حیرت اور دریافت کا کھیل/وجیہ وارثی – سید کامی شاہ
ماہرینِ ادب اور نقادانِ فن نثری نظم کی جو بھی تعریف معتین کریں مجھے ذاتی طور پر ایسا لگتا ہے کہ نثری نظم ایک چیخ ہے اور چیخ کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی،
دکھ میں، بے بسی میں، جھنجھلاہٹ میں یا شدید غصے کی حالت میں وارد ہونے والی چیخ کو کسی ضابطہٗ اخلاق کا پابند نہیں کیا جاسکتا۔ ( یہ بھی پڑھیں ناول کفار مکّہ: فکشن کے راستے سیاست کی سوجھ بوجھ / عامر حسینی)
وجیہ وارثی کی نظمیں بھی ایسی بے ساختہ اور بے قاعدہ چیخیں ہیں جو اس کتاب میں آکر جمع ہوگئی ہیں اور اب خوب شور مچارہی ہیں۔ آپ کانوں پہ ہاتھ رکھیں یا آنکھیں بند کرلیں یہ نظمیں آپ کا پیچھا چھوڑنے والی نہیں۔
اگر کسی کو یہ لگتا ہے کہ نثری نظم کہنا محبوبہ کو خط لکھنے جیسا آسان ہے تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ نثری نظم کہنا محبوبہ کو خط لکھنے جیسا ہی مشکل کام ہے۔
دلاور فگار نے ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا
حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہوگئے،،
وجیہ وارثی کا تعلق بھی اس ملک کی اسی نسل سے ہے جو کم و بیش چالیس سال سے ایک سے حالاتِ حاضرہ کا شکار ہے اور مستقبل قریب میں بھی ان حالات میں بہتری کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی، وجیہ وارثی کی کچھ نظموں کی ٹکڑے دیکھتے ہیں۔
ہم قسطوں میں مررہے ہیں
دائیں آنکھ مارشل لائوں کی ہیبت ناک تصویر دیکھ کر بنجر ہوچکی ہے
بائیں آنکھ کی بینائی کسی گمنام شاعر کی طرح گم ہوچکی ہے
جیب کی حالت اُس بیسوا کی طرح ہے
جسے ایڈز جیسے مہلک مرض نے آن گھیرا ہو
کندھے چاہنے والوں کی بے وفائیوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں،،
نظم اجازت نہیں کی یہ لائنیں۔۔۔۔
لڑکی پردے کے پیچھے سے دنیا دیکھتی ہے
پردے میں مسلسل دیکھنے کی وجہ سے
آنکھ جتنا چھید ہوگیا ہے
جس سے نظر آتی ہے
نیلی سبز آنکھ
جو مجھے دیکھتی ہے
پردے کے پیچھے کیا ہوتا ہے
کچھ پتا نہیں
وہ پستول، گولی اور ملک الموت کے ساتھ رہتی ہے
اس کے سارے بھائی
اس کے نام کی گولی
بلاناغہ پستول میں بھرتے ہیں
اسے کمرے میں روشنی کرنے کی اجازت نہیں
اندھیرے میں کیا ہوتا ہے
کسی کو معلوم نہیں
اسے کبھی بولتے نہیں سنا
شاید گونگی ہے
یا
اسے بولنے کی اجازت نہیں
اندھیرے میں رونے کی آواز آتی ہے
وہ بھی کسی پختہ عمر کی عورت کی
شاید اس کی ماں ہے
شاید اسے بریسٹ کینسر ہے
ڈاکٹر کو دکھانے کی اجازت نہیں
وہ مرجاتی ہے
اس کے سارے بھائی ماں کو دفن کرنے جاتے ہیں
اُس دن وہ پردے کے دوسری طرف آتی ہے
مجھے دیکھ کے مسکراتی ہے
میں اس کی مسکراہٹ سے ڈر جاتا ہوں،،
علی زریون نے کہا تھا
شاعری مشغلہ نہیں میرا
اِس سے دنیا کو دیکھتا ہوں میں،،
وجیہ وارثی کے لیے بھی شاعری مشغلہ نہیں ہے، نہ تو وہ ڈرائنگ رومی دانشور ہیں اور نہ فیس بکی نقاد، وہ اس گھٹن زدہ معاشرے کے ایک عام انسان ہیں اور ان سارے حالات و واقعات سے عام آدمی کی طرح ہی متاثر ہوتے ہیں، ان کا کمال یہ ہے کہ وہ ان حالت و واقعات سے صرف متاثر ہی نہیں ہوتے بلکہ اس پر اپنا بھرپور تبصرہ بھی پیش کرتے ہیں۔ محمد حسن عسکری نے منٹو کے بارے میں کہا تھا کہ منٹو اتنا ظالم ہے کہ اپنے مریض کو آپریشن سسے قبل کلوروفارم دینا بھی پسند نہیں کرتا۔ وجیہ وارثی بھی اپنے اظہاریئے اور بیانیے میں ایسے ہی سفاک دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دانشورانِ فن ان کی نظموں کو کس خانے میں رکھتے ہیں۔ انہیں نہ تو شاعر ہونے کا کوئی دعویٰ ہے اور نہ یہ زعم کہ وہ شاعری کے ذریعے اس نام نہاد سوسائٹی میں کوئی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ اور ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ شاعر کا یہ کام بھی نہیں ہے۔
وجیہ وارثی کی نظمیں اس آدمی کی بے بسی اور جھنجھلاہٹ میں لپٹی چیخیں ہیں جسے ہر طرف سے زندہ لاشوں نے گھیر لیا ہے اور اس کے لیے بجٹ میں صرف جوتے ہیں۔
وجیہ وارثی کی نظموں کے عنوانات ہی اتنے بامعنی ہیں کہ ان پر تادیر گفتگو کی جاسکتی ہے، ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس کے حالات سے کم و بیش ایک ہی طرح سے متاثر ہوتے ہیں مگر اس سارے منظر نامے میں جو چیز وجیہ وارثی کو منفرد بناتی ہے وہ ان کا بیانیہ ہے، وہ عام آدمی کی طرح سیاسیات اور سماجیات کو گالی دے کر مطمئن نہیں ہوجاتے بلکہ اپنے دکھ کا فنکارانہ اظہار کرتے ہیں۔
بات محبت کی ہو یا نفرت کی وجیہ وارثی کے ہاں ہر موضوع اہمیت کا حامل ہے، بدتمیز، غربت، خودکش بمبار، اداسی تنہا نہیں ہوتی، بھٹکے ہوئے خواب، پیار کرنے کے سو آسان طریقے، خانہ جنگی اور خانہ داری، ایک لڑکی جو بلاوجہ جلا دی گئی، ایکوریم سے جھانکتی مچھلی، تتلی اور للن کی شادی، دشمنی کی فارنزک رپورٹ، شیم کلنگ، مسلسل بجٹ، بون سائی، کافور، قسطوں میں موت، کرسٹوفر اینڈرسن اور دیگر نظمیں دیکھ لیں ہر نظم میں ایک حساس اور ذہین شخص بولتا دکھائی دیتا ہے۔
وجیہ وارثی کی یہ پہلی کتاب ہے اور ہم تہہِ دل سے اس کا خیرمقدم کرتے ہیں یہاں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اپنی اگلی نظموں اور آنے والی کتابوں میں وجیہ وارثی منافق سماجوںاور گروہِ جاہلاں کی مزید درگت بناتے نظر آئیں گے۔
تحریر: سید کامی شاہ، کراچی