گرودیب رابندر ناتھ ٹیگور (رابی ٹھاکر) ایک بنگالی شاعر، قلم کار، فلاسفر، سماجی مصلح اور مصور تھے۔ انہوں نے بنگلہ ادب کی نئے سرے سے تشکیل کی۔ وطن عزیز ہندوستان میں مغربی بنگال وہ ریاست ہے جو علم و فن کا گہوارہ ہے۔ تعلیم و تہذیب کا مرکز ہے۔ قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فوقیت حاصل ہے۔ کہتے ہیں بنگال وہ سر زمین ہے جس پر ہمیں بے حد ناز ہے، اردو، انگریزی، بنگلہ اور ہندی کا پہلا اخبار یہیں سے شائع ہوا۔ اردو کا پہلا اخبار ”جام جہاں نما“ اپنے شہر کولکاتا سے ہی سب سے پہلے شائع ہوا۔ آزادیئ بغاوت ۷۵۸۱ء کا آغاز بنگال کے بارکپور کی فوجی چھاؤنی سے منگل پانڈے نے کیا تھا۔ گو کہ بغاوت ناکام ہوئی۔ لیکن تحریک آزادی کو تقویت ملی جس کا نتیجہ تھا کہ 15/ اگست، 1947 کو بھارت فرنگیوں کی طوق غلامی سے آزاد ہوا۔ ہندوستان کا پہلا میٹرو ریلوے کولکاتا میں اکتوبر، 1984 کو چلایا گیا۔ آج پورے باھرت میں ٹرام سروس صرف شہر کولکاتا میں ہے۔
رابندر ناتھ ٹیگور پہلے ہندوستانی تھے جنہیں نوبل پرائز ملا۔ اس کے بعد مدر ٹریسا کو ملا جنہوں نے امن قائم کی۔ فزکس میں سی وی رمن کو نوبل پرائز ملا۔ ستیہ جیت رے اور امرتیہ سین کو آرٹ میں اور گذشتہ دنوں ابھیجیت بنرجی کو معاشیات میں نوبل پرائز ملا۔
جس طرح بنگال کے اردو ادب اور شاعری کو سمجھنے کیلئے وحشتؔ، شاکرؔ، پرویز شاھدی، نساخؔ، شمس کلکتوی کے کلام کو سمجھنا ضروری ہے۔ ٹھیک اسی طرح ابیندرناتھ ٹیگور، سرت چندر چٹرجی، مدھو سودن دت، سوامی وویکانند، ودیا ساگر کے بغیر بنگلہ ساہٹو (bangla Sahitto)نا مکمل ہے۔ ان میں سب سے پہلا نام رابی ٹھاکر کا ہے۔ رابی ٹھاکر کی 7/مئی، 1861 کو جوڑا سانکو، کلکتہ ٹھاکر باڑی میں ہوئی۔ ( یہ بھی پڑھیں ٹیگور اور اقبال کا مشترکہ المیہ – محمد علم اللہ )
رابندر ناتھ ٹیگور کی نظمیں ”گیتانجلی“، "DUI Bigha Jomi”، ”ویر پورش“، ”Stream of Life“ بہت خاص ہیں۔ 1913 میں انہیں گیتانجلی پر نوبل پرائز ملا۔ وہ پہلے غیر یورپی تھے جو نوبل پرائل سے نوازے گئے۔ ہندوستان کیلئے یہ بہت فخر کی بات ہے کہ رابی ٹھاکر کی وجہ سے ہندستان کی نمائندگی عالمی سطح ہوئی۔ رابی ٹھاکر دراصل دبیندر ناتھ ٹیگور کے سب سے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ ان کی والدہ کا نام شادرا دیوی تھا۔ 11/سال کی عمر میں والد کے ہندوستان کی سیر کی۔ انہوں نے علم نجوم، سنسکرت، ماڈرن سائنس اور کالی داس کے نظموں کا مطالعہ کیا۔ 1878 میں انگلینڈ کے ایک اسکول میں داخلہ لیا لیکن 1880 میں بنگال واپس آئے۔ ان کی شادی مرنالی دیوی سے ہوئی تھی۔ 1905 میں ان کی اہلیہ کا انتقال ہوا۔ ٹیگور نے مانسی، نتونار ٹاڑی Golden Boat 1910ء، گیتانجلی 1910،Ghore Baithe 1916ء میں لکھے۔ تقریباً 2000 بنگالی گانے لکھے جنہیں ”رابندر سنگیت“ کہتے ہیں۔ جن کی بنگالی سماج، بنگالی کلچر اور سوسائٹی میں خاصی اہمیت ہے۔ کسی پروگرام، تہذیبی یا تعلیمی، cultural programmmeیا educational programmeکے پہلے رابندر سنگیت کا اہمتام کیا جاتا ہے۔ یہ ہمارے بنگالی کلچر کی روایت ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ٹیگور اور اقبال: جذبۂ حب الوطنی اور مسئلہ قومیت- ڈاکٹر نوشاد منظر)
1901 میں ٹیگور نے شانتی نکیتن میں ایک اسکول کا قیام کیا بعد میں یہ وشوا بھارتی یونیورسٹی کے نام سے 1921 میں بنا۔ 1915 میں انہیں انگریزی حکومت نے knight hood کے خطاب سے نوازا جو انہوں نے 1919 تاریخی جلیان والا باغ کے حادثے سے متاثر ہوکر اس خطاب کو بطور احتجاج واپس کردیا۔ ٹیگور 19 ویں صدی میں برہمو سماج کے رہنما تھے۔ ان کے بھائی حیندر ناتھ ٹھاکر composer اور musicianتھے۔ جب کہ سیندر ناتھ پہلے انڈین فلاسفر تھے اور بہن سور ناکماری ناولہ تھیں۔ وہ ایک کامیاب مصور تھے۔ artistاور play wrighteبھی تھے۔ ان کی 300 کے قریب paintingsہیں۔ جن میں Dancip work، Lady & Flower، Head Study، Man & Womanہیں۔ ان کی خوبصورت paintings، National Gallery of Modern Art اور Victoria Memorial Hall میں آج بھی محفوظ ہے۔
In short, we can say that Rabi Thakur was Bengali peot, writer, composer, philosopher, social reformer and painter. He reshaped Bengali literature and music as well as Indian art with contextual Modernism in the late 19th and early 20th century Gurudev conquered the field of literature & his numerous forms of poems, stories, dramas & songs. He got Noble Prize for literature in 1913 for his collection Gitanjali published in London in 1912. This honour established Tagore’s literary reputation world wide.
Mobile – 9088470916
Email – muzaffar.niznin93@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
2 comments
[…] فکر و عمل […]
[…] فکر و عمل […]