک نے فرمائی ۔جب کہ مہمانان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسروائی وملا(نائب شیخ الجامعہ،سی سی ایس یو) اور مہمانانِ ذی وقار کی حیثیت سے ڈاکٹر بی ایس یادو (پرنسپل ڈی۔این کالج، میرٹھ ) اورڈاکٹر رام گوپال بھارتیہ(صدر،انتراشٹریہ ساہتیہ کلا منچ،میرٹھ) شریک ہوئے۔
اس مو قع پراپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر وائی وملا نے کہاکہ اردو اور ہندی ایک ہی علاقے اور عہد کی پیداوار اور دو سگی بہنوں کے مثل ہیں۔ ان کا یہ رشتہ خونی اور روحانی رشتہ ہے جسے کبھی منقطع نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے ’’بہروپیا‘‘ کے تعلق سے کہا کہ یہ ہندی اور اردو کے آپسی رشتوں کی بہترین مثال ہے۔اس میں پروفیسر اسلم نے سماج کے بہت سارے رنگ پیش کر کے ہمارے سامنے آئینہ رکھ دیا ہے۔
پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہاکہ ہندی اور اردو نوںزبانیں ایک ہی ہیں بس لباس(رسم الخط) الگ ہے۔اگر قواعد کی بات کی جائے تو تقریباً ایک ہی ہے۔سیاست نے ہندی اور اردو کے درمیان دوریاں بڑھانے کاکام کیا۔ہم سب اردو ہندی والوں کی ذمہ داری ہے کہ اب ہم آپس کی دوریاں مٹا کرمعاشرہ کو ایک اچھا پیغام دینے کی کوشش کریں۔معروف صحافی و ادیب شاہد چودھری نے کہاکہ ہندی اور اردو کے درمیان جو ستر فیصد مماثلت اور تیس فیصد غیر مماثل کی بات کی جاتی ہے وہ صرف سیاسی ہتھکنڈہ ہے کیونکہ ادیب اور عوام کے درمیان اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ زبان کا تعلق علاقائی ہو تا ہے اگر زبان سامنے والے کی سمجھ میں آ رہی ہے تو ہم ایک ہی زبان کے وارث ہیں۔
امر اُ جالا کے روی پرکاش نے کہا کہ ہندی اردو کا رشتہ رام و رحیم جیسا ہے۔ہندی اردو اردو کے درمیان جو ایک باریک لکیر دکھائی بھی دیتی ہے وہ ہماری سوچ کی پیدا وار ہے۔ڈی این کالج کے پرنسپل ڈاکٹر بی ایس یادو نے کہا کہ ہندی اردو کے درمیان گہرا رشتہ ہے۔گرامر اور جملوں کی بنا وٹ ایک جیسی ہے اور اسے سمجھنے میں کسی کو مشکل پیش نہیں آتی صرف رسم الخط بدل جانے سے کتابیں ہندی اور اردو ہوجاتی ہیں۔ساہتیہ کلا منچ کے صدر ڈاکٹر رام گوپال بھا رتیہ نے کہا کہ ہندی اردو میں کوئی فرق نہیں ہے۔ہم زبانوں کے نہیںادب کے غلام ہیں۔
پروگرام کے درمیان پرو فیسر اسلم جمشید پوری کو صوبائی حکومت کی جانب سے ساتویں مرتبہ اتر پردیش اردو اکادمی کا رکن نامزد کیے جانے پر سید اطہر الدین میمو ریل سو سائٹی،پھلا ئودہ نے مو منٹو دے کر اعزاز سے نوازا۔اس موقع پر روز نامہ دینک جاگرن، امر اجالا ،جن وانی،ہندوستان اور دیگر مہمانان کو بھی مومنٹو پیش کیے گئے۔
پرو گرام میں ڈپٹی لائبریرین پروفیسر جمال احمد صدیقی،ڈاکٹر ہما مسعود، ڈاکٹر دشا،ڈاکٹر شبستاں پروین،نایاب زہرا زیدی، ذیشان خان،آفاق خان،سلیم سیفی، انجینئر رفعت جمالی،ایڈ وکیٹ سر تاج احمد، مشرف چودھری ،فصیح الدین چودھری،ارقم شجاع میرٹھی، ماسٹر حامد، اکرام بالیان،گریش شکلا،سیدہ مریم ،فرح ناز، تابش فرید،عمائدین شہر اور طبلہ وطالبات موجود تھے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |

